تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ۔ احناف کے مضبوط دلائل قرآن و سنّت کی روشنی میں Part.I
۱۔پہلی دلیل اور اس کا جواب:۔
حضرت طاؤس فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ؒ بن عباسؓ نے فرمایا کہ آنحضرتﷺ اور حضرت ابو بکرؓ کے عہد اور حضرت عمرؓ کے ایام خلافت کے ابتدائی دو سام تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں ، حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ لوگوں نے اپے معاملہ میں جلدی جلد بازی سے کام لیا ہے حالانکہ ان کو سوچنے کا وقت حاصل تھا ہم کیوں نہ انکو ان پر نافذ کر دیں تو ھضرت عمرؓ نے ان پر تین ہی نافذ کر دیں۔ (مسند احمد، مسلم شریف، و سنن کبری جلد۷ص۲۳۶)
الجواب:۔
جمہور کی طرف سے اس کے کئی جوابات دیے گئے ہیں جن میں سے بعض کو ہم یہاں افادہ کے لیے نقل کرتے ہیں جن میں سے بعض رایتی پہلو کے حامل ہیں اور بعض درایتی جانب پر حاوی ہیں،
اوّل:۔ امام بیہقیؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے اس روایت کی خریج نہیں کی محض اس لیے کہ حضرت ابن عباسؓ کی جملہ صحیح روایات اس کے خلاف ہیں۔
(سنن الکبری ج۷ ص۲۳۷)
اور نیز فرماتے ہیں کہ حضرت سعید بن جبیرؒ عطا بن ابی رباحؒ مجاہد عکمرمہ ، عممر و بن دینارؒ ، مالک بن الحویرث محمد بن ایاسؒبن کبیرؒ اور معاویہ بن ابی عیاش الانصاریؒ تمام (ثقہ اور مشہور) راوی حضرت ابن عباس ؓ سے یہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے تین طلاقوں کو تین ہی قرار دیا ہے ۔(سنن الکبری جلد ۷ص۲۳۸) اور حافظ ابن رشد ؒ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباسؓ کے جملہ جلیل القدر شاگرد و مثلاً حضرت سعید ؒ بن جبیرؒ ، ممجاہدؒ عطاؒ عمرو بن دینارؒ اور ان کے علاوہ اان کے شاگردوں کی ایک خاصی جماعت اس کے خلاف روایت کرتی ہے صرف طاؤس ؒ اس پوری جماعت کے خلاف روااایت کرتے ہیں۔(ہدیۃ المجتھد جلد ۲ص۶۱)
حضرت عبداللہ بن عباسؓ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں اب اسس کی کیا صورت ہو سکتی ہے ابن عباسؓ نے رمایا کہ تیرے چچا نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی پے اور اب اس کی کوئی صورت نہیں بن سکتی وہ شخص بولا کہ کیا حلالہ کی صورت میں بھھی جوز شکل نہیں پیدا ہو سکتی ؟ اس پر حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ تعالٰی سے دھوکہ کرے گا اللہ رعالٰی اس کو بدلہ دیگا (سنن الکبری جلد ۷ ص۲۲۷، و طحاوی جلد ۲ ص۲۹) اور ان سے ایک روایت یوں آتی ہے کہ ایک شخص نے حضرت ابن عباسؓ کی خدمت میں حاضر ہو کر یہ سوال کیا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں حضرت ابن عباسؓ نے اس پر سکوت اختیار کیا ہم نے یہ خیال کہ شاید وہ اس عورت کو واپس اسے دلانا چاہتے ہیں مگر ابن عباسؓنے فمایا کہ تم خود حماقت کا ارتکاب کرتے ہو اور پھرکہتے ہو اے ابن عباسؓ اے ابن عباسؓ ؟ با ت یہ ہے کہ جو شخص خدا تعالٰی سے ننہ ڈرے تو اس کے لیے کوئی راہ نہیں نکل سکتی جب تم نے اللہ تعالٰی کی نافرمانی کی ہے تو اب رمہارے لیے کوئی گنجائش نہی نہیں تمہاری بیوی اب تم سے بالکل علٰیحدہ ہو چکی ہے ۔(سنن الکبری) حافظ ابن حجر فرماتے ہیں اسناد ہ صحیح (تعلق المعنی ص۴۳۰) اور ان سے ایک رویت یوں آتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاق دے دی ، حضرت ابن عباسؓ نے یہ فتویٰ دیا کہ تین طلاقیں تو واقع ہو چکی ہیں باقی ستانوے ۹۷، کے ساتھ تم نے اللہ تعالٰی کی کتاب کے ساتھ مسخرہ کیا ہے۔ (معاذ اللہ ۔ مؤطا امام مالک ص۱۹۹ دارقطنی جلد ۲ص۴۳۰ و طحاوی جلد ۲ص۳۰، وسنن الکبری ص۳۳۲)
اور ان سے ایک روایت ہے اس رح آتی ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک ہزار طلاق دے دی تو حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا تین طلاقیں تو واقع ہو چکی ہیں باقی نوسو ستانوے تیرے لیے وبال جان ثابت ہوں گی ۔(سنن الکبری جلد ۷ ص۳۲۳)
اور ایک روایت میں آٹا ہے کہ ایک شخص نے اپنی غیر مدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو حضرت ابن عباسؓ حضرت ابو ہریرؓ اور حضرت عبداللہ ؓ بن عمرؓ نے یہ فیسلہ صادر فرمایا کہ تین طلاقیں ہی واقع ہو چکی ہیں اوراب وہ عورت اس کے لیے حلال نہہیں یہاں تک کہ وہ کسی اور مرد سے نکاح نہ کرے (سنن الکبریٰ جلد ۷ ص۱۵۴)
نوٹ:۔ حضرت طاؤسؒ کی خود اپنی روایت میں بھی غیر مدخول بہا کی قید موجود ہے ،چنانچہ علامہ علاؤ الدین علی ؒ بن عثمان الماردینی الحنفی (المتوفٰی ۷۴۵ھ) لکھتے ہیں کہ ۔
”محدث ابن ابی شیبہ ؒ نے سند کے ساتھ جس کے تمام راوی ثقہ ہیں حضرتۃ طاؤس عطار اور جابر بن زید ؓ سے یہ روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ جب کوئی شخص اپنی غیرمدخول بہا بیوی کو تین طلاقیں دیدے تو وہ ایک ہی ہو گی“۔ (الجواہر النقی علی البیہقی جلد۷ ص۲۳۱)
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت طاؤسؒ کی اپنی روایت بھی مطلقاً تین طلاقوں کو ایک کرنے کے حق میں نہیں ہے بلکہ یہ غیر مدخول بہا سے مخصوص ہے۔ اس لیے حضرت طاؤسخ کی یہ روایت بھی اس شبہ کو مزید تقویت دیتی ہے کہ یہ روایت مطلق نہیں ہے اور اس کو اطلاق پر رکھنا وہم ہے یہی وجہ سے کہ حافظ ابو عمر بن عبدالبر المالکیؒ (المتوفٰی ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ :۔
ھذہ الروایۃ وھم وغلط (الجوھر النقی جلد ۷ ص۳۳۷) ”کہ مسلم کی یہ روایت وہم اور غلط ہے“۔
اور قاضی شوکانیؒ بھی امام احمدؒ بن حنبلؒ سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ :۔
