Monday, 4 December 2017

Three teen talaq مسلہ تین طلاق تین طلاق کا حکم حصہ part 2

تین طلاق تین ہی ہوتی ہیں ۔ احناف کے مضبوط دلائل قرآن و سنّت کی روشنی میں Part.II

:دلیل نمبر2

قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْم�







غیر شرعی طلاقیں بھی نافذ ہوجاتی ہیں



حالت_حیض میں طلاق دینا ممنوع ہے، مگر دی گئی تو طلاق ہوجاتی ہے، ورنہ رجوع کرنے کا حکم نہ ہوتا، ایسے ہی تین طلاق دینے سے بھی طلاق ہوجاتی ہیں اور بیوی حرام ہوجاتی ہے.



حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ نَافِعٍ ، " أَنَّ ابْنَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا طَلَّقَ امْرَأَةً لَهُ وَهِيَ حَائِضٌ تَطْلِيقَةً وَاحِدَةً ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُرَاجِعَهَا ، ثُمَّ يُمْسِكَهَا حَتَّى تَطْهُرَ ثُمَّ تَحِيضَ عِنْدَهُ حَيْضَةً أُخْرَى ، ثُمَّ يُمْهِلَهَا حَتَّى تَطْهُرَ مِنْ حَيْضِهَا ، فَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ، فَلْيُطَلِّقْهَا حِينَ تَطْهُرُ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُجَامِعَهَا ، فَتِلْكَ الْعِدَّةُ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ أَنْ تُطَلَّقَ لَهَا النِّسَاءُ " ، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ إِذَا سُئِلَ عَنْ ذَلِكَ ، قَالَ لِأَحَدِهِمْ : إِنْ كُنْتَ طَلَّقْتَهَا ثَلَاثًا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَيْكَ ، حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَكَ . وَزَادَ فِيهِ غَيْرُهُ . عَنْ اللَّيْثِ ، حَدَّثَنِي نَافِعٌ ، قَالَ ابْنُ عُمَرَ : لَوْ طَلَّقْتَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ فَإِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَرَنِي بِهَذَا .  [صحيح البخاري » كِتَاب الطَّلَاقِ » بَاب وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ سورة البقرة ..., رقم الحديث: 4944(5332]؛



 قتیبہ، لیث، نافع کہتے ہیں کہ ابن عمربن خطاب رضی اللہ عنہما نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں ایک طلاق دے دی تو ان کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ رجوع کرلے، پھر اس کو روکے رکھ، یہاں تک کہ وہ پاک ہوجائے، پھر اس کے پاس اسے دوسرا حیض آجائے، پھر اس کو رہنے دے یہاں تک کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے، اگر وہ اس کو طلاق دینا چاہتا ہے تو طلاق دے دے جب کہ وہ حیض سے پاک ہوجائے لیکن صحبت سے پہلے، یہی وہ عدت ہے جس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اس میں عورتوں کو طلاق دی جائے اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب اس کے متعلق پوچھا گیا تو ایک شخص سے کہا کہ جب تو اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے تو وہ تجھ پر حرام ہے، یہاں تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے، اور دوسرے لوگوں نے اس میں اضافہ کے ساتھ لیث سے بواسطہ نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا قول نقل کیا کہ کاش! تو عورت کو ایک یا دو طلاقیں دیتا اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی کا مجھے حکم دیا تھا۔ [صحیح بخاری:جلد سوم:حدیث نمبر 306 (5017)    - طلاق کا بیان : اللہ تعالیٰ کا قول کہ ان کا شوہر عدت میں ان کے لوٹانے کا زیادہ مستحق ہے اور کس طرح عورت سے رجوع کیا جائے جب کہ اس کو ایک یا دو طلاقیں دے دے]















حدیث میں ہے:



”عن مجاہد قال کنت عند ابن عباس فجاء ہ رجل فقال انہ طلق امراتہ ثلاثاً قال فسکت حتی ظنت انہ رآدہا الیہ ثم قال ینطلق احدکم فیرکب الحموقة ثم یقول: یا ابن عباس یا ابن عباس وان الله تعالیٰ قال ومن یتق الله یجعل لہ مخرجاً، وانک لم تتق الله فلااجد لک مخرجاً، عصیت ربک وبانت منک امراتک“۔ (سنن ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)؛



