تین طلاق کا مسئلہ
بسم الله الرحمن الرحيم
اَلْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِيْن،وَالصَّلاۃوَالسَّلام عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِيم وَعَلیٰ آله وَاَصْحَابه اَجْمَعِيْن۔
تین طلاق کا مسئلہ
حال ہی میں انٹرنیٹ کے ایک گروپ پر طلاق کے متعلق ایک فتوی پر مختلف حضرات کے تاثرات پڑھنے کو ملے۔ پڑھنے کے بعد محسوس ہوا کہ بعض حضرات طلاق کے معنی تک نہیں جانتے لیکن طلاق کے مسائل پر اپنی رائے لکھنے کو دینی فریضہ سمجھتے ہیں۔
میرے عزیز دوستوں! آپ کسی مسئلہ پر کسی عالم / مفتی کی رائے سے اختلاف کرسکتے ہیں مگر قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ سے واقفیت کے بغیر کسی فتوی / مسئلہ پر اپنی رائے ظاہر کرنا اور اسکو بلاوجہ موضوع بحث بنانا جائز نہیں ہے۔ اگر کوئی مسئلہ آپکی سمجھ میں نہیں آرہا ہے توآپ معتبر علماء سے رجوع فرمائیں، ممکن ہے کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ان کی رائے بھی وہی ہو۔ اگر مسئلہ علماء کے درمیان مختلف فیہ ہے تو قرآن وحدیث کی روشنی میں اللہ سے ڈرتے ہوئے عالم /مفتی جو بات صحیح سمجھے گا اس کو تحریر فرمائے گا، خواہ آپ اس سے متفق ہوں یا نہیں۔
موضوع بحث مسئلہ (طلاق) پر گفتگو کرنے سے قبل نکاح کی حقیقت کو سمجھیں کہ نکاح کی حیثیت اگر ایک طرف باہمی معاملہ ومعاہدہ کی ہے تو دوسری طرف یہ سنت وعبادت کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔ شریعت کی نگاہ میں یہ ایک بہت ہی سنجیدہ اور قابل احترام معاملہ ہے جو اس لئے کیا جاتا ہے کہ باقی رہے یہاں تک کہ موت ہی میاں بیوی کو ایک دوسرے سے جدا کرے۔ یہ ایک ایسا قابل قدر رشتہ ہے جو تکمیل انسانیت کا ذریعہ اور رضائے الہی واتباع سنت کا وسیلہ ہے۔ اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کے ٹوٹنے سے نہ صرف میاں بیوی متاثر ہوتے ہیں بلکہ اس سے پورے گھریلو نظام کی چولیں ہل جاتی ہیں اور بسا اوقات خاندانوں میں جھگڑے تک کی نوبت آجاتی ہے۔ اسی لئے رسول اللہ ا نے فرمایا : اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں میں طلاق سے زیادہ گھناؤنی اور کوئی چیز نہیں ہے ۔ (ابوداؤد) اسی لئے علماء کرام نے فرمایا ہے کہ طلاق کا لفظ کبھی مذاق میں بھی زبان پر نہ لایا جائے۔
اسی لئے جو اسباب اس بابرکت اور مقدس رشتہ کو توڑنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں انہیں راہ سے ہٹانے کا شریعت نے مکمل انتظام کیا ہے۔ چنانچہ میاں بیوی میں اختلاف کی صورت میں سب سے پہلے ایک دوسرے کو سمجھانے کے کوشش کی جائے ، پھر زجر وتنبیہ (ڈانٹ ڈپٹ) کی جائے۔ اور اس سے بھی کام نہ چلے اور بات بڑھ جائے تو دونوں خاندان کے چند افراد مل کر معاملہ طے کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن بسا اوقات حالات اس حد تک بگڑ جاتے ہیں کہ اصلاح حال کی یہ ساری کوششیں بے سود ہوجاتی ہیں اور رشتہ ازدواج سے مطلوب فوائد حاصل ہونے کے بجائے میاں بیوی کا باہم مل کر رہنا ایک عذاب بن جاتا ہے۔ ایسی ناگزیر حالت میں کبھی کبھی ازدواجی زندگی کا ختم کردینا ہی نہ صرف دونوں کے لئے بلکہ دونوں خاندانوں کے لئے باعث راحت ہوتا ہے، اس لئے شریعت اسلامیہ نے طلاق اور فسخ نکاح (خُلع) کا قانون بنایا، جس میں طلاق کا اختیار صرف مرد کو دیا گیا کیونکہ اسمیں عادتاً وطبعاً عورت کے مقابلہ فکروتدبر اور برداشت وتحمل کی قوت زیادہ ہوتی ہے، جیسا کہ قرآن کی آیت (وَلِلرِّجَالِ عَلَےْہِنَّ دَرَجَۃ) (سورۂ البقرۃ ۲۳۸) (الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَاءِ) (سورۂ النساء۳۴) میں ذکر کیا گیا ہے۔ لیکن عورت کو بھی اس حق سے یکسر محروم نہیں کیا گیا بلکہ اسے بھی یہ حق دیا گیا ہے کہ وہ شرعی عدالت میں اپنا موقف پیش کرکے قانون کے مطابق طلاق حاصل کرسکتی ہے جس کو خُلع کہا جاتا ہے۔
مرد کو طلاق کا اختیار دے کر اسے بالکل آزاد نہیں چھوڑ دیا گیا بلکہ اسے تاکیدی ہدایت دی گئی کہ کسی وقتی وہنگامی ناگواری میں اس حق کا استعمال نہ کرے۔ نیز حیض کے زمانہ میں یا ایسے طُہر (پاکی) میں جس میں ہم بستری ہوچکی ہے طلاق نہ دے کیونکہ اس صورت میں عورت کی عدت خواہ مخواہ لمبی ہوسکتی ہے۔ بلکہ اس حق کے استعمال کا بہتر طریقہ یہ ہے کہ جس پاکی کے ایام میں ہم بستری نہیں کی گئی ہے ایک طلاق دے کر رک جائے، عدت پوری ہوجانے پر رشتہ نکاح خود ہی ختم ہوجائے گا، دوسری یا تیسری طلاق کی ضرورت نہیں پڑے گی اور اگر دوسری یا تیسری طلاق دینی ہی ہے تو الگ الگ طہر میں دی جائے۔۔۔۔ پھر معاملۂ نکاح کو توڑنے میں یہ لچک رکھی گئی ہے کہ دوران عدت اگر مرد اپنی طلاق سے رجوع کرلے تو نکاح سابق بحال رہے گا۔ ۔۔۔ نیز عورت کو ضرر سے بچانے کی غرض سے حق رجعت کو بھی دو طلاقوں تک محدود کردیا گیا تاکہ کوئی شوہر محض عورت کو ستانے کے لئے ایسا نہ کرے کہ ہمیشہ طلاق دیتا رہے اور رجعت کرکے قید نکاح میں اسے محبوس رکھے جیسا کہ سورہ البقرہ کی آیات نازل ہونے سے پہلے بعض لوگ کیا کرتے تھے، بلکہ شوہر کو پابند کردیا گیا کہ اختیار رجعت صرف دو طلاقوں تک ہی ہے۔ تین طلاقوں کی صورت میں یہ اختیار ختم ہوجائے گابلکہ میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں توایک خاص صورت کے علاوہ یہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا۔ فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلَا تَحِلُّ لَہ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَےْرَہ (سورۂ البقرہ ۲۳۰) میں یہی خاص صورت بیان کی گئی ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص نے تیسری طلاق دے دی تو دونوں میاں بیوی رشتہ نکاح سے منسلک ہونا بھی چاہیں تو وہ ایسا نہیں کرسکتے یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے۔
