Monday, 11 December 2017

لباس کے متعلق شیطانی حملہ اورحالت زار

لباس کے متعلق شیطانی حملہ اورحالت زار

انسانیت کا دشمن او رحضرت آدم اور اولادِ آدم کا ابدی مخالف لعین مردود کا سب سے پہلے جو انسان او رمٹی کے پُتلے پر حملہ ہوا اُس کا اثر بد اور بُرا انجام ننگا اوربرہنہ ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا کہ جنت الفردوس اور بہشت بریں میں ابوالبشر اور خلیفة الله فی الارض حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوار ضی الله عنہا بڑے سکون ووقار کے ساتھ رہ رہے تھے، لیکن انسانیت او ربشریت سے ابدی حسد رکھنے والا ملعون اس کو پسند کہاں کر سکتا تھا؟ چناں چہ اس نے وساوس اورتصرفات کرکے دونوں کو بہکانا شروع کیا اور زوجین اغوا شیطانی کا شکار ہو گئے کہ خدا کی نافرمانی سرزد ہوئی، جس کے نتیجہ میں دونوں ننگے ہو گئے او رقابلِ شرم اعضا کھل گئے، جن کو درختوں کے پتوں سے چھپاتے پھرتے تھے، کیوں کہ اِن اعضا کا دوسروں کے سامنے کھولنا یا کھل جانا انتہائی ذلت ورُسوائی اور نہایت بے حیائی کی علامت ہے او رمختلف النوع شر وفساد کا مقدمہ ہے۔

فائدہ
بعض خود ساختہ دانش وروں اور فلاسفروں کا یہ کہنا کہ: انسان ابتداءً ننگا پھرا کرتا تھا، پھر ارتقائی منازل طے کرنے کے بعد اُس نے لباس ایجاد کیا، یہ سرتاپابے اصل اور نادانی وجہالت ہے ، کیوں کہ حضرت آدم علیہ السلام اور حضرت حوا کے مذکورہ واقعہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ستر پوشی اور لباس انسان کی فطری خواہش اور پیدائشی ضرورت ہے، جو روزِ اوّل ہی سے انسان کے ساتھ ساتھ ہے۔

دورہِ حاضر کی حالتِ زار
عصرِ حاضر فتنہ وفساد، اخلاقی پستی وتباہی، اسلامی اور مذہبی اقدار وروایات کی پامالی اور بے راہ روی وغلط کاری کا ہے،آج کل جہاں او ربہت سی خرابیاں او رخرافات نسلِ انسانی کی پستی کا سبب ہیں وہیں ستر پوشی اور لباس میں بھی انسانیت، حیوانیت سے ہم آہنگ ہے ، شیطان او راس کی ذریت اولادِ آدم اور بنات حوا کو برہنہ یا نیم برہنہ کرکے انسانیت کو شرم سار کرنے پر پوری طاقت وقوت صرف کر رہی ہے ، کبھی تہذیب وشائستگی اور ترقی وخوش حالی کے نام سے بناتِ حوا کو برہنہ یا نیم برہنہ حالت میں گلی، کوچوں، سڑکوں اورچوراہوں میں لے آتے ہیں او رکبھی آزادی نسواں کا دل فریب اورخوش نما نعرہ دے کر پارکوں، نائٹ کلبوں، ہوٹلوں، کھیلوں کے میدانوں اور فلمی ڈراموں میں عورتوں او رخاص طور پر نو عمر بچیوں کو ننگا نچاتے ہیں، کبھی اس شیطانی مشن کو ترقی کا لبادہ اوڑھا دیا جاتا ہے تو کبھی روشن خیالی سے موسوم کیا جاتا ہے، لیکن یہ انسان اور وہ بھی دین ومذہب کا پاسبان اس طاغوتی چال اور شیطانی جال کے دام فریب میں بڑی آسانی سے پھنس جاتا ہے، آج مغربی تہذیب وتمدن، بودوباش اور کاٹ چھانٹ کو نوجوان نسل، خواہ لڑکے ہوں یا لڑکیاں دوڑ کر اختیار کررہے ہیں، نوجوان لڑکیوں نے ان کی نقل کرتے ہوئے اپنے مستور جسم اور باپردہ بدن کو برملا کھول ڈالا، سر سے اوڑھنی اور دوپٹہ بالکل غائب ہو گیا، باقی لباس بھی یا تو پورے جسم کے لیے ساتر او رچھپانے والا ہی نہیں ہے ،دونوں ہاتھ اوپر تک کھلے ہوئے ہیں، دونوں پاؤں رانوں تک کھلے ہیں اورحد تو یہ ہے کہ پیٹ اور پیٹھ بھی کھل گئے ہیں اور یا بہت زیادہ باریک لباس ہے ، جس سے جسم چھپتا ہی نہیں، بلکہ صاف نظر آتا ہے ایسے لباس کا مقصد ستر پوشی نہیں، محض زینت ہوتی ہے اور اگر لباس میں مذکورہ دونوں کمی نہ ہوں تو تیسری کمی اور نقص یہ ہے کہ وہ اتنا چست اور ٹائٹ ہوتا ہے کہ جس سے بدن کا نشیب وفراز خوب ظاہر ہوتا ہے ، ایسا لباس جس میں مذکورہ تینوں باتوں میں سے کوئی بھی ہو اس کو پہننے والی عورتوں پر الله کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے، لہٰذا نبی کی لعنت اور بد دعا سے بچنے کے لیے مذکورہ لباس کو استعمال نہ کریں۔

یہی حال نوجوان لڑکوں کا ہے کہ مغربی اقوام کے ساتھ قدم بہ قدم اور شانہ بہ شانہ چلنے کی دوڑ اور ہوس میں ہمارے نوجوان اپنی تہذیب ،اپنا خاندانی تمدن اور اسلامی روایات کو بالائے طاق رکھ کر ایسا لباس زیب تن کرتے ہیں جو جسمانی خدوخال کو چھپانے کے بجائے اور زیادہ نمایا ں کرتا ہے؛حالاں کہ دوسری قوموں سے مرعوب ہو کر ان کی تہذیب ،اُن کا طرز اپنانا تشبہ میں آتا ہے ،جس پر احادیث میں سخت ترین و عیدیں آئی ہیں کہ جو انسان دنیا میں جس قوم کی شباہت اختیار کرے گا وہ کل قیامت میں انہیں کے ساتھ اُٹھایا جائے گاا ور اس کا حشرانھیں کے ساتھ ہوگا،اللہ تعالیٰ شانہ تمام امت کی حفاظت فرمائے ،آمین۔

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...