Thursday 18 April 2019

شرعی نظام عدل میں ایک خاتون کا قاضی ہونا

*شرعی نظام عدل میں ایک خاتون کا قاضی ہونا*
....................................
ابن حزم نے المحلی میں لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے شفا بنت عبد اللہ (یہ امت مسلمہ کی وہ عظیم خاتون ہیں جو حضرت ام المومنین حفصہ کی نکاح سے قبل معلمہ/ٹیچر تھیں) کو بازار کا محتسب یعنی Accountability Judge اور Market Administrator مقرر کیا۔ ممکن ہے احباب کو یہ بات عجب لگے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ایک عورت کو جج کیسے مقرر کر دیا۔ چونکہ میرا واسطہ بھی عدالت و کچہری سے ہے، بعض اوقات کچھ وکلاء سے بھی سننے کو ملتا ہے کہ ہمارے ہاں اسلام کہاں ہے؟ اسلام میں تو عورت جج نہیں بن سکتی، ادھر عورتیں جج بنی بیٹھی ہیں۔ ان احباب کی خدمت میں سب سے پہلے تو مندرجہ بالا روایت اور پھر حنفی ہونے کے ناطے امام اعظم سیدنا ابو حنیفہ کا قول بھی پیش ہے؛ جائز ان تلی المرء ۃ الحکم دلیلہ قد روی عن عمر بن الخطاب انہ ولی الشفاء امراۃ من قومہ السوق۔ عورت کو قاضی بنانا جائز ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عمر سے مروی ہے کہ انہوں نے بازار کی محتسب ایک عورت شفاء کو بنایا تھا۔ آپ فقہ حنفی کی کوئی کتاب اٹھا لیں سب میں واضح موجود ہے کہ عورت قاضی/جج بن سکتی ہے (لیکن جیسے سب سے پہلے ذکر کیا کہ چند شرائط کے ساتھ تو عورت کے جج بننے میں فقط یہ شرط ہے کہ وہ) حدود و قصاص کے کیسز میں جج نہیں بن سکتی، اس کے علاوہ دیگر تمام معاملات میں عورت جج بن سکتی ہے۔ اور حضرت عمر کی روایت بھی واضح ہے کہ آپ نے جن کو Accountability Judge مقرر کیا تھا وہ بازار جاتیں، گھومتیں اور مارکیٹ کو کنٹرول رکھتی تھیں۔ اگر عورت
کو چار دیواری میں قید کرنے کا نام شریعت، اسلام یا غیرت ہوتا تو حضرت عمر عورت کو Accountability Judge کیوں مقرر کرتے۔؟

یہ ایک تحریر ھے اسکی حقیقت و سچائی سے پردہ اٹھانا ضروری ھے!!

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

    عورت کے لفظ سے ہر شریف انسان کے ذہن میں جو معنی گردش کرتے ہیں وہ یہی ہیں کہ یہ چھپانے کی چیز ھے , زینت خانہ ھے شمع محفل بننے کے قابل نہیں , خدا کی تخلیق کردہ ایک عظیم نعمت ھے جسکی تقدیس و تعظیم ہر رشتہ کے لحاظ سے ضروری ھے, اسکی پرورش وتربیت پر اللہ نے اجر عظیم کا وعدہ فرمایا ھے, اسکی تعلیم , پڑھائی و لکھائی کو بہی ضروری قرار دیا ھے, خود قرآن کی اولین وحی جو آخری پیغمبر پر نازل ہوئی اس میں بلا افتراق جنس تعلیم کا حکم ھے جس میں مرد و زن برابر ہیں؛ تاہم کچھ اغیار و ملحدین زمانہ قدیم سے یہی راگ الاپتے رھے ہیں کہ اسلام نے عورت کو ناخواندگی و غلامی کے سوا کچھ نہیں دیا حالانکہ اس عنوان پر خود ذی ہوش و ذی عقل غیر مسلموں کی جانب سے تقاریر و تحاریر منظر عام پر آئیں کہ یہ محض اسلام کو بدنام کرنے کی ایک سازش ھے۔ قرآن و سنت اور فقہ تو عورت کی آزادی اور ہر طرح کے حقوق کی ادایئگی کے سلسلے میں بھرے پڑے ہیں ! اسلامی تعالیمات کا مطالعہ تو کیا جائے ؛ تاکہ سچائی سامنے آئے۔