ترجمہ:…”مجاہد سے روایت ہے کہ ایک دفعہ میں حضرت عبد اللہ بن عباس کی خدمت میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور کہا کہ میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی ہیں (کیا حکم ہے) حضرت ابن عباس نے کوئی جواب نہیں دیا اور خاموش ہوگئے (مجاہد کہتے ہیں) مجھے گمان ہونے لگا کہ شاید ابن عباس اس کی بیوی کو واپس لوٹانے والے ہیں پھر ابن عباس نے فرمایا: کہ تم میں سے بعض لوگ ایسے ہیں کہ ان پر حماقت سوار ہوتی ہے، پھر میرے پاس آتا ہے اور کہتا ہے یا ابن عباس یا ابن عباس جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لئے راستہ نکالتا ہے اور تو اللہ تعالیٰ سے ڈر انہیں (اور بیک وقت تین طلاقیں دیدی) اس لئے قرآن کے مطابق تمہارے لئے کوئی راستہ نہیں پاتا تونے خدا کی نافرمانی کی ہے اور تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی ہے اور تم سے جدا ہوگئی ہے“۔



اور ابوداؤد اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں:



”روی ہذا الحدیث حمید الاعرج وغیرہ عن مجاہد عن ابن عباس… کلہم قالوا فی الطلاق الثلاث انہ اجاز ہا قال وبانت منک…“ (ابی داؤد ج:۱/۲۹۹ ط حقانیہ)؛



یعنی ان حضرات نے ابن عباس سے روایت بیان کی ہے یہ تمام رواة متفقہ طور پر نقل فرمارہے ہیں کہ ابن عباس نے تین طلاقوں کو نافذ فرمادیا اور فتویٰ دیا کہ عورت جدا ہوگئی۔اسی طرح نسائی شریف کی حدیث میں ہے:



”عن محمود بن لبید قال اخبر رسول الله ا عن رجل طلق امراتہ ثلاث تطلیقات جمیعاً فقام غضباناً ثم قال ایلعب بکتاب الله وانا بین اظہر کم حتی قال رجل وقال یا رسول الله الا اقتلہ“۔ (ج:۲/۹۹ ط قدیمی)؛



ترجمہ:…”محمود بن لبید سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ علیہ الصلاة و السلام کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکٹھی دیدیں ہیں۔ آپ علیہ السلام نے غضبناک ہوکر تقیریر فرمائی کہ کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیل کیا جارہا ہے، حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں، آنحضرت اکا یہ غصہ دیکھ کر ایک صحابی کھڑے ہوگئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا اسے قتل نہ کردوں“۔



حدیث مذکورہ بالا سے ثابت ہوتا ہے کہ تین طلاقیں مجتمعاً واقع ہوجاتی ہیں۔ اگر واقع نہ ہوتیں تو آنحضرت ا غضبناک نہ ہوتے اور فرمادیتے کہ کوئی حرج نہیں رجوع کرلو۔



اسی طرح مؤطا امام مالک میں ہے؛

”عن مالک بلغہ ان رجلاً قال لابن عباس انی طلقت امرأتی مأة تطلیقة ما ذاتری علی؟ فقال لہ ابن عباس طلقت منک بثلاث وسبع وتسعون اتخذت بہا آیات اللہ ہزوا“ (ص:۵۱۰)؛



ترجمہ:…”ایک شخص نے ابن عباس سے کہا میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ہیں، اس کے متعلق آپ کیا فرماتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: تین طلاقوں سے تو عورت تجھ سے جدا ہوگئی اور بقیہ ستانوے طلاقوں سے تونے اللہ کی آیات کا تمسخر کیا ہے“۔



اور طحاوی شریف میں ہے؛

”عن مالک بن حارث قال رجل الی ابن عباس فقال ان عمی طلق امراتہ ثلاثاً فقال: ان عمک عصی الله فاثمہ الله واطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجا فقلت کیف تری فی رجل یحلہا لہ فقال من یخادع الله یخادعہ…“ (باب الرجل یطلق امراتہ ثلاثا معا ج:۲/۳۴)؛



ترجمہ:…”مالک بن حارث فرماتے ہیں کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور کہا میرے چچا اپنی عورت کو دفعةً تین طلاقیں دے بیٹھے ہیں۔حضرت ابن عباس نے فرمایا: تیرے چچا نے خدا کی نافرمانی کی اور شیطان کی اطاعت کی اور آپ نے اس کے لئے کوئی گنجائش نہیں نکالی۔مالک بن حارث فرماتے ہیں، میں نے عرض کیا :آپ اس شخص کے متعلق کیا فرماتے ہیں جو اس عورت کو اس شوہر کے لئے حلال کرے؟ آپ نے فرمایا: جو اللہ سے چالبازی کرے گا اللہ بھی اس کے ساتھ ایسا ہی معاملہ کرے گا“۔



اور مصنف ابن ابی شیبہ میں ہے:



