Wednesday, 13 December 2017

فتنہ محمد شیخ حصہ دوم

شیخ محمد ۔ ایک تجزیہ
(حصہ دوئم)

تحریر : محمّد سلیم

شیخ صاحب کے مطابق امّی کا مطلب ان پڑھ نہیں ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ام کا مطلب ماں اور امی کا مطلب ماں والا ۔ پھر کہتے ہیں ماں والا نبی کون ہے ؟ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ۔
لہٰذا اپنی اس منطقی دلیل سے انہوں نے امّی حضرت عیسیٰ کو قرار دے ڈالا ۔
پہلے تو شیخ صاحب کی غلط فہمی دور کر دوں کہ امّ کا مطلب بے شک ماں ہی ہوتا ہے ۔ مگر امّی کی اصطلاح عرب میں ہمیشہ ان پڑھ کے لیئے استعمال ہوتی ہے اور ایسا اس لیئے نہیں کہ اس نے اپنی ماں کے سوا کسی سے تعلیم حاصل نہیں کی ۔ جیسا کہ انہوں نے ویڈیو میں بونگی مار دی کہ ماں کے سوا کسی سے نہیں پڑھا لہٰذا امّی ۔
امّی کا مطلب جیسے ماں کے پیٹ سے بچہ پیدا ہوتا ہے تو وہ لکھنا پڑھنا نہیں جانتا ۔ بعد میں سیکھتا ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ میں ایک منٹ کے لیئے ان کی منطق مان لوں کہ ماں والا نبی کون ہے ؟
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؟
وہ کیسے جناب ؟
باقی انبیاء کی مائیں نہیں تھیں کیا ؟
ایک ہی نبی آدم علیہ السلام تھے جن کی ماں نہیں تھی ۔ ان کو بھی منکرینِ حدیث میں سرے سے پیغمبر ہی نہیں مانا جاتا کہ قران میں ان کو براہ راست نبی نہیں کہا گیا ۔ ان کو نکال دیں تو کوئی نبی نہیں بچتا جو ماں والا نہ ہو ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش بغیر باپ کے ایک معجزہ تھی تو وہ ماں والے نبی ہو گئے ؟
پہلی بات تو یہ ہے کہ امّی کی اصطلاح عرب معاشرے میں کبھی بھی بطور ماں والا استعمال نہیں ہوئی ۔ نہ ہی اس کا ہونا منطقی ہے ۔
امّی کی اصطلاح بطور ماں والا استعمال کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ دنیا میں بعض بچے ماں پیٹ سے پیدا ہوتے ہوں اور بعض انڈے میں سے نکلتے ہوں ۔
سب کو پتہ ہے کہ ہر بچہ ظاہر ہے ماں کے پیٹ سے ہی پیدا ہوتا ہے تو اس کے لیئے کوئی خاص اصطلاح مروج کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئے ؟ یا تو ایسا ہو کہ بعض ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتے ہوں اور بعض انڈے میں سے نکلتے ہوں تو ہم کہیں کہ فلاں امّی ہے اور فلاں شیخ صاحب انڈے میں سے نکلے تھے ۔
جب سارے ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوں تو پھر امّی کا کیا مطلب ؟
حد کر دی ۔
بہرحال آپ نے کہا کہ میں جو ترجمہ کرتا ہوں اس کو قران میں ہر جگہ فٹ کر کے دیکھتا ہوں پھر جب وہ فٹ ہو جائے تب اس کو لیتا ہوں ۔
پڑھیں قران میں پڑھاتا ہوں ۔
سورہ البقرہ 178
وَمِنْـهُـمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتَابَ اِلَّا اَمَانِىَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (78)
اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں جو کتاب نہیں جانتے، سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور وہ محض اٹکل پچو باتیں بناتے ہیں۔

