Friday, 24 November 2017

Rafa Yadain نماز میں مسلہ رفع یدین، تکبیر تحریمہ

نَحْمَدُہٗ وَنُصَلِّی عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْمِ أمَّا بَعْد! تکبیر تحریمہ کے وقت رفع یدین کرنا سب کے نزدیک جائز اور مسنون ہے، اختلاف اس بارے میں ہے کہ بوقت تکبیرِ رکوع وتکبیر سجود وتکبیرِ قیام، رفعِ یدین مشروع ہے یانہیں؟ تو ثبوت اور عدم ثبوت دونوں طرف کی روایات احادیث شریفہ میں موجود ہیں، اسی وجہ سے ائمہ مجتہدین اور سلف صالحین کےدرمیان اختلاف واقع ہوا ہے، چنانچہ ایک جماعت تکبیراتِ انتقالیہ کے وقت رفع یدین کو مسنون کہتی ہے۔ اور دوسری جماعت عدم ثبوت کی روایات کی وجہ سے مسنون نہیں کہتی۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتی ہے کہ دونوں قسم کی روایات میں غور کرنے کے بعد یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل شروع شروع میں رفعِ یدین کا رہا ہے، دونوں قسم کی روایات صحیح ہیں مگر رفع یدین کی روایات منسوخ ہیں، اور رفع یدین نہ کرنے کی روایات ناسخ ہیں، اب ہم آپ کے سامنے اولاً دونوں قسم کی روایات پیش کرتے ہیں، اس کے بعد ان روایات کا جائزہ بھی آپ کے سامنے انشاء اللہ پیش کرںنگے۔

