# فقہیات #
*=== زیب و زینت کے مسائل ===*
(انیسویں قسط)
*بیوٹی پارلر کی شرعی حدود!*
واضح رہے کہ زیب و زینت اور بناؤ سنگھار عورت کا فطری حق ہے، بناؤ سنگھار کرنا عورت کیلئے اس کی فطرت کے عین مطابق ہے، اسلام عورت کی اس فطری خواہش کا مخالف نہیں ہے، مگر اس زیب و زینت، اور بناؤ سنگھار میں شرعی حدود و قیود سے تجاوز کرنا اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں سے انحراف کرنا ہرگز درست نہیں، خواتین کے لئے بناؤ سنگھار اور زیب و زینت اختیار کرنے میں شرعی تقاضوں کا لحاظ رکھنا ضروری ہے اور اس بات کا اہتمام کرنا ضروری ہے کہ ان کے کسی طرز عمل سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی ناراضگی لازم نہ آئے، زیب و زینت اور بناؤ سنگھار میں شریعت کی مقرر کردہ حدود یہ ہیں کہ جن امورکی شریعت میں قطعی طور پر ممانعت ہے، انہیں کرنا کسی صورت میں عورت کے لئے جائز نہیں، چاہے وہ شوہر ہی کیلئے کیوں نہ ہو، مشکوۃ المصابیح کی حدیث ہے:
*لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق* (کتاب الامارۃ والقضاء، الفصل الثانی:۲؍۳۲۱ قدیمی کراچی)
یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں ہے، اسی طرح بناؤ سنگھار کے جو امور شرعی حدود اور جائز درجہ میں ہیں، ان میں بھی مقصود شوہر کو خوش کرنا ہو نہ کہ دوسری عورتوں اور نامحرم مردوں کو دکھانا یا ان کے سامنے اترانا ہو!!
اگر شوہر کو خوش کرنے کے لئے بناؤ سنگھار کرے گی تو عورت کو ثواب ملے گا اور اگر نامحرم مردوں کو دکھانے یا فخر کی نیت سے بناؤ سنگھار کرے گی تو گناہ گار ہوگی، چنانچہ موجودہ دور میں بیوٹی پارلر کے نام سے عورتوں کے بناؤ سنگھار کے جو ادارے قائم ہیں، ان میں بعض جائز امور کے ساتھ ساتھ بہت سے خلاف شریعت امور کا ارتکاب بھی ہوتاہے، جو امور ناجائز، گناہ اور موجب لعنت ہیں ان سے بچنا از حد ضروری ہے، ان خلافِ شریعت امور کا ارتکاب کرنے اور کرانے والی دونوں عورتیں گناہ گار ہوں گی۔
البتہ اگر شرعی حدود میں رہتے ہوئے بیوٹی پارلر میں صرف جائز امور کا اہتمام کیا جائے تو صحیح ہے۔
ذیل میں ان تمام کاموں کو تفصیل سے ذکر کیا جاتا ہے جو کسی پارلر میں ہوتے ہیں یا سنگھار کا ذریعہ ہیں اور ساتھ ساتھ ان کےشرعی احکام کو بھی ذکر کیا جاتا ہے کہ ان میں سے کون سی چیزوں کو کرنا جائز ہے اور کون سی ناجائز، ایک پارلر بھی شرعی خطوط پر کام کرسکتا ہے اگر اس میں ان تمام امور کا لحاظ رکھا جائے جن کا حکم اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے دیا ہے۔
📌 *خواتین اور نابالغ بچیوں کے بال کاٹنا :*
خواتین کا اپنے سر کے بالوں کو کٹوانا یا کتروانا خواہ کسی بھی جانب سے ہو مردوں کے ساتھ مشابہت کی وجہ سے ناجائز اور گناہ ہے، حدیث شریف میں اس کی سخت ممانعت ہے، مشکوۃ المصابیح میں ہے کہ:
*لعن ﷲ المتشبهین من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال* (باب الترجل، الفصل الأول: ۲؍۳۸۰ قدیمی)
اللہ تعالیٰ کی لعنت ہے ان مردوں پر جو عورتوں کی مشابہت اختیار کرتے ہیں اور ان عورتوں پر جو مردوں کی مشابہت اختیار کر تی ہیں ...... ایک جگہ ارشاد ہے:
*نہی رسول اللہ ﷺ أن تحلق المرأۃ رأسہا* (باب الترجل، الفصل الثالث: ۲؍۳۸۴)
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا ہے اس بات سے کہ عورت اپنا سر منڈوائے، لہذا عورتوں کے لئے سر کے بال کٹوانا یا ترشوانا جائز نہیں، البتہ کسی عذر یا بیماری کی وجہ سے بالوں کا ازالہ ناگزیر ہوجائے تو پھر شرعی عذر کی بنا پر بقدر ضرورت بالوں کا کاٹناجائز ہے، لیکن جیسے ہی عذر ختم ہوجائے اجازت بھی ختم ہوجائے گی، جیساکہ شامی میں ہے:
*قطعت شعر رأسہا اثمت ولعنت زاد فی البزازیة وان بإذن الزوج لانه لاطاعة لمخلوق فی معصیة الخالق* (کتاب الحظر و الاباحة فصل فی البیع: ۶؍۴۰۷ سعید)
خلاصة الفتاوی میں ہے:
