🔹عید ملاد النبی منانا کیسا هے🔹
♦جُنید:
السلام علیکم۔
🔹عبداللہ:
وعلیکم السلام ۔ سنائیے آج کیسے صبح صبح آگئے، دکان پر نہیں گئے؟
♦جُنید:
آج تو عید میلادالنبی ہے، بازار، دکانیں سب بند ہیں۔
🔹عبداللہ :
اچھا تو آپ آج عید منا رہے ہیں۔
♦جُنید:
کیا آپ نہیں منا رہے ہیں؟
🔹عبداللہ:↓
عیدیں تو اسلام میں صرف دوہی ہیں، (١)عید الفطر اور (٢)عیدلاضحی۔
♦جُنید:↓
یہ تیسری عید بھی تو ہے جسے عید میلاد النبی کہتے ہیں۔
🔹عبداللہ:↓
اچھا آپ ذرا یہ بتائیں یہ جو تیسری عید ہے ، کیا اس عید والے دن عید گاہ جاکر نماز عید ادا کی جاتی ہے ؟
♦جُنید:↓
عید میلادالنبی کی نماز تو ہوتی ہی نہیں ہے۔
🔹عبداللہ:↓
باقی دوعیدوں کی نمازیں پھر آپ کیوں پڑھتے ہیں؟
♦جُنید:↓
وہ تو پڑھنی چاہیئے؟
🔹عبداللہ:↓
وہ کیوں پڑھنی چاہیئے۔
♦جُنید:↓
اس لئے کہ ان کے پڑھنے کا حکم ہے ۔
عبداللہ:↓
کیا عید میلادالنبی کی نماز پڑھنے کا حکم نہیں ہے ؟
♦جُنید:↓
نہیں ہوگا اس لئے تو کوئی نہیں پڑھتا۔
🔹عبداللہ:↓
کیا عید میلادالنبی منانے کا کہیں حکم ہے ؟
♦جُنید:↓
سنا تو نہیں کہیں حکم، منع بھی تو نہیں ہے ۔
🔹عبداللہ:↓
کیا اس کی نماز ِعید منع ہے ؟
♦جُنید:↓
منع تو وہ بھی نہیں ہے۔
🔹عبداللہ:↓
پھر آپ کیوں نہیں پڑھتے؟
♦جُنید:↓
آپ کہنا کیا چاہتے ہیں؟
🔹عبداللہ:↓
میں بتانا چاہتاہوں کہ اسلام میں اس عید کا کوئی ثبوت نہیں، اگر یہ عید اسلام میں ہوتی تو باقی دوعیدوں کی طرح اسکی نماز بھی ہوتی، اس کی فضیلت حدیث میں پائی جاتی۔ الله ﷻ کے رسول ﷺ نے اس کے احکام اور مسائل بیان فرمائے ہوتے۔
♦جُنید:↓
جو لوگ یہ عید مناتے ہیں کیا وہ غلطی کرتے ہیں؟
🔹عبداللہ:↓
اسلام مسلمانوں کے عمل کا نام نہیں، اسلام قرآن اور حدیث کا نام ہے، جو بات قرآن وحدیث سے ثابت ہے وہ دین ہے، جو ثابت نہیں وہ دین نہیں۔ اگر کوئی اس کو دین بناتا ہے تو وہ دین میں اضافہ کرتا ہے جو ایک سنگین جرم ہے، اسی کو بدعت کہتے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی امت کو بدعت سے بہت ڈرایا ہے
♦جُنید:↓
کیا صحابہ اور تابعین کے زمانہ میں عیدمیلاد النبی کوئی مناتا تھا؟
🔹عبداللہ:↓
سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، صحابہ اور تابعین کے بعد کسی امام ومحدث نے بھی یہ عید نہیں منائی، اہل سنت کے چاروں اماموں نے تو اس عید کا نام بھی نہ سنا تھا۔ یہ بدعت ٦٢٥ھ سے شروع ہوئی ہے۔
♦جُنید:↓
یہ کیسے ہوسکتا ہے ایک مسلمان الله ﷻ کے رسول ﷺ سے محبت بھی کرتا ہو اور آپ ﷺ کی پیدائش کا دن خاموشی سے گزار دے۔
🔹عبداللہ:↓
ایسا ہوسکتا ہے اور ہوا ہے۔ آپ کبھی کسی تاریخ میں نہیں دکھا سکتے کہ صحابہ و تابعین اور ائمہ سلف نے یہ عید منائی ہو۔نبی كريم ﷺ سے محبت کتاب وسنت پر عمل کرنے سے ظاہر ہوتی ہے نہ کہ عید منانے سے۔ کیا ٦٢٥ھ سے پہلے کے لوگوں کو نبی ﷺ سے محبت نہیں تھی؟ حالانکہ نبی ﷺ نے تو اس زمانے کو بہترین زمانہ قرار دیا ہے ۔
♦جُنید:↓
