========== *نظام ِ جمہوریت* =========
*جمہوری نظام کی تاریخ اور حقائق ۔۔۔ قسط: ①*
================================
اِس وقت دُنیا میں یہ کہا اَور سمجھا جا رہا ہے کہ دُنیا کے مختلف نظاموں کے تجربات کرنے کے بعد آخر میں سیکولرجمہوریت ہی سب سے بہتر نظام ِ حکومت ہے یہاں تک کہا جا رہا ہے کہ اَب اِس سے بہتر نظام ِ حکومت وجود میں نہیں آ سکتا۔
اَبھی حال ہی میں اَمریکہ کی وزارت ِ خارجہ کے ایک بڑے اَفسر کی طرف سے ایک کتاب شائع ہوئی ہے جس کا نام ہے The End Of The History and the Last Man ''تاریخ کا خاتمہ اَور آخری آدمی'' جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تاریخ میں جو اِرتقاء ہوتا رہا ہے اِس کے بعد اَب تاریخ اَپنی اِنتہاء پر جا پہنچی ہے، سیکولر جمہوریت دَریافت کرنے کے بعد اَور لِبرل جمہوریت تیار کرنے کے بعد اَب کوئی اَچھا نظام وجود میں نہیں آسکتا۔
یہ باقاعدہ اِسی طرح کی پیش گوئی ہے جیسے کسی زمانے میں کارل مارکس کہا کرتا تھا کہ اِشتراکی نظام ہی دُنیا کا آخری نظام ہے اَور اِس کے بعد کوئی اَور بہتر نظام وجود میں نہیں آئے گا۔ اِسی طرح سیکولر جمہوریت اَور سرمایہ دَارانہ نظام کے بارے میں بھی یہ بات کہی جا رہی ہے بالخصوص رُوس کی سویت یونین کے سقوط کے بعد یہ دعوے کیے جا رہے ہیں کہ سیاست میں سیکولر جمہوریت اَور معیشت میں سرمایہ دَارانہ نظام کو عملاً ایسی فتح حاصل ہو گئی ہے کہ اَب کوئی دُوسرا نظام اِس کی ہمسری نہیں کر سکتا لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا یہ نظام جس کو جمہوریت کہا جاتا ہے یہ کس قدر پختہ اَور معقول نظام ہے ؟
اِس میں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت کے تحت بعض ایسے اُصول دُنیا میں پھیلے جنہوں نے بحیثیت ِمجموعی فرد کی آزادی کو فائدہ پہنچایا۔ اِس سے پہلے مطلق العنان حکومتیں اَور بادشاہتیں تھیں یا ڈِکٹیٹرشپ تھی اُن میں جو جبرو تشدد ہوتا تھا یا فرد پر جو ناروا پابندیاں عائد ہوتی تھیں اِس نظام میں اُن کا بڑی حدتک خاتمہ ہوا اَور یہ بھی درست ہے کہ لوگوں کے اِظہار ِ رائے پر جو جو قد غن تھی وہ جمہوریت نے دُور کی، علاوہ اَزیں مطلق العنان بادشاہتوں میں جو گھٹن کی فضا ء پائی جاتی تھی اُس کو جمہوریت نے بڑی حد تک رفع کیا ۔
*''جمہوریت''منفی عمل کا منفی ردِّعمل :*
لیکن اگر اِس کے بنیادی تصور کے لحاظ سے دیکھئے تو یہ نظام دَر حقیقت کسی سنجیدہ فکر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ صدیوں کے اُن نظاموں کا ردِ عمل ہے جو خود ساختہ تصورات کے تحت لوگوں پر جابرانہ حکومت کر رہے تھے۔ آپ نے دیکھاہے کہ یورپ کی تاریخ کے بیشتر حصے میں مطلق العنان بادشاہتیں رہیں، اگر کہیں مذہب کا دَرمیان میں ذکر آیا بھی یا مذہب کو بنیاد بنایا گیا بھی تو تھیو کریسی کی اُن خرابیوں کے ساتھ جو میں نے آپ کے سامنے بیان کی ہیں، سلطنت ِ رُوما کی تھیو کریسی میں دَرحقیقت کوئی رُوحانی بنیاد موجود نہیں تھی، محض پوپ کے ذاتی تصورات کو معصوم قرار دے کر اُن کو مذہبی حکم کے طور پر نافذ کیا جاتا تھا اَور اِس سے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے تھے اِس کا ردِ عمل یہ ہوا کہ جمہوریت والوں نے مذہب کا جوا بالکل اُتار پھینکا اَور تصوریہ قائم ہوا کہ حاکمیت اَعلیٰ خود عوام کو حاصل ہے۔
