شیخ محمد ۔ ایک تجزیہ
(حصہ سوئم)
تحریر : محمّد سلیم
سورہ البقرہ آیت 40, 41, 42
يَا بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِىَ الَّتِىٓ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِىٓ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْ وَاِيَّاىَ فَارْهَبُوْنِ (40)
اے بنی اسرائیل میرے احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیے اور تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا اور مجھ ہی سے ڈرا کرو۔
وَاٰمِنُـوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُـوْنُـوْآ اَوَّلَ كَافِـرٍ بِهٖ ۖ وَلَا تَشْتَـرُوْا بِاٰيَاتِىْ ثَمَنًا قَلِيْلًا وَّاِيَّاىَ فَاتَّقُوْنِ (41)
اور اس کتاب پر ایمان لاؤ جو میں نے نازل کی، تصدیق کرتی ہے اس کی جو تمہارے پاس ہے، اور تم ہی سب سے پہلے اس کےمنکر نہ بنو، اور میری آیتو ں کو تھوڑی قیمت پر نہ بیچو اور مجھ ہی سے ڈرو۔
وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْـتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ (42)
اور سچ میں جھوٹ نہ ملاؤ اور جان بوجھ کر حق کو نہ چھپاؤ حالانکہ تم جانتے ہو۔
شیخ صاحب نے اس آیت سے عجیب منطق نکالی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ﷲ نے اس آیت میں جن لوگوں سے خطاب کیا وہ ہر وہ شخص ہو گا جو ان آیات کو پڑھے گا ۔ حالانکہ یہاں ﷲ تعالیٰ واضح طور پر یہ فرماتے ہیں کہ ہم نے جو نازل کیا وہ اس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس (یعنی بنی اسرائیل کے پاس) ہے ۔
اب یہاں شیخ صاحب ایک کنفیوزڈ شخص لگتے ہیں ۔
ایک طرف کہتے ہیں کہ کتاب ہی ایک نازل ہوئی ۔
دوسری طرف کہتے ہیں کہ جو نازل ہوا وہ اس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس ہے ۔
پھر کہتے ہیں تمہارے پاس کیا ہے ؟
اگلا بندہ گھبرا کو کہتا ہے میرے پاس تو قران ہے ۔ لو دسو ۔ گن پوائنٹ پر تشریح منوا لی انہوں نے اپنی ۔
اب اگر تو وہ عقیدہ دیکھا جائے جو امت مسلمہ کا ہے تو وہ یہ ہے کہ بنی اسرائیل سے کہا گیا کہ اب جو قران نازل ہوا ہے وہ اس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے پاس پہلے سے موجود ہے یعنی تورات ۔
مگر شیخ صاحب کی کہانی کچھ اور ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ جو تمہارے پاس اس وقت ہے وہ تو قران ہے ۔ بنی اسرائیل بھی تم ہو ۔ لہٰذا تم اس کے پہلے کافر نہ بنو ۔
سبحان ﷲ ۔
اب اس کہانی کو ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو میں نے نازل کیا اس پر ایمان لاؤ ۔
اب آپ شیخ صاحب سے کوئی پوچھے کہ کیا نازل کیا ﷲ نے ؟
تو جواب ہو گا قران ۔ کیوں کہ اور کسی کتاب کو تو مان نہیں رہے وہ ۔
چلیں ٹھیک ہے ۔
آگے ﷲ کہہ رہے ہیں کہ یہ اس کی تصدیق کرتا ہے جو تمہارے ساتھ ہے ۔
اب وہ کیا ہے ؟
شیخ صاحب کہتے ہیں وہ بھی قران ہے ۔ تمہارے ہاتھ میں اس وقت قران ہے یا نہیں ہے ؟
سبحان ﷲ ۔
یعنی جو نازل ہو رہا ہے وہ بھی قران ۔ تصدیق اس کی کر رہا ہے جو پہلے نازل ہو چکا وہ بھی قران ۔ بنی اسرائیل بھی میں ہوں اور اگر میں شیخ صاحب کی اس نرالی منطق کا انکار کر ڈالوں گا تو پہلا کافر بھی میں ۔
سبحان ﷲ ۔
