باسمہ سبحانہ تعالیٰ
الجواب وباللّٰہ التوفیق:۱۲؍ ربیع الاول کو عید میلاد النبی منانے کا ثبوت دور صحابہ میں نہیں ملتا ہے اور نہ تابعین ،تبع تابعین اور ائمۂ مجتہدین سے ثابت ہے اور نہ ہی قرآن وحدیث اور فقہ سے اس کا ثبوت ملتا ہے، لہذا بارہ ربیع الاول کی رسم میلاد النبی مناناشریعت سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے بدعت سئیہ ہے، جس کا ترک لازم ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’من أحدث فی أمرنا ہذا ما لیس منہ فہو رد‘‘۔( صحیح مسلم کتاب الاقضیۃ ، باب الاحکام الباطلۃ ورد محدثات الامور ، النسخۃ الہندیۃ ۲/۷۷،بیت الافکار رقم: ۱۷۱۸)
وأما غیر العالم وہو الواضع لہا یعنی البدعۃ فإنہ لا یمکن أن یعتقدہابدعۃ بل ہی عندہ مما یلحق بالمشروعات کقول من جعل یوم الإثنین یصام لأنہ یوم مولد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وجعل الثانی عشرمن ربیع الاول ملحقا بأیام الأعیاد لأنہ علیہ السلام ولد فیہ۔ (الاعتصام ۲/۲۱۴، بحوالہ جواہر الفقہ، زکریا جدید۱/۵۲۳، فتاوی محمودیہ، قدیم ۱۵/۴۲۷، جدید ڈابھیل۳/۱۲۰)فقط واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم
کتبہ: شبیر احمد قاسمی عفا اللہ عنہ
۲۵؍۵؍۱۴۱۵ھ
(الف فتویٰ نمبر:۳۱/۴۰۲۵)
الجواب صحیح :
احقر محمد سلمان منصور پوری
۲۵؍۵؍۱۴۱۵ھ
فتاوی قاسمیہ جلد 2۔صفحہ: 459
- مؤلف : حضرت مولانا مفتی شبیر احمد القاسمی صاحب
- ناشر : مکتبہ اشرفیہ دیوبند الھند
No comments:
Post a Comment