کل اصحاب ابن عباسؓ روواعنہ خلاف ماقالہ طاؤسؒ (نیل الاوطار جلد ۲ص۲۴۷) ”حضرت ابن عباسؓ کے تمام شاگرد حضرت ابن عباسؓ سے اس کے خلاف روایت کرتے ہیں جو طاؤس نقل کرتے ہیں“۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث مضطرب ہے (فتح الباری جلد ۹ ص۲۹۲) امام ابن العربی مالکی ؒ شارح ترمذی فرماتے ہیں کہ روایت میں کلامم ہے لہذا یہ روایت اجماع پر کیسے ترجیح پاسکتی ہے۔ َ؟(فتح الباری جلد ۹ص۲۹۱) علامہ ابو جعفر بن النحاسؒ اپنی کتاب الناسخ والمنسوخ میں لکھتے ہیں کہ طاؤسؒ اگرچہ مرد صالح ہیں لیکن حضرت ابن عباسؓ سے بہت سی روایات میں متفرد ہیں، اہل علم ان روایات کو قبول نہی کرتے مجملہ ان کے ایک روایت وہ بھی ہے جس میں انہوں نے حضرت ابن عباسؓ سے تین طلاقوں کے ایک ہونے کی روایت کی ہے لیکن صحیح روایت حضرت ابن عباسؓ اور حضرت علیؓ سے یہی ہے کہ تین طلاقیں تین ہی ہوتی ہیں۔ (اعلام الموفوعہ ص۲۲ از حضرت مولانا حبیب الرحمٰن صاحب اظمی) بلاشک حافظ ابن القیم ؒ اور قاضی شوکانیؒ وغیرہ نے وہم اور ااضطراب وغیرہ کا جواب دینے کی سعی کی ہے لیکن حلال و حرام کے مسئلہ میں ایسی روایت پر جس پر جمہور مطمئن نہ ہوں اور خود اس کے راوی حضرت ابن عباسؓ بھی اس کے خلاف فتویٰ دیتے ہوں کیونکہ مدار رکھی جاسکتی ہے اور حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد جو اس روایت کے بیان کرنے میں متفرد ہیں (یعنی حضرت طاؤسؒ) وہ بھی اس کو غیر مدخول بہا سے تقید اور مخصوص سمجھتے ہوں اور اسی پر فتویٰ دیتے ہوں۔ پھر بھلا کیونکر اس کو مدار بنایا جا سکتا ہے؟
یہ یاد رہے کہ اس روایت میں ابو الصہباؒ کا ذکر بھی آایا ہے لیکن وہ راوی نہیں یہ روایت حضرت ابن عباسؓ سے تنہا حضرت طاؤسؒ کررہے ہیں ابو الصہباؒ کا ذکر صرف سائل کے طور پر آیا ہے جنہوں نے حضرت ابن عباسؓ سے سوال کیا ہے اور مختلف فیہ ہیں بعض محدثین انکو ثقہ کہتے ہیں لیکن امام ابن عبدالبر ؒ ان کو مجہول کہتے ہی ں (الجوہر النقی جلد ۷ ص۲۲۷) اور امام نسائی ان کو ضعیف کہتے ہیں (میزان جلد ۱ ص۴۶۹ و تہذیب التہذیب جلد ۴ ص۴۳۹) اور یہ تو یقینی امر ہے کہ وہ صحابی ہرگز نہ تھے لیکن حیرت کی بات ہے کہ ان کو تو یہ مسئلہ معلوم تھا کہآنحضرت ﷺ کے زمانہہ مبارک میں عہد صدیقی اور حضرت فاروق ؓ کے ابتدائی دور خلافت میں تین طلاقوں کو ایک یا جاتا تھا مگر حضرت صحابہ کرامؓاس حکم سے بالکل ناواقف رہے یہی وجہ ہے کہ جب حضرت عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین ہی نافذ کیا تو کسی صحابی نے اس کے خلاف ایک حرف بھی نہ کہا کہ حضرت ! آہپ کیا کرتے ہیں؟ سنت نبوی ؒ تو یوں ہے اور دور وہ تھا جس میں عورتیں بھی حضرت عمرؓ کو مسائل میں روک لیتی تھیں چنانچہ ایک بی بی نے حضرت عمرؓ کو زیادہ مہر نہ مقرر کرنے کی تلقین پر عین خطبہ کے موقع پر روکا تھا ۔(دیکھئے رفع المالم عن ائمۃ الاعلام ص۶۰ لحافظ ابن تیمیہؒ) اور پھر لطف کی بات یہ ہے کہ ابو الصہباؒ بھی اس کو انوکھی عججیب و غیرہب اور نرالی بات سے تعبیر کرتے ہیں اگر یہ ابت سابق اوروں میں معمول بہ ٖ ہوتی تو یہ کوئی نرالی اوور انوکھی بات تو نہ تھی اور یہی وجہ ہے کہ جمہور اس کے ظاہری الفاظ سے نہ تو مطمئن ہیں اور نہ اس پر عمل پیرا ہیں اور حدیث میں آیا ہے کہ ”یہ اللہ علیٰ الجماعۃ “
عہا حضرت ابن عباؓ کا ہاں کہہ کر اثبات میں جواب دینا تو بجا ہے مگر یہ مطلق نہیں بلکہ یہ حکم غیر مدخول بہا سے متعلق ہے اور وہ بھی جب کہ اس کو متفرق طور پر ایک ہی مجلس میں انت طالق انت طالق انت طالق کہہ کر تین طلاقیں دی گئی ہوں۔
فائدۃ:۔
اگر غیرمقلدین حضرات کے نزدیک مسلم میں حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ کی حدیث میں واذا قرأفانصتوا کا جملہ (جو اپنے مقام پر دلائل قاطعہ سے ثابت ہے ) شاذ ہو سکتا ہے حالانکہ اس حدیث کا راوی متفرد بھی نہیں تو طاؤسؒ کی روایت میں ایسا وہمم کیوں نہیں ہو سکتا؟ آخر اس کی کیا وجہ ہے۔
۲۔ دوم:۔
کسی چیز کا آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں ( اور اسی طرح عہد صدیقی میں) ہونا اس کا مققنی نہیں کہ وہ کام آنحضرت ﷺ کے حکم اور اجازت سے ہوا ہو بعض کام ایسے بھی تھے جو آپ کے عہد مبارک میں ہوتے تھے لیکن آپکو ان کی خبر تک نہ تھی تو ایسے امور کا جواز کیونکر ثابت ہو سکتا ہے؟
حضرت عمارؓ نے آنحضرت ﷺ کے عہد مبارک میں جنابت کے لیے تیمم کرتے وقت سر سے پاؤں تک سارے بدن کھاکھا مٹی ملی تھی مگر جب آپکو اس کا علم ہوا تو آپ نے ان کی اس کاروائی میں تغلیط کی (بخاری جلد ۱ ص۵۰)
اور حضرت عمرؓ نے بحالت جنابت پانی نہ ملا تو نماز ہی نہ پڑھی (بخاری ج۱ص۴۸) اور اس قسم کے بیسیوں واقعات کتب حدیث میں موجود ہیں۔ تو کیا آپ کے عہد میں ہونے کی وجہ سے یہ سب کام جائز ہو گئے ؟ اور حدیث مذکور نہ تو آنحضرت ﷺ کا قول ہے اور نہ فعل پھر اس کو کیونکر حجت گروانا جاسکتا ہے؟ چنانچہ مشہور ظاہری محدث علامہ ابن حزم ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
فلیس شئی منہ انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام ھوالذی جعلھا واحدۃ اوردھا الٰی الواحدۃ ولا انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام علم بذلک فاقرۃ ولا حجۃ الا فیما صح انہ علیہ الصلٰوۃ والسلام قائم اور فعلہ اور علمہ فلم ینکرو اھ (محلی جلد ۱۰ ص۲۰۶)
”اس حدیث میں کوئی چیز اییس نہیں جو اس پر دلالت کرتی ہو کہ آنحضرت ﷺ نے تین طلاقوں کوایک کیا تھا یا ان کو ایک کی طف لوٹا یا تھا اور نہ اس میں یہ چیز مموجود ہے کہ آنحضرت ﷺ کو اس کا علم ہوا اور آپ نے اس کو برقرار رکھا اور حجت تو صرف اسی چیز میں ہے جو آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہویا کوئی کام کیا ہو یا آپکو اس کا علم ہؤا ہو اور ُ نے اس پر نکیر نہ فرمائی ہو“۔
