قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 5
حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس
ربوہٰ(چناب نگر) کے دکانداروں کا ناپ تول اس قدر بددیانتی پر مبنی تھا کہ خود اہل ربوہٰ اپنے ہم مذہبوں پر اعتبار نہیں کیا کرتے تھے۔ وہ سودا سلف لینے کے لیے چنیوٹ یا لالیاں جانے کو ترجیع دیتے تھے یا چمن عباس کے نذیر چنگڑ سے اشیاء ضرورت خریدا کرتے تھے۔ شریف بٹ اور حفیظ سبزی فروش کے ساتھ اکثر لوگوں کا مول تول پر جھگڑا ہوا کرتا تھا اور تو اور یہ لوگ اپنی گندم پسوانے کے لیے ربوہٰ(چناب نگر ) کی چکی پر جانے کے بجائے چمن عباس کے مسلمان چکی والے کے پاس جایا کرتے تھے۔ ان تمام حقائق سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کا گیا گزرا معاشرتی اور سماجی طور طریق مرزائیوں سے ہزار گُنا زیادہ اچھا ہے کہ یہ لوگ خود حقیقی زندگی میں مسلمانوں پر انحصار کیا کرتے تھے۔
اس شہر کے باسیوں میں گالیاں دینے کا عام رواج تھا۔ وہ لوگ کشتی نوح میں مرزا غلام قادیانی کی مسلمانوں کو دی گئی گالیوں پر بڑے نازاں تھے اور ان کی تقلید میں گالی دینا اپنا کمال سمجھتے تھے۔ ربوہٰ(چناب نگر ) کا ایک ڈپو ہولڈر عبدالرحیم چیمہ مغلظات کا اس قدر ”ماسٹر“ تھا کہ اپنے ڈپو پر آنے والے گاہکوں کو بھی رگڑا لگا دیتا تھا۔ ایک بار کسی گاہک کو رحیم چیمہ گالی دے بیٹھا جس پر بات بڑھتی بڑھتی لمبی لڑائی کی شکل اختیار کر گئی۔ معاملہ امور عامہ سے ہوتا ہوا مرزا ناصر احمد کے پاس چلا گیا۔ مرزا ناصر نے رحیم چیمہ کو طلب کر کے کہا ” چیمہ صاحب! آپ کی شکایت آئی ہے کہ آپ اپنے ڈپو پر آنے والے گاہکوں کو گالیاں دیتے ہیں۔“
اس پر رحیم چیمہ نے کہا ” جناب کہڑا پہن۔۔۔ کہندا اے۔“
یہ سن کر مرزا ناصر اپنا سا منہ لے کر رہ گئے۔ کہتے بھی کیا، ان کی اپنی تعلیم بول رہی تھی
No comments:
Post a Comment