اس آیت پر فٹ کر کے دیکھا تھا اپنا ماؤں والا ترجمہ ؟
ذرا کر کے دکھائیں مجھے ۔
یہاں جمع کا صیغہ ہے ۔ یعنی امیّون ۔ ماؤں والے بہت سارے لوگ ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر امّی تھے یعنی ماں والے نبی تو اب یہاں امیّون کون ہیں ؟
ماؤں والے بہت سارے نبی ؟ اور ﷲ کہے کہ ان کو کتاب کا علم نہیں ؟
نبیوں کو ہی کتاب کا علم نہیں تے ہور توانوں اے ؟

سورہ آل عمران آیت 20
فَاِنْ حَآجُّوْكَ فَقُلْ اَسْلَمْتُ وَجْهِىَ لِلّـٰهِ وَمَنِ اتَّبَعَنِ ۗ وَقُلْ لِّلَّـذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتَابَ وَالْاُمِّيِّيْنَ ءَاَسْلَمْتُـمْ ۚ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اهْتَدَوْا ۖ وَّاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ ۗ وَاللّـٰهُ بَصِيْـرٌ بِالْعِبَادِ (20)
پھر بھی اگر تجھ سے جھگڑیں تو ان سے کہہ دے کہ میں نے اپنا منہ اللہ کے حکم کے تابع کیا ہے اور ان لوگوں نے بھی جو میرے ساتھ ہیں، اور ان لوگوں سے کہہ دے جنہیں کتاب دی گئی ہے اور ان پڑھوں سے کیا تم بھی تابع ہوتے ہو، پھر اگر وہ تابع ہو گئے تو انہوں نے بھی سیدھی راہ پالی، اور اگر وہ منہ پھیریں تو تیرے ذمہ فقط پہنچا دینا ہے، اور اللہ بندوں کو خوب دیکھنے والا ہے۔

اس آیت پر فٹ کر کے دیکھا تھا ماؤں والا ترجمہ ؟
یہاں امیین کا لفظ ہے ۔
کریں فٹ ۔ کیسے کریں گے ؟

ایک وضاحت مفتی صاحب کو بھی کرتا چلوں کہ نبی صلی ﷲ علیہ وسلم تاحیات امّی ہی رہے تھے ۔ یعنی یہ عقیدہ رکھنا کہ نبوت سے پہلے امّی تھے بعد میں علم آگیا سے مراد کیا ہے ؟ ایک شخص ان پڑھ رہتے ہوئے بھی دنیا کا سب سے بڑا عالم ہو سکتا ہے ۔ اس پر مفتی صاحب کو بھی اصلاح کی ضرورت ہے ۔ مشرکین مکہ سے معاہدے کے دوران مشرکین نے اعتراض کر دیا تھا کہ معاہدے میں "محمد رسول ﷲ" لکھا ہے ۔ جب ہم آپ کو رسول نہیں مانتے تو اس کو مٹایا جائے جس پر آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے کہا کہ محمد کے آگے سے لفظ رسول ﷲ مٹا دو ۔ حضرت علی اس سے عاجز ہو گئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا جہاں رسول ﷲ لکھا ہے وہاں نشاندہی کرو ۔ حضرت علی رض نے نشاندہی کی تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے خود مٹایا ۔ یہ نبوت کے بعد کا ہی واقعہ ہے تبھی تو محمد رسول ﷲ لکھا تھا معاہدے پر ۔
آگے چلیں ۔
شیخ موصوف قران کو اکلوتی آسمانی کتاب سمجھتے ہیں جس کے ثبوت قران ہی سے پیش کرتے ہیں ۔

سورہ الاحقاف ۔ آیت 4
قُلْ اَرَاَيْتُـمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ اَرُوْنِىْ مَاذَا خَلَقُوْا مِنَ الْاَرْضِ اَمْ لَـهُـمْ شِرْكٌ فِى السَّمَاوَاتِ ۖ اِيْتُوْنِىْ بِكِـتَابٍ مِّنْ قَبْلِ هٰذَآ اَوْ اَثَارَةٍ مِّنْ عِلْمٍ اِنْ كُنْـتُـمْ صَادِقِيْنَ (4)
کہہ دو بھلا بتاؤ تو سہی جنہیں تم اللہ کے سوا پکارتے ہو مجھے دکھاؤ کہ انہوں نے زمین میں کون سی چیز پیدا کی ہے یا آسمانوں میں ان کا کوئی حصہ ہے، میرے پاس اس سے پہلے کی کوئی کتاب لاؤ یا کوئی علم چلا آتا ہو وہ لاؤ اگر تم سچے ہو۔