جمہوریت دَر اَصل اَنگریزی لفظ ڈیموکریسی (Democracy) کا ترجمہ ہے جس کے معنی ہیں عوام کی حاکمیت، اِس طرح نظریہ یہ وجود میں آیا کہ عوام خود حاکم ہیں پھر عوام کے خود حاکم ہونے کے تصور کو سیکولراِزم کے ساتھ وابستہ کرنا پڑا جس کا مطلب یہ تھا کہ ریاست کے معاملات میں کسی دین اَور مذہب کی پابندی نہیں ہے۔ مذہب اِنسانوں کا ذاتی معاملہ ہے جو اُن کی اِنفرادی زندگی سے متعلق ہے لیکن سرکار کے معاملات سے اِس کا کوئی سرو کار نہیں ہے۔ کیونکہ عوام جب خود حاکم ہیں اَور کسی دُوسری اَتھارٹی کے پابند نہیں ہیں تو اِس کے مفہوم میں یہ بات داخل ہے کہ وہ حکومت کے معاملات میں کسی اِلٰہی قانون کے بھی پابند نہیں بلکہ وہ خود فیصلہ کریں گے کہ کیا چیز اَچھی اَور کیا چیز بری ہے ؟ لہٰذا آزاد جمہوریت یا لبرل ڈیموکریسی سیکولراِزم کے بغیر نہیں چل سکتی۔
اِس نظریہ کی معقولیت جانچنے کے لیے سب سے پہلے دیکھنے کی بات یہ ہے کہ اَگر ساری عوام حاکم ہیں تو محکوم کون ہے ؟ کیا محکوم زمین ہے یا مُلک کی عمارتیں ہیں یا جمادات یا نباتات ہیں؟ اگر یہ چیزیں محکوم نہیں بن سکتیں تو آخر محکوم کون ہے ؟ یہ عوام جو حاکم ہیںیہ کس پر حکومت کریں گے؟ حاکم ہونے کا لازمی نتیجہ ہے کسی کا محکوم ہونا اَور جب عوام کو حاکم قرار دے دیا تو محکوم کا کوئی وجود ہی نہیں رہا، سب کے سب حاکم ہیں اَور جب سب حاکم ہوں تو یہ اَنارکی ہے۔
جمہوریت کی تعریف میں یہ جملہ مشہور ہے کہ:
Government of the people by the people for the people
'' یہ حکومت ہے عوام کی ، عوام کے ذریعے سے اَور عوام کے لیے ''
اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام خود ہی حاکم ہیں اَور خود ہی محکوم بھی ہیں۔ یہ بات کسی منطق کی رُو سے درست نہیں ہوتی کہ ایک ہی شخص کو حاکم بھی قرار دیا جائے اَور اُسی کو محکوم بھی قرار دیا جائے اَور اُسی کو ذریعہ حکومت بھی قرار دیا جائے لہٰذا عوام کی حاکمیت کا جو بنیادی تصور ہے وہ مفقود ہو گیا۔
اِس اِعتراض کے جواب میں یہ کہا جاتا ہے کہ عوام کی حاکمیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ خود اَپنی مرضی سے اَپنے نمائندے مقرر کر لیتے ہیں پھر وہ نمائندے حاکم بن جاتے ہیں اَور باقی عوام محکوم ہو جاتے ہیں لیکن اَوّل تو اِس نمائندگی کی حقیقت (بالکل بے تکی ہے جس کو) ہم اِن شاء اللہ عنقریب واضح کریں گے) دُوسرے اِس کا مطلب یہ ہوا کہ عوام کی اَکثریت اپنے نمائندے مقرر کرنے کے بعد بے دَست و پا ہوگئی پھر سارا اِختیار اُن گِنے چنے نمائندوں کے پاس چلا گیا اَور عوام کی بھاری اَکثریت اُن کی دَست ِنگربن گئی تو یہ اُن گِنے چنے اَفراد کی حاکمیت ہوئی،جمہوریت اَور عوام کی اَکثریت کی حاکمیت تونہ ہوئی۔
حاکمیت کے معنی خود علمِ سیاست کے ماہرین یہ بیان کرتے ہیں کہ کسی شخص کا کسی دُوسرے کا پابند ہوئے بغیر خود اَپنی مرضی سے حاکمانہ اِختیارات اِستعمال کرنا یا دُوسرے پر اَحکام جاری کر نا۔ خود علم ِ سیاست کی رُو سے یہ حاکمیت کے معنی قرار دیے جاتے ہیں لہٰذا جب یہ کہا جائے کہ عوام حاکم ہیں تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ کسی دُوسری اَتھارٹی کے پابند نہیں ہیں حالانکہ عوام کی اَکثریت اَپنے بنائے ہوئے نمائندوں کی اَتھارٹی کے پابند ہوتے ہیں پھر وہ حاکمیت کہاں رہی ؟