الغرض! یہ تحریر عورت کے تمام حقوق عامہ و خاصہ پر مشتمل نہ ہوکر فقط ایک موضوع پر مشتمل ھے اور موضوع ھے : *اسلام میں عورت کا جج و قاضی بننا اور نوکری پیشہ ہونا* اسی عنوان کو سوالیہ تحریر میں سرخی بہی دی گئ ھے , تحریر اتنی اہم نہ تہی کہ اسکی جانب نظر التفات کی جاتی البتہ اس میں آخری سطر کے اندر  اسلامی قانون نسواں پر تنقید کی گئ ھے بس یہی محرک ہوا کہ چند سطور معرض وجود میں لائی جایئں اور سوالیہ تحریر میں درج غلط فہمی کا ازالہ کیا جائے۔

سب سے قبل ہم *المحلی* کی عبارت کا جائزہ لیتے ہیں کہ کیا واقعتا حضرت امیر المومنین نے حضرت شفاء بنت عبد ﷲ کو بازاری امور کی دیکھ ریکھ کی وزارت سونپی تہی یا ان کو جج کا عہدہ دیا گیا تہا
تو ہمیں اس بارے میں کوئی صحیح یا قابل استدلال روایت نہیں ملتی البتہ ابن حزم اندلسی رح کی شہرۂ آفاق کتاب "المحلیٰ" میں ایک مسئلہ مذکور ھے کہ عورت حنفیوں کے نزدیک عہدہ قضا سنبہال سکتی ھے اور اسکی دلیل میں حضرت عمر رض سے ایک روایت نقل کی ھے تاہم اس روایت کی سند وہاں موجود نہیں؛ لہذا ایک بے سند روایت جو کہ فقط ایک ہی کتاب میں ہو اور دیگر کتب حدیث اس سے کلیتا ساکت ہوں کس طرح قابل استدلال بن سکتی ھے کہ اس روایت کو دلیل بناکر عورت کو بے محابا سر عام ملازمت پیشہ بنایا جائے ۔

▪ *المحلی کی عبارت*▪

وجاز أن تلي المرأة الحكم، وهو قول أبي حنيفة، وقد روي عن عمر بن الخطاب: انه ولي الشفاء امرأة من قومه السوق، الخـ.

المصدر:  المحلي بالآثر
المؤلف: ابن حزم الاندلسي
المجلد: 9
الصفحة: 429
المسألة: 1800
الطبع: إدارة الطباعة المنيرية، قاهرة مصر.

ترجمہ:

 اور جائز ھے کہ عورت فیصلے کی ذمہ داری سنبال لے , اور یہ امام ابوحنیفہ کا قول بہی ھے ؛ کیونکہ حضرت عمر سے مروی ھے کہ انہوں نے اپنی قوم کی ایک خاتون شفاء بنت عبدﷲ کو بازاری معاملات کی ذمہ داری دی تہی۔

  وضاحت:
 یہ روایت بحیثیت سند قابل استدلال نہیں کہ اس کو لیکر اعتراض کیا جائے۔

اس روایت کے متعلق ابن العربی نے احکام القرآن میں جو کہا ھے وہ بات اہم ھے کہ یہ روایت بے اصل ھے اس کو اہل بدعات نے گھڑا ھے :

✳ قال ابن العربي في أحكام القرآن عنه : ( لم يصح ، فلا تلفتوا إليه ، فإنما هو من دسائس المبتدعة في الأحاديث ) .