عیسائی اپنے نبی علیہ السلام کی پیدائش پر کرسمس مناتے ہیں، ہمارے نبی كريم ﷺ کی شان تو سب سے اعلیٰ ہے، ہم مسلمان اپنے نبی ﷺ کا یوم پیدائش کیوں نہ منائیں؟
🔹عبداللہ:↓
عیسائی تو اپنے نبی علیہ السلام کو خدا اور خدا کا بیٹا بھی کہتے ہیں، کیا عیسائیوں کی نقالی میں ہم اپنے نبی ﷺ کو خدا یا خدا کا بیٹا بنالیں؟ میرے بھائی! عیسائیوں کو قرآن و حدیث میں اسی لئے تو گمراہ قرار دیا ہے کہ وہ سب کچھ اپنے نبی علیہ السلام کی تعلیمات کے خلاف کرتے ہیں، کرسمس منانا عیسائیوں کا اپنا مذہب ہے یہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی تعلیم نہیں ہے۔
♦جُنید :↓
عید میلاد النبی کوئی فضول رسم ہے ؟
🔹عبداللہ:↓
اگر یہ اچھا کام ہوتا توپھر رسول الله ﷺ اور آپ ﷺ کے صحابہ رضی الله عنہم اجمعین نے کیوں نہ کیا، کیا اس زمانے میں وسائل کی کمی تھی، جو لوگ دو دو عیدیں مناسکتے تھے ان کو تیسری عید منانے میں کیا حرج تھا؟
♦جُنید:↓
صحابہ کے زمانے میں بہت سے کام نہیں ہوتے تھے جو آج کل ہوتے ہیں؟ آج ہم گاڑیوں اور ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں، آپ صحابہ کرام والے اسلام پر عمل کرتے ہوئے گدھوں اور گھوڑوں پر سفر کیا کریں۔
🔹عبداللہ:↓
میرے بھائی! سائنسی ایجادات سے اسلام میں ملاوٹ نہیں ہوتی، مذہبی ایجادات سے اسلام میں ملاوٹ ہوتی ہے نبی كريم ﷺ كى حديث كا مفهوم ہے کہ جس نے دین میں کوئی نئی چیز ایجاد کی اسے رد کردیا جائے گا (صحیح بخاری ومسلم) حافظ ابن حجر اس کی تشریح میں لکھتے ہیں : "والمردامرالدین"
’’اس سے دین کا امر مراد ہے۔‘‘
یعنی جس نے دین کے اندر کوئی نئی رسم نکالی تو وہ مردود ہے (فتح الباری٣٢٢٥)
ان سے واضح ہو گیا کہ ہر احداث برا اور مردود نہیں ہے بلکہ وہ بدعت اور احداث مردود ہے جس کا تعلق دین اور دینی معاملات سے ہو، اور اسے دین کا کام اور کارِ ثواب سمجھ کر کیا جائے، لہٰذا جتنی بدعتیں لوگوں نے دین کے اندر نکالی ہیں وہ تمام کی تمام مردود ہیں۔
جہاں تک دنیوی چیزیں ہیں، اس کے لئے الله تعالیٰ فرماتا ہے :(وَالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ لِتَرْ کَبُوْھاَ وَزِیْنَة وَیَخْلُقُ ماَلاَ تعْلَمُوْنَ)’’
اور اُسی نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کئے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور (وہ تمہارے لئے) رونق وزینت (بھی ہیں) اور وہ (اور چیزیں بھی) پیداکرے گا جن کی تمہیں خبر نہیں۔‘‘
اس آیت میں الله تعالیٰ خود کہہ رہا ہے کہ وہ چیزیں بھی استعمال کرسکتے ہیں جن کا علم اس وقت کے لوگوں کو نہیں تھا۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ تمام مباح دنیاوی نئی (سائنسی) ایجاد کردہ چیزوں کو ہم استعمال کرسکتے ہیں۔
♦جُنید:↓
تو پھر آپ بچے کی پیدائش پر خوشی کیوں مناتے ہیں ؟
🔹عبداللہ:↓
