kia taviz ka galy ma phan na jaiz hai
… جائز کام کے لئے تعویذ جائز ہے اور ناجائز کام کے لئے ناجائز۔ ناجائز تعویذ کرنے اور کرانے والے دونوں برابر کے گناہ گار ہیں۔
دم اور تعویذ شرک نہیں بلکہ جائز ہیں اور اسی پر اجماع ہے۔ البتہ دم اورتعویذ کے لئے تین شرطوں کا تحقق لازمی ہے‘ اگر وہ تین شرطیں مفقود ہوجائیں تو پھر اس کے عدم جواز میں کوئی شک و شبہ نہیں مطلقاً دم اور تعویذ کو شرک کہنا غلط ہے۔ وہ شرائط یہ ہیں:
۱…تعویذات اللہ کے کلام یعنی قرآن کریم سے ہوں یا اللہ کے اسماء و صفات سے ہوں۔
۲…عربی زبان میں ہوں اور اگر کسی عجمی زبان میں ہوں تو اسکے الفاظ کے معانی معلوم ہوں۔
۳…دم کرنے اور کرانے والا دونوں یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ دم اور تعویذ میں بذاتہ کوئی تاثیر نہیں بلکہ مؤثرحقیقی صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ یہ دم اور تعویذ صرف سبب اور ذریعہ ہیں۔
جیسا کہ ’’فتح الباری ‘‘میں ہے:
’’وقد اجمع العلماء علی جواز الرقی عند اجتماع ثلاثۃ شروط: ان یکون بکلام اللّٰہ تعالیٰ، اوباسمائہ وصفاتہ وباللسان العربی او بما یعرف معناہ من غیرہ، وان یعتقد ان الرقیۃ لا توثر بذاتھا بل بذات اللہ تعالیٰ……‘‘ الخ۔(۱)
اور مسلم شریف میں ہے کہ جس دم اور تعویذ میں شرک نہ ہو وہ جائز ہے اس میں ممانعت نہیں۔ جیسا کہ فرماتے ہیں:
’’لابأس بالرقی مالم یکن فیہ شرک…‘‘(۲)
مذکورہ شرائط کے ساتھ دم اور تعویذ کے جواز پر چاروں ائمہ متفق ہیں، جیسا کہ ’’کتاب الاثار ‘‘میں ہے:
’’قال محمد: وبہ نأخذ إذا کان من ذکر اﷲ أو من کتاب اﷲ وھو قول أبی حنیفۃ ‘‘(۳)
اور بخاری کے حاشیہ میں ہے:
’’فیہ جواز الرقیۃ وبہ قالت الائمۃ الاربعۃ وفیہ جواز اخذ الاجرۃ‘‘…الخ(۴)
ـــــــــ
(۱)فتح الباری شرح صحیح البخاری -کتاب الطب -باب الرقی -۱۰؍۱۹۵- رقم الحدیث:۵۷۳۵- رقم الباب:۳۲-ط: رئاسۃ ادارات البحوث العلمیۃ بالمملکۃ السعودیہ ۔
(۲)الصحیح لمسلم -کتاب السلام -باب استحباب الرقیۃ من العین والنملۃ -۲؍۲۲۴-ط:قدیمی کراچی الطبعۃ الثانیہ ۱۳۷۵ھ بمطابق ۱۹۵۶ء۔
(۳) کتاب الاثار للإمام الأعظم أبی حنیفۃ نعمان بن ثابت -کتاب الحظر والاباحۃ-باب الرقیۃ من العین والاکتواء -رقم الحدیث:۸۸۹-ص:۳۷۶-۳۷۷،ط: الرحیم اکیڈمی بار اول ۱۴۱۰ھ۔وکذا فی مؤطا امام محمد ص: ۳۷۳،باب الرقی ،ابواب السیر ،ط: میر محمد کراچی۔۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء۔
(۴)حاشیۃ البخاری لأحمد علی السھارنفوری-کتاب الاجارۃ-باب یعطی فی الرقیۃ-۱؍۳۰۴-حاشیۃ:۸،ط: قدیمی کراچی،الطبعۃ الثانیہ ۱۳۸۱ھ بمطابق ۱۹۶۱ء۔
متعدد اسلافؒ سے دم کرنا اور تعویذ لکھنا ثابت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمروؓ کا تعویذ لکھ کر دینا ثابت ہے۔(۱)
حضرت عبد اﷲ بن عباسؓ بچے کی پیدائش کے لئے دو آیات قرآنی لکھ کر دیتے تھے ملاحظہ ہومصنف ابن ابی شیبہ۔ غرضیکہ مذکورہ شروط پائے جانے کے وقت جائز دم اور جائز تعویذ جائز ہے، جیسے جائز علاج جائز ہے اور ناجائز علاج ناجائز ہے۔
جب یہ بات واضح ہوگئی کہ تعویذات وغیرہ بطور علاج کے لٹکائے جاتے ہیں، تو ظاہر سی بات ہے انسان کے جس حصہ اور عضو میں تکلیف ہوگی اسی حصہ اور عضو میں وہ تعویذ بطور علاج و دوا کے باندھا جائیگا، اور اس طرح باندھنا جائز ہے، اور یہی تعویذ وغیرہ اگر کپڑے یا چمڑے میں لپٹاہوا ہو تو اسے ناف‘ران‘اور جسم کے کسی بھی دوسرے حصے میں باندھنے سے اسکی اہانت نہیں ہوتی جیسا کہ انسان کے جسم کے کسی بھی حصے میں اگر درد ہوا اور اس پر کچھ پڑھ کر پھونک دینے سے اسکی اہانت نہیں ہوتی، تو اسی طرح قرآنی آیات کو اگر بطور علاج کے باندھا جائے تو اسکی اہانت نہیں ہوگی۔ البتہ کپڑے یا چمڑے میں لپیٹے بغیر تعویذ کو ران
وغیرہ کے قریب باندھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ اس صورت میں قرآن کریم کی اہانت لازم آتی ہے۔ جیسا کہ ’’فتاوی شامی ‘‘میں ہے: ’’ولا بأس بان یشد الجنب والحائض التعاویذ علی العضد إذا کانت ملفوفۃ‘‘
No comments:
Post a Comment