اس آیت سے شیخ صاحب نے مراد لی کہ قران سے پہلے کوئی کتاب نازل ہی نہیں ہوئی ۔
حالانکہ واضح طور پر یہاں کتابوں کی اصل صورت کا انکار ہو رہا ہے ناکہ کتاب کے نزول کا ۔ ورنہ غور کر لیں اسی آیت میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم نے زمین پر کون سی چیز تخلیق کی ہے ۔ اب اگر اس کے جواب میں کوئی اپنی ایجادات آگے رکھ دے تو یہی کہا جائے گا کہ خدا کی تخلیقات کی بات ہو رہی ہے ناکہ ایجادات کی ۔ اسی طرح یہاں بھی آسمانی کتابوں کی بات ہو رہی ہے ناکہ تحریف شدہ بائبل کا ۔
اب یہاں ان کے عجیب و غریب عقائد سامنے آتے ہیں ۔
پہلی بات وہ یہ کرتے ہیں کہ قران اس دنیا میں انسانوں پر نازل ہونے والی اکلوتی کتاب ہے ۔
دوسری بات وہ یہ کرتے ہیں کہ ہر نبی پہلے عربی میں آیات پڑھتا تھا پھر اپنی زبان میں لوگوں کو سمجھاتا تھا ۔
سبحان ﷲ ۔
اب یہاں سب سے پہلا سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر صرف ایک قران ہی نازل ہوا اور کوئی کتاب نازل نہیں ہوئی تو یہ نزول کس پر ہوا ؟
شیخ صاحب کہتے ہیں ہر ایک پر نزول ہوتا ہے ۔ یہ محض ایک بیان ہے جس کے پیچھے نہ تو کوئی آیت ہے نہ منطق ۔ یعنی یہ ممکنات میں سے نہیں ہے کہ ہر نبی پر یا ہر شخص پر نزول ہو ۔
ظاہر ہے اگر قران حضرت محمد صلی ﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوا تو پہلے موجود نہیں تھا ۔ اگر پہلے موجود ہونا تسلیم کیا جائے تو بعد میں کیا نازل ہوا ۔ لہٰذا یہ احمقانہ فلسفہ ہے جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر ۔
پھر مزید یہ کہ یہ توارہ کو قانون کہتے ہیں اور اسے بھی قران ہی قرار دیتے ہیں ۔
قران میں ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں ۔

سورہ آل عمران آیت 65
يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِـىٓ اِبْـرَاهِـيْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْ بَعْدِهٖ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (65)
اے اہلِ کتاب! ابراھیم کے معاملہ میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں، کیا تم یہ نہیں سمجھتے۔

اب یہاں اہل کتاب کو بتایا جا رہا ہے کہ توراہ ابراہیم علیہ السلام کے بعد نازل ہوئی تھی ۔
لو ہون دسو ۔
اگر توراہ سے مراد قران کی ہی ایک دوسری صفت ہے جس کو قانون کہا گیا تو اس کا مطلب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دور میں یہ تھا ہی نہیں ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور باقی انبیاء کی دعائیں ظاہر ہے ان کی زبان میں تھیں جو قران میں عربی میں درج کی گئیں ۔
اب یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ عربی زبان والے قران میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ربنا الغفرلی والی عبرانی زبان میں قران میں لکھ دی جاتی ۔
وَاِذْ اٰتَيْنَا مُوْسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ (53)
اورجب ہم نے موسیٰ کو کتاب اورقانون فیصل دیا تاکہ تم ہدایت پاؤ۔
اب یہ کون سی کتاب ہے جو موسیٰ علیہ السلام کو دی ؟
اگر قران تھی تو پہلے ظاہر ہے موجود نہیں تھی ۔
یہ فلسفہ ہی احمقانہ ہے ۔

