Tuesday, 5 December 2017

*نگہبانِ ملت و شاہینِ mufti adnan waqar sahab

*نگہبانِ ملت و شاہینِ ہند*
_______________

✍🏻... *محمد عدنان وقار صدیقی*

    گزرے دنوں برما میں روہنگیائی مسلمانوں پر ظلم و جور, قتل و غارت گری, اور انسانوں کے لبادے میں درندہ صفات بودھیوں کی سفاکیت کی داستان, اور ان سے آگہی کے بعد ہر دلِ مسلم کو لگنے والی ٹیسیوں کے زخم ابھی مندمل بہی نہ ہوپائے تہے کہ اس سونے کی چڑیا کہے جانے والے ملک ہندوستان میں بھی کچھ فرقہ پرست و فسطائی طاقتیں, امن و سلامتی کی دشمن تنظیمیں و جماعتیں, صوبہ آسام میں بسے ستر لاکھ کلمہ گو مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دیکر ملک بدر کرنے, حق شہریت سلب کرنے, اور اگر یہ کہا جائے کہ برما کی صورتحال کی گھناؤنی عکاسی کرنے پر تلی تہیں تو بیجا نہ ہوگا؛کیونکہ نوشتۂ دیوار پڑھنے والے جان چکے تہے کہ یہ مذموم کوششیں محض جلاوطنی و ملک بدری پر ہی نہیں رکیں گی بلکہ قومِ مسلم کی نسل کشی کا پیش خیمہ ہیں۔ 
   معاملہ تو زمانہ دراز سے عدالت عالیہ ہند میں زیر غور تہا, تواریخیں دیجاتی رہیں جیساکہ عدالتوں کا یہ فطری نظام ھے, البتہ قوم کا قائد و ملت کا سربراہ مستعد تہا, اس نے تو اپنے پہلو کو نرم بستروں سے جدا کر رکہا تہا, اسے کسی لمحہ سکونِ قلبی میسر نہ تہا اسے لاکھوں ہندوستانی  بے قصور غریب مسلموں کی فکر دامن گیر جو تہی, اس نے ان لاکھوں کی نگاہوں میں پڑھ لیا تہا کہ جو کہہ رہی تہیں : اے قائد ملت! سرمایہ قوم! اگر خدا کے بعد سہارا ھے تو وہ تو ھے...
   قائد نے طوفانوں , تند موجوں, سخت کالی آندھیوں کے سامنے اپنا چراغ روشن کرکے رکھدیا, طوفانی سمندر میں اپنی کشتی ڈال دی؛ اور بر ملا کہہ دیا: 
کہ *کچھ سوچ کر ہی ھوا ہوں موجِ حوادث کا حریف*,
*ورنہ جانتا میں بھی ہوں کہ عافیت ساحل پے ھے*.
     قائد نے اس جماعتی زندگی میں ہزاروں نشیب و فراز دیکھے, موسم کی گھن گرج سے سامنا ھوا, لق و دق صحراء کا سفر کیا, پر خار وادیاں سر کیں؛ لیکن اس کے پایۂ استقلال میں لغزش نہ آئی, آبلہ پائی کا ڈر کیا ھوتا ھے قائد کی ڈکشنری و لغت میں یہ لفظ ہی نہیں ھے,  جرأت مندی تو ورثہ میں پائی ھے, ہر اسٹیج و میدان میں حق گوئی کو اپنایا, امانت و سچائی کو شیوہ بنایا, ہر عظیم کام خواہ ملی ہو یا دینی, سماجی ہو یا اجتماعی قائد کا لازم بن گیا, 
       اس مردِ آہن نے ظالم و جابر زعمائے ملک کے سامنے گھٹنے نہیں ٹیکے کیونکہ قائد کا نکاتی اصول تو یہ تہا: 
  *میری میں,فقیری میں, شاہی میں, غلامی میں*
  *کچھ کام نہیں بنتا, بے جرأتِ رندانہ*

