Wednesday 14 November 2018

استخارہ کا بیان

*استخارہ کا بیان.*

استخارہ کی اہمیت و فضیلت.

1)  حضرت جابر رض فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اہم معاملات میں استخارہ کی تعلیم اس طرح (اہمیت سے) دیتے تھے جس طرح قرآن کریم کی کسی سورۃ کی تعلیم دیتے تھے.
(البخاری، مشکوۃ 116)

2) آدمی کی سعادت مندی کی بات یہ ہے کہ وہ کثرت سے اللۂ تعالی سے خیر طلب کرتا رہے( یعنی استخارہ کرتا رہے) اور اللہ تعالی کے ہر فیصلے پر راضی اور خوش رہے اور آدمی کی بد نصیبی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی سے خیر مانگنے ( یعنی استخارہ ) کو چھوڑ دے اور اللہ تعالی کے فیصلوں پر ناراض اور ناخوش رہے"
( مرقاۃ ج 3 ص 406)

3) جس نے استخارہ کیا وہ کبھی ناکام و نامراد نہیں ہوا، اور جس نے( کسی سمجھدار سے) مشورہ کیا وہ کبھی پشیمان و پچھتایا نہیں اور جس نے خرچ میں میانہ روی اختیار کی وہ کبھی محتاج نہیں ہوا
( مرقاۃ ج 3 ص 406)
استخارہ کا مسنون و مستحب طریقہ.

1) پہلے دو رکعت نفل پڑھے.
2) اسکے بعد خوب دل لگاکر استخارہ کی مسنون و مستحب دعا پڑھے اور جب " ھذا الامر" پر پہنچے تو اس کام کا جس کیلئے استخارہ کیا ہے خیال کرے.
3) بہتر یہ ہے کہ استخارہ کی دعا سے پہلے اور بعد حمد و ثناء اور درود شریف پڑھے.
4) استخارہ کے بعد دل کے اطمینان کھ دیکھیں جس جانب دل کا رجحان ہے اسی کے موافق عمل کرنا چاہیے.
5) اگر ایک دفعہ میں اطمینان نہ ہو تو سات دفعہ تک کیا جاۓ ان شاء اللہ تعالی رجحان اور اطمینان حاصل ہو جاۓ گا.

استخارہ کے بعد سونا اور خواب دیکھنا.

*استخارہ کے بعد نہ سونا ضروری ھے اور نہ خواب دیکھنا ضروری ہے* البتہ بعض مرتبہ خواب کے ذریعے اطمینان قلبی حاصل ہو جاتا ہے. علامہ ابن عابدین شامی رح فرماتے ہیں : اگر خواب میں سفید یا سبز رنگ نظر آۓ تو اس کام کے اچھے ہونے کی علامات ہے. اگر سیاہ یا سرخ رنگ نظر آۓ تو یہ اسکے برے ہونے کی علامت ہے جس سے بچنا چاہیے.
( الشامیۃ ج 2 ص 570)

اطمینان کسی جانب نہ ہو تو ؟

استخارہ اصل میں اللہ تعالی سے خیر مانگنے کی دعا ہے اسکے بعد فی نفسہ اطمینان قلب ضروری نہیں ہے. استخارہ کے بعد وہ کام جس کیلئے استخارہ کیا ہے کے اسباب اختیار کئے جائیں اگر اس کام کے ہونے میں خیر ہوگی تو نتیجۃ اسباب میں کامیابی ہو جاۓ گی  نہ ہونے میں خیر ہوگی تو اسباب ناکام ہو جائیں گے، بنا ھوا کام بگڑ جاۓ گا.

دوسرے سے استخارہ کروانا.

استخارہ کا حکم یہ ہے کہ صاحب معاملہ خود استخارہ کرے، دوسرے سے استخارہ کرانے کا ذکر کسی کتاب میں نہیں اور نہ ہی سلف صالحین سے یہ ثابت ہے لھذا استخارہ صاحب معاملہ خود کرے  البتہ دعاء خیر دوسرے سے کروا سکتے ہیں.

استخارہ پر اجرت.