*المرأۃ إذا حلقت رأسہا إن کان لوجع أصابہا لابأس به وإن کان للتشبه بالرجال یکرہ* (الفصل التاسع فی المتفرقات:۴؍۳۷۷ رشیدیہ)
یہی حکم بالغ اور قریب البلوغ لڑکیوں کا ہے کہ ان کے بال کٹوانا جائز نہیں، البتہ ایسی بچیاں جو چھوٹی ہوں، قریب البلوغ نہ ہوں تو خوبصورتی یا کسی اور جائز مقصد کے لئے ان کے بال کٹوانا جائز ہے، تاہم ارادی طور پر کفار یا فساق کی مشابہت سے بچنا چاہیئے۔
📌 *بالوں کو کالے خضاب کے علاوہ کسی اور رنگ سے رنگنا :*
بیوٹی پارلر میں خواتین کے بالوں کو خوبصورت کرنے کے لئے بلیچ کرکے پھر دوسرے رنگ (کالے خضاب کے علاوہ) سے رنگا جاتاہے تو اگر یہ کام شرعی حدود میں رہتے ہوئے کیا جائے تو شرعاً اس میں مضائقہ نہیں۔
📌 *بالوں کا مختلف اقسام سے سنوارنا مثلا چوٹی یا جوڑے کی شکل میں بنانا :*
خواتین کے لئے سر کے بالوں کو کاٹے بغیر مختلف ڈیزائن سے سنوارنا مثلاً چوٹی وغیرہ کی شکل میں بنانا جائز ہے، البتہ کوہان کی شکل کا جوڑا بنانا ناجائز ہے، جیسا کہ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے، البتہ اس کا خیال رکھنا ضروری ہے کہ کافرہ و فاسقہ عورتوں کی مشابہت مقصود نہ ہو، محض اپنا یا اپنے شوہر کا دل خوش کرنے کے لئے ایسا کیا جائے۔
📌 *فیشل یعنی صفائی کے لئے مختلف کریموں سے چہرے کی مالش کرنا اور ہاتھوں اور پیروں کی مالش کرنا :*
زینت کے لئے چہرے یا ہاتھ پاؤں کا فیشل کروانا شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے جائز ہے۔
📌 *دھاگے یا کسی آمیزے سے بھنووں کا خط بنوانا :*
عورتوں کے لئے بھنویں بنانا (دھاگہ یا کسی اور چیز سے) جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں ایسی عورتوں پر لعنت آئی ہے اور ایسا کرنا تغییر لخلق اللہ کے زمرہ میں آتاہے، جیسا کہ مشکوۃ المصابیح میں حدیث ہے :
*لعن اللہ الواصلة والمستوصلة والواشمة والمستوشمة* (باب الترجل ،الفصل الأول ۲؍۳۸۱ قدیمی)
البتہ قینچی کی مدد سے کم کرسکتی ہے، جبکہ مخنث کی مشابہت نہ ہو، جیساکہ شامی میں ہے:
*ولابأس بأخذ الحاجبین وشعر وجهه ما لم یشبه المخنث* ( کتاب الحظروالاباحة فصل فی النظر والمس:۶؍۳۷۳ سعید)
📌 *ہاتھ پیر کے بال چکنے آمیزے کی مدد سے اتارنا اور چہرے کے زائد بال مثلا داڑھی، مونچھ، رخسار، پیشانی آمیزے یا دھاگے کی مدد سے اتارنا :*
خواتین کو اپنے چہرے کے غیرمعتاد بال مثلا داڑھی، مونچھ، پیشانی وغیرہ کے بال یا کلائیوں اور پنڈلیوں کے بال صاف کرنا جائز ہے، البتہ ان زائد بالوں کو نوچ کر نکالنا مناسب نہیں، کیونکہ اس میں بلاوجہ اپنے جسم کو اذیت دینا ہے، کسی کریم، پاؤڈر وغیرہ کے ذریعہ صاف کرلیا جائے تو زیادہ بہتر ہے، جیساکہ شامی میں ہے:
(والنامصة الخ).... ولعله محمول علی ما اذا فعلته للتتزین للاجانب والا فلو کان فی وجهها شعر ینفر زوجہا عنہا بسببه ففی تحریم ازالته بعد، لان الزینة للنساء مطلوبة للتحسین الا أن یحمل علی مالا ضرورۃ إلیه لما فی نتفه بالمنماص من الایذاء وفی تبیین المحارم إزالة الشعرمن الوجه حرام الا إذا نبت للمراۃ لحیة او شوارب فلا تحرم إزالته بل تستحب (المرجع السابق:۶؍۳۷۳)
📌 *دلہن کا سنگھار کرنا :*
کسی بھی دلہن کو تیار کرنا اور اس کا سنگھار کرنا جائز ہے جب تک کسی غیر شرعی امور کا ارتکاب نہ کیا جائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ خواتین کا خواتین سے جائز زیب و زینت اور بناؤ سنگھار کرانا (جن میں شرعی حدود وقیود کا لحاظ رکھا جاتا ہو) جائز ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ یہ زیب و زینت غلط مقصد کے لئے نہ ہو، اگر غلط مقصد کے لئے ہو مثلا نامحرم مردوں کو دکھانے یا اترانے لئے ہو تو ناجائز ہے۔
(مستفاد از فتاوی بینات جلد ۴، مطبوعہ بابت ماہ رمضان المبارک ۱۴۲۵ھ بمطابق نومبر ۲۰۰۴ء)
*ناشر : دارالریان کراتشی*
No comments:
Post a Comment