علامہ ابن حزم ؒ کے اس بیان سے معلوم ہوا کہ حدیث سرے سے مرفوع ہی نہیں ہے کیونکہ مرفوع کے تینوں اقسام (قولی فعلی اور تقریری ) سے یہ خارج ہے اور حجت تو صرف آپ کی حدیث میں ہے کسی غیر معصوم کے غیر معصوم قول میں تو حجت نہیں ہے کہ جو کچھ اس نے کہہ دیا وہ حرف آخر ہو گیا اور یہی وجہ ہے کہ نہ تو حضرت عمرؓ نے اس مفروض حکم کی مخالفت کی کچھ پروا کی اور نہ خود راوی حدیث حضرت ابن عباس نے اس کی فکر کی اگر حضرت ابن عباسؓ کو یہ معلوم ہوتا کہ آنحضرت ﷺ کے مبارک زمانہ اور عہد صدیقی میں بلا کسی متعین صورت کے مطلقاً تین طلاقؤں کو ایک کیا جاتا تھا اور پھر جب حضرت عمرنے اس کے خلاف حکم صادر فرمایا تھا تو حضرت ابن عباسؓ پر لازم تھا کہ وہ بفجوائے حدیث من رای منکم منکر فلیغیرہ الحدیثؔ اس کے خلاف ضرور آواز بلند کرتے اور تعجب تو یہ ہےکہ حضرت ابن عباسؓ فتویٰ بھی تین ہی کا دیتے رہے اور یہ طے شدہ بات ہے کہ کسی راوی کا اپنی مروی حدیث کے خلاف عمل اور فتویٰ (بشرطیکہ وہ منسوخ ہو) اس کی عدالت وثقاہت پر اذر انداز ہوتا ہے تو اس صورت میں حضرت ابن عباسؓ کا (معاذ اللہ تعالٰی) غیر عدول ہونا لازم آتا ہے حالانکہ حضرات صحابہ کرامؓ بھی عدوم تھے اور یہ بھی اصول کا مسئلہ ہے کہ جس حدیث سے حضرت ابن عباسؓ کی یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول نہیں ہے۔
۳۔ سومؔ:۔
حضرت امام بیہقی ؒ اپنی سند کے ساتھ حضرت امام شافعیؒ سے نقل کرتے ہیں کہ بعید نہیں کہ یہ روایت جو حضرت ابن عباسؓ سے مروی ہے منسوخ ہو ورننہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آنحضرتﷺ کا یک حکم ان کو معلوم ہو اور پھر وہ دیدہ دانستہ اس کے خلاف عمل کرتے اور فتویٰ دہتے ہوں ۔(سنن الکبری جلد ۷ ص۳۳۷) ااور ان کا یہ ارشاد بعید از قیاس نہیں ہے کیونک ہطلاق کے سلسلہ میں پہلے تین طلاقیں دے چکنے کے بعد بھی رجوع کیا جاسکتا تھا۔ جو بعد کو منسوخ ہو گیا چنانچہ حضر ت ابن عباسؓ سے ہی روایت ہے کہ پہلے تین طلاقوں کے بعد رجوع ہو سکتا تھا مگر بعد کو یہ حکم منسوخ ہو گیا ۔(نسائی جلد ۲ ص۱۰۲و ابو داؤد جلد ۱ ص۲۰۱۷) اور امام ابو داؤد ؒ نے حضرت ابن عباسؓ کی مسلم والی روایت کو باب بقیہ نسخ المراجعۃ بعد التطلیقات الثلاث کے تحت داخل کرکے اس کی نسخ کو ثابت کیا ہے ۔ (ابوداؤد جلد ۱ ص۲۹۸) اور علامہ ابو بکر محمدؒ بن موسٰی ؒ الحازمی الشافعیؒ فرماتے ہیں کہ پہلے تین طلاقوں کے بعد مراجیعت کا حق پہنچتا تھا مگر بعد کو بالاجماع یہ حکم منسوخ ہو گیا ، ظاہر قرآن و حدیث اسسہ پر دا؛ پہں ( کتاب الاعتبار ص۱۸۱ اور حافظ ابن حجرؒ اور علامہ آلوسیؒ وغیرہ کے حوالہ سے پہلے عرض کیا جاچکا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ کا اجماع بغیر نسخ کے علم کے بالکل نہیں ہو سکتا اور حافظ ابن تیمیہؒ کے حوالہ سے عرض کیا جا چکا ہے کہ جب کسی مسئلہ پر اجماع ہو گیا ہو تو لا محالہ ان کو نسخ کا علم ہو چکا ہو گا اگرچہ بعض سے نص ناسخ مخفی رہ جائے اور چونکہ حضرت ابن عباسؓ کا فتویٰ ااس حدیث کے ظاہر کے خلاف ہے اس لیے یہ واضح قرینہ ہے کہ حضرت عمرؓ کے عہد میں جب تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماع ہو گیا ( اور اجماع وجود ناسخ کی دلیل ہے) تو حضرت ابن عباسؓ مطمئن ہو گئے اور اس کے خلاف فتویٰ دہتے رہے ورنہ اپنی مروی حدیث کے خلاف ان کا فتویٰ معاذ اللہ تعالٰی ان کی عدالت پر اثر مذاذ ہو گا۔
غیرمقلد نواب صدیق حسن خان صاحبؒ لکھتے ہیں کہ :۔
ومخالفت راوی از برائے مروی دلیل است برآنکہ راوی علم ناسخ دارد چہ حمل آن برسلامت واجب است( دلیل الطالب ص۴۷۶)
قاضی شوکانی ؒ نے حضرت ابن عباسؓ کے فتویٰ کے اس حدیث کے خلاف ہونے کی ایک وہ نسیان اور بھول جانا بھی لکھا ہے (ملاحظہ ہو نیل الاوطار جلد ۲ ص۲۴۷) مگر یہ وجہ بالکل مردود ہے کیونکہ حضرت ابن عباسؓ نے متعد و مواقع پر حضرات صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ کی موجود گی میں یہ فتویٰ دیا ہے تو کیا کسی موقر پر بھی ان کو اپنی مروی حدیث یا د نہ آئی َ جب کہ ان کے بغیر روایت صحیح سند کے ساتھ کسی اور صحابی ؓ سے مروی ہی نہیں، ہے یہی وجہ ہے کہ مشہور غیرمقلد عالم مولانا محمد عبداللہ صاحب روپڑی (المتوفٰی ۱۳۸۵ھ) لکھتے ہیں کہ امام شوکانیؒ نے جو بھولنا وجہ بیان کی ہے یہ بالکل ٹھیک نہیں الخ ۔ (ایک مجلس کی تین طلاقیں ضمیہ تنظیم اہل حدیث روپڑ ص۳)
۴۔ چہارم:۔
حضرت ابن عباسؓ کی اس روایت کا یہ مطلب نہیں کہ آنحضرت ﷺ کے زمانہ اورعہد صدیقی میں دی گئی تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا بلکہ یہ مطلب ہے کہ اس عہد میں عموماً ایک وقت میں بجائے تین طلاقوں کے صرف ایک طلاق دی جاتی تھی (اس کے بعد اگر خاوند مناسب سمجھتا تو دوسرے اور تیسرے طہر میں مزید طلاق دیدیتا ورنہ ایک طلاق پر ہی اکتفا کرلیتا اور عدت گذر جانے کے بعد عورت اس کے نکاح سے آزاد ہو جاتی ) اگر چہ تین کاثبوت بھی اس مبارک عہد میں ہے جیسا کہ حضرت محمودؓ بن لبید ؓ وغیرہ کی روایت با حوالہ پہلے گذر چکی ہے مگر نسبتاً ایساکم ہوتا تھا لیکن بعد کو حضرت عمرؓ کے زمانہ میں تین کا رواج بکثرت ہو گیا اور انہوں نے تین ہی کو لوگوں پر نافذ کر دیا اور حضرت عمرؓ کا یہ ارشاد اس کی تائید کرتا ہے کہ شریعت نے ان کو تدبر کا موقع یا تھا لیکن لوگوں نے جلد باز ی سے کام لینا شروع کر دیا ہے لیکن جب لوگوں نے اس کا التزام کیا ہے تو ہم بھی ان کو ان پر نافذ کئے دیتے ہیں اور ایک روایت میں تتابع الناس فی الطلاق کے الفاظ آئے ہیں کہ عہد فاروقی میں لوگوں نے لگاتار طلاق دینا روع کر دیا ۔ حضرت ابن عباسؓ کی اس رویت کا یہ مطلب نہیں کہ عدد اور گنتی کے لحاظ سے تو تین طلاقیں ہوتی تھیں مگر شمار میں ایک ہوتی تھی اور اس مطلب کے لیے مشہور تابعی ابراہیم نخعیؒ (المتوفٰی۹۵) کی وہ روایت دلیل اور قرینہ ہے جو مصنف ابن ابی شیبہ ؒ وغیرہ میں آتی ہے۔