  قائد کے اس بیباک رویے سے کچھ تنگ نظروں کو جو اپنے ہیں یا تہے خفگی و گلہ بہی تہا جنہوں نے (قائد سے وعدے کیئے تہے کہ کاروانِ عزیمت کو منزل پے جالگاینگے) درمیان راہ میں اسکی رہبری کا شکوہ کرتے ھوئے راہ وفا سے واپسی میں ہی عافیت جانی؛ 
  لیکن قائد محترم نے اپنی چیتے جیسی چال, عقابی اڑان, شاہین صفتی میں کوئی کمی نہ کی اور دنیا کے سامنے کھلم کھلا کہہ دیا : کہ *جسکو ہو خطرۂ آبلہ پائئ وہ ہمارے ساتھ نہ چلے۔*

      الغرض! قائد عظیم نے مسلم کش فسادات پر حکومت وقت سے پر زور اور مؤثر احتجاج درج کرایا, اور ساتھ ہی متاثرین کی تعمیری اور ٹھوس مدد اور اسکے لئے قریہ بہ قریہ اور کوبہ کو مسلسل چکر لگائے, اور دوڑ دھوپ کی,نیز قدرتی آفات کے موقع سے مصیبت زدگان کی ہمہ جہت مدد اور حکومت کو ان کی داد رسی کے لیے جھنجھوڑا۔
    دوسری طرف قائد نے مسلمانوں کے حقوق کی دستیابی اور ناانصافیوں کے ازالے کی ہمہ گیر کوششیں کیں اور اسلامی اداروں و مراکز اور تعلیم گاہوں ومساجد و مقابر و مزارات کی حفاظت کے لیے زبردست جامع جدو جہد کیں جس میں وقتا فوقتا غیر معمولی بھیڑ والے جلسوں, کے ساتھ ساتھ صدر جمہوریہ, وزیر اعظم, اور متعلقہ وزراء و حکام و افسران سے ملاقاتوں اور خطوط کے ذریعے, ارتباط مسلسل شامل ھے۔
   قائد محترم کی سب سے امتیازی کامیاب کاوش و سعی پس دیوار زنداں بے قصور مسلموں بالخصوص دہشت گردی کے جہوٹے الزام میں پھنسے اور پھنسائے گئے افراد و نوجوانوں کی رہائی ھے۔جن کی مظلومیت اور سفاکوں کی ان پر ظلم کی ان کہی داستان الگ ھے۔

میں سمجہتا ہوں کہ ملک کے غیر مسلم سیکولر زعماء و فائدین بھی حالیہ زمانے میں مولانا مدنی کو ملکی سیکولر جنگ کے ہراول دستے کا ممتاز سپاہی تصور کرتے ہیں, کیونکہ مولانا نے خدا کی تقدیر کے بموجب فقط علمی اشغال کو ہی اپنا وظیفۂ حیات نہیں بنایا بلکہ ملی قیادت و رعایت کے میدان میں بھی ہنر مندی کے جہنڈے گاڑے, جمیعت علمائے ہند اور علماء کا عوام سے رشتہ مضبوط بنایا, خواص کو مسائل کا احساس دلایا, ابلتے خطرات کے ادراک,مشکلات کے حل کے طریقوں کے شعور سے آگہی کرائی, 

  جب آسام کے متعلق میرے قائد کا حالیہ دنوں میں بیان دیا  تو میڈیا نے اس میں تحریف کرکے نشر کیا, جس سے کچھ خیموں میں بے چینی ہوئی, اڑتے شاہین کو کرگس سمجھ کر پابند قفس کرنے کی چالیں وتدابیر کی گئیں , لیکن اللہ قادر مطلق کی تدابیر کے سامنے سب کی بساط الٹ گئ, پھر قائد محترم نے جس بیباکی سے اپنا موقف عیاں و آشکار کیا دل نے صاف گواہی دی کہ: 
   *آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی*
  *ﷲ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی*