اب موضوع بحث مسئلہ کی طرف رجوع کرتا ہوں کہ اگر کسی شخص نے حماقت اور جہالت کا ثبوت دیتے ہوئے ابغض الحلال طلاق کے بہتر طریقہ کو چھوڑکر غیر مشروع طور پر طلاق دیدی مثلاً تین طلاقیں ناپاکی کے ایام میں دے دیں، یا ایک ہی طہر میں الگ الگ وقت میں تین طلاقیں دے دیں، یا الگ الگ تین طلاقیں ایسے تین پاکی کے ایام میں دیں جسمیں کوئی صحبت کی ہو، یا ایک ہی وقت میں تین طلاقین دے دیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس کا کیا اثر ہوگا ؟؟؟
ابغض الحلال طلاق کے بہتر طریقہ کو چھوڑکر مذکورہ بالا تمام غیر مشروع صورتوں میں تین ہی طلاق پڑنے پر تمام علماء کرام متفق ہیں، سوائے ایک صورت کے، کہ اگر کوئی شخص ایک مجلس میں تین طلاق دے دے تو کیا ایک واقع ہوگی یا تین۔ جمہور علماء کی رائے کے مطابق تین ہی طلاق واقع ہوں گی۔ فقہاء صحابہ کرام حضرت عمرفاروقؓ ، حضرت عثمانؓ ، حضرت علیؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباسؓ ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عبداللہ بن عمروؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ وغیرہ وغیرہ تین ہی طلاق پڑنے کے قائل تھے۔ نیز چاروں امام (امام ابوحنیفہؒ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی، جیسا کہ ۱۳۹۳ھ میں سعودی عرب کے بڑے بڑے علماء کرام کی اکثریت نے بحث ومباحثہ کے بعد قرآن وحدیث کی روشنی میں یہی فیصلہ کیا کہ ایک وقت میں دی گئی تین طلاقین تین ہی شمار ہوں گی۔ یہ پور ی بحث اور مفصل تجویز مجلۃ البحوث الاسلامیہ ۱۳۹۷ھ میں ۱۵۰ صفحات میں شائع ہوئی ہے جو اس موضوع پر ایک اہم علمی دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس فیصلہ میں سعودی عرب کے جو اکابر علماء شریک رہے ان کے اسماء گرامی یہ ہیں۔ (۱) شیخ عبد العزیز بن باز (۲) شیخ عبد اللہ بن حمید (۳) شیخ محمد الامین الشنقیطی (۴) شیخ سلیمان بن عبید (۵) شیخ عبد اللہ خیاط (۶)شیخ محمد الحرکان (۷) شیخ ابراہیم بن محمد آل الشیخ (۸)شیخ عبد الرزاق عفیفی (۹) شیخ عبد العزیز بن صالح (۱۰) شیخ صالح بن غصون (۱۱) شیخ محمد بن جبیر (۱۲) شیخ عبد المجید حسن (۱۳) شیخ راشد بن خنین (۱۴) شیخ صالح بن لحیدان (۱۵)شیخ محضار عقیل (۱۶) شیخ عبد اللہ بن غدیان (۱۷) شیخ عبد اللہ بن منیع۔ سعودی عرب کے ہیءۃ کبار العلماء کا یہ فیصلہ اختصار کے ساتھ اس Link پر پڑھا جاسکتا ہے۔(http://islamtoday.net/bohooth/artshow-32-6230.htm) نیز مضمون کے آخر میں بھی یہ فیصلہ مذکور ہے۔ سعودی عرب کے اکابر علماء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے اقوال کو سامنے رکھ کریہی فیصلہ فرمایا کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پرتین ہی واقع ہوں گی۔ علماء کرام کی دو سری جماعت نے جن دو احادیث کو بنیاد بناکر ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر ایک واقع ہونے کا فیصلہ فرمایا ہے ، سعودی عرب کے اکابر علماء نے ان احادیث کو غیر معتبر قرار دیا ہے۔ نیز ہند ،پاکستان، بنگلادیش اور افغانستان کے تقریباً تمام علماء کرام کی بھی یہی رائے ہے۔
لہذا معلوم ہوا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ۱۴۰۰ سال سے امت مسلمہ (90-95%) اسی بات پر متفق ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں تین ہی شمار کی جائیں گی، لہذا اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین طلاقیں دیدیں تو اختیار رجعت ختم ہوجائے گانیز میاں بیوی اگر باہمی رضا مندی سے بھی دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تویہ نکاح درست اور حلال نہیں ہوگا یہاں تک کہ یہ عورت طلاق کی عدت گزارنے کے بعد دوسرے مرد سے نکاح کرے، دوسرے شوہر کے ساتھ رہے ، دونوں ایک دوسرے سے لطف اندوز ہوں۔ پھر اگر اتفاق سے یہ دوسرا شوہر بھی طلاق دیدے یا وفات پاجائے تو اس کی عدت پوری کرنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح ہوسکتا ہے۔ یہی وہ جائز حلالہ ہے جس کا ذکر کتابوں میں ملتا ہے، جس کا ذکر قرآن کریم میں آیا ہے: (سورۂالبقرہ ۲۳۰)
نوٹ: خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے زمانہ خلافت میں ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے پر بے شمار مواقع پر باقاعدہ طور پر تین ہی طلاق کا فیصلہ صادر کیا جاتا رہا ،کسی ایک صحابی کا کوئی اختلاف حتی کہ کسی ضعیف روایت سے بھی نہیں ملتا۔ اس بات کو پوری امت مسلمہ مانتی ہے۔ لہذا قرآن وحدیث کی روشنی میں جمہور فقہاء کرام خاص کر (امام ابوحنیفہ ، امام مالکؒ ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبلؒ ) اور ان کے تمام شاگردوں کی متفق علیہ رائے بھی یہی ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاق دینے پر تین ہی واقع ہوں گی۔
آخر میں تمام حضرات سے خصوصی درخواست کرتا ہوں کہ مسائل سے واقفیت کے بغیر بلاوجہ Email بھیج کر لوگوں میں Confusions پیدا نہ کریں۔ علماء کرام کے متعلق کچھ لکھنے سے قبل قرآن کریم میں علماء کرام کے متعلق اللہ جل شانہ کے فرمان کا بخوبی مطالعہ فرمائیں: اِنَّمَا ےَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَاؤُ (سورۂ فاطر ۲۸) اللہ تعالیٰ کے بندوں میں علماء کرام ہی سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہیں۔ دوسری درخواست یہ ہے کہ اس موضوع پر اگر کوئی سوال ہے تو گروپ پر بھیجنے کے بجائے کسی عالم سے رجوع فرمائیں۔
