قادیانیت کا مکروہ چہرہ نمبر 3
تحریر. حمزہ اعوان..
طلاق
ربوہٰ (چناب نگر) میں جس قدر عام تھی اس کی مثال کسی اور معاشرے میں بہت ہی کم ملتی ہے۔ یہاں مرد اور عورتیں دونوں طلاق کو مرضی کے مطابق استعمال کر لیتے ہیں۔ ہمارے سکول کے ایک ٹیچر اسماعیل صاحب کے فلاسفی کے پروفیسر بیٹے مبارک احمد کی شادی ہوئی تو سُہاگ رات کو ہی لڑکی نے لڑکے کے ساتھ رہنے سے انکار کر دیا اور اگلے ہی روز دونوں میں طلاق ہو گئی اور اسی ہفتے دونوں کی نئی شادیاں کر دی گئیں۔ طلاق کے بعد خواتین میں عدت گزارنے کا بھی کوئی تصور نہیں تھا۔
ایک مرتبہ ایک شخص نے اپنی منکوحہ افتخار بیگم کو مخص اس بناء پر طلاق دے دی کہ اس کو کسی اور لڑکی سے محبت تھی جبکہ اس کا باپ اس لڑکی کو صرف اپنے اغراض و مقاصد کے لیے ”بہو“ بنا کر لانا چاہتا تھا۔ اس شخص نے اپنی منکوحہ کو طلاق کے ساتھ تحریر کیے جانے والے خط میں لکھا ” ہمارے معاشرے میں سسر کا بہو کے ساتھ تعلقات استوار کر لینا معمول کی کاروائی ہے۔ لہٰذا میں آپ کو اپنے باپ کے چنگل سے بچانے کے لیے طلاق دے رہا ہوں۔“ یہ واقعہ محلّہ دار الرحمت شرقی کی ایک مکین لڑکی سے پیش آیا۔
طلاق اور خلع کے معاملات کو حل کرنے والی ربوہٰ کی متعلقہ انتظامیہ کا خاصہ ہی کہ وہ ایک ہی نشست میں طلاق کا فیصلہ کر دیتی اور کھڑے پاؤں لڑکی اور لڑکے کے لیے نئے رشتے تجویز کر دیتی جنہیں فریقین اکثر قبول کر لیتے۔ یہ وجہ ہے کہ طلاق کے مضر اثرات کو محسوس کیا جاتا اور نہ ہی اس سے بچاؤ کے لیے عملی اقدام کیے جاتے تھے۔
اکثر مرزائی عورتیں شوقیہ طلاق بھی لے لیتی تھیں۔ ایسی کئی مثالیں دیکھی گھی ہیں۔ ایک شخص عبدالوسع کی بہن نے جب کسی ٹھوس وجوہ کے بغیر طلاق لے لی تو ہمارے ایک کلاس فیلو محمود نے اس بارے میں بتایا کہ مذکورہ خاتون ازدواجی بندھن کی قائل نہیں تھی۔ اس نے گھر والوں کے مجبور کرنے پر شادی کی اور ایک ”بچہ“ حاصل کرنے بعد شوہر اور سسرال سے چھٹکارا حاصل کر لیا۔ محمود کے مطابق ربوہٰ سے وابستہ اکثر تعلیم یافتہ خواتین میں یہی رجحان پایا جاتا ہے۔ وہ صرف بچہ حاصل کرنا چاہتی ہیں تاکہ معاشرے میں ان سے ”تنہا عورت“ کا لیبل اتر جائے۔ اس مقصد کے لیے وہ کسی بھی عام شخص سے شادی کر لیتی ہیں اور مقصد حاصل ہوتے ہی کسی بھی بات کو جواز بنا کر نجات حاصل کر لیتی ہیں۔
ربوہٰ میں طلاقوں کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے جس پر مرزائی بےزار افراد کی اکثریت پوری طرح متفق ہے۔ ان لوگوں کے مطابق مرزائی امت کے مرد حضرات اپنے پیشوا اور اس کی آل کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ”سدومیت“ کے اس قدر رسیا ہیں کہ وہ بیویوں کو بھی تختہ مشق بننے پر مجبور کرتے ہیں۔ بعض خواتین اپنی مجبوریوں کے باعث سر تسلیم خم کر لیتی ہیں جب کہ اکثریت اس پر طلاق کو ترجیع دیتی ہیں ہمارے محلّہ میں ایک خاتون بشریٰ نے مخص اسی وجہ سے طلاق لے لی کہ وہ شوہر کی خواہشات پوری کرنے سے قاصر تھی۔
ہمارے سکول کے ایک استاد کی شادی بھی ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ خاتون سے ہوئی جو پائے کی ریاضی دان تھی۔ اس نے موصوف استاد سے شادی کے کچھ عرصہ بعد طلاق لے لی۔ اس کے بارے میں یہی سننے میں آیا کہ خاتون اپنے شوہر نامدار کی جنسی خواہشات کو پورا نہیں کر سکتی تھی، جو وہ اس کے ساتھ اپنی امت کی مسلمہ روایت کے طور پر ادا کرنا چاہتا تھا۔
No comments:
Post a Comment