”عن انس قال کان عمر اذا اتی برجل قد طلق امراتہ ثلاثاً فی مجلس او جعہ ضرباً وفرق بینہما…“ (ج:۵/۱۱) وفیہ ایضا عن معمر عن الزہری فی رجل طلق امراتہ ثلاثاً جمیعاً قال ان من فعل فقد عصی ربہ وبانت منہ امراتہ“ (ج:۵/۱۱)؛



ترجمہ:…”حضرت انس فرماتے ہیں کہ جب حضرت عمر فاروق کے پاس ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاق دی ہوتیں تو آپ اس کو سزا دیتے ہیں اور دونوں میں تفریق کردیتے ہیں۔ تو قرآنی آیات وتفاسیر واحادیث سے روز روشن کی طرح یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دقعةً تین طلاقیں دینے سے تین ہی شمار ہوتی ہیں۔“



لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ شخص نے چونکہ اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی تھیں تو اس سے بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوگئی ہیں اور بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ہے، اب شوہر کے لئے رجوع کرنا جائز نہیں اور حلالہ شرعیہ کے بغیر دوبارہ اس سے نکاح کرنا بھی جائز نہیں ہے۔



باقی غیر مقلدین کا منسلکہ فتویٰ از روئے قرآن وحدیث اور جمہور صحابہ کرام ، تابعین، تبع تابعین اور چاروں ائمہ کے متفقہ مسلک کے خلاف ہے، جیساکہ اوپر لکھا گیا ہے اور جس حدیث کو بطور استدلال پیش کیا ہے، اس حدیث سے تین طلاقوں کو ایک شمار کرنے کا استدلال کرنا تمام فقہاء کے نزدیک باطل ہے۔مذکورہ حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس کی ہے اس حدیث سے استدلال کرنا اس لئے درست نہیں ہے کہ اس حدیث کو ابوداؤد نے بھی روایت کیا ہے اور اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ روایت غیر مدخولہ کے متعلق ہے، عام نہیں ہے۔واضح رہے کہ عورتیں دو قسم کی ہیں؛

٢) غیر مدخولہ (جس کے ساتھ ہمبستری نہ ہوئی ہو)؛



٢) مدخولہ (جس کے ساتھ صحبت ہوچکی ہو) غیر مدخولہ عورت کو اگر الگ الگ لفظوں میں اس طرح طلاق دی جائے۔ ”تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے“تو پہلے ہی لفظ سے وہ بائنہ ہوجاتی ہے یعنی نکاح سے نکل جاتی ہے اور ایسی عورت پر عدت بھی لازم نہیں ہوتی، جب یہ عورت پہلے ہی لفظ سے بائنہ ہوگی اور اس پر عدت بھی نہیں تو اس کے بعد وہ طلاق کا محل نہ رہی، اس بناء پر دوسری اور تیسری طلاق لغو ہوتی ہے، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر تین طلاقیں دی جائیں تو ایک شمار ہوتی ہیں۔ حضور اکرم ا حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر کے ابتدائی سالوں میں غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا یہی طریقہ تھا۔ مگر بعد میں لوگوں نے جلد بازی شروع کردی اور ایسی غیر مدخولہ کو ایک ساتھ ایک لفظ میں تین طلاق دینے لگے تو حضرت عمر نے فرمایا کہ اب تین طلاق ہی ہوں گی۔ کہ (انت طالق ثلاثا) کہہ کر طلاق دی ہے اور یہ لفظ نکاح قائم ہونے کی حالت میں بولا ہے۔ (ابوداؤد شریف ج:۱/۳۰۶)؛

طلاق کے متعلق حضرت عمرؓ کے فیصلہ کی وضاحت ؛





دوسرا جواب یہ ہے کہ حضور اکرم ا اور حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر کے ابتدائی زمانہ میں جب ”انت طالق، انت طالق، انت طالق“ کہا جاتا تو عموماً لوگوں کی دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی، استیناف کی نیت نہیں ہوتی تھی اور اس زمانہ میں لوگوں میں دین اور تقویٰ اور خوف آخرت اور خوف خدا غالب تھا دنیا کی خاطر دروغ بیانی کا خطرہ تک دل میں نہ آتا تھا۔ آخرت میں جوابدہی اور آخرت کے عذاب کا اتنا استحضار رہتا کہ مجرم بذات خود حاضر ہوکر اپنے جرم کا اقرار کرتا اور اپنے اوپر شرعی حد جاری کرنے کی درخواست کرتا، اس بناء پر ان کی بات پر اعتماد کرکے ایک طلاق کا حکم کیا جاتا، اسی اعتبار سے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اس زمانے میں تین طلاقیں ایک شمار کی جاتی تھیں مگر جیسے جیسے عہد نبوی سے بعد ہوتا گیا اور بکثرت عجمی لوگ بھی حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے، ان میں تقویٰ وخوف آخرت کا معیار کم ہونے لگا اور پہلے جیسی سچائی، امانت داری اور دیانت داری نہ رہی، دنیا اور عورت کی خاطر دروغ بیانی ہونے لگی، جس کا اندازہ اس واقعہ سے لگایاجاسکتا ہے۔



