*بـــــــــسم اللہ الرحمن الرحیم*
ای میل وانٹر نیٹ کے ذریعہ خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟
کیا اس طرح بیع منعقد ہوجاتی ہے؟
اس کی صحیح شکل کیا ہونا چاہئے؟؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں
*الجواب وبالله التوفيق بوسیلة محمد صلى الله عليه وسلم*
فقہاء کرام نے بیع میں ایجاب و قبول کو رکن کا درجہ دیا ہے "وركنه (البيع) الإيجاب والقبول" (عنایہ) نیز ایجاب و قبول کا باہم مربوط ہونا بھی ضروری ہے، اسی لئے فقہاء کرام نے بیع وغیرہ میں ایک شرط "مکان عقد" سے متعلق رکھی ہے کہ ایجاب و قبول دونوں ایک ہی مجلس میں ہوں، اگر مجلس مختلف ہوگی تو ایجاب و قبول معتبر نہ ہوگا_ چنانچہ علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ رقمطراز ہیں_
"وأما شرط مكانه فواحد وهو إتحاد المجلس بأن كان الإيجاب والقبول في مجلس واحد، فإن إختلف لم ينعقد" (البحر الرائق)
البتہ مجلس کے اتحاد و اختلاف سے کیا مراد ہے؟ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ تھوڑی سی وضاحت آجائے_ اس سلسلہ میں (اتحاد مجلس و اختلاف مجلس) اسلامک فقہ اکیڈمی کے تیرہویں سیمینار میں بنیادی طور پر دو نقاط نظر سامنے آئے_
(1) اتحاد مجلس سے مراد "اتحاد مکان" مراد ہے یعنی عاقدین کا ایک جگہ ہونا ضروری ہے_
(2)اتحاد مجلس سے مراد "اتحاد زمان" مراد ہے یعنی ایجاب و قبول ایک ہی زمانہ میں مربوط ہوں، خواہ عاقدین ایک جگہ پر نہ ہو_
فیصلہ بھی اس بات پر ہوا تھا کہ اتحاد مجلس کا مقصد ایک ہی وقت میں ایجاب کا قبول سے مربوط ہونا ہے_
فقہ میں بہت سی ایسی صراحتیں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اتحاد مکان اصل مقصود نہیں مثلاً علامہ ابن نجیم مصری رحمہ اللہ نے لکھا ہے،
"فلو أوجب أحدهما فقام الأخر أو إشتغل بعمل أخر بطل الإيجاب لأن شرط الإرتباط إتحاد الزمان" (البحر الرائق)
"رجل في البيت فقال للذي في السطح بعته منك بكذا فقال إشتريت صح إذا كان كل منهما يرى صاحبه ولا يلتبس الكلام للبعد" (البحر الرائق)
صاحب فتح القدير علامہ ابن ہمام رحمہ اللہ رقمطراز ہیں_
"وفي الخلاصة عن النوازل :إذا أجاب بعد ما مشي خطوة أو خطوتين جاز"
پھر اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں_
"ولا شك أنهما إذا كانا يمشيان مشيا مثلا لايقع الإيجاب إلا في مكان أخر بلا شبهة" (فتح القدير)
ڈاکٹر وہبہ زحیلی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں_
"ليس المراد من إتحاد المجلس كون المتعاقدين في مكان واحد لأنه قد يكون مكان أحدهما غير مكان الأخر إذا وجد بينهما واسطة إتصال" (الفقه الإسلامي وأدلته)
اس سلسلہ میں حضرت الأستاذ فقیہ العصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی دامت برکاتہم نے ایک فیصلہ کن بات لکھی ہے_
"گزشتہ ادوار میں ایجاب و قبول کا یہ ارتباط اسی وقت قائم ہوسکتا تھا، جب اتحاد مکان کی کیفیت پائی جاتی، اس لیے فقہاء کرام نے اپنے زمانہ اور عہد کے وسائل کے پس منظر میں ایجاب و قبول کی مجلس" اتحاد مکان "سے تعبیر فرمایا، ورنہ قرآن و حدیث میں اس کا صراحۃ ذکر نہیں اور جو احکام کسی خاص زمانہ کے وسائل پر مبنی ہوں، ظاہر ہے کہ وسائل کی تبدیلی کے ساتھ انہیں وسائل پر انحصار درست نہ ہوگا؛ بلکہ یہ بات ضروری ہوگی کہ شریعت کے مقصد و منشاء کو اپنے عہد کے وسائل کے مطابق پورا کیا جائے، موجودہ دور میں چونکہ ایسے وسائل پیدا ہوگئے ہیں کہ اختلاف مکان کے باوجود ایجاب و قبول میں ارتباط و اقتران پیدا ہوجائے، اس لیے اتحاد مکان کی شرط ضروری نہ ہونا چاہیے "
انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعہ خرید و فروخت :
انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعے خرید و فروخت کے جواز و عدم جواز کا انحصار اس بات پر ہے کہ مجلس عقد کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ مذکورہ بالا تحریر سے یہ بات واضح ہوچکی ہے کہ مجلس کے اتحاد سے مراد عاقدین کے کلام کا ایک ہی زمانہ میں مربوط ہونا ہے، انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعے خرید و فروخت میں گرچہ مکانی فاصلہ ہوتا ہے؛ لیکن عاقدین کے کلام ایک ہی زمانہ میں پائے جاتے ہیں؛ لہٰذا انٹرنیٹ اور ای میل کے ذریعے خرید و فروخت درست ہوگی_
(جدید ذرائع مواصلات کے ذریعہ عقود ومعاملات)
انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید و فروخت کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں :
(1) اول یہ ہے کہ دونوں فریق عقد کے وقت اپنے اپنے انٹرنیٹ لائن پر موجود ہوں اسے عقد کے لیے استعمال کررہے ہوں، جسے آن لائن (ONE LINE BUSSINESS) کہا جاتا ہے، اس صورت میں چونکہ ایجاب و قبول باہم مربوط ہے؛ اس لیے اس کے عدم جواز کی کوئی وجہ نہیں_البتہ اس صورت میں فریق ثانی کے لیے عام بیع کی طرح ضروری ہوگا کہ اعراض کئے بغیر ایجاب کے مطابق قبول کا اظہار کرے؛ لہٰذا اگر فریق ثانی کی طرف سے اعراض پایا جائے، چاہے انٹرنیٹ کو بند (OFF) کرنے کے ذریعہ ہو، یا فریق اول کے علاوہ کسی دوسرے سے بات کرنے کے ذریعہ ہو، تو اس کے بعد قبول کا حق ختم ہوجائے گا جیسا کہ عام بیع میں اعراض کرنےسے قبول کا حق ختم ہوجاتا ہے_
(2) انٹرنیٹ کے ذریعہ خرید و فروخت کی دوسری صورت یہ ہے کہ کہ فریق ثانی انٹرنیٹ پر موجود نہ ہو؛ بلکہ ایجاب کرنے والا آرڈر (Order) دیدے اور پھر اس کے مطابق دوسرے فریق کا جواب آئے، یہ صورت ای میل (E_Mail) کے ذریعہ ہوتی ہے اور ای میل در حقیقت خط و کتابت کی ترقی یافتہ شکل ہے؛ لہٰذا جس طرح خط و کتابت سے بیع درست ہوتی ہے، ای میل کے ذریعہ بھی خرید و فروخت صحیح ہوگی، چنانچہ علامہ شامی علیہ الرحمہ خط کے ذریعہ انعقاد بیع بتاتے ہوئے رقمطراز ہیں :
"وينعقد البيع وسائر التصرفات بالكتابة" (رد المحتار)
(3)تیسری صورت یہ ہے کہ بیچی جانے والی اشیاء (Products) کی قیمت اور اس کی تفصیلات انٹرنیٹ پر شائع کردی جائے تاکہ جو اس کے خریدنے کے خواہش مند ہوں، وہ اعلان کرنے والے کی طرف رجوع کریں_ یہ در حقیقت اعلان و اشتہار ہے، باضابطہ ایجاب و قبول نہیں؛ اس لئے اس صورت میں مبیع کے حصول کے لیے باضابطہ ایجاب و قبول ضروری ہوگا_
انٹرنیٹ کے ذریعہ سونے چاندی کی خرید و فروخت کا حکم_
سونے چاندی کو اپنی ہم جنس یا دونوں کو ایک دوسرے کے عوض یا نقود کے عوض فروخت کیا جائے تو حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث "التمر بالتمر _ _ _يدا بيد الخ" کے مطابق عوضین(ثمن، مبیع) پر مجلس ہی میں قبضہ ضروری ہے، ظاہر ہے کہ انٹرنیٹ کے ذریعہ بیع میں یہ بات مفقود ہوگی؛ کیوں کہ ایک مدت کے بعد قبضہ ہوتا ہے لہٰذا یہ بیع صحیح نہ ہوگی، لیکن اگر استلام و تسلیم ایک ہی مجلس میں ہو وکیل کے ذریعہ تو بیع صحیح ہوجائے گی_