اگر یہ آیت اسی طرح ہے جس طرح شیخ صاحب نے سمجھی ہے تو اس کو سمجھنے کے لیئے بندے کا نفسیاتی مریض ہونا ضروری ہے جو میں تو نہیں ہوں ۔
سورہ البقرہ آیت نمبر 211
سَلْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ كَمْ اٰتَيْنَاهُـمْ مِّنْ اٰيَةٍ بَيِّنَةٍ ۗ وَمَنْ يُّـبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّـٰهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّـٰهَ شَدِيْدُ الْعِقَابِ (211)
بنی اسرائیل سے پوچھیے کہ ہم نے انہیں کتنی روشن دلیلیں دیں، اور جو اللہ کی نعمت کو بدل دیتا ہے بعد اس کے کہ وہ اس کے پاس آچکی ہو تو بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔
بنی اسرائیل سے پوچھئے ؟
اب بتائیں کون کس سے کیا پوچھے ؟
جب میں بھی بنی اسرائیل تو بھی بنی اسرائیل تو یہاں کون کس سے کیا پوچھے گا ؟
سورہ الاسراء آیت 101
وَلَقَدْ اٰتَيْنَا مُوْسٰى تِسْعَ اٰيَاتٍ بَيِّنَاتٍ ۖ فَاسْاَلْ بَنِىٓ اِسْرَآئِيْلَ اِذْ جَآءَهُـمْ فَقَالَ لَـهٝ فِرْعَوْنُ اِنِّـىْ لَاَظُنُّكَ يَا مُوْسٰى مَسْحُوْرًا (101)
اور البتہ تحقیق ہم نے موسٰی کو نو کھلی نشانیاں دی تھیں، پھر بنی اسرائیل سے بھی پوچھ لو جب موسٰی ان کے پاس آئے تو فرعون نے اسے کہا اے موسٰی میں تو تجھے جادو کیا ہوا خیال کرتا ہوں۔
شیخ صاحب کو چاہیئے قران کی تشریح چھوڑ کر ایمپریس مارکیٹ صدر میں دیسی دوائیوں کی دکان کھول لیں کہ چرب زبانی وہاں فائدہ مند ہے ۔ یہاں تو دنیا کا بھی گھاٹا آخرت کا بھی ۔
قران کی ایسی کئی آیات ہیں جس میں ایک ہی خطاب ایک ہی قسم کے لوگوں سے دو مختلف ناموں سے ہو رہا ہے ۔
مثلاً
سورہ البقرہ آیت 113
وَ قَالَتِ الۡیَہُوۡدُ لَیۡسَتِ النَّصٰرٰی عَلٰی شَیۡءٍ ۪ وَّ قَالَتِ النَّصٰرٰی لَیۡسَتِ الۡیَہُوۡدُ عَلٰی شَیۡءٍ ۙ وَّ ہُمۡ یَتۡلُوۡنَ الۡکِتٰبَ ؕ
یہود کہتے ہیں کہ نصرانی کسی شے پر نہیں اور نصاریٰ کہتے ہیں یہود کسی شے پر نہیں حالانکہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں ۔
اب یہ آیت پڑھیئے ۔
سورہ المائدہ آیت 68
قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! تم دراصل کسی شے پر نہیں جب تک کہ تورات و انجیل کو اور جو کچھ تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اتارا گیا ہے قائم نہ کرو ، جو کچھ آپ کی جانب آپ کے رب کی طرف سے اترا ہے ۔
عقل والوں کے لیئے ان آیات میں کھلی نشانیاں ہیں ۔
یہ وہی موضوع ہے جس پر شیخ صاحب کافی دیر تک بحث کرتے رہے کہ اہل کتاب یہود و نصاری نہیں ہیں ۔
یہاں واضح ہو رہا ہے کہ
یہود نصاریٰ سے کہہ رہے ہیں کہ تم کسی شے پر نہیں ہو ۔
نصاریٰ یہود سے کہہ رہے ہیں کہ تم کسی شے پر نہیں ہو ۔
حالانکہ دونوں کتاب پڑھتے ہیں ۔
پھر ﷲ تعالیٰ اپنے رسول سے فرما رہے ہیں ۔
اے رسول کہہ دیجیئے کہ اے اہل کتاب تم دونوں ہی کسی شے پر نہیں ہو ۔
جب تک تم اپنی کتابوں پر عمل نہ کرو ۔
یہاں کسی بیوقوف کو بھی سمجھ آجائے کا اہل کتاب دراصل یہود و نصاریٰ کو ملا کر کہا جا رہا ہے ۔ مگر یہ بات شیخ صاحب کو سمجھانا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے ۔
آگے چلیں ۔
ایک معاملہ یہ بھی ہے کہ وہ وحی کا نزول ہر شخص پر سمجھتے ہیں ۔
ویڈیو کو اگر آپ 2:25:00 سے دیکھیں تو اس مقام پر وہ تقریباً رسالت و نبوت کا دعویٰ کر رہے ہیں ۔