کانو ایستحجسون ان یطلقھا واحدۃ ثم یترکھا حتی تحیض ثلاث حیض (نصب الرأیہ جلد ۳ص۲۲۰ و رویہ ص۲۲۶)
”کہ وہ حضرات اس کو پسند کرتے تھے کہ بیوی کو صرف ایک ہی طلاق دی جائے پھر اس کو چھوڑ دییا جائے یہاں تک کہ تین حیض اس پر گذر جائیں۔
حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں یہ روایت باسناد صحیح ہے۔ (درایہ ص۲۲۶)
اور محدث جلیل امام عبید اللہ عبدلکریم ، ابو الوزرعہ الرازی ؒ (المتوفٰی ۲۶۸ھ) اس طرض حکم تو نہیں دیا تو لے سنت کی خلاف ورزی کی ہے سنت تو یہ ہے کہ جب طہر کا زمانہ آئے تو ہر طہر کے وقت س کو طلاق دے وہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ مجھے حکم دیا کہ تو رجوع کرلے چنانچہ میں نے رجوع کرلیا پھر آپ نے مجھ سے فرمایا کہ جب وہ طہر کے زمانہ میں داخل ہو تو اس کو طلاق دے دینا اور مرضی ہوئی تو بیوی بنا کر رکھ لینا۔
فقلت یارسول اللہافرأیت اوانی طلقھا ثلاثا کان یحل لی ان ارجعھا قال لاکانت تعبین منک وتکون معصیۃ (سنن الکبری جلد ۷ ص۲۳۴ دار قطنی جلد ۲ ص۴۳۸ مجمع الزوائد جلد ۴ ص۳۳۶ و نصب الرأیہ جلد ۳ ص۲۳۰)
”اس پر میں آپ سے عرض کیا یارسول اللہ یہ تو بتلائیں کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دیتا تو کیا میرے لیے حلال ہوتا کہ میں اس کی طرف رجوع کر لیتا ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ تجھ سے جد ا ہو جاتی اور یہ کاروائی معصیت ہوتی“۔
اس روایت سے معلوم ہؤا کہ تین طلاقیں دے چکنے کے بعد پھر رجوع کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی اس حدیث کے راوی جو سنن الکبری میں ہیں مع توثیق یہ ہیں ۱۔ امام ابو عبداللہ الحافظ المعروف بالحاکم صاحب المستدرک جو الحافظ الکبیر اور امام المحدثین تھے۔(تذکرۃ الحفاظ جلد ۳ ص۲۲۷) ابو بکر احمدؒ بن الحسنؒ اور ابو العباس محمد بن یعقوبؒ علامہ ذہبی ؒ ان کو الامام الثقہ اور محدث مشرق لکھتے ہیں (تذکرہ ص۷۳ جلد ۳) ۳۔ ابو امیہ طرطوسی ؒ ، علامہ ذہبی ؒ ان کو الحافظ الکبیر لکھتے ہیں امام ابو بکر الخلال ؒ فرماتے ہیں کہ وہ ففن حدیث کے امام اور بلند شان کے مالک تھے۔ (تذکر جلد ۲ ص۱۴۴) ۴۔ معلٰی بن منصور علامہ ذہبی ؒ ان کو الحافظ الفقیہ اور احد الاعلام لکھتے ہیں۔ (تذکرہ ج۱ ص۳۴۳) ۵۔ شعیب ؒ بن رزیقؒ امام دارقطنی انکو ثقہ کہتے ہیں ابن حبان ان کو ثقات میں لکھتے ہیں مگر عطا خراسانی کے طریق سے ان کی روایت میں کلام کرتے ہیں محدث وحیم ؒ فرماتے ہیں کہ وہ لابأس بہ تھے۔(میزان جلد ۱ ص۴۴۷ و تہذیب التہذیب جلد ۴ ص۳۵۳ ) علامہ ابن حزم ؒ ان کو ضعیف کہتے ہیں لیکن ابن حزم ؒ روات کی جرح و تعدیل میں فاحش غلطیاں کرجاتے ہیں ، چنانچہ حافظ ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ ابن حزم ؒ قوت حافظہ کے گھمنڈ پر جرح و تعدیل میں فاحش غلطیاں کر جاتے ہیں اور بری طرح وہم کا شکار ہو جاتے ہیں (لسان المیزان جلد ۴ ص۱۹۸) یہی وجہ ہے کہ ابن حزم کہتے ہیں کہ امام ترمذی مجہول ہیں (میزان جلد ۳ ص۱۱۷)
اگر امام ترمذی مجہوم ہیں تو دنیا میں معروف کون ہوگا۔ ؟ اور امام ابو القاسم بغوی ؒ وغیرہ پر بھی وہ جرح کرتے ہیں (ملاحظہ ہو الرفع والتکمیل ص۱۹) حالانکہ وہ فن حدیث کے بلا مدافعت امام ہیں، اگر بافرض اس روایت میں کچھ ضعیف بھی ہو تو جمہور ائمہ کے تعامل سے یہ حدیث پھر صحیح ثابت ہوتی ہے۔ چنانچہ علامہ ابن حزم فرماتے ہیں کہ :۔
واذا وردحدیث مرسل اوفی احد نا قلیہ ضعف فوجد ناذلک الحدیث مجمعاً علی اخذہ والقول بہ علماً یقیناً انہ حدیث صحیح لاشک فیہ الخ (توجیا االنظر الٰی اصول الاژر ص۵۰ طبع مصر)
”اور جب کوئی مرسل روایت آئے یا کوئی ایسی روایت ہو جس کی روایت میں سے کسی میں کوئی ضعف ہو لیکن اس حدیث کو لینے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلہ میں اجماع واقع ہو چکا ہو تو ہم یقیناً یہ جان لیں گے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اس میں کوئی شک نہیں“۔
اور چونکہ تین طلاقوں کے تین ہونے پر اجماع ہے جیسا کہ پہلے گذر چکا ہے لہذا اگر اس روایت کے کسی راوی ممیں کچھ ضعف بھی ہو تب بھی کوئی ضائقہ نہیں اور ابن حبان
دوسری دلیل ۲:۔
حضرت رکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی اور آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اے رکانہ تم رجوع کر لو۔ انہوں نے کہا کہ حضرت ! میں نے تو بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں، آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میں جانتا ہوں تم رجوع کرلو۔(ابوداؤد جلد۱ص۲۸۹ و سنن الکبری جلد ۷ ص۳۳۹)
اس روایت سے ثابت ہوا کہ تین طلاقیوں کے بعد بھی رجوع ثابت ہے اور یہ جبھی ہو سکتا ہے کہ تین طلاقیں بیک وقت واقع نہ ہوں ورنہ رجوع کا کیا معنیٰ۔
الجواب:۔
اس سے تین طلاقوں کے عدم وقوع پر استدلال صحیح نہیں ہے اولاً اس لیے کہ اس کی سند میں بعض نبی ابی رافع موجود ہیں جو مجہول ہیں چنانچہ امام نووی ؒ فرماتے ہیں کہ رکانہ ؓ کی وہ حدیث جس ممیں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں وہ حدیث ضعیف ہے۔ کیونکہ اس میں مجہول راوی موجود ہیں۔ (شرح مسلم جلد ۱ ص۴۷۸)