_ انٹرنیٹ کے ذریعہ نمونہ)(Model) دیکھ کر بیع کی جائے اور معقود علیہ(مبیع) کے وصف کو مفقود پائے تو فسخ عقد کا اختیار حاصل ہوگا جیسا کہ محقق و مدلل جدید مسائل میں ہے👇
انٹرنیٹ پر نمونہ دیکھ کر بیع
مسئلہ(۲۰۱): کوئی شخص انٹرنیٹ پر نمونہ (Model)دیکھ کر کسی چیز کو خریدے ،پھر معقود علیہ (مبیع)کے وصف کو مفقود پائے، تو اُسے فسخِ عقد کا اختیار حاصل ہوگا۔(۱)
------------------------------
=الإیمان ، باب علامۃ المنافق)
(۳) ما في’’ جامع الترمذي ‘‘ : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ إذا وعد الرجل أخاہ ، ومن نیتہ أن یفي لہ ، فلم یف ولم یجئ للمیعاد ، فلا إثم علیہ ‘‘ ۔
(۳/۴۵۰ ، باب ما جاء في علامۃ المنافق ، رقم الحدیث : ۲۶۳۳)
ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : قولہ : (فلم یف) أي بعذر ۔۔۔ ومفہومہ أن من وعد ولیس من نیتہ أن یفي ، فعلیہ الإثم ، وفیٰ بہ أو لم یف ، فإنہ من أخلاق المنافقین ۔ (۹/۱۰۳ ، کتاب الآداب، باب الوعد ، رقم الحدیث : ۴۸۸۱) (جدید مسائل کا حل :ص/۲۲۷)
الحجۃ علی ما قلنا :
(۱) ما في ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘ : ہل تکفي رؤیۃ ما یعرض بالنموذج ، الأصل في ہذا أن رؤیۃ جمیع المبیع غیر مشروط لتعذّرہ ، فیکتفی برؤیۃ ما یدل علی العلم بالمقصود إذا کان المبیع مثلیا أی مکیلاً أو موزوناً أو عددیا متقارباً ، فرؤیۃ ما یعرف بالنموذج تکفي ، إلا إذا کان الباقي أردأ مما رأی فحینئذٍ یکون لہ الخیار ۔
(۳/۱۲۵، ۱۲۶، کتاب البیوع ، خیار الشرط)
ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قال في ’’ الفتح ‘‘ : فإن دخل في البیع أشیاء ، فإن کانت الآحاد لا تتفاوت کالمکیل والموزون ، وعلامتہ أن یعرض بالنموذج فیکتفي برؤیۃ واحد منہا في سقوط الخیار ، إلا إذا کان الباقي أردأ مما رأی فحینئذ یکون لہ الخیار : أي خیار العیب لا خیار الرؤیۃ ۔ ذکرہ في ’’ الینابیع ‘‘ ۔
(۷/۱۱۱، ۱۱۲، کتاب البیوع ، باب خیار الرؤیۃ ، دیوبند ، الفقہ الإسلامي وأدلتہ : ۵/۳۵۹۰ ، خیار الرؤیۃ ، المطلب الخامس ، شرائط ثبوت الخیار ، البیع بالنموذج)
*خلاصہ کلام*
بیع میں ایجاب و قبول کا ایک مجلس میں ہونا ضروری ہے، چاہے حقیقۃ ہو جیسے عام بیع میں ہوتا ہے یا حکما جیسے انٹرنیٹ کے ذریعہ بیع میں ہوتا ہے، انٹرنیٹ کے ذریعہ بیع کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں(1)آن لائن بیع دونوں فریق ایک ہی وقت میں آن لائن ہوں، یہ بیع درست ہے البتہ فریق ثانی کے لیے ضروری ہے کہ اعراض کئے بغیر فریق اول کا جواب دے(2)ای میل کے ذریعہ بیع یہ در حقیقت بیع بالکتابۃ کی شکل ہے؛ کیوں کہ ای میل خط و کتابت کی ترقی یافتہ شکل ہے اس صورت میں فریق ثانی کے لئے ضروری ہے کہ جیسے ای میل پر مطلع ہو، اس کا جواب دے (3)بیچی جانے والی اشیاء( Products)تفصیل (Detail) انٹرنیٹ پر شائع (Post) کردی جائے یہ اعلان اور اشتہار کے حکم میں ہے اس صورت میں بیع کے لیے باضابطہ ایجاب و قبول ضروری ہوگا_
انٹرنیٹ کے ذریعہ سونے چاندی کی خرید و فروخت درست نہیں؛ کیوں کہ اس میں عوضین پر قبضہ ایک مجلس میں نہیں ہوتا جو کہ بیع کی صحت کے لیے شرط ہے_
انٹرنیٹ کے ذریعہ بیع کی صورت میں خیار عیب اور خیار رویت کا حق باقی رہے گا_
*والله أعلم بالصواب*
_*مولانا حفیظ الرحمن جمشید عفی اللہ عنہ*_
📔📘📗📒📕📙📓📚
No comments:
Post a Comment