مفتی صاحب کو ایک آیت سنا کر پوچھتے ہیں کہ یہ جو آیت میں پڑھ رہا ہوں یہ آ کہاں سے رہی ہے ؟
میرے اندر سے آرہی ہے ؟
مفتی صاحب بیچارے پریشان ہو گئے کہ آہو آ تے اندروں ای رہی ہے ۔
پھر پوچھتے ہیں کہ رسول کون ہوا ؟
یہ رسول کا قول ہے ؟
یہاں سوال یہ تھا کہ آواز کہاں سے آ رہی ہے ؟
اندر سے ؟
تو جواب یہ ہونا چاہیئے تھا کہ اندر گئی کہاں سے تھی ؟
یا تو بندہ کھلے عام دعویٰ کرے کہ قران مجھ پر نازل ہوا تو اس سے نمٹ لیا جائے ۔
ساری گول مول باتیں شیخ صاحب نے کیں کہ جیسے قران انہی پر وحی ہوا معاذﷲ ۔ حالانکہ ویڈیو کے شروع میں بتاتے ہیں کہ مجھے عربی گرائمر تک نہیں آتی ۔ میں قران پڑھ پڑھ کر سیکھا ہوں ۔
ظاہر بات ہے جب آپ قران کو بار بار پڑھتے ہو تو وہ آپ کو حفظ ہو جاتی ہے ۔ پھر آپ اس کو پڑھتے ہو تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو الہام ہو گیا ؟
بہت ہی بڑا کوئی نفسیاتی مریض ہے یہ بندہ ۔
یہ معاملہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی آپ کو قران پڑھ کر سنائے اور پوچھے بتاؤ بھلا میں کیا کر رہا ہوں ۔ جب مخاطب اقرار کر لے کہ ہاں آپ ہمیں قران ہی پڑھ کر سنا رہے ہیں تو آپ کے سامنے قران کی وہ آیت رکھ دی جائے کہ رسول تمہیں قران پڑھ کر سناتا ہے ۔
اب بتاؤ میں کون ہوں ؟
پھر یہ دعویٰ کہ قران کہہ رہا ہے میں نہیں کہہ رہا ۔
بندہ لا لے چھتر تے پا لے لمیا ۔
بیت المقدس کے بارے میں بھی ان کے افکار زمانے سے منفرد ہیں ۔ وہ کہتے ہیں مسجد اقصیٰ درحقیقت مسجد ضرار ہے اور جس مسجد اقصیٰ کا ذکر سورہ الاسراء کی آیت نمبر 1 میں ہے وہ مسجد نبوی ہے ۔
لو دسو ۔
اب ان چولوں کا بندہ کیا جواب دے ۔
میں دعویٰ کرتا ہوں کہ امریکہ کے شہر میں جو ایک مجسمہ ایک ہاتھ میں مشعل اور دوسرے ہاتھ میں تختی پکڑ کر کھڑا ہے وہ اصل میں مینار پاکستان ہے اور یہ جو لاہور میں بادشاہی مسجد کے پاس میزائل نما عمارت ہے وہ دراصل اسٹیچو آف لبرٹی ہے تو اس کا کیا جواب ہے ؟
یہ معاملات قابلِ بحث نہیں ہیں مگر قابل علاج ہو سکتے ہیں اگر بروقت علاج کروایا جائے ۔
شیخ صاحب کو علاج نوے کی دہائی میں ہی ہو جانا چاہیئے تھا جب یہ نئے نئے تھے ۔ اب تو ان کا مرض پختہ ہو چکا ۔
ایک اصول ذہن میں رکھنا چاہیئے کہ ہم کسی بھی زبان کا کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیوں کرتے ہیں ۔
مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ اس زبان سے واقف نہیں ان کو بھی بات سمجھ میں آجائے ۔
قران کا اردو میں ترجمہ کرنا فرض نہیں ہے ۔ یہ اس لیئے کیا جاتا ہے کہ اردو بولنے والوں کو سمجھ آجائے ۔ مگر فرض کیجیئے کہ اردو میں ترجمہ ہو جانے کے بعد بھی قران سمجھ نہ آئے تو پھر ترجمہ کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔ پھر عربی میں ہی پڑھ لے بندہ ۔ ثواب ہی ملے گا ۔
میں اس معاملے میں مودودی صاحب کا معترف ہوں کہ انہوں نے اپنے تفہیم القران کے شروع میں ہی سمجھا دیا کہ میں ترجمہ نہیں کر رہا بلکہ میں تفہیم کر رہا ہوں ۔ یعنی قران کا جو جملہ عربی میں کہا گیا وہ اگر اردو میں کہا جائے تو کسی طرح کہا جائے گا ۔ اسے کہتے ہیں فہم اور یہی ضروری ہے ۔ من و عن ترجمہ ہو اور سمجھ ہی نہ آئے تو ترجمے کی ضرورت ہی نہیں ۔
مثلاً
انگریزی میں ایک کہاوت ہے ۔
Add insult to injury.