اور علامہ ابن حزمؒؒ فرماتے ہیں کہ بعض نبی ابی رافع مجہول ہیں اور مجہول سند سے حجت قائم نہیں ہو سکتی ۔ (محلی جلد ۱۰ ص۱۶۸) لہذا اس روایت کی سند ایسی نہیں کہ اس سے استدلال کیا جاسکے اور خصوصاً حلال و حرام کے مسئلہ میں اور وہ بھی قرآن و حدیث اور جمہور امت کے اجماع کے مقبلہ میں حضرت مولانا خلیل احمد صاحب سہانپوری ؒ (المتوفٰی ۱۳۴۶ھ) فرماتے ہیں کہ مستدرک میں بعض بنی ا بی رافع کی تعین بھی آئی ہے کہ وہ محمد بن عبید اللہ ن ابی رافع تھے( بزل الجمہور جلد ۳ص۶۹) لیکن یہ نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے علامہ ذہبیؒ لکھتے ہیں کہ امام بخاری اس کو منکر الحدیث اور امام ابن معین لیس بشی اور امام ابو حاتم اسکو ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث جلد کہتے ہیں اور امام دارقطنی فرماتے ہیں کہ وہ متروک ہے علامہ ذہبی ؒ فرماتے ہیں کہ محدثین انکی تضعیف کرتے ہیں کہ ہو نہایت ہی ضعیف اور کمزور راوی ہے ۔(میزان میزان ج۳ص۹۷، تہذیب التہذیب)
اور محدث لبن عدیؒ انکو کوفی کے شیعہ میں بیان کرتے ہیں ۔(تہذیب التہذیب ج۹ ص۳۳۱ ) جن کا مذہب ہے کہ وہ تین طلاقوں کو ایک ہی تصور کرتے ہیں اور ایک اور روایت میں بھی شیعہ رایوں نے گڑ بڑ ککی ہے چننانچہ امام دارقطنیؒ فرماتے ہیں کہ جب راویوں نے یہ بیان کیا ہے کہ حضرت عبداللہؒ بن عمرؓ نے بحالت حیض اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں وہ سب کے سب شیعہ ہیں صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے صرف ایک ہی طلاق دی تھی ۔(سنن دارقطنی جلد ۲ ص۴۲۷) اور امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں میں منکر الحدیث کہوں و اس سے روایت کرنا جائز نہیں ۔(میزان الاعتدلال جلد ۲ ص۵ طبقات سبکی جلد ۳ ص۹ وتدریب الراوی ص۲۳۵) گویا امام بخاری ؒ کی تحقیق کے رو سے ااسروایت کا بیان کرنا ہی جائز نہیں ہے۔
وثانیاً ۳:۔ حضرت رکانہؓ کی صحیح روایت میں بجائے تین طلاق کے بتہ کا لفظ ہے ۔ چنانچہ ابو داؤد فرماتے ہیں کہ:۔
ھذا صح من حدیث ابن جریج ان رکانۃ طلق امرأتہ مثلاثا لانھم اھل بیتہ وھم اعلم بہ ۔۔ الخ (جلد ۱ ص۳۰۱ وکذا فی سنن الکبری جلد ۷ص۳۳۹)
”حضرت رکانہ ؓ کی یہ روایت (جس ممیں ربتہ کا لفظ موجود ہے) ابن جریج ؒ کی روایت کے زیادہ صحیح ہے جس میں آتا ہے کہ انہوں نے تین طلاقیں دی تھیں کیونکہ بتہ والی حدیث ان ک گھر والے بیان کرتے ہیں اوور وہ اس کو زیادہ جانتے ہیں۔
اور قاضی شوکانی ؒ لکھتے ہیں کہ:۔
واثبت ماروی فی قصتہ دکانہ ؓ انہ طلقھا البۃ لاثلاثا۔ ۔۔ الخ (نیل الاوطار جلد ۲ص۲۴۶)
حضرت رکانہؓ کے واقعہ میں ثابت اور صحیح روایت یہ ہے کہ انہوں نے بتہ طلاق دی تھی نہ کہ تین ۔
امام نووی ؒ کی عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض روایت نے لفظ بتہ کو تین سمجھ کر ثلاثا کا لفظ اپنی غلط سمجھ کے مطابق کہہ دیا ہے۔ (محصلہ جلد ۱ص۴۷۸)
الغرض اس روایت سے تین طلاقوں کا اثبات اور ٌھر تین کو ایک قرار دینا اور پھر خاوند کو رجوع کا حق دلوانا ظلمات بعضھا فوق بعض کا مصداق ہے اور حلال و حرام کے بینادی مسئلہ میں ایسی ضعیف و کمزور اور مجمل روایتوں پر اعتماد بھی کب جائز ہے ؟ اور پھر وہ بھی صحیح اور صریح روایات اور اجماع امت کے مقابلہ میں۔
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ الْکَبِیْرُ مُحَمَّدُ بْنُ اِسْمٰعِیْلَ الْبُخَارِیُّ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ یُوْسُفَ قَالَ اَخْبَرَنَا مَالِکٌ عَنِ ابْنِ شِہَابٍ اَنَّ سَھْلَ بْنَ سَعْدٍ السَاعِدِیَّ اَخْبَرَہُ…قَالَ عُوَیْمَرُکَذِبْتُ عَلَیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِنْ اَمْسَکْتُھَا فَطَلَّقَھَا ثَلاَ ثًا قَبْلَ اَنْ یَّامُرَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ {وَفِیْ رِوَایَۃ ٍ}قَالَ فَطَلَّقَھَاثَلاَثَ تَطْلِیْقَاتٍ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فَاَنْفَذَہُ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ۔
(صحیح البخاری ج2ص791 باب من اجاز اطلاق الثلاث، سنن ابی داود ج1ص324 باب فی اللعان)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد الساعدی رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ حضرت عویمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اگر میں اس کو اپنے پاس روکوں اور بیوی بناکر رکھوں تو میں نے پھر اس پر جھوٹ کہا پھراس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم صادر فرمانے سے پہلے ہی اس کو تین طلاقیں دے دیں۔(سنن ابی داود کی روایت میں ہے کہ) اس نے اس کو (یعنی عویمر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تین طلاقیں دیں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کونافذکردیا۔
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
--
ایک بات سمجھیں ایک یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے تجھے تین طلاق ، یہ تین کا ہندسہ واضح ہے اس کا معنی قطعاً ایک نہیں ہوتا ۔ تین کا معنی دو نہیں ہو سکتا، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ اس طرح کہا جائے طلاق، طلاق،طلاق اس میں دو نیتیں ہو سکتی ہیں ۔ تاکید کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔ اور ہر مرتبہ طلاق کی نیت بھی ہو سکتی ہے۔