محمد نجیب قاسمی(najeebqasmi@yahoo.com)
سعودی عرب کی مجلس کبار علماء کا فیصلہ
تین طلاق دینے سے تین ہی طلاق پڑتی ہے
ابتدائیہ: وہ فروعی اور اختلافی مسائل ، جن پر اصرار اور تشدد کو ہمارے ملک کے غیر مقلدین نے اپنا شعار بنارکھا ہے ، ان میں سے ایک مسئلہ تین طلاق کے ایک ہونے کا ہے ۔ انہیں اصرار ہے کہ ایک مجلس میں دی گئی تین طلاق ایک ہی ہو تی ہے ، یہ مسئلہ آج کل فرقہ پرست اور مسلم دشمن عناصر کے ہاتھوں میں کچھ اس طرح پہونچ گیا ہے ، کہ انہوں نے اس کو مسلم پرسنل لا ء میں تحریف و ترمیم کے لئے نقطۂ آغاز سمجھ لیا اور عنوان یہ بنایا گیا کہ اس کے ذریعہ سے مسلم معاشرہ کی اصلاح ہوسکے گی، پھر اسی بنیاد پر یہ مشورہ دیا جانے لگا کہ جب قدیم فتاویٰ سے انحراف کرکے طلاق کے مسئلہ میں نیا راستہ اختیار کیا جاسکتا ہے ، تو کیوں نہ دوسرے مسائل پر بھی غور کیا جائے، حد تو یہ ہے کہ اس خالص علمی وفقہی مسئلہ کو اخبارات نے بازیچۂ اطفال بنادیا ہے ، حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک فتنہ ہے ۔
سعودی عرب کی ہیئت کبار علماء نے اپنے ایک اجلاس میں موضوع کے تمام گوشوں پر بحث ومناقشہ کر کے فیصلہ کیا ہے کہ ایک لفظ سے دی گئی تین طلاق، تین ہی ہوتی ہے ، یہ بحث ومناقشہ اور قرارداد ریاض کے مجلہ البحوث الاسلامےۃ جلد اول کے تیسرے شمارہ میں شائع ہوئی ہے ، اس بحث اور قرار داد کا ترجمہ اب سے چند سال پہلے محدث جلیل ابوالمآثر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمۃ اللہ علیہ کے ایما پر المجمع العلمی مؤ کی جانب سے شایع ہوا تھا، چوں کہ غیر مقلدین سعودی عرب کو اپنا ہم مسلک سمجھتے ہیں اور عوامی سطح پر ان کو بطور حجت پیش کر تے ہیں ، نیز اسلام دشمن عناصر بھی بعض مسائل میں مسلم ممالک کا حوالہ پیش کر تے ہیں ، اس لئے موجودہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر اسے دوبارہ شائع کیا جاتا ہے ۔ خدا کرے یہ فتنہ ٹھنڈا ہو۔
مدیر المجمع العلمی
مخالفین کا نقطۂ نظر : مخالفین کی رائے میں بیک لفظ تین طلاق دینے سے ایک واقع ہوتی ہے ، صحیح روایت میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہی قول مروی ہے اور صحابۂ کرام میں حضرت زبیرؓ، ابن عوفؓ، علیؓبن ابی طالب، عبداللہ بن مسعودؓ اور تابعین میں عکرمہ وطاؤس وغیرہ نے اسی پر فتویٰ دیا ہے ۔ اور ان کے بعد محمد بن اسحٰق ؒ ، فلاسؒ ، حارث عکلیؒ ، ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ وغیرہ نے بھی اس کے موافق فتویٰ دیا ہے ۔ علامہ ابن القیم ؒ نے اغاثۃ اللہفان میں نہایت صفائی کے ساتھ یہ لکھا ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے سوا اور کسی صحابی سے اس قول کی نقل صحیح ہم کو معلوم نہیں ہوئی ۔(اغاثہ /۱۷۹/بحوالہ اعلام مرفوعہ / ۳۰) ان کے دلائل مندرجہ ذیل ہیں :
الطلاق مرتان فامساک بمعروف او تسریح باحسان (البقرۃ: ۲۲۹)طلاق دومرتبہ ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ۔ آیت کی توضیح یہ ہے کہ مشروع طلاق جس میں شوہر کا اختیار باقی رہتاہے ، چاہے تو بیوی سے رجعت کر ے یا بلا رجعت اسے چھوڑدے ، یہاں تک کہ عدت پوری ہوجائے اور بیوی شوہر سے جدا ہوجائے وہ دوبار ہے ۔ ’’مرتان‘‘کا معنی ’’مرۃً بعد مرۃٍ‘‘ ہے ، خواہ ہر مرتبہ ایک طلاق دے یا بیک لفظ تین طلاق دے ، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے ’’دو مرتبہ‘‘ کہا ہے "دو طلاق" نہیں کہا ہے۔ اس کے بعد اگلی آیت میں فرمایا :فإن طلقہا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجاً غیرہ (البقرۃ:۲۳۰) ’’پھر اگر طلاق دیدے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی، اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ نکاح کر لے ‘‘۔
اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ تیسری مرتبہ بیوی کوطلاق دینے سے وہ حرام ہوجاتی ہے ،خواہ تیسری مرتبہ ایک طلاق دی ہو یا بیک لفظ تین طلاق دی ہو ۔ اس تقریر سے معلوم ہوا کہ متفرق طور پر تین مرتبہ طلاق دینے کی مشروعیت ہوئی ، لہذا ایک مرتبہ میں تین طلاق دینا ایک کہلائے گا اور وہ ایک سمجھا جائے گا ۔
مسلم ؒ ؒ نے اپنی صحیح میں بطریق طاؤس ابن عباسؓ سے روایت کیا ہے : کان الطلاق الثلٰث علیٰ عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکرؓ وسنتین من خلافۃ عمرؓ طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمررضی اللہ عنہ ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیہم فامضاہ علیہم .’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد اور ابوبکرؓ کی خلافت اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک ہوتی تھی ، پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا : لوگوں نے ایک ایسے معاملہ میں جس میں مہلت تھی عجلت سے کام لینا شروع کر دیا ہے ، اگر ہم اسے یعنی تین طلاق کو نافذ کر دیتے تو اچھا ہو تا پس اسے نافذ کر دیا ‘‘۔ مسلم میں ابن عباسؓ کی ایک دوسری روایت میں ہے کہ: ’’ ابو الصہباء نے حضرت ابن عباسؓ سے پوچھا کیا آپ کو معلوم نہیں کہ عہد نبوی اور عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدا میں تین طلاق ایک تھی ۔ حضرت ابن عباسؓ نے فر مایا کہ ہاں ، لیکن جب لوگوں نے بکثرت طلاق دینا شروع کیا تو حضرت عمرؓ نے تینوں کو نافذ کر دیا ‘‘۔