بعض لوگ اجرت لیکر استخارہ کرتے ہیں جو کہ ناجائز اور حرام ہے.

کس کام کیلئے استخارہ و مشورہ مسنون ہے ؟ 

تین قسم کے امور میں استخارہ و مشورہ کرنا مسنون ہے.
1)  جن کا معروف اور نیکی ہونا معلوم اور متعین ہے جیسے نماز پڑھنا، تلاوت کرنا، روزہ رکھنا وغیرہ ایسے کاموں کیلئے مشورہ اور استخارہ نہیں ہوتا_  مشہور مقولہ ہے"
... درکار خیر ہیچ استخارہ نیست......
2)  جن کا منکر اور برا ہونا معلوم و متعین ہے
جیسے جھوٹ، چوری، بدنظری وغیرہ ان کیلئے بھی مشورہ اور استخارہ نہیں  بلکہ جائز ہی نہیں.
3) وہ امور جن سے متعلق قرآن و حدیث کا کوئی واضح اور قطعی حکم موجود نہ ہو بلکہ شرعا اختیاری ہوں، جیسے زکوۃ کن لوگوں پر خرچ کیا جاۓ ؟ حج پر ہوائی جہاز سے جاۓ یا بحری جہاز سے؟ کپڑے کی تجارت شروع کی جاۓ یا اناج وغیرہ کسی اور اجناس کی؟ شریعت کے مطابق نکاح کا آیا لیکن اس نیک آدمی سے مناسب ہے یا کسی دوسرے نیک سے مناسب ہے ؟ یہ سب امور شرعا اختیاری ہیں  ایسے امور کیلئے استخارہ کیا جاتا ہے.

دعاء استخارہ.

اللھم انی استخیرک بعلمک و استقدرک بقدرتک......... ثم ارضنی بہ.
ترجمہ: اے اللہ ! میں آپ سے خیر طلب کرتا ہوں آپ کے علم کے واسطے سے اور قدرت طلب کرتا ہوں آپ کی قدرت کی مدد سے  اور سوال کرتا ہوں آپ کے فضل کا، 
پس بےشک آپ قدرت رکھنے والے ہیں اور میں عاجز اور کمزور ہوں، اور آپ جانتے ہیں میں نہیں جانتا. اور آپ پوشیدہ باتوں کو بخوبی جاننے والے ہیں، اے اللہ ! اگر یہ کام جو آپ کے علم میں ہے میرے لئے میرے دین، معاش اور آخرت کیلئے خیر ہے تو اس کو میرے لئے مقدر فرما دیجئے اور آسان فرما دیجئے  اور پھر اس میں میرے لئے برکت ڈال دیجئے اور اگر آپ کے علم میں اسکے اندر شر ہے میرے دین اور معاش اور آخرت کیلئے تو اس کو مجھ سے دور کر دیجئے اور مجھ کو اس سے دور کر دیجئے اور جہاں خیر ہو اس کو میرے لئے مقدر کر دیجئے اور مجھ کو اس پر راضی کر دیجئے.

نوٹ : دعا عربی میں ہونا چاہیے، کسی کو دشواری ہو تو اپنی زبان ( اردو، پشتو وغیرہ) میں کر لے.

کیا میلاد منانا جائز ہے؟

سوال:کیا عید میلادالنبی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سالگرہ ہے؟

جواب:آنحضرت ﷺ کی سیرت ِ طیبہ کا تذکرہ کرنا اور اس سے لوگوں کو آگا ہ کرنا افضل ترین عبادت،موجب ِ خیر وبرکت اور سعادت ِ دنیا وآخرت ہے ،ہر مسلمان کو اس میں حصہ لینا چاہیے لیکن اس کے ساتھ یہ بھی جان لینا ضروری ہے کہ بارہ ربیع الاول کو خصوصیت کے ساتھ محفل ِ میلاد یا عید میلاد النبی منعقد کرنے کی جو رسم پڑگئی ہےاس کا کوئی ثبوت حضرات ِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ،تابعین ،تبع تابعین اور ائمہ کرام کے مبارک دور میں نہیں ملتا ،بلکہ یہ بہت بعد کی ایجاد کردہ رسم ہے اور چونکہ لوگ اس رسم کو دین کاحصہ ا ور باعث ِ ثواب سمجھتے ہیں اور شرکت نہ کرنے والوں کو ملامت کی جاتی ہے ،یہاں تک کہ اب لوگ اس کو عید الاضحی اور عید الفطر کی طرح ہی تصور کرنے لگے ہیں ،لہٰذایہ مروجہ محفلیں بدعت اور واجب الترک ہیں ۔(مأخذہ ٗ تبویب بتصرف :۵۴۱ /۱۱۵)