اس کو مثال سے سمجھیں ایک بچہ شور مچا رہا ہے سانپ سانپ سانپ سانپ اس سے کوئی یہ نہیں سمجھتا کہ اس بچہ نے چا دفعہ سانپ کہا ہے لہذا سانپ چار ہیں، اگگر بچہ نے پانچ مرتبہ کہا تو سانپ پانچ ہیں نہیں بلکہ بچہ سے پوچھتے ہیں سانپ کتنے ہیں ؟ وہ کہتا ہے ایک، کیونکہ یہ لفظ تاکید کے لئے بھی ہو سکتا ہے۔ لوگ شور کر رہے ہیں چور چور چور چور لیکن ان الفاظ سے یہ پتا نہیں چلے گا کہ چور ہیں کتنے پوچھنا پڑے گا، لیکن اگر کوئی پہلے ہی یہ کہہ رہا ہو دو سانپ، دو سانپ دو سانپ اب کوئی بے وقوف ہی پوچھے گا کہ کتنے سانپ ہیں اگر کوئی کہہ رہا ہو تین چور تین چور کیا اب بھی کوئیپوچھے گا کہ تین کا کیا مطلب ؟ نہیں کیونکہ تین کا عدد واضح ہے۔
وقوع طلاق ثلاثہ بجواب (ایک وقت کی تین طلاقیں دین یا بدعت)
محتر م جناب عمران احمد راجپوت کا کالم ایک وقت کی تین طلاقیں دین یا بدعت کے عنوان سے ہماری ویب میں چھپا جس میں فاضل کالم نگار نے عورت کی عفت و عصمت اس کی بے بسی کا حل اس بات میں تلاش کیا ھے کہ اگر رشتہ ازدواج میں کہیں رخنہ آجائے اور نوبت طلاق تک پہنچ جائے آن واحد کی یا مجلس واحد کی تین طلاقیں ایک شمار کی جائیں۔انہوں نے اپنا مدعٰی ثابت کرنے کے لٔے قرآن و سنت ،امام ابن تیمیہؒاورامام ابن قیمؒکے اقوال فقہ حنفی کی شہرۂ آق کتاب ہدایہ اورامام ابوبکرجصاصؒکے قول نیزچند اسلامی ممالک کی شرعی عدالتوں کا ذکر کرتے ہوے اپنے دلائل مکمل کیے۔اس اندازسے اس مسٔلے کو پیش کیا گویا امت مسلمہ کا اجماعی مسٔلہ ایسا ہی ہے جیسا صاحب کالم نے لکھا ہے اور اس کے مد مقابل مؤقف رکھنے والے اندھے مقلداپنے نظریات کے تحفظ کے لٔے قرآن و حدیث کی واضح نصوص میں تاویلات کرکے شکوک و شبہات پیدا کر کے عوام الناس کو الجھا کر اصل دین سے کوسوں دورلے جاتے ہیں ۔کالم نگار نے دوواقعات سے اپنے کالم کو مزین کیا ہے اور انہیں کا سہارا لیکر اپنا کالم شروع کیا ہے۔
۱۔پہلا واقعہ کسی اداکارعثمان پیرزادہ اور انکی اہلیہ کا ہے جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تھی ایک ہی مجلس میں بقول ان کے حنفی علما ٔ نے طلاق مغلظہ کا فتوٰی جاری کیا جبکہ اھل حدیث کے فتوٰے کے باعث آج بھی وہ خوشگوار ازدواجی زندگی گزار رہے ہیں۔
۲۔دوسراواقعہ کسی کامران نامی شخص اور ان کی اہلیہ کا ہے ،یہاں بھی اسی طرح کا فتوٰی سامنے آیا ۔ آغاز دلائل میں کالم نگا ر نے آیت:اطیعوااﷲ واطیعوالرسول واولی الامر منکم۔اس کا ترجمہ کیا اطاعت کرو میری اور رسول کی تابعین وتبع تابعین کی اور وقت کے حکمرانوں کی اور اگر جھگڑپڑو تو لوٹ آؤ اﷲ اور اس کے رسول کی طرف۔
جواب ۔یہی آیت جمہور کی بھی دلیل ہے اس کی تفصیل کی ضرورت نہیں۔
دلیل ۲۔الطلاق مرتٰن فامساک بمعروف او تسریح باحسان۔
جواب ۔جمہور کے نزدیک اس کے بعدکی آیت میں حکم خداوندی ہے، فان طلقہا فلاتحل لہ من بعد حتٰی تنکح زوجا غیرہ۔یہاں فا تعقیب کے لٔے ہے مطلب دو طلاق کے بعد اگر فی الفور تیسری طلاق بھی کسی نادان نے دی تو اس کے لٔے اس کی بیوی حلال نہیں۔یہ آیت مبارکہ متفرق تین طلاقوں ہی کے لئے متعین نہیں اور نہ اس میں یہ نص ہے کہ یہ دفعتہ تین طلاقوں کو شامل نہ ہو۔لہذا اس کو اپنے مسلک کے لئے واضح نص کہنا ٹھیک نہیں ہے۔چنانچہ علامہ ابن حزمؒکا قول اس آیت سے متعلق فھذا یقع علٰی الثلاث مجموعۃ ومتفرقۃ ۔محلٰی ج ۱۰ ص ۲۰۷ ۔رئیس المفسرین حضرت عبداﷲ بن عباسؓاس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں یقول ان طلقہاثلاثافلاتحل لہ من بعدحتٰی تنکح زوجا غیرہ(سنن الکبریٰ جلد ۷ص۳۷۶۔
دلیل۳۔سنن نسأی،کتاب الطلاق ج۲ص۸۹۔ایک آدمی نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاق دیں آپﷺکو خبر دی گئی آپ نے اظہار ناراضگی فرمایا اور فرمایا کے میری موجودگی میں کتاب اﷲ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے۔ جواب ۔آپﷺنے ناراضگی کا اظہار تو ضرور فرمایا لیکن اس کے باوجود تین طلاقوں کو نافذ بھی فرمادیا جیسا کہ حضرت عویمرؓکی حدیث میں ہے،ابو داؤد ج۱ص۳۰۶۔میں ہے ۔فطلقہاثلاث تطلیقات عند رسول اﷲ ﷺفانقذہ رسول اﷲﷺ۔باوجود غیر مستحسن اور ناراضگی کے تینوں کو نافذ فرما دیا۔
دلیل ۳۔فقہ حنفی کی مشہور کتاب ہدایہ ج۲ص۳۵۵۔باب الطلاق السنہ کا حوالہ دیتے ہوے فرمایا ایک مجلس کی تین طلاقیں بدعت ھیں اور اس طرح طلاق دینے والاعاصی و گنہگار ہو گا۔
جواب۔یہ بات درست ہے کہ اس طرح طلاق دینا خلاف سنت ہے لیکن باوجود گناہ کے وقوع طلاق ہو جاتا ہے۔جو کہ خود ہدایہ میں ہے۔
دلیل ۴۔امام ابن تیمیہؒکا مؤقف ایک طہر میں تین یا زیادہ طلاقیں ایک شمار ہونگی ایک طہر میں اگر ہزارطلاقیں بھی دیں تو بھی اسے رجوع کا حق حاصل ہو گا۔فرمان باری تعالٰی الطلاق مرتان میں دو طلاق نہیں بلکہ دو مرتبہ کا ذکر ہے۔
دلیل ۵۔حافظ ابن قیم ؒ کے نزدیک صرف لفظی تکرار نہیں بلکہ ایک کے بعد دوسری دفعہ طلاق کا ذکر ہے ۔الطلاق مرتان ،لغت عرب اوردنیا کی تما م زبا نوں میں مرتان کا یہی مطلب ہے۔اورقرآن و حدیث اس کی تائید کرتی ہے۔علامہ ابوبکر جصاصؒکے قول سے بھی تائیدلی۔
جواب ۔ان تینوں دلیلوں کا مقصد ایک ہی ہے اور اس کا جواب اوپر دیا جا چکا ہے کہ الطلاق مرتان کے بعد والی آیت میں فان طلقہاالخ جس طرح متفرق طلاقوں کو شامل ہے اسی طرح اگٹھی تین کو بھی شامل ہے۔ دلیل۶۔حضرت عبداﷲ بن عباس ؓکی روایت ہیکہ آپﷺکے مبارک دور ابوبکرؓاور عمرؓ کے دورکے ابتدائی دوسال تک تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں،مسلم شریف ج۱،اور ایک روایت میں ابوالصہباءؒکے سوال کے جواب میں یہی بات ارشاد فرمائی۔