خوشی منانے اور خوش ہونے میں فرق ہے۔ بچے کی پیدائش پر ہر انسان فطری طور پر خوش ہوتا ہے جبکہ مذہبی طور پر، جہاں تک خوشی منانے کا تعلق ہے تو اس کے لئے شریعت نے ساتویں دن عقیقہ کرنے کا حکم دیا ہے،اب آپ بتائیں کہ بارہ ربیع الاول کو عید منانےکا حکم شریعت نے دیا ہے یا کوئی ترغیب دلائی ہے؟ ہرگز نہیں، پھر بچے کی پیدائش پر خوشی تو صرف ایک دن منائی جاتی ہے ہر سال نہیں۔ کیا رسول الله ﷺ ہر سال بارہ ربیع الاول کو پیدا ہوتے ہیں؟ بچے کی پیدائش پر خوشی بھی ساتویں دن منائی جاتی ہے اس کی پیدائش کے دن نہیں، اور وہ بھی ایک مرتبہ ہر سال نہیں۔
♦جُنید:↓
کہتے ہیں کہ ابولہب نے آپ ﷺ کی پیدائش پر لونڈی کو آزاد کیا تھا۔
🔹عبداللہ :↓
وہ ا س لئے کہ ابولہب کو اپنے بھتیجے کی پیدائش پر خوشی ہوئی تھی، اس نے لونڈی اس لئے آزاد نہیں تھی کہ ایک رسول دنیا میں تشریف لائے ہیں، یہ بات اتنی پسندیدہ تھی تو کیا آپ ﷺ نے نبوت کے اعلان کے بعد کبھی بھی ابولہب کی اس سنت کو زندہ کرنے کا حکم دیا؟ ابولہب نے تو دنیا کے عام رواج کے مطابق خوشی منائی، بچہ تو کسی گھر میں پیدا ہو خوشی ضرور ہوتی ہے، ابولہب کا لونڈی آزاد کرنا اس لئے نہیں تھا کہ اس نے اس دن کو عید تصور کیا تھا۔ اگر ابولہب کو اپنے بھتیجے کی نبوت سے محبت ہوتی تو وہ آپ کے ساتھ بدترین عداوت کا مظاہرہ نہ کرتا اور نہ اس کی اور اس کی بیوی کی مذمت میں قرآن کی پوری سورت نازل ہوتی، پھر اگر ابولہب کے عمل کو عید میلادالنبی کی دلیل شمار کیا جائے تو اس کامطلب یہ ہوا کہ عید میلادالنبی سنت نبی تو نہیں البتہ سنت ابولہبی ضرور ہے۔
♦جُنید:↓
سنا ہے کہ رسول الله ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش میں مؤرخین کا اختلاف ہے، آخر حقیقت کیا ہے ؟
🔹عبداللہ :↓
اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر اسے ایک دن پر متفق نہیں کیا تاکہ اسلام کے خالص ہونے کی دلیل قائم رہے، لوگ اس بدعت سے بچے رہیں، یہی ہم اب تک کہتے ہیں کہ یہ دن پہلے زمانوں میں نہیں منایا جاتا تھا بعد میں ایجاد ہوا ہے، اگر بارہ ربیع الاول کا دن کسی بھی حیثیت سے آپ ﷺ یا بعد میں کسی زمانے میں منایا جاتا رہا ہوتا تو سارے مسلمان آپ ﷺ کی تاریخ پیدائش پر متفق ہوتے۔
♦جُنید:↓
چلیئے مان لیا کہ رسول الله ﷺ کی پیدائش شروع سے نہیں منائی جاتی تھی لیکن اب جدید سائنسی دور میں بھی تحقیق نہیں ہو سکی کہ آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش کیا ہے؟
🔹عبداللہ:↓
دیکھئے تاریخ وفات پر تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ وہ بارہ ربیع الاول ہی ہے، لیکن آپ ﷺ کی صحیح تاریخ پیدائش کے بارے میں جدید تحقیق تو یہی کہتی ہے کہ وہ نو ربیع الاول ہے۔ قاضی سلیمان کی رحمت اللعالمین اور مولانا شبلی نعمانی کی سیرت النبی ﷺ میں ساری تحقیق موجود ہے ۔
♦جُنید:↓
آخر یہ عید میلادالنبی آئی پھر کہاں سے؟
🔹عبداللہ:↓