عدم رفع یدین کی روایات
رفع یدین کی ممانعت یا اس کی روایات کے منسوخ ہونے سے متعلق دس (۱۰) روایات پیش کی جارہی ہیں، انشاء اللہ ان روایات کے پڑھنے کے بعد ناظرین کو معلوم ہوجائے گا کہ بوقتِ تکبیراتِ انتقالیہ رفع یدین مسنون نہیں ہے۔
(۱) حدّثنا اسحاق، حدثنا ابن إدریس قال: سمعت یز ید بن أبي زیاد عن ابن أبي لیلی عن البراء قال: رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدیہ حین استقبل الصلاۃ، حتی رأیت إبہامیہ قریبًا من أذنیہ ثم لم یرفعہما۔ (مسند أبی یعلی الموصلي ۲/ ۱۵۳، حدیث: ۱۶۸۸، طحاوي شریف ۱/ ۱۳۲، جدید برقم: ۱۳۱۳، أبوداؤد ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۹)
حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کو اٹھایا جس وقت نماز شروع فرمائی تھی، حتی کہ میں نے دیکھا کہ دونوں ہاتھوں کے انگوٹھوں کو دونوں کانوں کے قریب پہنچایا، اس کے بعد پھر اخیر نماز تک دونوں ہاتھوں کو نہیں اٹھایا۔
(۲) عن عقلمۃ عن عبد اللہ بن مسعودؓ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم أنہ کان یرفع یدیہ فی أوّل تکبیرۃ ثم لا یعود۔ (طحاوی شریف ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، رقم: ۱۳۱۶)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت فرماتے ہیں کہ آپ صرف شروع کی تکبیر میں دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے، پھر اس کے بعد اخیر نماز تک نہیں اٹھاتے تھے۔
(۳) عن المغیرۃ قال: قلت لابراہیم: حدیث وائل أنہ رأی النبی صلی اللہ علیہ وسلم یرفع یدیہ إذا افتتح الصلاۃ وإذا رکع وإذا رفع رأسہ من الرکوع، فقال:إن کان وائل رآہ مرّۃ یفعل ذلک فقد رآہ عبد اللہ خمسین مرّۃ لایفعل ذلک۔ (طحاوی شریف ۱/ ۱۳۲، جدید ۱/ ۲۹۰، برقم: ۱۳۱۸)
حضرت مغیرہؒ نے حضرت امام ابراہیم نخعیؒ سے حضرت وائل ابن حجرؒ کی حدیث ذکر فرمائی کہ حضرت وائل بن حجرؒ سے مروی ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے جب نماز شروع فرماتے اور جب رکوع میں جاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اس پر ابراہیم نخعیؒ نے مغیرہ سے کہا کہ اگر وائل بن حجرؓ نے حضور ﷺ کو اس طرح رفع یدین کرتے ہوئے ایک مرتبہ دیکھا ہے تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے حضور کو پچاس مرتبہ رفع یدین نہ کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
(۴) عن جابر بن سمرۃ قال: خرج علینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال: مالی أراکم رافعی أیدیکم کأنھا أذناب خیل شمس اسکنوا في الصلاۃ۔ (مسلم شریف ۱/ ۱۸۱،
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری طرف تشریف لاکر فرمایا کہ مجھے کیا ہوگیا کہ میں تم لوگوں کو نماز کے اندر اپنے دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے ہوئے دیکھتا ہوں، گویا کہ ایسا لگتا ہے جیسا کہ بے چینی میں اونٹ اپنی دم کو جدید برقم: ۴۳۰، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۴۳، جدید برقم: ۱۰۰۰، نسائي شریف، مطبوعہ أشرفی ۱/ ۱۳۳ برقم: ۱۱۸۵)
اوپر اٹھا اٹھا کر ہلاتے ہیں، تم نماز کے اندر ایسا ہرگز مت کیا کرو، نماز میں سکون اختیار کرو۔
(۵) عن علقمۃ قال: قال عبد اللہ بن مسعودؓ ألا أصلي بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فصلی فلم یرفع یدیہ إلا فی أول مرۃ۔ (ترمذي شریف ۱/ ۵۹، جدید برقم: ۲۵۷، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ فرماتے ہیں کہ تم آگاہ ہوجاؤ بے شک میں تم کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھاکر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھائی اور اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف اول تکبیر میں اٹھایا پھر پوری نماز میں نہیں اٹھایا۔
(۶) عن علقمۃ قال: قال عبد اللہ بن مسعودؓ ألاَ أصلّي بکم صلاۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: فصلی فلم یرفع یدیہ إلا مرۃ واحدۃ۔ (نسائي قدیم ۱/ ۱۲۰، جدید رقم: ۱۰۵۹، أبوداؤد قدیم ۱/ ۱۰۹، جدید برقم: ۷۴۸، ترمذي قدیم ۱/ ۵۹، جدید رقم: ۲۵۷)
حضرت علقمہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ آگاہ ہوجاؤ! میں تمہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نمازپڑھ کر دکھاتا ہوں، یہ کہہ کر نماز پڑھی تو اپنے دونوں ہاتھوں کو صرف ایک مرتبہ اٹھایا پھر نہیں اٹھایا۔
قال أبو عیسیٰ حدیث ابن مسعود حدیث حسن، وبہ یقول غیر واحد من أہل العلم من أصحاب النبي والتابعین،وہو قول سفیان وأہل الکوفۃ۔ 
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہا ہے، اور صحابہ تابعین تبع تابعین اور بے شمار محدثین اور علماء نے اس حدیث شریف کو اختیار فرمایا، اور یہی امام سفیان ثوری اور اہل کوفہ نے کہا
(ترمذي شریف ۱/ ۵۹، أبوداؤد شریف ۱/ ۱۰۹، وصححہ ابن جزم، بذل المجہود مطبع لکھنؤ ۴/ ۴۱۱، مطبع سہارن فور ۲/ ۵)
ہے۔ اور علامہ ابن حزم ظاہری نے اس حدیث شریف کو صحیح قرار دیا ہے۔
(۷) عن علقمۃ عن عبد اللہ ابن مسعودؓ قال: صلیت خلف النبي صلی اللہ علیہ وسلم، وأبي بکر وعمرفلم یرفعوا أیدیہم إلا عند افتتاح الصلاۃ۔ (السنن الکبری للبیہقي ۲/ ۸۰، ۲/ ۷۹، نسخۂ جدید دارالفکر بیروت ۲/ ۳۹۳ برقم: ۲۵۸۶)
حضرت علقمہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے نقل فرماتے ہیں کہ ابن مسعودؓ نے فرمایا میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اور حضرت ابوبکرؓ وعمرؓ کے پیچھے نماز پڑھی ہے ان میں سے کسی نے اپنے ہاتھوں کو تکبیر تحریمہ کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھایا۔
(۸) عن إبراہیم عن الأسود قال: رأیت عمر بن الخطاب یرفع یدیہ في أول تکبیرۃ، ثم لایعود، قال: ورأیت إبراہیم والشعبی یفعلان ذلک۔ (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۴ برقم: ۱۳۲۹)
امام نخعیؒ اسود بن یزیدؒ سے نقل فرماتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن خطابؓ کو دیکھا کہ وہ نماز میں صرف شروع کی تکبیر میں ہاتھ اٹھاتے تھے اس کے بعد کسی میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے، اور دیکھنے میں آیا کہ ابراہیم اور عامر شعبی بھی ایسا ہی کیا کرتے تھے۔
(۹) عن عاصم بن کلیب الجرمي عن أبیہ قال: رأیت علی بن أبي طالب رفع یدیہ في التکبیرۃ الأولی من الصلاۃالمکتوبۃ ولم یرفعہما فیما سوی ذلک۔ 
عاصم بن کلیب اپنے والد کلب جرمی سے نقل فرماتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ میں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ فرض نماز میں صرف تکبیر تحریمہ میں ہاتھ اٹھاتے تھے،
(مؤطا إمام محمد/ ۹۲)
اور اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں ہاتھ نہیں اٹھاتے تھے۔
(۱۰) عن مجاہد قال: صلّیت خلف ابن عمر فلم یکن یرفع یدیہ إلا في التکبیرۃ الأولی من الصلاۃ، فہذا ابن عمر قد رأی النبي صلی اللہ علیہ وسلم یرفع، ثمَّ قد ترک ہو الرفع بعد النبي صلی اللہ علیہ وسلم فلا یکون ذلک إلا وقد ثبت عندہ نسخ ما قدرأی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فعلہ وقامت الحجۃ علیہ بذلک۔ (طحاوي شریف ۱/ ۱۳۳، جدید ۱/ ۲۹۲ برقم: ۱۳۲۳)
حضرت امام مجاہدؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو وہ دونوں ہاتھوں کو نماز کی صرف پہلی تکبیر میں اٹھاتے تھے، اس کے علاوہ کسی اور تکبیر میں نہیں اٹھاتے تھے، تو یہ حضرت ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ہاتھ اٹھاتے ہوئے دیکھا اور پھر انہوں نے خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے بعد ہاتھ اٹھانا ترک کردیا، اور ان کا ہاتھ اٹھانا ترک کرنا ہو نہیں سکتا، الاّ یہ کہ ان کے نزدیک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع یدین کا عمل یقینا منسوخ ہوچکا ہے، اور ان کے نزدیک رفع یدین کے منسوخ ہونے پر حجت قائم ہوچکی ہے۔

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...