سورہ الاحقاف آیت 12
وَمِنْ قَبْلِـهٖ كِتَابُ مُوْسٰٓى اِمَامًا وَّرَحْـمَـةً ۚ وَهٰذَا كِتَابٌ مُّصَدِّقٌ لِّسَانًا عَرَبِيًّا لِّيُنْذِرَ الَّـذِيْنَ ظَلَمُوْاۖ وَبُشْرٰى لِلْمُحْسِنِيْنَ (12)
اور اس سے پہلے موسٰی کی کتاب ہے جو رہنما اور رحمت تھی، اور یہ کتاب ہے جو اسے سچا کرتی ہے عربی زبان میں ظالموں کو ڈرانے کے لیے، اور نیکوں کو خوشخبری دینے کے لیے۔

اب یہاں بالکل واضح بیان ہے کہ دو کتابوں کی بات ہو رہی ہے ۔
ایک وہ جو موسیٰ علیہ وسلم پر پہلے نازل ہو چکی تھی جسے امام ورحمہ قرار دیا جا رہا ہے ۔
پھر کہا جا رہا وھذا الکتاب یعنی یہ کتاب جو عربی میں ہے ۔

مزید یہ کہ مسلمانوں کو یہ بات لازمی معلوم ہونی چاہیئے کہ قران کی وہ کون سی آیات ہیں جن کو بغیر بیرونی مدد کے سمجھا نہیں جا سکتا ۔
جب شیخ صاحب نے کہا کہ حدیث کو میں نہیں مانتا ۔ تفاسیر کو میں نہیں مانتا ۔ بائبل پر بھی بھروسہ نہیں تو ان کے سامنے ایسی کوئی بھی آیت پیش کر کے پوچھا جا سکتا ہے کہ لو ہون کرو ترجمہ ۔
مثلاً

سورہ الاحزاب آیت 37
وَاِذْ تَقُوْلُ لِلَّـذِىٓ اَنْعَمَ اللّـٰهُ عَلَيْهِ وَاَنْعَمْتَ عَلَيْهِ اَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللّـٰهَ وَتُخْفِىْ فِىْ نَفْسِكَ مَا اللّـٰهُ مُبْدِيْهِ وَتَخْشَى النَّاسَۚ وَاللّـٰهُ اَحَقُّ اَنْ تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضٰى زَيْدٌ مِّنْـهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَىْ لَا يَكُـوْنَ عَلَى الْمُؤْمِنِيْنَ حَرَجٌ فِىٓ اَزْوَاجِ اَدْعِيَآئِهِـمْ اِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ اَمْرُ اللّـٰهِ مَفْعُوْلًا (37)
اور جب تو نے اس شخص سے کہا جس پر اللہ نے احسان کیا اور تو نے احسان کیا کہ اپنی بیوی (زینب) کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر اور تو اپنے دل میں ایک چیز چھپاتا تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے ڈرتا تھا، حالانکہ اللہ زیادہ حق رکھتا ہے کہ تو اس سے ڈرے، پھر جب زید اس سے حاجت پوری کر چکا تو ہم نے تجھ سے اس کا نکاح کر دیا تاکہ مسلمانوں پر ان کے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں کے بارے میں کوئی گناہ نہ ہو جب کہ وہ ان سے حاجت پوری کرلیں، اور اللہ کا حکم ہوکر رہنے والا ہے۔