یہ حدیث بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر وضاحت کے ساتھ دلالت کر تی ہے اور یہ حدیث منسوخ نہیں ہے ، کیوں کہ عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدا ئی دوسال میں اس حدیث پر برابر عمل جاری رہا اور حضرت عمرؓ نے تین طلاق نافذ کر نے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ لوگوں نے اس میں عجلت سے کام لینا شروع کر دیاہے ، انھوں نے نسخ کا دعوی نہیں کیا ، نیز حضرت عمرؓ نے تین طلاق نافذ کرنے میں صحابۂ کرام سے مشورہ لیا اور کسی ایسی حدیث کے چھوڑنے میں جس کا نسخ حضرت عمرؓ کو معلوم ہو ، صحابۂ کرام سے مشورہ نہیں کرتے۔
مخالفین کہتے ہیں کہ حدیث ابن عباسؓ کے جو جوابات دئے گئے ہیں ، وہ یا تو پر تکلف تاویل ہے یا بلا دلیل لفظ کو خلاف ظاہر پرحمل کرنا ہے یا شذوذ واضطراب اور طاؤس کے ضعیف ہونے کا طعن ہے لیکن مسلم نے جب اس حدیث کو اپنی صحیح میں روایت کیا ہے ، تو یہ طعن ناقابل تسلیم ہے ۔ مسلم ؒ نے یہ شرط رکھی ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیث ہی روایت کریں گے اور پھراس حدیث کو مطعون کرنے والے اسی حدیث کے آخری حصہ’’فقال عمرؓ إن الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ الخ‘‘ کو اپنے قول کی حجت بناتے ہیں اور یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ حدیث کا آخری حصہ قابل قبولِ حجت ہو اور اس کا ابتدائی حصہ اضطراب اور راوی کے ضعف کی وجہ سے ناقابل حجت ہو ۔ اور اس سے بھی زیادہ بعید بات یہ ہے کہ عہد نبوی میں تین طلاق کے ایک ہونے پر عمل جاری رہا ہو، لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہ رہی ہو، جب کہ قرآن نازل ہورہا تھا ،ابھی وحی کا سلسلہ برابر جاری تھا اور یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے حضرت عمرؓ کے زمانے تک پوری امت ایک خطا پر عمل کرتی رہی ہو۔ انھیں پھس پھسی باتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ حضرت ابن عباسؓ کے فتویٰ کو ان کی حدیث کا معارض ٹھہرایا جائے ، علماء حدیث اور جمہور فقہاء کے نزدیک بشرطِ صحت راوی کی روایت ہی کا اعتبار ہوتا ہے ۔اس کے خلاف اس کی رائے یا فتویٰ کا اعتبار نہیں ہوتا ۔یہ قاعدہ ان لوگوں کا بھی ہے جو ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ کر تے ہیں ۔لوگوں نے عہد فاروقی میں ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ ہونے پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے اور حدیث ابن عباسؓ کو اس اجماع کا معارض ٹھہرایا ہے ، حالانکہ انہیں معلوم ہے کہ اس مسئلہ میں سلف سے خلف تک اور آج تک اختلاف چلا آرہا ہے ۔
حدیث زوجۂ رفاعہ قرظی سے بھی استدلال درست نہیں ، اس لئے کہ صحیح مسلم میں ثابت ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو تین طلاقوں میں سے آخری طلاق دی تھی اور رفاعہ نضری کا اپنی بیوی کے ساتھ اس جیسا واقعہ ثابت نہیں کہ واقعات متعدد مانے جائیں اور ابن حجر نے تعدد واقعہ کا فیصلہ نہیں کیا ، انھوں نے یہ کہا ہے کہ اگر رفاعہ نضری کی حدیث محفوظ ہوگی ، تو دونوں حدیثوں سے واضح ہوتاہے کہ واقعہ متعدد ہے ، ورنہ ابن حجرؒ نے اصابہ میں کہا ہے : ’’ ........ لیکن مشکل یہ ہے کہ دونوں واقعہ میں دوسرے شوہر کا نام عبد الرحمن بن الزبیر متحد ہے ‘‘ ۔
امام احمد نے اپنی مسند میں بطریق عکرمہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے : قال طلق رکانۃ بن عبد یزید اخو بنی المطلب امرأتہ ثلاثا فی مجلس واحد فحزن وعلیہا حزناًشدیداً، قال فسألہ رسول اللہ علیہ وسلم کیف طلقتہا؟قال طلقتہا ثلاثا قال فقال فی مجلسٍ واحدٍ، قال: نعم ، فقال فانما تلک واحدۃ فارجعہا ان شئت ، قال: فراجعہا. ’’رکانہ بن عبد یزیدنے اپنی عورت کو ایک مجلس میں تین طلاق دی پھر اس پر بہت غمگین ہوئے ۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا ، تم نے کیسی طلاق دی ہے ؟ کہا کہ تین طلاق دی ہے ، پوچھا کہ ایک مجلس میں ؟ انھوں نے کہا کہ ہاں! تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ صرف ایک طلاق ہو ئی اگر چاہو تو رجعت کر سکتے ہو ، ابن عباسؓ نے فرمایا کہ انھوں نے اپنی بیوی سے رجعت بھی کرلیاتھا‘‘۔
ابن قیم ؒ نے اعلام الموقعین میں کہا ہے کہ امام احمدؒ اس حدیث کے سند کی تصحیح وتحسین کر تے تھے ۔ (حافظ ابن حجرؒ نے تلخیص میں اس حدیث کو ذکر کر کے فرمایا ہے ’ ’ وھو معلول ایضاً‘‘ یعنی مسند احمد والی حدیث بھی بہت مجروح وضعیف ہے (ص :۳۱۹) اور حافظ ذہبی نے بھی اس کو ابوداؤد ابن الحصین کے مناکیر میں شمار کیا ہے ، پس اس حالت میں اگر اس کی اسناد حسن یا صحیح بھی ہو ، تو استدلال نہیں ہوسکتا ، اس لئے کہ اسناد کی صحت استدلال کی صحت کو مستلزم نہیں ۔(اعلام مرفوعہ : ۲۵)
اور یہ جو مروی ہے کہ رکانہ نے لفظ ’’ بتہ‘‘سے طلاق دی تھی ، اسے احمدؒ ، بخاریؒ اور ابوعبیدؒ نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(امام شافعی ، ابوداؤد ، ترمذی ، ابن ماجہ، ابن حبان ، حاکم اور دارقطنی وغیرہ نے حضرت رکانہ سے روایت کیا ہے کہ انھوں نے اپنی بی بی کو لفظ”بتہ” کے ساتھ طلاق دی .......... حافظ ابن حجر ؒ نے تلخیص / ۳۱۹، میں لکھا ہے (صححہ ابوداؤد وابن حبان والحاکم ) یعنی اس حدیث کو ابوداؤد ، ابن حبان اور حاکم نے صحیح کہا ہے ۔ ابن ماجہ / ۱۴۹ ، میں ہے کہ میں نے اپنے استاذ طنافسی کو یہ فرماتے ہوئے سنا ’’ ما اشرف ہذا الحدیث ‘‘ یہ حدیث کتنی شریف و بہتر ہے ۔ ( اعلام مرفوعہ / ۱۱۔ العلامہ المحدث الاعظمی)