آپ ایک چیز ایجاد کرتے ہیں اور اس کا ثبوت ہم سے مانگتے ہیں، بہرحال یہ بات تو مُسلّم ہے کہ عہدِ رسالت سے آئمہ و محدثین کے زمانے تک اس کا نام ونشان بھی نہ تھا۔ یہ رسم ٦٢٥ھ سے شروع ہوئی کچھ نادان لوگوں نے اسے ایجاد کیا۔
♦جُنید:↓
یہ تو واقعی ہم زیادتی کرتے ہیں، جبکہ ان بزرگوں نے یہ عید نہیں منائی تو پھر ہم کیوں منائیں۔
🔹عبداللہ:↓
جزاک الله خیر۔ اب آپ کی سمجھ میں میری بات آئی۔
♦جُنید:↓
بات تو میں آپ کی سمجھ گیا ہوں، اچھا یہ بھی وضاحت فرما دیجئے کہ جو لوگ عید میلاد مناتے ہیں ان میں جذبہ اور نیت تو نیک ہی ہوتی ہے اور صحیح حدیث میں ہے :" اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے"
🔹عبداللہ :↓
میرے بھائی جب آپ کو صحیح حدیث بتائی جاتی ہے اگر وہ آپ کے عمل کے خلاف ہو تو آپ لوگ یہ کہہ کر چھوڑ دیتے ہیں کہ ہمارے مولوی صاحب نے اس طرح کہا ہے، اور ہمارے بڑوں نے اس طرح کیا ہے، ہم بھی وہی طریقہ اختیار کریں گے۔
بہرحال بدعت تو کہتے ہی اس عمل کو ہیں جو نیک نیتی سے کیا جائے، مگر عمل بذات ِ خود غلط ہو تو وہ قبول نہیں ہوتا۔
الله ﷻ کے ہاں عمل کی قبولیت کے لئے نیک نیتی کے ساتھ ساتھ عمل کا سنت کے مطابق ہونا بھی شرط ہے ورنہ وہ عمل برباد ہے۔ قرآن وحدیث میں جگہ جگہ اس کی صراحت موجود ہے ۔
.
♦جُنید:↓
کیا عید میلادالنبی کا بالکل کوئی ثواب ہی نہیں؟
🔹عبداللہ:↓
بھائی! جب اس کا وجود ہی اسلام میں نہیں تو یہ کارِ ثواب کیسے ہوسکتا ہے؟ یہ تو بدعت ہے، دین میں اضافہ کوئی معمولی جرم نہیں، آپ ثواب کی بات پوچھتے ہیں، قیامت کے دن تو ایسے لوگوں کو حوضِ کوثر سے پانی بھی نصیب نہ ہوگا۔
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم خود ان لوگوں کو قریب نہیں آنے دیں گے ۔
سُنيئے حدیث میں آتا ہے، نبی كريم صلی الله علیہ وسلم کچھ یوں فرماتے ہیں
"قیامت کے روز، میں حوضِ کوثر سے اپنے اُمتیوں کو پانی پلا رہا ہوں گا، میری اُمت کے کچھ لوگوں کو فرشے گھسیٹ کر مجھ سے دور کرہے ہوں گے،(حالانکہ ان کے ہاتھ پاؤں وضو کی وجہ سے چمک رہے ہوں گے) میں پوچھوں گا ان کا کیا قصور ہے؟ انہیں میری طرف آنے دو، یہ میرے اُمتی ہیں، جواب ملے گا:
اے محمد ﷺ! آپ نہیں جانتے کہ آپ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا تبدیلیاں کردی تھیں، یہ سن کر رسول الله ﷺ خود فرمائیں گے:
انہیں لے جاؤ، انہیں دور لے جاؤ، اس لئے کہ ان لوگوں نے میرے بعد میرے دین میں رسم ورواج اور تبدیلیاں کیں"
♦جُنید:↓
واقعی معاملہ تو بڑا خطرناک ہے، آپ نے مجھے یہ حدیث سنا کر بہت زیادہ ڈرا دیا ہے، آپ کی بڑی نوازش کہ آپ نے میرے لئے راہِ حق کی رہنمائی فرمائی۔ ان شاء الله میں اپنے دوست و احباب کی بھی صحیح رہنمائی کروں گا تاکہ وہ تمام بدعات وخرافات سے تائب ہوکر کتاب وسنت پر گامزن رہیں۔
🔹عبداللہ .↓
اللہ تعالیٰ ہم سب کو نیک اعمال کی توفیق بخشے۔
الله ﷻ ہم سب کو حق بات کہنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے.
آمین
No comments:
Post a Comment