حضرت عمر کے پاس عراق سے ایک سرکاری خط آیا کہ یہاں ایک شخص نے اپنی بیوی کو یہ جملہ کہا ہے ”حبلک علی غاربک“ (تیری رسی تیری گردن پر ہے) حضرت عمر بن خطاب نے اپنے عامل کو لکھا کہ ”ان مرہ ان یوافینی بمکة فی الموسم“ اس کو کہو کہ حج کے زمانہ میں مکہ مکرمہ میں مجھ سے ملے۔ حضرت عمر حج کے زمانہ میں کعبہ کا طواف کررہے تھے کہ اس آدمی (عراقی) نے آپ سے ملاقات کی اور سلام کیا، حضرت عمر نے فرمایا: تم کون ہو، اس نے کہا: میں وہی ہوں جس کو آپ نے حج کے زمانہ میں طلب کیا تھا، حضرت عمر نے فرمایا: تجھے رب کعبہ کی قسم سچ بتا ”حبلک علی غاربک“ سے تیری کیا نیت تھی، اس نے کہا: اے امیر المؤمنین! آپ نے اگر اس مبارک جگہ کے علاوہ کسی اور جگہ قسم لی ہوتی تو میں صحیح نہ بتاتا، حقیقت یہ ہے کہ میں نے اس جملے سے فراق کا یعنی عورت کو اپنے نکاح سے الگ کرنے کا ارادہ کیا تھا۔ حضرت عمر نے فرمایا: عورت تیرے ارادے کے مطابق تجھ سے علیحدہ ہوگئی۔



(موطأ امام مالک ص:۵۱۱ ماجاء فی الخلیة والبریة واشباء ذلک بحوالہ فتاویٰ رحیمہ ۴/۳۴۳)؛



یہ عراقی ایک عورت کے لئے جھوٹی قسم کھانے کے لئے اور دروغ بیانی کے لئے تیار تھا مگر کعبة اللہ اور حرم شریف کی عظمت وتقدس کا خیال رکھتے ہوئے کذب بیانی سے احتراز کیا۔



حضرت عمر نے عوام کی جب یہ حالت دیکھی، نیز آپ کی نظر اس حدیث پر تھی؛



”اکرموا اصحابی فانہم خیارکم، ثم الذین یلونہم، ثم الذین یلونہم، ثم یظہر الکذب حتی ان الرجل یحلف ولایستحلف ویشہد ولایستشہد…الخ“۔ (مشکوٰة المصابیح، باب مناقب الصحابة ج:۳/۵۵۴ ط سعید)؛



یعنی عہد نبوت سے جیسے جیسے دوری ہوتی چلی جائے گئی، دینداری کم ہوتی رہے گی اور کذب ظاہر ہو گا۔ حضرت عمر نے موجودہ اور آئندہ حالات کو پیش نظر رکھ کر صحابہ سے مشورہ کیا کہ جب ابھی یہ حالت ہے تو آئندہ کیا حالت ہوگی اور لوگ عورت کو الگ کردینے کی نیت سے تین طلاق دیں گے اور پھر غلط بیانی کرکے کہیں گے کہ ہم نے ایک طلاق کی نیت کی تھی۔ آپ نے اس چور دروازے کو بند کرنے کے لئے فیصلہ کیا کہ لوگوں نے ایسی چیز میں جلد بازی شروع کردی جس میں انہیں دیر کرنی چایئے تھی، اب جو شخص تین مرتبہ طلاق دے گا، ہم اسے تین ہی قرار دیں گے۔ صحابہ کرام نے اس فیصلہ سے اتفاق کیا اور کسی ایک نے بھی حضرت عمر کی مخالفت نہ کی، چنانچہ طحاوی شریف میں ہے:



”فخاطب عمربذلک الناس جمیعا وفیہم اصحاب رسول اللہ ا ورضی اللہ عنہم الذین قد علموا ما تقدم من ذلک فی زمن رسول اللہ ا فلم ینکرہ علیہ منہم ولم یدفعہ دافع…“ (ج:۲/۳۴)؛



محقق علامہ ابن ہمام رحمة اللہ فرماتے ہیں:



