Friday, 24 November 2017

Nizam e jamhuriat نظام جمہوریت قسط 3

=== *نظام جمہوریت ۔۔ قسط③* ===

*جمہوریت اَور بیوی کا تبادلہ :* 
====================

ایک اَور تنظیم چلی ہے جو Swap Union کہلاتی ہے اِس کا معنی ''تبادلہ'' ہے اَور اِس سے مراد بیویوں کا تبادلہ ہوتا ہے اَور اِس کے کلب قائم ہیں۔چونکہ اَبھی تک یہ قانون نافذ ہے کہ غیرشادی شدہ عورت کو اِجازت ہے کہ وہ جو چاہے کرے لیکن ایک شادی شدہ عورت کسی دُوسرے مرد کے ساتھ زِنا نہیں کر سکتی کیونکہ اِس سے شوہر کا حق پامال ہوتا ہے لیکن Swap Union کی تنظیم کی طرف سے اَب یہ آواز اُٹھ رہی ہے کہ یہ پابندی ختم ہو نی چاہیے، اَب شادی شدہ عورت کو بھی اِجازت ملنی چاہیے کہ وہ جو چاہے کرے۔

*جمہوریت اَور ناجائز بچے :* 
================== 

اَور اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ اِس وقت یورپ اَور اَمریکہ کی بہت سی ریاستوں میں لوگوں کی اَکثریت یا کم اَز کم بہت بڑی تعداد غیر ثابت النسب ہے، بعض ریاستوں کے اعداد و شمار شائع ہو چکے ہیں اَور بعض کے نہیں ہوئے ہیں۔ اَبھی کچھ عرصے قبل Time رسالے میں ایک مضمون آیا تھا کہ اَمریکہ میں غیر ثابت النسب اَفراد کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ اَفسوس اِس بات کا نہیں تھا کہ یہ کیسی قوم پیدا ہورہی ہے جو ثابت النسب نہیں ہے ،اِس بات پر اَخلاقی اِعتبار سے کوئی تشویش نہیں تھی، تشویش صرف یہ تھی کہ جو بچے غیرثابت النسب ہوئے ہیں اُن کا معاشی طور پر دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہوتا اَور اِس سے معاشی مسائل پیدا ہو رہے ہیں ۔ معاشی مسائل کی وجہ سے یہ مسئلہ قابلِ غور تھا، فی نفسہ غیراَخلاقی ہونے کی وجہ سے نہیں ۔

اَور اَب عورتوں نے یہ مطالبہ شروع کردیا ہے اَور بعض ریاستوں میں منظوری بھی ہوگئی ہے کہ اِسقاط ِ حمل کی قانونی اِجازت ہونی چاہیے اَور اِس کے حق میں بہت بڑی فضا بن رہی ہے، جس رفتار سے یہ بات چل رہی ہے اِس سے اَندازہ یہی ہے کہ اِسقاط ِ حمل کی اِجازت ہوجائے گی۔

ایک زمانہ تھا کہ عریانی قانونًا منع تھی لیکن اَب رفتہ رفتہ ساری قیدیں ختم ہو گئی ہیں اَب کوئی قید برقرار نہیں ہے اِس وقت عریاں فلموں اَور تصاویر کا جو سیلاب ہے وہ ہمارے مُلک میں بھی آرہا ہے،اُٹھتا وہاں سے ہے اَور پہنچتا یہاں بھی ہے، اِس کے اُوپر کوئی روک عائد نہیں ہوتی۔ وجہ یہ ہے کہ کوئی بنیاد نہیں ہے جس کی بناء پر روکا جائے کیونکہ جب عوام کی حاکمیت ٹھہری اَور وہ اِس کو پسند کرتے ہیں تو اِسے ناجائز کہنے کی کوئی معقول دلیل نہیں ہے۔ غرض کوئی بد سے بد تر کام ایسا نہیں ہے جو جمہوریت کے سائے میںجائز قرار نہ دیا جا رہا ہو۔ 

*جمہوریت اَور خاندانی نظام، ایڈز کی وباء :* 
=============================

اِس کا ایک نتیجہ یہ ہے کہ خاندانی نظام تباہ ہو چکا ہے یعنی خاندان کے جو رشتے ہوتے ہیں کہ یہ شوہر ہے، یہ بیوی ہے، یہ باپ ہے، یہ اَولاد ہے، اُن کے باہمی رِشتے ختم ہو چکے ہیں۔ حد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عذاب کے طورپر'' ایڈز'' کی بیماری مسلط کردی ہے۔ یہ بیماری پیدا کیسے ہوئی ؟ اِس بات پر سب کا اِتفاق ہے کہ یہ بیماری دو چیزوں سے پیدا ہوئی ہے، ایک ہم جنس پرستی، دُوسرے ایک شخص کا کئی عورتوں سے یا ایک عورت کا کئی مردوں سے جنسی تعلق قائم کرنا۔

لیکن بیماری کے نتیجے میں بجائے اِس کے کہ فحاشی میں کمی آتی اَور عفت و عصمت کی طرف لوگوں کا رُجحان ہوتا، فحاشی میں اَور اِضافہ ہو گیا اِس لیے کہ ایڈز کی بیماری کو روکنے کے لیے یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ ناجائز جنسی تعلقات قائم نہ کرو۔ لہٰذا یہ کہتے ہیں کہ اِن حفاظتی تدابیر کے ساتھ جنسی تعلقات قائم کرو اَور اِن تدابیر کے لیے باقاعدہ تعلیمی کورس منعقد ہوتے ہیں، ٹیلویژن پر عملی تربیت دی جاتی ہے کوئی تعلیم گاہ ایسی نہیں ہے جس میں جنسی تعلیم کا اِنتظام نہ کیا گیا ہو، بات کہتے ہوئے بھی حجاب معلوم ہوتا ہے لیکن حقیقت ِ حال بتانے کے لیے عرض کر دیتا ہو ں کہ یونیورسٹی اَور کالجوں میں جہاں غیر شادی شدہ لڑکے اَور لڑکیاں پڑھتے ہیں وہاں ایڈز کی روک تھام کے لیے یہ اِنتظام کیا گیا ہے کہ ہر یونیورسٹی کے غسل خانہ میں وہ خود کار مشینیں لگائی ہوئی ہیں جن کے اَندر پیسے ڈال کر'' کنڈوم'' نکل آتا ہے تاکہ بوقت ِ ضرورت ہر آدمی وہ کنڈوم اِستعمال کر سکے۔ اِس طرح جو بیماری دَر حقیقت اِس جنسی بے راہ روی سے پیدا ہوئی تھی اُس کی روک تھام کی جو تدابیر اِختیار کی گئیں اُن سے جنسی بے راہ روی کو اَور فروغ مِلا غرض کوئی اَخلاقی قدرسالم نہیں رہی۔

==================> جاری ہے ۔۔۔ 

{ ماخوذ از: اسلام اور سیاسی نظریات صفحہ ۱۴۴ تا ۱۵۴ }
 مؤلفہ جسٹس (ر) مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...