جواب۔طاؤسؒجوروایت کرتے ابن عباسؓ سے اس روایت کو مطلقا نہیں مانتے بلکہ کہتے ہیں یہ مخصوص ہے غیر مدخول بہا کے ساتھ(جواہر النقی علٰی البہیقی ج۷ص۳۳۱) اس کے علاوہ ابن عباس کے دیگر شاگردسعید ابن جبیرؒ عطاء بن ابی رباحؒ،مجاہدؒعکرمہؒ،عمربن دینارؒ،مالک بن الحویرثؒ،محمد بن ایاس بن بکیرؒاور معاویہ بن ابی عیاشؒ روایت کرتے ہیں کہ ابن عباس ؓنے تین طلاق کو تین ہی قرار دیا۔(سنن الکبرٰی ج۷ص۳۳۸)،جب خود ابن عباسؓ کا نظریہ تین کے تین ہی ماننے کا ہے تو اس روایت کااطلاق ثابت نہیں ہوتا۔امام بہیقیؒ فرماتے ہیں کہ امام بخاری ؒنے اس روایت کی تخریج اس لئے نہیں کی کہ ابن عباسؓ کی جملہ صحیح روایت اس کے خلاف ہیں۔(محصلہ سنن الکبرٰی ج۷ص۳۳۷)لہذٰااس روایت کو اپنا مدعٰی ثابت کرنے کیلئے دلیل بنا نا جبکہ خود راوی کا فتوٰی اس کے خلاف ہواورطاؤس روایت بیان کرنے میں متفرد بھی ہیں۔وہ اس روایت کو مقید اور مخصوص سمجھتے ہوں اور اسی پر فتوٰی بھی دیتے ہوں تو ایسی روایت کو سب سے بڑی دلیل مانناجس پر حلال وحرام کا مدار ہومحض ضد بازی وتحکم کے سوا کچھ نہیں۔ دلیل۷۔ابن عباس کی روایت ہے رکانہ ؓنے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں ایک ہی مجلس میں آپﷺنے فرمایا رجوع کر لواور یہ آیت یاایھاالنبی اذاطلقتم النساء الخ پڑھی۔
جواب۔اس کی سند میں محمد بن اسحاق ضعیف ہے،امام ابو حاتمؒ(کتاب العلل ج ۱ص۴۳۳) امام مالک اس کو دجال کہتے ہیں،یحیٰ بن معینؒ اس کو کذاب کہتے ہیں علامہ ذھبیؒ کہتے ہیں حلال و حرام کے بارے میں اس سے احتجاج صحیح نہیں۔رکانہ ؓکی صحیح روایت میں ثلاث کے بجائے البۃ کا لفظ ہے۔قاضی شوکانیؒ نیل الاوطارج۶ص۲۴۶میں لکھتے ہیں،واثبت ما روی فی قصتہ رکانۃانہ طلقہا البۃ لا ثلاثاالخ رکانہ نے البۃ طلاق دی نہ کہ تین۔
دلیل۔عبداﷲ بن عمرؓ نے ابنی بیوی کو حالت حیض میں تین طلاقیں دیں عمرؓ نے آپﷺسے مسئلہ پوچھا آپ نے رجوع کا حکم دیا ابن عمرؓ سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا تین طلاقیں دیں جو کہ ایک ہی ہوتی ہے۔ جواب۔واقعہ یوں ہے ابن عمرؓ نے حالت حیض میں طلاق دی تھی آپﷺنے ناپسند کیا اور رجوع کا حکم دیا،ابن عمر ؓنے پوچھا۔یا رسول اﷲ افراٗیت لو انی طلقتہا ثلاثاکان یحل لی ان اراجعہا قال لاکانت تبین منک وتکون معصیۃ(سنن الکبرٰی ج۷ص۳۳۴) اے اﷲ کے رسول اگر میں تین طلاقیں دیتا تو رجوع کر سکتا تھا آپ نے فرمایانہیں وہ تم سے جدا ہو جاتی اوریہ اقدام معصیت ہوتاتو ابن عمرؓ کا مسلک بھی تین طلاقوں کے وقوع کا ہے۔یہی فتوٰی محمدی ہے۔ اس کے بعد کالم نگارنے کہاکہ یہ مہر محمدی ہے ،مہرفقہا ء کو چھوڑ دو۔
قارئین آئیے آپ کو بتاتے ہیں کہ مہر محمدی اور مہر فقہاء کس فریق کے پاس ہے جمہور کے پاس یا صاحب کالم اور ان کی جماعت کے پاس جو آٹے میں نمک کا مصداق ہیں۔
مسئلہ تین طلاق یعنی ایک شخص اپنی بیوی کوایک ہی لفظ میں کہے تجھے تین طلاق یا کہے تجھے طلاق طلاق طلاق یا ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے توتین ہی شمار ہوں گی یا ایک شمار ہو گی(جیسا کہ صاحب کالم نے لکھا)؟
قراٰن کریم،مرفوع احادیث ،فتوٰی محمدی،خلفائے راشدین کے فتاوٰی جات اور پوری امت کا اجماع اسی بات پر ہے کہ تین طلاقیں واقع ہو جاتیں ہیں،چائے ایک لفظ سے دی جائیں یا متفرق،ایک مجلس میں دی جائیں یا ایک طہر میں۔اس موضوع پر دلائل کے انبار لگائے جاسکتے ہیں لیکن یہ کالم اس کا متحمل نہیں ہو سکتا۔اجمالاچند دلائل ذکر کئے جاتے ہیں۔
۱۔قراٰن کریم آیت۲۲۸بقرہ،فان طلقہافلاتحل لہ من بعدحتٰی تنکح زوجا غیرہ۔
۲۔مرفوع حدیث۔ان رجلا طلق امراٰتہ ثلاثاالخ(بخاری ج۲ ص۷۹۱)
۳۔مرفوع حدیث ۔عن الرجل یتزوج المراٗۃ فیطلقہاثلاثاالخ(مسلم ج۱ ص۴۱۳)
۴۔عن علی فیمن طلق امراٗتہ ثلاثا قیل ان یدخل بھا قال لا تحل لہ حتٰی تنکح زوجا غیرہ۔(سنن الکبرٰی ج ۷ص۳۳۴)
۵۔عن الحسن بن علی قال لو لا انی سمعت جدی الخ(دارقطنی ج۲ص۴۲۷)
۶۔باب من یطلق امراٗتہ ثلاثا معا ان طلاقہ قد لزمہ وحرمہا علیہ فھذا کلہ قول ابی حنیفۃؒویوسفؒ ومحمدؒ(شرح معانی الاٰثار ج۲ ص۴۱۸
۷۔شارح مسلم امام نوویؒ،شرح مسلم ج۱ص۴۷۸میں لکھتے ہیں،من قال لامراٗتہ انت طالق ثلاثافقال شافعی ؒو مالکؒ و ابوحنیفۃؒ واحمدؒ وجماھیرالعلماء من السلف والخلف یقع الثلاث۔
۸۔حضرت عمر کے دور خلافت میں اس مسٗلہ پر اتفاق ہو چکا کہ تین طلاقیں تین ہی ہیں اورصحابہ کرامؓ کا قولی و فعلی دونوں قسم کا اجماع اس پر ہے چنانچہ حافظ ابن حجرعسقلانیؒ لکھتے ہیں اب اس مسئلے پر اختلاف کرنا مردود ہے(فتح الباری ج۹ص۲۹۳)
۹۔علامہ آلوسی فرماتے ہیں صحابہ کرامؓ کا اس پر اتفاق ہو چکاتوبغیر کسی نص کے تو یہ نہیں ہو سکتایہی وجہ ہے کہ جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے۔(روح المعانی ج۲ص۱۱۸)
۱۰۔حافظ ابن القیم ؒ(جن کو صاحب کالم نے اپنے لیے دلیل بنایا )تحریر فرماتے ہیں جمہور نے یہی مذہب عمرؓ،علیؓ،ابن مسعوؓد،ابن عمرؒ،ابن عباسؓ،ابن عمروؓ،ابن زبیرؓ،عمران بن حصینؓ ،مغیرہ بن شعبہؓ اورحسن بن علیؓ کا نقل کیا ہے اور تابعین کا تو کوئی شمار ہی نہیں(اغاثۃ اﷲان ج۱ص۳۲۲)یہ مختصرا دس دلائل ہوےء تلکہ عشرۃ کاملۃ۔
آخر میں سعودی عرب کامتفقہ فیصلہ قارئین کی نظر کرتا ہوں تاکہ حق خوب واضح ہو جائے،کیوں کے صاحب کالم نے سعودی عرب کی عدالت کا ذکر کیا تھاتوملاحظہ کیجیے۔
حکم الطلاق الثلاث بلفظ واحد:ھیئۃکبارالعلماء۔
حکومت سعودیہ نے اپنے ایک شاہی فرمان کے ذریعہ علماء حرمین اور ملک کے دوسرے نامور ترین علماء کرام پر مشتمل ایک تحقیقاتی مجلس قائم کر رکھی ہے،جس کا فیصلہ تمام ملکی عدالتوں میں نافذہے،بلکہ خود بادشاہ بھی اس کا پابند ہے اس مجلس میں: طلاق ثلاث:کامسئلہ پیش ہوا۔مجلس نے اس مسئلہ سے متعلق قراٰن و حدیث کی نصوص کے علاوہ تفسیروحدیث کی سینتالیس کتابیں کھنگالنے اور سیر حاصل بحث کے بعدبالاتفاق واضح الفاظ میں فیصلہ دیا ہے،ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں بھی تین ہی ہیں۔