اب یہاں زید کون ہے ؟
کس نبی نے ان کی مطلقہ سے نکاح کیا ؟
بنائیں قران کو بنیادی ماخذ اور قران سے دے لیں جواب ۔
کیسے دیں گے ؟
پرویزیوں کو پتنگے لگ جاتے یہاں ۔
دو تاویلیں گھڑتے ہیں ۔
پہلی یہ کہ تاریخ سے پڑھ لو ۔
کیوں پڑھ لیں تاریخ سے ؟
جب مستنذ احادیث کو نہیں مان رہے تو تاریخ کو کیوں مان رہے ہو بھائی جو غیر مستند ہے ؟
دوسری تاویل یہ گھڑتے ہیں کہ اس واقعے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ۔
سبحان ﷲ ۔
ایک لاتعلق بات قران میں آئی کیسے ؟
یہ بات ہی احمقانہ ہے ۔
قران کی ایسی کئی آیات ہیں جن کو احادیث سے نہ سمجھا جائے تو وہ سمجھ نہیں آتیں ۔ مسلمانوں کو خصوصاً مناظرین کو یہ آیات پتہ ہونی چاہئیں ۔
(جاری ہے)

2 comments:


  1. وَمِنْـهُـمْ اُمِّيُّوْنَ لَا يَعْلَمُوْنَ الْكِتَابَ اِلَّا اَمَانِىَّ وَاِنْ هُـمْ اِلَّا يَظُنُّوْنَ (78)
    اور بعض ان میں سے ان پڑھ ہیں جو کتاب نہیں جانتے، سوائے جھوٹی آرزوؤں کے، اور وہ محض اٹکل پچو باتیں بناتے ہیں۔

    یہاں ماؤں والوں سے مراد علماء ھیں جوماں کی کتاب یعنی ام الکتاب کا علم رکھتے ھیں۔اور ام الکتاب توراۃ/قانون کی وہ آیات ھیں جن میں اسلامی قانون سے متعلق آیات ھیں۔جیسے صلاۃ روزہ حج زکواۃ ۔آنکھ کے بدلے آنکھ ناک کے بدلے ناک دانت کے بدلےدانت اور جان کے بدلے جان/قصاص ۔۔۔۔۔۔کس دنیا میں رھتے ھو برخودار۔۔۔۔۔۔ جب ایک دانشور اللہ کی کتاب کی آیتوں کی وضاحت کررھا توکیوں اس میں خامیاں اور کجیاں نکالتے ھو۔۔۔۔۔خود کو کتاب اللہ کے احکمات اور اس کی آیتوں کی معرفت اور عرفان کا علم نہیں ھےاوراس اللہ کے بندے کے بارےدنیا جہان کی بکواس اور بغیر کسی علمی دلائل کےبکواسیات لکھتے جارھے ھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پر اپنے مضمون میں جو بکواسیات کی ھےوہ تمہاری جہالت پر منحصر ھےاور اھل علم ودانش سے نفرت وبغض کا اظہار ھے۔

    ReplyDelete

  2. سورہ آل عمران آیت 65
    يَآ اَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّوْنَ فِـىٓ اِبْـرَاهِـيْمَ وَمَآ اُنْزِلَتِ التَّوْرَاةُ وَالْاِنْجِيْلُ اِلَّا مِنْ بَعْدِهٖ ؕ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ (65)
    اے اہلِ کتاب! ابراھیم کے معاملہ میں کیوں جھگڑتے ہو حالانکہ تورات اور انجیل تو اس کے بعد اتری ہیں، کیا تم یہ نہیں سمجھتے۔
    جب تک تورات وانجیل کا اپنا معنیٰ نہیں لو گےقرآن کی آیت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی۔تورات کا معنٰی ھے قانون اورانجیل کا معنیٰ ھےخوشخبری/وعظ ۔حضرت ابراھیم علیہ السلام کےدور میں اسلامی قانون نہیں اترا تھا اور نہ ھی قانون پر عمل کرنےسےمتعلق کوئی خوشخبری اور وعظ نازل ھوا۔یہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کےزمانے میں تورات/قانون نازک کیا گیا تھا اور اس پر عمل کرنے والوں کوجنت کی خؤشخبری دی گئی۔جو آج بھی کتاب اللہ میں موجود ھے۔یہ نہیں کہ تورات الگ سے کوئی کتاب ھےیاانجیل الگ سے کوئی کتاب ھے۔۔۔۔۔۔یہ سب کتاب اللہ میں بطورتورات/قانون اور انجیل/خوشخبری سے متعلق ھے۔۔۔۔۔۔۔

    ReplyDelete

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...