  قائد کے آسامی مسلمانوں کے تئیں  اخلاص و محبت اور سوزش دل, تڑپ و اپنائیت  کے ساتھ اٹھائے گئے قدم, اور امن دشمن گیدڑوں کی بھبتیوں کی پرواہ نہ کرتے ھوئے کی گئیں کوششیں و مساعی آج ہم سب دیکھ رہے ہیں, کہ آج معزز عدالت عالیہ و عظمی نے فیصلہ سنادیا کہ جو مولانا مدنی چاہ رہے ہیں اور کہہ رھے ہیں وہی سب کو ماننا پڑےگا, اور ان لاکھوں بے قصور ہندوستانیوں کو کوئی باہر کا یا غیر ملکی نہیں کہےگا۔ہندوستان جتنا ہمارا ھے اتنا ہی ان کا ھے, 
   فیصلے کا صدور ھوا اور مسلم و سیکولر معاشرے   میں خوشیوں کی بارات آگئی, فرحت و شادمانی کے شادیانے بجنے لگے, مسکراہٹوں کے شامیانے سج گئے,جبکہ زمانہ یہ سوچ رہا تہا کہ دشت و صحراء سبہی قحط  سالی کے شکار ہیں, ابر باراں کے آثار ناں کی برابر ہیں,
 تاریکی فضا میں چھائی ھوئی تہی, چراغوں کا تیل ختم ہوچکا تہا, ہر صبح ایک خطرے کے احساس کو قریب تر کررہی تہی, 
استقلال کی نیَّا بے چینی کے افنتے سمندر میں ہچکولے لے رہی تہی, امید کی کرن صبح کے دئیے کی طرح بجھ چکی تہی, اور آسام کے لاکھوں مسلمان موسم خزاں کے آخری پنچھی کی طرح ہجرت کے در پے تہے, لیکن قائد مکمل تن دہی سے اپنے ہدف اور مقصد کو سامنے رکھے ہوئے تہا, اپنے آرام و چین اور سکون کو ترک کرچکا تہا,یہی سوچ تہی کہ بس منزل پے پھونچ کر ہی دم لینا ھے
 *کاوشِ دشتِ جنوں ھے ہمیں اِس درجہ پسند*
 *کبھی تلووں سے جدا خارِ مغیلاں نہ ھُوا*

چونکہ وہ محض گفتار کا ہی غازی نہیں ھے؛ بلکہ کردار کا بھی غازی ھے, اسکی بلند ہمتی اور عزائم کی پختگی سے کوہ ہمالیہ کو بھی جلا و تازگی ملتی ھے, اس کیفیت یاس کو دیکھ کر قائد کی زبان میں حرکت ھوئی, لبوں میں جنبش آئی: 

*مت گھبرا اے سوکھے دریا؛ سورج آنیوالا ھے*
*برف پہاڑوں سے پگھلی تو جل ہی جل ہوجایئگا*
  جی ہاں! قائد کی امیدیں پوری ہوئیں, اور خوف و بیم میں مضطرب قوم کے چہرے کی مسکان قائد نے لوٹادی, اور ظلمتوں کا جو بول بالا تہا وہ اپنے ید بیضا سے دور کردیا,

  

آج *جامعہ عربیہ دار العلوم رحیمیہ* قصبہ اکبراباد,ضلع بجنور, صوبہ: یوپی الہند۔

 سبہی مسلمانانِ ہند کی جانب سے اپنے سچے قائد کو ان کی اس کامیاب کوشش اور سعی مشکور پر دلی مبارکباد پیش کرتا ھے, اور جو خوشی بقول :✧حضرت قائد محترم, امیر ملت, نگہبان قوم, اقبال کے شاہین, صدر جمیعت علمائے ہند,جانشین شیخ الاسلام جناب حضرت مولانا  *سید ارشد مدنی*, استاذ و محدث دار العلوم دیوبند ✧کو ملی ھے اس میں بہی شریک ھے, اور بارگاہ صمد میں دعا گو ہے کہ ربا! قائد اعظم کا سایہ ملک و ملت اور ہم مسلمانانِ ہند پر دراز فرما! حضرت والا کو صحت و تندرستی قوت عطا فرما, حضرت کی تمام تر کوششیں مقبول فرما, حاسدین و فتین لوگوں سے حفاظت فرما,

آمین۔
⊙⊙⊗⊗⊕⊕★★★◆▼▼

الناشر: ★جامعه عربيه دارالعلوم رحيميه★، قصبه:  اكبرآباد، ضلع: بجنور، صوبه: يوپی، ھندوستان.


No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...