Sunday 11 February 2018

Kosher jew meat کوثر یہودی کھانا


کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
میری بیٹی بنام اسماء اپنے اہل و عیال کے ساتھ امریکہ میں عرصۂ دراز سے قیام پذیر ہے، وہ آپ سے کچھ سوال کرنا چاہتی ہے، جو مندرجہ ذیل ہیں:
۱: کیا کوشر (Kosher) جو معروف یہودی کھانا بتایا جاتا ہے، ایک مسلمان کے لیے شرعاً جائز ہے؟ اگر ہے تو اسلامی رو سے کیا دلیل ہے؟ اور اگر نہیں ہے تو کیا وجہ ہے؟
۲: حلال اور ذبیحہ میں کیا فرق ہے؟
لغت کے رو سے حلال حرام کا متضاد ہے اور جائز درست ذبح کیا ہو۔
لغت کی رو سے ذبیحہ یعنی قربانی کا جانور جو شرعی طور پر ذبح کیا ہو۔
آپ سے استدعا ہے کہ دونوں سوالوں کا جواب عنایت فرما کر ہمیں سرفراز فرمائیں۔
مستفتی: نسیم حضرت جی
الجواب باسمہٖ تعالیٰ
واضح رہے کہ ’’کوثر‘‘ یہودیوں کے ہاں ان کے مذہب کے مطابق اسی معنی میں استعمال ہوتا ہے، جس معنی میں ہم ’’حلال‘‘ کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ ’’کوشر ذبیحہ‘‘ حلال کردہ جانور کے لیے استعمال ہوتا ہے جس کو ہم ’’حلال ذبیحہ‘‘ بھی کہتے ہیں۔ یہودیوں کے ذبیحہ کا حکم یہ ہے کہ: اگر یہودی اپنے مذہب کی تعلیمات کے مطابق ذبح کرنا جانتا ہو اور اس کا التزام بھی کرتا ہو، بالخصوص! اللہ کے نام لے کر اچھی طرح رگوں کو کاٹ دے تو اس کا ذبیحہ اُصولِ مذہب کے مطابق اہل کتاب کا ذبیحہ ہونے کی بنا پر حلال ہوگا۔ البتہ موجودہ دور کے اکثر یہود و نصاریٰ حقیقی معنوں میں اپنی کتابوں کی تعلیمات سے واقف ہوتے ہیں، نہ ہی اپنی کتابوں کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنے کا اہتمام کرتے ہیں، بلکہ اکثر مادہ پرست اور دہریہ نظریات کے حامل ہوتے ہیں، جس کی بنا پر انہیں اہل کتاب شمار کرنا مشکل ٹھہرتا ہے، اس لیے ان کا ذبیحہ مطلقاً حلال نہیں ہوگا، بلکہ کم از کم مشتبہ ٹھہرتا ہے، لہذا ان کے ذبیحہ سے احتراز کیا جائے۔
فی القرآن الکریم:
«وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ» (المائدۃ: ۵)
و فی التنویر:
’’و شرط کون الذابح مسلماً أو کتابیاً ذمیاً أو حربیاً۔‘‘ (ج: ۲، ص: ۲۹۷، ط: سعید)
و فی الشامیۃ:
’’و مقتضی الدلائل الجواز (ذبیحۃ أھل الکتاب) کما ذکرہ التمرتاشی فی فتاواہ، و الأولی أن لایأکل ذبیحتھم و لایتزوج منھم الا للضرورۃ کما حققہ الکمال بن الھمام۔‘‘ (فتاویٰ شامی، ج: ۶، ۲۹۷، ط: سعید)
و فی التفسیر المظھری:
’’روی ابن الجوزی بسندہ عن علی رضی اللہ عنہ قال: لاتأکلوا من ذبائح نصاریٰ بنی تغلب فانھم لم یتمسکوا من النصرانیۃ بشیء الا شربھم الخمر، رواہ الشافعی رحمہ اللہ بسندصحیح عنہ۔‘‘ (تفسیر مظہری، ج: ۳، ص: ۳۴)
۲: واضح رہے کہ ’’ذبیحہ‘‘ ہر اس حیوان کو کہا جاتا ہے جس کو ذبح کیا جائے، پھر اگر اس کو شرعی طریقہ پر ذبح کیا جائے‘ اس کو ’’حلال ذبیحہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اور اگر اس کو شرعی طریقہ پر ذبح نہ کیا جائے تو اس کو ’’مردار‘‘ اور ’’حرام ذبیحہ‘‘ کہا جاتا ہے۔
قربانی کو عربی لغت میں ’’اُضیحہ‘‘ کہا جاتا ہے، نہ کہ ’’ذبیحہ‘‘، اور ’’اُضیحۃ‘‘ اس مخصوص حیوان کو کہا جاتا ہے، جس کو مسلمان عید الاضحی کے ایام میں ذبح کرتے ہیں۔ الدر المختار میں ہے:
’’الذبیحۃ اسم ما یذبح۔‘‘ (الدر المختار، ج: ۶، ص: ۲۹۳، ط: سعید)
و فی التنویر مع شرحہ:
’’حرم حیوان من شأنہ الذبح ما لم یذک ذکاءً شرعیاً اختیاریاً کان أو اضطراریاً۔‘‘ (ج: ۶، ص: ۲۹۴، ط: سعید)
و فیہ أیضاً:
’’ھی (الأضحیۃ) لغۃً اسم لما یذبح أیام الأضحی۔‘‘ (ج: ۶، ص: ۳۱۱، ط: سعید)
الجواب صحیح: ابوبکر سعید الرحمن
الجواب صحیح: محمد عبدالقادر
کتبہ: ظہور اللہ، متخصصِ فقہِ اسلامی۔ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی

Tuesday 6 February 2018

گھر جاؤ تو سلام کرو کی تحقیق

*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   حضرت سہل بن سعد رضی ﷲ عنہ کی روایت کہ جب گھر میں جاؤ تو سلام کرو! اگر وہاں کوئی ہو اور اگر  نہ ہو, تو مجھے سلام کرو, اور سورہ اخلاص پڑھو, اس شخص نے ایسا ہی کیا جسکانتیجہ یہ ہوا کہ اس شخص کے ساتھ ساتھ اسکے پڑوسی بھی خوش عیش ہوگئے۔

 یہ روایت ضعیف سند کے ساتھ مروی ھے۔

 روایت کے الفاظ:

 🌀  جاء رجلٌ إلى النَّبيِّ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم فشكا إليه الفقرَ وضيقَ العيشِ أو المعاشِ ، فقال له رسولُ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم : إذا دخلتَ منزلَك فسلِّمْ إن كان فيه أحدٌ أو لم يكنْ فيه أحدٌ ، ثمَّ سلِّم عليَّ واقرأْ { قُلْ هُوَ اللهُ أَحَدٌ } مرَّةً واحدةً . ففعل الرَّجلُ فأدرَّ اللهُ عليه الرِّزقَ حتَّى أفاض على جيرانِه وقراباتِه.


    الراوي: سهل بن سعد الساعدي 
    المحدث: السخاوي
    المصدر:  القول البديع
    الصفحة: 135 
     الناشر : دار الریان للتراث, مصر
    خلاصة حكم المحدث:  إسناده ضعيف.



♻ نیز اس میں جو حضور کو سلام کرنے کاذکر ھے یہ متعین نہیں یعنی دوسری جگہ الفاظ یہ ہیں کہ اگر گھر میں کوئی موجود نہ ہو تو خود داخل ہونے والا اپنے آپ کو سلام کرے۔

💠 عن سهل بن سعد الساعديّ قال: شكا رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم الفقر وضيق المعيشة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا دخلتَ البيت فسلِّمْ إن كان فيه أحد، وإن لم يكن فيه أحد فسلم عليّ، واقرأ: قُلْ هُوَ الله أَحَدٌ مرة واحدة ـ ففعل الرجل فأدرّ الله عليه الرزق، حتى أفاض على جيرانه ـ 

قال محقق الكتاب: أورده الرازي في تفسيره وفيه: وإن لم يكن فيه أحد فسلم على نفسك بدل .... فسلم عليَ، ولم نقف عليه في مصادر التخريج، وهذا هو اللفظ الثاني وهو: فسلم على نفسك.....

المصدر: تفسير الجامع لاحكام القرآن — القرطبي—
المجلد: 22
الصفحة: 566
الناشر: مؤسس الرسالة، بيروت، لبنان. 

☪ معلوم ہوا کہ حضور کو سلام کرنے کی اصل بقول امام رازی غیر معلوم ھے۔ یعنی اسکی اصل  نہیں ھے۔ اور سخاوی رح کی روایت کردہ بات کو   دیگر محدثین کرام نے بہت ھی زیادہ کمزور بتایا ھے ۔اسلئے اسکو بیان کرنے سے بچنا چاھئے۔

⏺ اور اس سے ملتی جلتی ایک روایت اور ھے کہ اگر تم مسجد میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو: *السلام علی رسولﷲ*  اور گھر میں داخل ہوؤ اور وہاں کوئی نہ ہو تو پڑھو *السلام علینا وعلی عبادہ الصالحین*  
  اس روایت کے بارے میں  علامہ سخاوی رح فرماتے ہیں کہ مجھے اسکی اصل نہیں مل سکی۔

( القول البدیع /صفحة: 217.ط: دار الريان للتراث، مصر. ) 

والله تعالى اعلم
 ✍🏻...كتبه: *محمد عدنان وقار صديقي*

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...