المصدر: احکام القرآن
المؤلف: ابوبکر ابن العربی
المجلد: 3
الصفحہ: 482
الطبع: دار الکتب العلمیہ, بیروت لبنان۔

🔘 اسی طرح امام التفسیر علامہ قرطبی رح نے بہی کہا ھے:

  المصدر: الجامع لاحکام القرآن
  المفسر: القرطبی
  المجلد: 16
  الصفحہ: 139
  الطبع: مؤسسہ الرسالہ بیروت لبنان۔

   ان تصریحات کی روشنی میں ابن حزم کی روایت کا کوئی مول نہیں باقی رہ جاتا کہ اسکو لیکر شور شرابا کیا جائے۔


💡 جبکہ حضرت عمر کا قول و فعل دیکہا جائے تو کسی بہی زاویہ سے یہ روایت ان سے اتفاق نہیں رکہتی ؛ کیونکہ خود حضرت عمر کا فتح الباری میں ابن  حجر نے ایک مقولہ نقل کیا ھے : کہ ہم قریش خاندان سے تعلق رکہتے ہیں ہمارے یہاں خواتین حاکم نہیں ہوا کرتیں

نیز حضرت عمر ہی نے اپنی اہلیہ عاتکہ بنت زید کو مسجد میں نماز ادا کرنے سے روکا تہا۔

  خود حضرت عمر نے حضور سے کہا تہا : کہ آپ کے در دولت پر ہر نیک و بد کی آمد رہتی ھے لہذا آپ امہات المومنین کو حجاب اور پردے کی خوب تاکید کیجئے گا اسی پر خدا نے آیات حجاب کا نزول فرمایا اور یوں آیات حجاب بہی موافقات عمر سے ٹہری۔

تو کیسے ممکن ھے کہ سیدنا عمر فاروق جیسا دور اندیش صحابی  ایک عورت کو عہدہ قضا دیکر آنے والے روشن خیالوں یا مستشرقین کو زبان درازی کا موقع دیں!

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شفاء بنت عبدﷲ ایک عاقلہ اور پڑھی لکھی ماہر خاتون تہیں ۔اور حضرت حفصہ کی استانی کا بہی ان کو شرف حاصل رہا ھے۔ خود سیدنا عمر فاروق ان سے بہت سے سرکاری و حکومتی امور میں مشاورت کیا کرتے تھے لیکن روایات سے یہ ثابت نہیں ہوتا ھے کہ ان کو عمر فاروق نے باقاعدہ مارکیٹ کاقلم دان سپرد کیا ہو اور وہ فوڈ آفیسر بنی ہوں۔

  اب ہم اصل مسئلہ کی جانب آپ کی توجہات مبذول کرانا چاہینگے کہ فقہ حنفی میں اس مسئلے کے متعلق کیا صراحت ھے:

  تو خلاصہ کے طور پر اتنا عرض ھے کہ حنفی فقہ میں اصول فقہیہ کی روشنی میں خاتون (حدود وقصاص) کے علاوہ دیگر معاملات یعنی حقوق و نکاح یا مالی معاملات میں فیصل بن سکتی ھے ؛ کیونکہ احناف کا اصول ھے کہ جس کے اندر شہادت یعنی کورٹ میں گواہی دینے کی اہلیت ہو وہ قاضی بھی بن سکتا ھے البتہ اہلیت کے ساتھ ساتھ شرائط بہی ہیں جنکی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ۔اب ہم عورت کو دیکہتے ہیں تو وہ شہادت اور گواہی کی اہلیت رکہتی ھے لیکن ہر معاملے میں نہیں بلکہ حدود و قصاص کے علاوہ میں لہذا وہ ان دونوں معاملات کے علاوہ میں فیصلہ کرسکتی ھے۔

لیکن یہ معاملہ اتنا آسان نہیں ھے کہ عورت کو جج کے عہدے کی آفر و پیش کش کی جائے ؛ کیونکہ فقہ حنفی کی مستند کتب میں آگے یہ بہی صراحت ھے کہ عورت کو عہدہ سونپنے والا گنہگار ہوگا , یعنی عورت کو اس کام کے کرنے کی شریعت نے تحسین نہیں کی نہ ہی اسکی حوصلہ افزائی کی ھے۔بلکہ یہ کہا ھے کہ عورت اگر ان (حدود و قصاص)کے علاوہ میں خود سے قاضی بن بیٹھی یا کوئی اس کے پاس مقدمہ لیکر پہونچا اور وہ اپنا فیصلہ صادر کردے تو نافذ ہوجایئگا۔

*حنفی عبارت*

قال صاحب الدر المختار:
والمرأة تقضي في غير حد، وقود وإن أثم المولي لها  ؛لخبر البخاري: لن يفلح قوم ولوا امرهم امرأة.
وقال الشامي تحته: لانها لا تصلح شهادة فيهما، فلا تصلح حاكمة.