”ولم ینقل عن احد منہم انہ خالف عمر حین امضی الثلاث وہی یکفی فی الاجماع…“ (حاشیہ ابوداؤد ج:۱/۳۰۶)؛



یعنی کسی ایک صحابی سے بھی یہ منقول نہیں ہے کہ جب حضرت عمر نے صحابہ کی موجودگی میں تین طلاق کا فیصلہ کیا، ان میں سے کسی ایک نے بھی… حضرت عمر کے خلاف کیا ہو اور اس قدر بات اجماع کے لئے کافی ہے۔ امام نووی اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:



”فاختلف العلماء فی جوابہ وتاویلہ فالاصح ان معناہ انہ کان فی اول الامر اذا قال لہا انت طالق، انت طالق، انت طالق، ولم ینو تاکیداً ولااستینافاً یحکم بوقوع طلقة لقلة ارادتہم الاستنیاف بذلک فحمل علی الغالب الذی ہو ارادة التاکید فلما کان فی زمن عمر وکثر استعمال الناس بہذہ الصیغة وغلب منہم ارادة الاستیناف بہا حملت الاطلاق علی الثلاث عملاً بالغالب السابق الی الفہم…“ (نووی شرح مسلم ج:۱/۴۷۸ ط قدیمی)؛



یعنی حدیث حضرت ابن عباس کی بالکل صحیح تاویل اور اس کی صحیح مراد یہ ہے کہ شروع زمانہ میں جب کوئی انت طالق، انت طالق، انت طالق (یعنی تجھے طلاق، تجھے طلاق، تجھے طلاق) کہہ کر طلاق دیتا تو عموماً اس زمانہ میں دوسری اور تیسری طلاق سے تاکید کی نیت ہوتی تھی، استیناف کی نیت نہ ہوتی تھی، جب حضرت عمر کا زمانہ آیا اور لوگوں نے اس جملہ کا استعمال بکثرت شروع کیا اور عموماً ان کی نیت طلاق کی دوسرے اور تیسرے لفظ سے استیناف ہی کی ہوتی تھی، اس لئے اس جملہ کا جب کوئی استعمال کرتا تو عرف کی بناء پر تین طلاقوں کا حکم کیا جاتا۔





مسئلہ تین طلاق میں حضرت ابن_عباس (رض) کی 

:مختلف معارض احادیث کا جواب

 حدیث_مسلم میں منقول قول_حضرت ابن_عباس(رض)؛ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دور خلافت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دو سال تک تین طلاق ایک ہی شمار کی جاتی تھیں سو عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا اس حکم میں جو انہیں مہلت دی گئی تھی جلدی شروع کر دی ہے پس اگر ہم تین ہی نافذ کردیں تو مناسب ہوگا چنانچہ انہوں نے تین طلاق ہی واقعہ ہو جانے کا حکم دے دیا۔



[صحيح مسلم  » كِتَاب الطَّلَاقِ » بَاب طَلَاقِ الثَّلَاثِ، رقم الحديث: 2697 (1473)]







حدیث_طحاوی میں منقول قول_حضرت ابن_عباس(رض)؛ پھر یہی ابن_عباس رضی الله عنہما اس کے بعد فتویٰ دیتے ہیں کہ جو شخص اپنی بیوی کو بیک وقت تین (٣) طلاقیں دے تو اس کی طلاق لازم ہوجاتے گی اور وہ عورت اس پر حرام ہو جائیگی.[طحاوی:٢٢١+٢٢٢]؛  تشریح : ١  شارح_مسلم امام نووی (٦٣١-٦٧٦ھ ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں: المراد أن المعتاد في الزمن الأول کان طلقة واحدة وصار الناس في زمن عمر رضي اللہ عنہ یوقعون الثلاث دفعة فنفذہ فعلی ھذا یکون إخبارا عن اختلاف عادة الناس لا عن تغیر حکم في مسئلة واحدة. یعنی مراد یہ ہے کہ پہلے ایک طلاق کا دستور تھا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں لوگ تینوں طلاقیں بیک وقت دینے لگے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں نافذ کیا تو اس طور پر یہ حدیث لوگوں کی "عادتوں" کے بدل جانے کی خبر ہے نہ کہ مسئلہ واحدہ میں "حکم" کے بدلنے کی اطلاع ہے۔ (شرح مسلم: ج۱ ص۴۷۸)؛