ابن تیمیہؒ ، ابن قیمؒ وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت ابوبکرؓ کے زمانے میں اور خلافت عمرؓ کے ابتدائی دوسال میں ایک لفظ کی تین طلاق سے ایک ہی سمجھا جاتا رہا اور جو فتاویٰ صحابۂ کرام سے اس کے خلاف مروی ہیں ، وہ حضرت عمرؓ کے تین طلاق نافذ کرنے کے بعد کے ہیں ۔ تین طلاق نافذ کرنے سے حضرت عمرؓ کا یہ ارادہ نہیں تھا کہ اسے ایک مستقل قاعدہ بنا ڈالیں جو ہمیشہ مستمر رہے ، ان کا ارادہ تو یہ تھا کہ جب تک دواعی و اسباب موجود ہیں ، تین طلاق کو نافذ قرار دیا جائے ، جیساکہ تغیر حالات سے بدلنے والے فتاویٰ کا حال ہوتا ہے ، او ر امام کو اس وقت رعایاکی تعزیر کا حق بھی ہے ، جس وقت ایسے معلاملات میں جن کے کرنے اور چھوڑنے کا ان کو اختیار ہو ، سوئے تصرف پیدا ہوجائے جیسا کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سزا کے طور پر غزوۂ تبوک میں شرکت نہ کر نے والے تین صحابہ کو ایک وقت تک اپنی بیویوں سے جدا رہنے کا حکم دیدیا تھا ، باوجود یکہ ان کی بیویوں سے کوئی غلطی نہیں ہوئی تھی یا جیسے شراب نوشی کی سزا میں زیادتی، یا تاجروں کی ناجائز نفع اندوزی کے وقت قیمتوں کی تعیین ، یا جان ومال کی حفاظت کے لئے لوگوں کو خطر ناک راستوں پر جانے سے روکنا ، باوجود یکہ ان راستوں پر ہر ایک کو سفر کرنا مباح رہا ہو۔
پانچویں دلیل یہ ہے کہ تین طلاق کو لعان کی شہادتوں پر قیاس کیا جائے ۔ اگر شوہر کہے میں اللہ کی چار شہادت دیتا ہوں کہ میں نے اپنی عورت کو زنا کر تے ہوئے دیکھا ہے ، تو اسے ایک ہی شہادت سمجھا جاتا ہے ، لہذا جب اپنی بیوی سے ایک مر تبہ میں کہا کہ میں تمہیں تین طلاق دیتا ہوں تو اسے ایک ہی طلاق سمجھا جائے گا اور اگر اقرار کا تکرار کئے بغیر کہے کہ میں زنا کا چار مرتبہ اقرار کرتا ہوں ، تو اسے ایک ہی اقرار سمجھا جاتا ہے ، یہی حال طلاق کا بھی ہے اور ہر وہ بات جس میں قول کا تکرار معتبر ہے ، محض عدد ذکر کر دینا کافی نہ ہوگا ، مثلاً فرض نمازوں کے بعد تسبیح و تحمید وغیرہ۔
شیخ شنقیطی نے اس کا جواب دیا ہے کہ یہ قیاس مع الفارق ہے ، اس لئے کے شوہر اگر لعان کی صرف ایک ہی شہادت پر اکتفا کر لے تو وہ کالعدم قرار دیدی جاتی ہے ، جب کہ ایک طلاق کالعدم نہیں قراردی جاتی ، وہ بھی نافذ ہوجاتی ہے ۔(اضواء البیان، ۱/۱۹۵، بحوالہ مجلہ البحوث)
جمہور کا مسلک: بیک لفظ تین طلاق دینے سے تین واقع ہوجائیں گی ، یہ جمہور صحابہ وتابعین اور تمام ائمہ مجتہدین کا مسلک ہے اور اس پر انھوں نے کتاب وسنت اور اجماع وقیاس سے دلائل قائم کئے ہیں ۔ ان میں سے اہم دلائل مندرجہ ذیل ہیں ۔
اے نبی جب تم عورتوں کو طلاق دو تو ان کو ان کی عدت پر طلاق دو اور عدت گنتے رہو اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے ، ان کو ان کے گھروں سے مت نکالو اور وہ بھی نہ نکلیں ، مگر جو صریح بے حیائی کریں اور یہ اللہ کی باندھی ہوئی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے بڑھے تو اس نے اپنابرا کیا اس کو خبر نہیں کہ شاید اللہ اس طلاق کے بعد نئی صورت پیدا کردے۔(الطلاق:۱) اس آیت سے یہ معلوم ہواکہ اللہ تعالی نے وہ طلاق مشروع کی ہے جس کے بعد عدت شروع ہو ، تاکہ طلاق دینے والا بااختیار ہو ، چاہے تو عمدہ طریقہ سے بیوی کو رکھ لے یا خوبصورتی کے ساتھ چھوڑدے ۔ اور یہ اختیار اگر چہ ایک لفظ میں رجعت سے پہلے تین طلاق جمع کر دینے سے نہیں حاصل ہوسکتا ، لیکن آیت کے ضمن میں دلیل موجود ہے کہ یہ طلاق بھی واقع ہو جائے گی ، اگر واقع نہ ہوتی تو وہ اپنے اوپر ظلم کرنے والا نہ کہلاتا اور نہ اس کے سامنے دروازہ بند ہوتا ، جیسا کہ اس آیت میں اشارہ ہے : ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً۔مخرج کی تفسیر حضرت ابن عباسؓ نے رجعت کی ہے ۔ ایک سائل کے جواب میں جس نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھی ، آ پ نے کہاکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ومن یتق اللہ یجعل لہ مخرجاً ‘‘ اور تم نے اللہ سے خوف نہیں کیا ، لہذا میں تمہارے لئے کوئی خلاصی کی راہ نہیں پاتا ہوں ، تم نے اللہ کی نا فرمانی کی اور تم سے تمہاری بیوی جدا ہوگئی۔
اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ جو شخص اپنی عورت کو تین طلاق دیدے ، وہ خود پر ظلم کر نے والا ہے ۔ اب اگر یہ کہا جائے کہ تین طلاق سے ایک ہی واقع ہوتی ہے ، تو اس کو اللہ سے ڈرنا نہیں کہا جاسکتا ، جس کا حکم ’’ ومن یتق اللہ الخ ‘‘ میں دیا گیا ہے اور جس کا التزام کرنے سے خلاصی کی سبیل پیدا ہوتی اور نہ یہ ظالم کی سزا بن سکتی ہے، جو حدود اللہ سے تجاوز کرنے والا ہے تو گو یا شارع نے ایک منکر بات کہنے والے پر اس کا اثر مرتب نہیں کیا، جو اس کے لئے عقوبت بنتا ، جیسا کہ بیوی سے ظہار کر نے والے پر بطور عقوبت کفارہ لازم ہوتا ہے ۔ اس سے ظاہر ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے تینوں طلاق نافذ کر کے طلاق دینے والے کو سزادی ہے اور اس کے سامنے راستہ مسدود کردیا ہے ، اس لئے کہ اس نے اللہ سے خوف نہیں کیا خود پر ظلم کیا او ر اللہ کی حدود سے تجاوز کیا۔
صحیحین میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے : ان رجلا طلق امرأتہ ثلاثا فتزوجت فطلقت فسئل النبی صلی اللہ علیہ وسلم اتحل للاول؟ قال: لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاق الاول۔ ’’ ایک شخص نے اپنی بی بی کو تین طلاقیں دیدیں، اس نے دوسرے سے نکاح کر لیا ، دوسرے شوہر نے قبل خلوت کے طلاق دیدی ، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ اب پہلے کے لئے حلال ہوگئی یا نہیں؟ فرمایا کہ نہیں تاوقتیکہ دوسرا شوہر پہلے کی طرح لطف اندوزِ صحبت نہ ہو ، پہلے کے لئے حلال نہیں ہوسکتی ‘‘۔