یہ پوری بحث اور متفقہ فیصلہ حکومت سعودیہ نے زیر نظررسالہ میں شائع کیا ہے،غیرمقلدین اکثرمختلف فیہ مسائل میں اھل حرمین کے عمل کوبطور حجت پیش کرتے ہیں،یہ فیصلہ بھی علماء حرمین کا ہے اس لئے غیرمقلدین پر حجت ہے۔(احسن الفتاوٰی ج۵ص۲۲۵)
اس کے علاوہ اس کے تفصیل سہ ماہی مجلہ بحوث اسلامیہ،دارلافتاء ریاض ص۳ ج۱ میں دیکھا جاسکتاہے۔
پوری امت مسلمہ کا اس پر اجماع ہے کہ تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ایک نہیں ایک تاریخی حقیقت سے بھی پردہ اٹھانا ضروری سمجھتا ہوں کہ جمہور کے اس متفقہ مسئلہ کے خلاف آٹھویں صدی میں علامہ ابن تیمیہؒنے آواز اٹھائی جس کی تردیدخود اکابر حنابلہ نے بھی کی تھی البتہ ابن قیمؒ نے اپنے استاد کی تائید کی جس کی پاداش میں انہیں حکومت وقت کی طرف سے سزا دی گئی کیونکہ اس وقت تک تین طلاق کو ایک قرار دے کر شوہر کے لئے مطلقہ ثلاثہ کو حلال قرار دینا نہ صرف جمہور کے خلاف تھا بلکہ وہ روافض کا شعار بھی تھا،اس لئے تما م علماء مذاہب وسلاطین اسلام کے متفقہ فیصلوں کی وجہ سے یہ فتنہ دب گیامگر پانچ سو سال بعد ہندوپاک کے اہل حدیث نے اس فتنے کو پھر سے جگانے کی کوشش کی اس تلبیس سے کام لیا جاتا گویا قراٰن وحدیث کے نصوص سے یہی مترشح ہوتا ہے کہ تین طلاق ایک ہی ہوتی ہیں جیسے فاضل کالم نگار نے لکھا ساتھ ہی معتد اسلامی ممالک کی عدالتوں کاذکر بھی کر دیا آں جناب سے ملتمس ہوں کے بلا دلیل وحوالے کہ تومیں بھی آٹھاون اسلامی ممالک کے نام لکھ سکتا ہوں مہربانی فرماکر حوالہ دیجئے ورنہ یوں دنیا کے قلابے مارنے سے حق ثابت نہیں ہوتا۔
سعودی علماء نجدیہ وہابیہ کی راۓ
مجموعہ رسائل و مسائل علماء نجد کے جامع شيخ عبد الرحمن بن محمد بن قاسم العاصمي النجدي الحنبلي، الشيخ عبد الله بن محمد بن عبد الوهاب كا فرمان لکھتے ہیں کہ: ہمارے نزدیک امام ابن القیم اوران کے شیخ (ابن تیمیہ) أهل السنة میں سے حق کے امام ہیں، اور ان کی کتابیں ہمارے نزدیک مستند کتابیں ہیں، لیکن ہم ہر مسئلہ میں ان (امام ابن القیم اور امام ابن تیمیہ) کی تقلید نہیں کرتے کیونکہ سوائے ہمارے نبی محمد صلى الله عليه وسلم کے ہر کسی کا قول لیا بهی جاتا ہے اور چهوڑا بهی جاتا ہے، لہذا ہم نے کئی مسائل میں ان دونوں (امام ابن القیم اورامام ابن تیمیہ) کی مخالفت کی ہے جو کہ ایک معلوم بات ہے، مثلا انہی مسائل میں سےایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقوں کا مسئلے میں ہم أئمہ أربعہ (امام أبوحنیفہ، امام شافعی، امام أحمد بن حنبل، امام مالک) کی پیروی کرتے ہیں، (یعنی ایک لفظ کے ساتھ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے تینوں واقع ہوجاتی ہیں، یہی أئمہ أربعہ اور جمہور أمت کا اور یہی شیخ ابن عبدالوهاب اور اس کے پیروکاروں کا مسلک هے.[الدرر السنية : كتاب العقائد ، ١/٢٤٠]؛
========================================== ائمہ اربعہ اور جمہور علمائے سلف وخلف کا مسلک یہ ہے کہ ایک مجلس میں یا ایک ہی کلمہ کے ذریعہ تین طلاق دینے سے تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور ان کے ذریعہ بیوی مغلظہ بائنہ ہوجاتی ہے اور حلالہ شرعیہ کے بغیر شوہر اول کے لیے حلال نہیں ہوتی۔ یہی قول اکثر صحابہ تابعین اور بعد کے ائمہ اربعہ میں سے اکثر اہل علم کا ہے، ارو یہی قول قرآن وحدیث واجماع صحابہ سے ثابت ہے۔
:دلیل نمبر1
قَالَ اللّٰہُ تَعَالٰی: فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ۔
(سورۃ بقرۃ:230)
ترجمہ: اگر(کسی نے )اپنی بیوی کوطلاق دی تو اب(اس وقت تک کے لیے اس کے لیے ) حلال نہیں۔ یہاں تک کہ اس خاوند کے علاوہ دوسرے سے نکاح نہ کرلے۔
قَالَ الْاِمَامُ مُحَمَّدُ بْنُ اِدْرِیْسَ الشَّافِعِیُّ:وَالْقُرْآنُ یَدُلُّ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ عَلٰی اَنَّ مَنْ طَلَّقَ زَوْجَۃً لَّہُ دَخَلَ بِھَا اَوْلَمْ یَدْخُلْ بِھَا ثَلَاثًا لَمْ تَحِلَّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ۔
(کتاب الام ؛امام محمد بن ادریس الشافعی ج2ص1939)
ترجمہ: امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’قرآن کریم کاظاہر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، خواہ اس سے ہمبستری کی ہو یا نہ کی ہو تووہ عورت اس شخص کے لیے حلال نہیں یہاں تک کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
قَالَ الْاِمَامُ اَبُوْبَکْرٍاَحْمَدُ بْنُ الْحُسَیْنِ الْبَیْھَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْزَکَرِیَّا بْنُ اَبِیْ اِسْحَاقَ الْمُزَکِّیُّ اَنَا اَبُوالْحَسَنِ الطَّرَائِفِیُّ نَاعُثْمَانُ بْنُ سَعِیْدٍنَاعَبْدُاللّٰہِ بْنُ صَالِحٍ عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ صَالِحٍ عَنْ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَلْحَۃَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا فِی قَوْلِہٖ تَعَالٰی {فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِنْ بَعْدُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًا غَیْرَہُ} یَقُوْلُ اِنْ طَلَّقَھَا ثَلَاثًا فَلَا تَحِلُّ لَہُ حَتّٰی تَنْکِحَ زَوْجًاغَیْرَہُ۔
(سنن کبریٰ بیہقی ج7ص376 باب نکاح المطلقۃ ثلاثا)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’اگر کسی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں وہ اس کے لیے حلال نہیں حتی کہ وہ کسی اورمرد سے نکاح نہ کرلے۔‘‘
:دلیل نمبر2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْم�
No comments:
Post a Comment