تشریح  : ٢ 



امام بخاری و مسلم کے استاد امام ابن ابی شیبہ نے، پھر امام ابو داود اور امام بیہقی نے اس قول میں یہ بھی روایت کیا ہے کہ یہ اس عورت کے بارے میں ہے جس کی رخصتی نہیں ہوئی. امام نسائی نے بھی یہی باب بندھا ہے؛ (بیوی سے دخول/جماع سے قبل تین علیحدہ طلاقیں دینا)؛ [السنن الكبرى للنسائي  » كِتَابُ الطَّلاقِ  » طَلاقِ الثَّلاثِ الْمُتَفَرِّقَةِ قَبْلَ الدُّخُولِ ...، رقم الحديث: 5411 (5569)] اور ایسی عورت کے بارے میں خود حضرت عبدللہ بن عباس رضی الله عنہ کی وضاحت (ابن_ابی شیبہ : ٥/٢٥) پر موجود ہے کہ اگر اس کو یوں کہا جاۓ تجھے طلاق، طلاق، طلاق، تو اس کی ایک ہی طلاق پڑتی ہے (اس صورت میں دوبارہ نکاح بغیر حلالہ_شرعی کے جائز ہے اور سوچ و بچار کی گنجائش ہے) اور اگر یوں اس کو طلاقیں دی جائیں کہ تجھے تین طلاق تو اس سے تین طلاقیں ہی واقع ہوجاتی ہیں، اب بغیر حلالہ_شرعی کے اس کے نکاح نہیں ہوسکتا، یہ وہ جلدبازی ہے جس میں سوچ بچار کا موقع نہیں رہتا.



:امام ابن_رشد مالکی رح (520هـ-595هـ) فرماتے ہیں وقد احتج من انتصر لقول الجمهور بأن حديث ابن عباس الواقع في الصحيحين إنما رواه عنه من أصحابه طاوس ، وأن جلة أصحابه رووا عنه لزوم الثلاث ، منهم سعيد بن جبير ، ومجاهد ، وعطاء ، وعمرو بن دينار وجماعة غيرهم ، وأن حديث ابن إسحاق وهم ، وإنما روى الثقات أنه طلق ركانة زوجه البتة لا ثلاثا . 



جمہور (علماء کی راۓ و مذھب) کی حمایت کرنے والے یہ استدلال کرتے ہیں کہ صحیحین میں موجود حضرت ابن_عباس (رض) کی حدیث کی روایت ان کے اصحاب میں سے "طاوس" نے کی ہے، جبکہ ان کے بیشتر اصحاب نے، جن میں سعید بن جبیر رح ، مجاہد رح ، عطاء رح اور عمرو بن دینار رح ہیں اور ان کے علاوہ ایک جماعت نے تین طلاقوں کے واقع ہوجانے کا قول نقل کیا ہے اور (رکانہ کے تین طلاق کے ایک ہونے کی بواسطہ عکرمہ کے حضرت ابن_عباس کی بیان شدہ) ابن_اسحاق کی حدیث "وہم" ہے، ثقہ راویوں کے الفاظ تو یہ ہیں کہ رکانہ نے اپنی بیوی کو طلاق_بتہ (طلاق_بائن) دی تھی، اس میں تین کے الفاظ نہیں ہیں. [بداية المجتهد ونهاية المقتصد  » كتاب الطلاق]

[صحيح مسلم » كِتَاب الطَّلَاقِ » بَاب طَلَاقِ الثَّلَاثِ, رقم الحديث: 2697]











معترضین سے سوالات :

١) حدیث_مسلم کے قول سے تین طلاق سے مراد ہر قسم کی تین طلاقیں ہیں تو تین الگ الگ "طهر" میں دی گئی تین طلاقیں بھی کیا ایک ہونگی؟

٢) حدیث_مسلم میں اکٹھا تین طلاق کا ترجمہ جو کرتے ہیں، وہ کس لفظ کا ترجمہ کرتے ہیں؟ اس میں نہ ہی ایک مجلس کا لفظ ہے نہ جميعاً کا.

٣) صبح ، شام، رات یا تین دنوں یا ہفتوں میں ایک ایک کرکے تین طلاقیں کوئی الگ مجلس اور الگ وقت میں دے تو کیا وہ بھی ایک ہونگی؟ ٤) اکٹھی تین طلاق دینا اللہ کی آیت سے استہزاء اور رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) کی ناراضگی کا سبب ہے. تو کیا صحابہ_کرام (رضی الله عنھم) بلا-روک ٹوک دور_نبوت، دور_صدیقی اور دور_فاروقی کے دو ابتدائی سالوں میں یہ گناہ کرتے رہے اور بدعی طلاق دیکر بدعتی بنتے رہے؟ صحابہ_کرام (رضی الله عنھم) کے بارے میں یہ نظریہ رفض (شیعہ) کا تو ہے، کیا غیر مقلدین کا بھی ہے؟؟؟ ٥) اسی طرح کی "متعہ" پر ایک حدیث_مسلم (کتاب النکاح: نکاح_متعہ) میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ہم ایک مٹھی کھجور یا ایک مٹھی آٹے کے عوض مقررہ دنوں کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے زمانہ میں متعہ کر لیتے تھے یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرو بن حریث کے واقعہ کی وجہ سے متعہ سے منع فرمایا دیا۔