بخاری ؒ نے یہ حدیث ’’ باب من اجاز الطلاق ثلاثاً ‘‘ کے تحت ذکر کی ہے جس سے معلوم ہوا کہ انہوں نے بھی اس سے یکجا تین طلاق ہی سمجھا ہے ؛ لیکن اس پر یہ اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ رفاعہ قرظی کے واقعہ کا مختصر ہے ، جس کی بعض روایات میں آیا ہے کہ انھوں نے تین طلاقوں میں کی آخری طلاق دی ۔ حافظ ابن حجرؒ نے اعتراض کو اس طرح رد کیا ہے کہ رفاعہ قرظی کے علاوہ بھی ایک صحابی کا ایسا ہی واقعہ اپنی بیوی کے ساتھ پیش آیا ہے اور دونوں ہی عورتوں سے عبد الرحمن ابن الزبیرؓ نے نکاح کیا تھا اور صحبت سے پہلے ہی طلاق دیدی تھی ، لہذا رفاعہ قرظی کے واقعہ پر اس حدیث کو محمول کر نا بے دلیل ہے ۔ اس کے بعد حافظ ابن حجرؒ نے کہا کہ ’’ اس سے ان لوگوں کی غلطی ظاہر ہوگئی جو دونوں واقعہ کو ایک کہتے ہیں ،،۔
جب حدیث عائشہؓ کا حدیث ابن عباسؓ کے ساتھ تقابل کیا جائے تو دو حال پیدا ہوتے ہیں ، یا تو دونوں حضرات کی حدیث میں تین طلاق مجموعی طور پر مراد ہے یا متفرق طور پر ، اگر تین طلاق یکجائی مراد ہے تو حدیث عائشہؓ متفق علیہ ہونے کی وجہ سے اولی ہے ، اور اس حدیث میں تصریح ہے کہ وہ عورت تین طلاق کی وجہ سے حرام ہوگئی تھی اور اب شوہر ثانی سے وطی کے بعد شوہر اول کے لئے حلال ہوسکتی ہے اور اگر متفرق طور پر مرادہے تو حدیث ابن عباسؓ میں یکجائی تین طلاقوں کے واقع نہ ہونے پر استدلال صحیح نہیں ہے ؛ اس لئے کہ دعوی تو یہ ہے کہ ایک لفظ کی تین طلاق سے ایک طلاق پڑتی ہے اور حدیث ابن عباسؓ میں متفرق طلاقوں کا ذکر ہے اور یہ کہنا کہ حدیث عائشہؓ میں تین طلاق متفرق اور حدیث ابن عباسؓ میں مجموعی طور پر مراد ہے ، بلا وجہ ہے۔ اس کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
حضرت عائشہؓ کی مذکور ہ حدیث کے علاوہ بھی بہت سی احادیث ہیں ، جو یکجائی تین طلاق کے نافذ ہو نے پر دلالت کرتی ہیں ، ان میں سے :
۱۔ حضر ت ابن عمرؓ کی حدیث ابن ابی شیبہ بیہقی ، دار قطنی نے ذکر کی ہے۔
۲۔ حضرت عائشہؓ کی ایک حدیث دارقطنی نے ذکر کی ہے ۔
۳۔ حضرت معاذ ابن جبلؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے ۔
۴۔ حضرت حسنؓ بن علیؓ کی حدیث بھی دار قطنی نے روایت کی ہے ۔
۵۔ عامر شعبیؒ سے فاطمہ بنت قیسؓ کے واقعۂ طلاق کی حدیث ابن ماجہ نے روایت کی ہے ۔
۶۔ حضرت عبادہ بن صامت کی ایک حدیث دار قطنی ومصنف عبد الرزاق میں مذکور ہے ۔
ان تمام احادیث سے تین طلاق کا لازم ہونا مفہوم ہوتا ہے ، تفصیل کے لئے دیکھئے حضرت الاستاذ محدث جلیل مولانا حبیب الرحمن الاعظمی صاحب کا رسالہ اعلام مرفوعہ/ ۴ تا ۷ ۔
بعض فقہاء مثلاً ابن قدامہ حنبلیؒ نے یہ وجہ بیان کی ہے کہ نکاح ایک ملک ہے ، جسے متفرق طورپر زائل کیا جاسکتا ہے ، تو مجموعی طور پر بھی زائل کیا جاسکتا ہے ، جیسا کہ تمام ملکیتوں کا یہی حکم ہے۔ قرطبی نے کہا ہے کہ جمہور کی عقلی دلیل یہ ہے کہ اگر شوہر نے بیوی کو تین طلا ق دی ، تو بیوی اس کے لئے اس وقت حلال ہوسکتی ہے ، جب کسی دوسرے شوہر سے ہم صحبت ہولے۔ اس میں لغۃً اور شرعاًشوہر اول کے تین طلاق مجموعی یا متفرق طور پر دینے میں کوئی فرق نہیں ہے ، فرق محض صورۃً ہے جس کو شارع نے لغو قرار دیا ہے ؛ اس لئے کہ شارع نے عتق ، اقرار اور نکاح کو جمع اور تفریق کی صورت میں یکساں رکھا ہے ۔ مولیٰ اگر بیک لفظ کہے کہ میں نے ان تینوں عورتوں کا نکاح تم سے کردیا ، تو نکاح منعقد ہوجاتا ہے جیسے الگ الگ یوں کہے کہ اس کا اور اس کا نکاح تم سے کردیا تو نکاح منعقد ہو جاتا ہے ۔اسی طرح اگر کہے کہ میں نے ان تینوں غلاموں کو آزاد کردیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجائے گی ، جیسے الگ الگ یوں کہے کہ میں نے اس کو اور اس کو اور اس کو آزاد کیا تو سب کی آزادی نافذ ہوجاتی ہے ۔ یہی حال اقرار کا بھی ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ جمع وتفریق میں کوئی فرق نہیں ، زیادہ سے زیادہ یکحائی تین طلاق دینے والے کو اپنا اختیار ضائع کرنے میں انتہا پسندی پر ملازمت کا مستحق ٹھرایا جاسکتا ہے ۔
بعض مخالفین کے علاوہ تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ ہازل کی طلاق حضرت ابوہریرہؓ وغیر ہ کی اس حدیث کی وجہ سے واقع ہوجاتی ہے جسے تمام امت نے قبول کیا ہے۔ ثلاث جدہن جد وھزلہن جد الطلاق والنکاح والرجعۃ ۔ ’’ تین چیزیں ہیں جن کا واقعی بھی حقیقت ہے اور مذاق بھی حقیقت ہے ۔ طلاق ، نکاح اور رجعت‘‘۔ مذاق میں طلاق دینے والے کا دل بھی قصد وارادہ کے ساتھ طلاق کا ذکر کرتا ہے ، لہذا جو طلاق ایک سے زائد ہوگی ، وہ مسمّٰی طلاق سے خارج نہیں ہوگی ، بلکہ وہ بھی صریح طلاق ہوگی اور تین طلاق کو ایک سمجھنا گویا بعض عدد کو زیر عمل لاکر باقی کو چھوڑ دینا ہے ، لہذا یہ جائز نہ ہوگا ۔
یکجائی تین طلاق دینے سے تین واقع ہونا اکثر اہل علم کا قول ہے ، اسی کو حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ، ابن عباسؓ، ابن عمرؓ اور ابن مسعودؓ وغیرہ اصحابِ رسول نے اختیار کیا ہے اور ائمہ اربعہ ابوحنیفہؒ ، مالکؒ ،شافعیؒ اور احمدؒ کے علاوہ دوسرے فقہاء مجتہدین ابن ابی لیلیٰ ؒ ، اوزاعیؒ وغیرہ بھی اسی کے قائل ہیں ۔ ابن عبد الہادی ؒ نے ابن رجبؒ سے نقل کیا ہے کہ میرے علم میں کسی صحابی اور کسی تابعی اور جن ائمہ کے اقوال حلال وحرام کے فتویٰ میں معتبر ہیں ، ان میں سے کسی سے کوئی ایسی صریح بات ثابت نہیں جو بیک لفظ تین طلاق کے ایک ہونے پر دلالت کر ے ، خود ابن تیمیہؒ نے تین طلاق کے حکم میں مختلف اقوال پیش کر نے کے دوران کہا:
دوسرا مذہب یہ ہے کہ یہ طلاق حرام ہے اور لازم ونافذ ہے ، یہی امام ابوحنیفہؒ ، امام مالک ؒ اور امام احمدؒ کا آخری قول ہے ، ان کے اکثر تلامذہ نے اسی قو ل کو اختیار کیا ہے ، اور یہی مذہب سلفِ صحابہ وتابعین کی ایک بڑی تعداد سے منقول ہے ‘‘۔
اور ابن قیم ؒ نے کہا: ’’ ایک لفظ کی تین طلاق کے بارے میں لوگوں کا چار مذہب ہے ۔ پہلا مذہب یہ ہے کہ تین طلاق واقع ہوجاتی ہے۔،یہی مذہب ائمہ اربعہ ، جمہور تابعین اور بہت سے صحابۂ کرام کا ہے ۔
علامہ قرطبیؒ نے فرمایا : ’’ہمارے علماء نے فرماکہ یا تمام ائمہ فتاویٰ ایک لفظ سے تین طلاق کے لازم ہونے پرمتفق ہیں اور یہی جمہور سلف کا قول ہے ‘‘۔ ابن عربی ؒ نے اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں کہا ہے اور اسے ابن قیمؒ نے بھی تہذیب السنن میں نقل کیا ہے : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے الطلاق مرتان (یعنی طلاق دومرتبہ ہے) آخر زمانہ میں ایک جماعت نے لغزش کھائی اور کہنے لگے: ایک لفظ کی تین طلاق سے تین نافذ نہیں ہوتی ، انھوں نے اس کو ایک بنادیا اور اس قول کو سلف اول کی طرف منسوب کردیا۔ علیؓ ، زبیرؓ، ابن عوفؓ، ابن مسعودؓ اور ابن عباسؓ سے روایت کیا اور حجاج بن ارطاۃ کی طرف روایت کی نسبت کردی ؛ جن کا مرتبہ ومقام کمزور اور مجروح ہے ، اس سلسلہ میں ایک روایت کی گئی جس کی کوئی اصلیت نہیں‘‘۔ انہوں نے یہاں تک کہا ہے کہ : ’’ لوگوں نے اس سلسلہ میں جواحادیث صحابہ کی طرف منسوب کی ہیں ، وہ محض افتراء ہے ، کسی کتاب میں اس کی اصل نہیں اور نہ کسی سے اس کی روایت ثابت ہے ‘‘۔ اور آگے کہا : ’’حجاج بن ارطاۃ کی حدیث نہ امت میں مقبول ہے اور نہ کسی امام کے نزدیک حجت ہے ‘‘۔
حدیث ابن عباسؓ کے جوابات: حضرت ابن عباسؓ کی اس حدیث پر کہ ’’ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دوسال میں تین طلاق ایک تھی ‘‘ کئی اعتراضات وارد ہوتے ہیں ،جن کی بناپر اس حدیث سے استدلال کمزور پڑجاتا ہے ۔
اس حدیث کے سند ومتن میں اضطراب ہے ، سند میں اضطراب یہ ہے کہ کبھی ’’عن طاؤس عن ابن عباس‘‘کہاگیا ، کبھی ’’ عن طاؤس عن ابی الصہباء عن ابن عباس‘‘ اور کبھی ’’عن ابی الجوزاء عن ابن عباس ‘‘ آیا ہے
متن میں اضطراب یہ ہے کہ ابو الصہباء نے کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے : الم تعلم أن الرجل کان اذا طلق امرأتہ ثلاثا قبل أن یدخل بہا جعلوہا واحدۃً ۔’’کیا آپ کو معلوم نہیں کہ مرد جب ملاقات سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاق دیتا تھا ، تو لوگ اسے ایک شمار کر تے تھے ‘‘۔ اور کبھی ان الفاظ میں روایت کیا ہے: الم تعلم ان الطلاق الثلاث کان علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم و ابی بکر وصدر من خلافۃ عمر واحدۃ ۔ ’’ کیا آپ کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اور حضرت ابو بکرؓ کے زمانے میں اور حضرت عمرؓ کے ابتدائی دورِ خلافت میں تین طلاق ایک تھی ‘‘۔
حضرت ابن عباسؓ سے روایت کر نے میں طاؤس منفرد ہیں اور طاؤس میں کلام ہے ، اس لئے کے وہ حضرت ابن عباسؓ سے مناکیر روایت کرتے ہیں ۔قاضی اسماعیلؒ نے اپنی کتاب احکام القرآن میں کہا ہے کہ ’’طاؤس اپنے فضل وتقوی کے باوجود منکر باتیں روایت کرتے ہیں اور انھیں میں سے یہ حدیث بھی ہے ‘‘۔ ابن ایوب سے منقول ہے کہ وہ طاؤس کی کثرت خطا پر تعجب کر تے تھے۔ ابن عبد البر مالکی نے کہا کہ ’’ طاؤس اس حدیث میں تنہا ہیں‘‘۔ ابن رجب نے کہا کہ ’’ علماء اہل مکہ طاؤس کے شاذ اقوال کا انکار کرتے تھے ‘‘۔ قرطبی نے عبد البر سے نقل کیا ہے کہ ’’ طاؤس کی روایت وہم اور غلط ہے ، حجاز ، شام اور مغرب کے کسی فقیہ نے اس پر اعتماد نہیں کیا ہے ‘‘۔
بعض اہل علم نے کہا ہے کے حدیث دو وجہ سے شاذ ہے ، ایک تو اس وجہ سے کہ اس کی روایت کرنے میں طاؤس منفرد ہیں اور کوئی ان کا متابع نہیں ۔امام احمدؒ نے ابن منصور کی روایت میں کہا ہے کہ’’ ابن عباسؓ کے تمام تلامذہ نے طاؤس کے خلاف روایت کیا ہے ‘‘ جوزجانی نے کہا ہے کہ ’’ یہ حدیث شاذ ہے ‘‘ ۔ ابن عبد الہادی نے ابن رجب سے نقل کیا ہے کہ’’ میں نے بڑی مدت تک اس حدیث کی تحقیق کا اہتمام کیا، لیکن اس کی کوئی اصل نہ پاسکا‘‘۔
شاذ ہونے کی دوسری وجہ وہ ہے جس کو بیہقی نے ذکر کیا ہے انہوں نے ابن عباسؓ سے تین طلاق لازم ہونے کی روایات ذکر کر کے ابن المنذر سے نقل کیا ہے کہ ’’ وہ ابن عباسؓ کے بارے میں یہ گمان نہیں کرتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے انھوں نے کوئی بات محفوظ کی ہو اور پھر اس کے خلاف فتویٰ دیں ‘‘۔ ابن ترکمانی نے کہا کہ ’’ طاؤس کہتے تھے کہ ابوالصہباء مولیٰ ابن عباسؓ نے ان سے تین طلاق کے بارے میں پوچھا تھا ؛ لیکن ابن عباسؓ سے یہ روایت اس لئے صحیح نہیں مانی جاسکتی کہ ثقات خود انھیں سے اس کے خلاف روایت کر تے ہیں اور اگر صحیح بھی ہو ، تو ان کی بات ان سے زیادہ جاننے والے جلیل القدر صحابہ حضرت عمرؓ ، عثمانؓ، علیؓ ، ابن مسعودؓ، ابن عمرؓ وغیرہم پر حجت نہیں ہوسکتی ‘‘۔
حدیث میں شذوذ ہی کی وجہ سے دو جلیل القدر محدثوں نے اس حدیث سے اعراض کیا ہے ۔امام احمد ؒ نے اثرم اور ابن منصور سے کہا کہ میں نے ابن عباسؓ کی حدیث قصداً ترک کر دی ؛ اس لئے کہ میری رائے میں اس حدیث سے یکجائی تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال درست نہیں ؛ کیوں کہ حفاظِ حدیث نے ابن عباسؓ سے اس کے خلاف روایت کیا ہے اور بیہقی نے امام بخاریؒ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے حدیث کو اسی وجہ سے قصداً چھوڑدیا، جس کی وجہ سے امام احمدؒ نے ترک کیا تھا اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ دو امام فن حدیث کو اسی وقت چھوڑسکتے ہیں جب کہ چھوڑنے کا سبب رہاہو۔