دُوسرے عوام کو بے مہار طریقے پر حاکم ماننے کے بعد سوال یہ پیدا ہوا کہ اِس جمہوری حکومت کا مقصد کیا ہے ، یہ کس مقصد کے تحت وجود میں لائی جائے گی ؟ اِس سوال پر علمِ سیاست کے ماہرین نے گفتگو کی ہے کہ جمہوریت کا کیا مقصد ہے ؟ جب کوئی مقصد سمجھ میں نہیں آیا تو کسی نے عاجز آکر کہا کہ حکومت بذات ِ خود مقصد ہے، یہ ایک تھیوری ہے اَور بعض لوگوں نے کہا کہ اِس حکومت کا مقصد زیادہ سے زیادہ لوگوں کو خوشی فراہم کرنا ہے اَور عوام جو کچھ بھی اَحکام جاری کریں گے خوشی فراہم کرنے کے لیے کریں گے۔ لیکن خوشی تو ایک اِضافی چیز ہے ایک شخص کو ایک کام میں خوشی ہوتی ہے اَور دُوسرے شخص کو دُوسرے کام میں خوشی ہوتی ہے۔ اَب کون سی خوشی کو مقدم رکھا جائے ؟ اِس کا کوئی اِطمینان بخش جواب سوائے اِس کے نہیں ہے کہ جس کام میں اَکثریت کو خوشی حاصل ہو وہی خوشی برحق ہے لیکن ساری عوام کو تو خوشی حاصل نہ ہوئی، اِس کے علاوہ اگر عوام کی اَکثریت کو کسی بد اَخلاقی میں خوشی حاصل ہوجائے تو اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِس بد اَخلاقی کا رواج بھی جمہوریت کے مقاصد میں شامل ہو گیا۔
آخری تھیوری جو سب سے زیادہ مقبول سمجھی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جمہوری حکومت کا مقصد ہے عوام کے حقوق کا تحفظ۔ اَب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عوام کے جن حقوق کا تحفظ مقصود ہے وہ حقوق کون متعین کرے گا ؟
اِس کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ یہ فیصلہ بھی خود عوام ہی کریں گے لیکن عوام کا حال یہ ہے کہ وہ آج ایک چیز کو حق قرار دیتے ہیں اَور کل اُس کے حق ہونے سے منکر ہوجاتے ہیں اِس لیے حقوق کا کوئی مطلق یا دائمی تصور موجود نہیں ہے بلکہ حقوق سارے کے سارے اِضافی ہیں ۔
بہرحال ! جمہوریت کے مبینہ مقاصد میں کہیں بھی آپ یہ نہیں پائیں گے کہ خیر کو پھیلایا جائے گا اَور شر کو روکا جائے گا، اَچھائی کو فروغ دیا جائے گا اَور برائی کو روکا جائے گا۔ یہ اِس لیے نہیں کہتے کہ اَوّل تو اَچھائی اَور برائی کا کوئی اَبدی دائمی معیار اُن کے پاس نہیں ہے کہ فلاں چیز اَچھی اَور فلاں چیز بری ہے بلکہ اَب تازہ ترین فلسفہ یہ ہے کہ خیر اَور شر کوئی چیز نہیں ہے، دُنیا میں ساری چیزیں اِضافی ہیں۔ ایک زمانے میں ایک چیز خیر ہے اَور دُوسرے زمانے میں وہ شر ہے اَور ایک مُلک میں خیر ہے دُوسرے مُلک میں شر ہے، ایک ماحول میں خیر ہے اَور دُوسرے ماحول میں شر ہے، یہ اِضافی چیزیں ہیں اِن کا کوئی اَپنا حقیقی وجود نہیں ہے بلکہ خیر و شر کے پیمانے ماحول کے زیر اَثر متعین ہوتے ہیں۔
اِسی کا نتیجہ ہے کہ جب سے سیکولر جمہوریت کا رواج ہوا ہے اُسی وقت سے مغرب میں اَخلاقی بے راہ روی اَور جنسی بے راہ روِی کا طوفان اُٹھا ہے۔ جب تک جمہوریت وجود میں نہیں آئی تھی بلکہ یا تو بادشاہتیں تھیں یا عیسائی تھیو کریسی تھی تو اُس وقت تک اَخلاقی بے راہ روی کا وہ طوفان نہیں اُٹھا تھا جو جمہوریت کے بر سرِ کار ہونے بعد یورپ میں اُٹھا ہے۔ حالت یہ ہے کہ کوئی بد سے بد تر کام ایسا نہیں ہے جس کو آج آزادی کے نام پر سند ِجواز نہ دی گئی ہو یا کم اَزکم اُس کا مطالبہ نہ کیا جا رہا ہو کیونکہ جمہوریت نہ کسی اَخلاقی قدر کی پابند ہے، نہ کسی کی آسمانی ہدایت سے فیض یاب ہے بلکہ عوام کی اَپنی مرضی اَور خواہش پر سا را دَارو مدار ہے۔
==================> جاری ہے ۔۔۔
{ ماخوذ از: اسلام اور سیاسی نظریات صفحہ ۱۴۴ تا ۱۵۴ }
مؤلفہ جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب
No comments:
Post a Comment