اس مسئلہ پر بھی شیعہ کی طرح کیا آپ بھی یہ ثابت مانتے ہو یا مانوگے؟ کہ نبی (صلی الله علیہ وسلم) اور حضرت ابو بکر (رضی الله عنہ) کے زمانہ میں جواز_متعہ پر سب صحابہ کا اجماع تھا، حضرت عمر (رضی الله عنہ) کا روکنا ایک سیاسی حکم تھا، کوئی شرعی حکم نہیں تھا، اسی لئے حضرت ابن_عباس (رضی الله عنہ) نے پہلے اجماع کے اصل حکم_شرعی پر قائم رہتے ان سے اختلاف کیا. کیا یہ صحیح ہے یا نہیں؟ تو کیوں؟

٦) حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو یہ حق ہے کہ وہ کسی (سیاسی) ضرورت کی ماتحت الله کے حلال کو حرام کردے؟ اور کیا وہ الله کے حلال کو حرام یا حرام کو حلال کرنے والے احبار و رہبان تھے یا خلیفہ راشد؟ اور کیا بقیہ صحابہ نے ان کو یہود کی طرح "ارباب من دون الله" بنایا تھا؟  ٧) حضرت عمر  (رضی اللہ عنہ) کے بعد دور_عثمانی میں کتنے صحابہ_کرام  (رضی اللہ عنہم) الله و رسول (صلی الله علیہ وسلم) کے ارشاد پر فتویٰ دیتے اور کتنے حضرت عمر  (رضی اللہ عنہ) کے قول پر؟ اور خود حضرت عثمان  (رضی اللہ عنہ) کس کے ساتھ تھے؟ ٨) حضرت علی ( (رضی اللہ عنہ) کے زمانہ_خلافت میں ان کا اپنا فتویٰ اور ان کے مفتیوں کا فتویٰ الله و رسول (صلی الله علیہ وسلم) کی شریعت پر رہا حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کی؟

نوٹ : صرف الله اور رسول ہی کے اقوال کو دلیل و حجت ماننے والے غیر-مقلد اہل_حدیث حضرات ان سوالوں کا جواب اپنے دعویٰ اور اصول کے مطابق کسی غیر-معصوم کے اقوال کے سواۓ صرف قرآن و حدیث ہی سے دیں. شکریہ











یہ ہے حدیث حضرت ابن عباس کا مطلب محدثین کی نظر میں اور یہی تشریح اور مقصد صحیح ہے۔ جو مطلب غیر مقلدین بیان کرتے ہیں، وہ صحیح نہیں۔ اس لئے کہ راوی حدیث حضرت عبد اللہ ابن عباس نے خود تین طلاقوں کے نفاذ کا فتویٰ دیا ہے، جیساکہ مذکور ہوچکا ہے۔



علامہ ابن قیم نے بھی باوجود اس تشدد وتصلب کے جوان کو اس مسئلہ میں تھا، حضرت ابن عباس کے اس فتویٰ ”ایک مجلس میں تین طلاقیں تین ہیں اور اس کے بعد رجعت جائز نہیں“ سے انکار نہیں کیا، بلکہ اس فتویٰ کے ثابت ہونے کا صاف اقرار کیا ہے۔ چنانچہ (اغاثة اللفہان) میں فرماتے ہیں:



”فقد صح بلاشک ابن مسعود وعلی ابن عباس الالزام بالثلاث ان اوقعہا جملة“۔ (ص:۱۷۹)؛



اور چونکہ یہ مسئلہ حلال وحرام کے متعلق ہے، اگر واقعی تین کو ایک سمجھا جاتا تو اس کے راوی صرف حضرت ابن عباس ہی کیوں ہیں، ان کے علاوہ دوسرے صحابہ کرام سے اس کے بارے میں کوئی روایت نہیں ہے، جبکہ ان سے بڑے خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق اس کے برخلاف فیصلہ فرماتے ہیں اور یہ صحابہ کرام کے سامنے کی بات ہے اور ایک صحابی نے بھی اس حکم کے خلاف نہیں کیا جس سے اس مسئلہ پر ان کا اجماع معلوم ہوتا ہے۔الغرض تین طلاقیں شرعاً واقع ہوچکی ہیں، بیوی شوہر پر حرمت مغلظہ سے حرام ہوگئی ہے، گمراہ لوگوں سے فتویٰ لے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کرنا بدترین گناہ ہے، لہذا دونوں میں علیحدگی ضروری ہے، بصورت دیگر اگرایک ساتھ رہے تو حرام کے اندر مبتلا ہوں گے چنانچہ حدیث میں ہے:



”من اعلام الساعة… وان یکثروا اولاد الزنا قیل لابن مسعود وہم مسلمون ! قال نعم: یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة طلقہا فیقیم علی فراشہا منہما زانیان ما اقاما“۔ (الخصائص الکبری للسیوطی ج:۲/۲۷۰ ط حقانیہ)؛



ترجمہ:…اور قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ ہے کہ زنا کی اولاد کی کثرت ہوجائے گی، پوچھا گیا حضرت ابن مسعود سے کیا وہ مسلمان ہوں گے؟ فرمایا: ہاں! وہ مسلمان ہوں گے، ایک زمانہ آئے گا لوگوں پر کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے دے گا، لیکن پھر بھی اس کے ساتھ اس کے بستر پر رہے گا جب تک دونوں اس طرح رہیں گے زنا کار ہوں گے“۔



”قال:یاتی علی الناس زمان یطلق الرجل المرأة ثم یجہدہا طلاقہا ثم یقیم علی فرجہا فہما زانیان ما اقاما…“

(المعجم الاوسط للطبرانی ج:۵/۴۴۲)



ترجمہ:…فرمایا کہ لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا کہ مرد اپنی بیوی کو طلاق دے گا پھر طلاق دینے سے انکار کرے گا پھر اس سے ہم بستری کرتا رہے گا پس جب تک وہ دونوں اس طرح رہیں گے زناکار ہوں گے“۔



لہذا صورت مسئولہ میں سائل کی بیوی پر تین طلاقیں واقع ہوچکی تھیں، سائل نے بغیر حلالہ شرعی جو دوبارہ نکاح کرکے ایک عرصہ ساتھ گذاراہے، دونوں حرام کاری میں مبتلا رہے، فی الفور علیحدگی کے بعد دونوں پر توبہ و استغفار لازم ہے۔



حَدَّثَنَا ابْنُ السَّرْحِ وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ خَالِدٍ الْکَلْبِيُّ أَبُو ثَوْرٍ فِي آخَرِينَ قَالُوا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِدْرِيسَ الشَّافِعِيُّ حَدَّثَنِي عَمِّي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ شَافِعٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَلِيِّ بْنِ السَّائِبِ عَنْ نَافِعِ بْنِ عُجَيْرِ بْنِ عَبْدِ يَزِيدَ بْنِ رُکَانَةَ أَنَّ رُکَانَةَ بْنَ عَبْدِ يَزِيدَ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ سُهَيْمَةَ الْبَتَّةَ فَأَخْبَرَ النَّبِيَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِذَلِکَ وَقَالَ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتَ إِلَّا وَاحِدَةً فَقَالَ رُکَانَةُ وَاللَّهِ مَا أَرَدْتُ إِلَّا وَاحِدَةً فَرَدَّهَا إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَطَلَّقَهَا الثَّانِيَةَ فِي زَمَانِ عُمَرَ وَالثَّالِثَةَ فِي زَمَانِ عُثْمَانَ قَالَ أَبُو دَاوُد أَوَّلُهُ لَفْظُ إِبْرَاهِيمَ وَآخِرُهُ لَفْظُ ابْنِ السَّرْحِ



سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 442 حدیث مرفوع مکررات 6 متفق علیہ 0 ابن سرح، ابراہیم بن خالد، محمد بن ادریس، محمد بن علی بن شافع، عبیداللہ بن علی بن عبد یزید، حضرت رکانہ بن عبد یزید سے روایت ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی سہیمہ کو طلاق بتہ دی پس نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس واقعہ کی خبر دی گئی رکانہ نے کہا واللہ میں نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکانہ سے پوچھا کیا تو نے واقعی ایک طلاق کی نیت کی تھی؟ رکانہ نے پھر کہا واللہ میں نے ایک ہی طلاق کی نیت کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی بیوی اس کو لوٹا دی (یعنی رجعت کا حکم فرمایا) پھر رکانہ نے دوسری طلاق حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں دی اور تیسری حضرت عثمان غنی کے عہد خلافت میں ابوداؤد رحمہ اللہ تعالی علیہ کہ پہلا حصہ ابراہیم کا روایت کردہ ہے اور دوسرا ابن سراح کا ۔

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...