حضرت ابن عباسؓ کی حدیث ایک اجتماعی حالت بیان کرتی ہے ، جس کا علم تما م معاصرین کو ہونا چاہئے تھا اور متعدد طرق سے اس کے نقل کے کافی اسباب ہونے چاہئے تھے ، جس میں اختلاف کی گنجائش نہ ہوتی ، حالانکہ اس حدیث کو ابن عباسؓ سے بطریقِ آحاد ہی روایت کیا گیا ہے ، اسے طاؤس کے علاوہ کسی نے روایت نہیں کیا ہے ، جب کہ وہ مناکیر بھی روایت کرتے ہیں ۔
جمہور علماء اصول نے کہا ہے کہ اگر خبر آحاد کے نقل کے اسباب وافر ہوں ، تو محض کسی ایک شخص کا نقل کر نا اس کے عدم صحت کی دلیل ہے ۔صاحب جمع الجوامع نے خبر کے عدم صحت کے بیان میں اس خبر کو بھی داخل کیا ہے جو نقل کے اسباب وافر ہونے کے باوجود بطریق آحاد نقل کی گئی ہو ۔ ابن حاجبؒ نے مختصر الاصول میں کہا ہے :
’’ جب تنہا کوئی شخص ایسی بات نقل کرے ، جس کے نقل کے اسباب کافی تھے ، اس کے نقل میں ایک بڑی جماعت اس کے ساتھ شریک ہونی چاہئے تھی ، مثلاًوہ تنہا بیان کرے کہ شہر کی جامع مسجد میں منبر پر خطبہ دینے کی حالت میں خطیب کو قتل کر دیا گیا ، تو وہ جھوٹا ہے ، اس کی بات بالکل نہیں مانی جائے گی‘‘۔
جس بات پر عہد نبوی ، عہد صدیقی اور عہدفاروقی میں تمام مسلمان باقی رہے ہوں، تو اس کے نقل کے کافی اسباب ہوں گے ؛ حالانکہ ابن عباسؓ کے علاوہ کسی صحابی سے اس کے بارے میں ایک حرف بھی منقول نہیں (اور اس کو بھی حضرت ابن عباسؓ نے ابوالصہباء کے تلقین کرنے پر بیان کیا ہے ) صحابۂ کرام کی خاموشی دو بات پر دلالت کر تی ہے ۔ یاتو حدیث ابن عباسؓ میں تینوں طلاقیں بیک لفظ نہ مانی جائیں ؛ بلکہ اس کی صورت یہ ہے کہ بیک لفظ تین الفاظ میں تین طلاق دی گئی اور لفظ کا تکرار تاکید پر محمول کیا جائے ، یا یہ حدیث صحیح نہیں ، اس لئے کہ نقل کے کافی وسائل ہونے کے باوجود آحاد نے اسے روایت کیا ہے ۔
جب ابن عباسؓ جانتے تھے کہ عہد نبوی، عہد صدیقی اور عہد فاروقی کے ابتدائی دور میں تین طلاق ایک سمجھی جاتی تھی ، تو ان کے صلاح وتقویٰ ، علم و استقامت ، اتباع سنت اور برملا حق گوئی کے پیش نظر یہ نہیں سوچا جاسکتا کہ انھوں نے یکجائی تین طلاق سے تین نافذ کرنے میں حضرت عمرؓ کے حکم کی اتباع کی ہوگی ۔ تمتع حج ، دو دینار کے عوض ایک دینار کی خرید وفروخت ، ام ولد کی خرید وفروخت وغیرہ کے مسائل میں حضرت عمرؓ سے ان کا اختلاف پوشیدہ نہیں ، لہذا کسی ایسے مسئلہ میں وہ حضرت عمرؓ کی موافقت کیسے کرسکتے ہیں ، جس کے خلاف وہ خود روایت کرتے ہوں، تمتع حج کے بارے میں حضرت عمرؓ سے ان کا جو اختلاف ہوا ہے ، اس سلسلہ میں ان کا یہ مشہور قول ان کی بر ملا حق گوئی کی واضح دلیل ہے ، انھوں نے فرمایا کہ : ’’ قریب ہے کہ تم پر آسمان سے پتھر برسیں ، میں کہتاہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایااور تم لوگ کہتے ہو ابوبکر نے کہا ، عمر نے کہا ‘‘۔
اگر ابن عباسؓ کی حدیث کو صحیح بھی تسلیم کر لیا جائے ، تو قرون اولیٰ میں صحابۂ کرام کے صلاح وتقویٰ ، علم واستقامت اور غایت اتباع کو دیکھتے ہوئے یہ نہیں کہا جاسکتا کہ انھوں نے تین طلاقوں کو ایک جانتے ہوئے حضرت عمرؓ کا حکم قبول کرلیا ہوگا ، اس کے باوجود کسی سے بہ سند صحیح یہ ثابت نہیں کہ اس نے حدیث ابن عباسؓ کے مطابق فتویٰ دیا ہو۔
مخالفین کا کہنا ہے کہ حضرت عمرؓ نے تین طلاق سے تین کے نفاذ کا حکم سزا کے طور پر جاری کیا تھا ؛ اس لئے کہ ایسے کام میں جس پر بڑے غور وفکر کے بعد اقدام کرنا چاہئے تھا ، لوگوں نے عجلت سے کام لینا شروع کر دیا تھا ؛ لیکن یہ بات تسلیم کرنا موجب اشکال ہے ، اس لئے کہ حضرت عمرؓجیسا متقی عالم وفقیہ کوئی ایسی سزا کیسے جاری کرسکتا ہے ، جس کے اثرات مستحق سزا تک ہی نہیں محدود رہتے ؛ بلکہ دوسری طرف (یعنی بیوی کی طرف) بھی پہونچتے ہیں ۔ حرام فرج کو حلال کرنا اور حلال فرج کو حرام کرنا اور حقوق رجعت وغیرہ کے مسائل اس پر مرتب ہوتے ہیں ۔
مجلس کا فیصلہ: مجلس ہیئت کبار علماء نے جو فیصلہ کیا ہے ، اس کے الفاظ یہ ہیں :
بعد دراسۃ المسئلۃ وتداول الرأی واستعراض الأقوال التی قیلت فیہا ومناقشۃ ما علی کل قول من إیراد توصل المجلس بأکثریتہ إلی اختیار القول بوقوع الطلاق الثلاث بلفظٍ واحدٍ ثلاثاً ۔ (مجلۃ البحوث الإسلامیۃالمجلد الأول ، العدد الثالث ، ص: ۱۶۵)
مسئلہ موضوعہ کے مکمل مطالعہ ، تبادلۂ خیال اور تمام اقوال کا جائزہ لینے اور ان پر وارد ہونے والے اعتراضات پر جرح ومناقشہ کے بعد مجلس نے اکثریت کے ساتھ ایک لفظ کی تین طلاق سے تین واقع ہو نے کا قول اختیارکیا۔ لجنہ دائمہ نے تین طلاق کے مسئلہ میں جو بحث تیار کی ہے ، اس کے اخیر میں مندرجہ ذیل اراکین مجلس کے دستخط بھی موجود ہیں ۔
ابراہیم بن محمد آل الشیخ صدر لجنہ
عبد الرزاق عفیفی نائب صدر
عبد اللہ بن عبد الرحمن بن غذیان عضومجلس
عبد اللہ بن سلیمان بن منیع عضو مجلس
تنبیہ: اس مجلس کے جن علماء نے تین طلاق کو ایک قرار دیا ہے ، انھوں نے صرف اس صورت کا یہ حکم بیان کیا ہے ’’ جب کوئی شخص یوں طلاق دے کہ میں نے تین طلاق دی (یا دیا) ؛ لیکن جب کوئی یوں کہے کہ میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، میں نے طلاق دیا، تو اس صورت میں وہ بھی نہیں کہتے کہ ایک طلاق پڑے گی‘‘۔ (یعنی اس صورت میں ان کے نزدیک بھی تین طلاق واقع ہوگی) ۔
No comments:
Post a Comment