اس کا اردو فہم یہ ہو گا کہ راجپوت کو چمار سے جوتے پڑوانا ۔ (یعنی تکلیف تو ہوئی سو ہوئی ساتھ بے عزتی بھی ہوئی)
اب یہاں شیخ صاحب جیسا بندہ اعتراض کر دے کہ جناب آپ نے ترجمہ ہی غلط کیا ہے ۔ صحیح ترجمہ ہو گا کہ زخم میں ذلت کو شامل کر دو ؟
کیا اب یہ بات سمجھ آتی ہے ؟
شیخ صاحب کی منطق یہ نہیں ہے ۔ بس ترجمہ ٹھیک کر دو ۔ سمجھ آئے یا نہ آئے ۔ جب سمجھ آنا مقصد نہیں تو اور ترجمے کا مقصد کیا ہے ؟
میں نے پچھلے دنوں اپنی ایک بات کا مذاقاً ترجمہ انگریزی میں کیا تھا کہ
میرا مذاق مت اڑاؤ ۔
Don’t fly my comedy.
اب یہ کسی انگریز کو سمجھانا ہو تو کیسے سمجھائیں گے ۔
اس قسم کے ترجمے عموماً مذاق میں کیئے جاتے ہیں ۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے میں نے اپنے ایک تفریحی گروپ میں انگریزی پوسٹ کی تھی ۔
https://m.facebook.com/groups/1360407690745422?view=permalink&id=1515247245261465
آپ یہ پوسٹ پڑھیں ۔ اس میں میرا ترجمہ کسی بھی ڈکشنری سے بوتھ وائز ویری فائی ہو جائے گا ۔ یعنی انگلش ٹو اردو بھی اور اردو ٹو انگلش بھی ۔ مگر لوگ ہنس ہنس کر دہرے ہو گئے ۔ پتہ نہیں کیوں ۔
اس قسم کا مذاق سنجیدگی کے ساتھ صرف میراں کرتی ہیں کہ
Tablets are walking on the street.
سڑک پر گولیاں چل رہی ہیں ۔
کر لیں ویری فائی ۔
یہ بھی بوتھ وائز ویری فائی ہو جائے گا ۔
یہ شیخ صاحب میراں کے بعد دوسرے انسان ہیں جو اس قسم کا ترجمہ سنجیدگی کے ساتھ کر رہے ہیں ۔
مفتی صاحب کو کہتے ہیں امّی کا ترجمہ ماؤں والا کرو ۔ جب مفتی صاحب نے کہا کہ ترجمہ آیت کا پھر کیسے ہو گا کیا سمجھ آئے گا تو کہتے ہیں وہ مسئلہ نہیں اسے چھوڑ دیں ۔
مکالمے کے دوران سب سے زیادہ قابل رحم حالت موصوف دانش صاحب کی تھی ۔ وہ بیچارے کبھی شیخ صاحب کا منہ غور سے دیکھتے تھے تو کبھی مفتی صاحب کے کھلے ہوئے منہ میں جھانک کر حلق کا کوا دیکھنے کی کوشش میں نظر آتے تھے ۔
ان کی حالت بالکل غالب کے اس شعر کی عملی کیفیت پیش کر رہی تھی کہ
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
آخر میں یہی کہنا چاہوں گا کہ جو لوگ مفتی صاحب کو قصوروار سمجھتے ہیں وہ کسی پاگل خانے جا کر کسی پاگل کے ساتھ تین گھنٹے گزاریں اور اپنی کیفیت بیان کریں ۔
یقیناٰ مفتی صاحب کی مجبوری سمجھ آجائے گی ۔
No comments:
Post a Comment