اسی طرح دیگر انبیاءعلیھم السلام کے پیدائش کے دن منانے کو بھی لوگوں نے دین کا حصہ سمجھ لیا ہےحالانکہ اس کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے لہٰذا اس کے منانے سے بھی اجتناب ضروری ہے ۔البتہ میلاد کی محافل اور سالگرہ کی تقریبات میں فرق یہ ہے کہ سالگرہ محض یادگار کے طور پر منائی جاتی ہے ،اس کو دین کاحصہ یا باعث ِ ثواب نہین سمجھا جاتا اس کے برخلاف میلاد کی محافل کو لوگ دین کاحصہ اور باعث ِ ثواب سمجھتے ہیں اس لئے ان میں دین کا پہلو غالب ہے لہٰذا یہ محافل اورسالگرہ ایک جیسے نہیں ہیں ۔
مشكاة المصابيح – (ج 1 / ص 464)
وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:” لا تختصوا ليلة الجمعة بقيام من بين الليالي ولا تختصوا يوم الجمعة بصيام من بين الأيام إلا أن يكون في صوم يصومه أحدكم ” . رواه مسلم
الحاوي للفتاوى للسيوطي:(ج 1 / ص 226دارالفكر)
ومن جملة ما أحدثوه من البدع مع اعتقادهم أن ذلك من أكبر العبادات وإظهار الشعائر ما يفعلونه في شهر ربيع الأول من المولد وقد احتوى ذلك على بدع ومحرمات جملة فمن ذلك استعمال المغاني ومعهم آلات الطرب من الطار المصرصر والشبابة وغير ذلك مما جعلوه آلة للسماع ومضوا في ذلك على العوائد الذميمة في كونهم يشغلون أكثر الأزمنة التي فضلها الله تعالى وعظمها ببدع ومحرمات .
الحاوي للفتاوي للسيوطي ( 1 / 282 دار الفكر):
سئل شيخ الإسلام حافظ العصر أبو الفضل بن حجر عن عمل المولد فأجاب بما نصه: أصل عمل المولد بدعة لم تنقل عن أحد من السلف الصالح من القرون الثلاثة
حاشية ابن عابدين – (ج 1 / ص 544)
قوله ( ويكره التعيين إلخ ) هذه المسألة مفرعة على ما قبلها لأن الشارع إذا لم يعين عليه شيئا تيسيرا عليه كره له أن يعين وعلله في الهداية بقوله لما فيه من هجر الباقي وإيهام التفضيل
الاعتصام للشاطبي (1 / 53):
منها: وضع الحدود; كالناذر للصيام قائما لا يقعد، ضاحيا لا يستظل، والاختصاص في الانقطاع للعبادة، والاقتصار من المأكل والملبس على صنف دون صنف من غير علة.
ومنها: التزام الكيفيات والهيئات المعينة، كالذكر بهيئة الاجتماع على صوت واحد، واتخاذ يوم ولادة النبي صلى الله عليه وسلم عيدا، وما أشبه ذلك.
ومنها: التزام العبادات المعينة في أوقات معينة لم يوجد لها ذلك التعيين في الشريعة، كالتزام صيام يوم النصف من شعبان وقيام ليلته.
وثم أوجه تضاهي بها البدعة الأمور المشروعة، فلو كانت لا تضاهي الأمور المشروعة لم تكن بدعة، لأنها تصير من باب الأفعال العادية.
واللہ سبحانہ و تعالی اعلم بالصواب

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...