المصدر: الدر مع الرد
المجلد: 8
الصفحة: 142
الطبع: دار عالم الكتب، رياض،

*ترجمة:*
عورت حدود وقصاص کے علاوہ میں فیصلہ کرسکتی ھے لیکن اسکو فیصل بنانے والا گنہگار ہوگا۔کیونکہ بخاری کی روایت ھے : وہ قوم کبہی فلاح نہ پاسکے گی جس نے اپنے معاملات (عامہ یعنی خلافت و حکومت اور فیصلے )عورت کے سپرد کردیئے۔

اسی طرح کی عبارات ہدایہ, البحر الرائق, مجمع البحرین وغیرہ دیگر حنفی کتب فقہیہ میں بہی مذکور ہیں :

1⃣ مجمع البحرين
   المؤلف: ابن الساعاتي الحنفي
   الصفحة: 739
   الطبع:دار الكتب العلمية، بيروت

2⃣ البحر الرائق
  المؤلف: ابن نجيم المصري
  المجلد: 7
  الصفحة: 8
  الطبع: دار الكتب العلمية، بيروت

3⃣ الهداية شرح بداية المبتدي
    المؤلف: المرغيناني
    المجلد:5
    الصفحة: 378
    الطبع:إدارة القرآن والعلوم الاسلامية، كراتشي، باكستان.

  سبہی کتب کا خلاصہ یہی ھے کہ عورت کو جج بنانا کوئی لائق تحسین یا پسندیدہ عمل نہیں ھے؛ کیونکہ صحیح روایت یہ کہتی ھے کہ عورت کو خلافت کی ذمہ داری سونپنا یا ایسے امور کا ذمہ دار بنانا جو مردوں کو زیبا ہیں سب ناقابل قبول عمل ہے اور عقلا بہی یہی بات درست ھے کیونکہ ہم خلافت عثمانیہ جو صدیوں پر محیط رہی اسی طرح ہندوستان میں دور حکومت مغلیہ جنکی زمام حنفی خلفاء و بادشاہان کے ہاتھ میں تہی اور جہاں حنفی فقہ رائج تہا اور حنفی علماء بادشان وقت کے ہم نشیں و جلیس و انیس مشیر رہا کرتے تھے دیکہتے  ہیں کہ کبہی بہی انہوں نے اس حنفی  فقہی عبارت پر عمل پیرا ہونا گوارا نہ کیا ۔ اور فقط اسی روایت پر کاربند رھے جس میں حضور کریم نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا :

🔅عَنْ أَبِي بَكْرَةَ قَالَ :
( لَقَدْ نَفَعَنِي اللَّهُ بِكَلِمَةٍ سَمِعْتُهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ الْجَمَلِ بَعْدَ مَا كِدْتُ أَنْ أَلْحَقَ بِأَصْحَابِ الْجَمَلِ فَأُقَاتِلَ مَعَهُمْ . قَالَ : لَمَّا بَلَغَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ أَهْلَ فَارِسَ قَدْ مَلَّكُوا عَلَيْهِمْ بِنْتَ كِسْرَى قَالَ : لَنْ يُفْلِحَ قَوْمٌ وَلَّوْا أَمْرَهُمْ امْرَأَةً ) .
 __ *خلاصۂ ترجمہ* __

وہ لوگ کبہی کامیابی سے ہمکنار نہ ہونگے جو عورت کو اپنے معاملات سپرد کردیں!

 البخاری
المجلد: 2
الصفحة: 1196
الرواية: 4425
الطبع:  الطاف اينڈ سنز، كراتشي، باكستان.

( *نوٹ*)

 قارئین کو ایک شبہ ہوسکتا ھے کہ گزشتہ سطور میں ہم نے ایک بات لکہی ھے کہ عورت کو  اگر قاضی بنایا جائے  تو اسکے فیصلے نافذ ہونگے ؛ لیکن اسکو اس عہدے پر لانے والا گنہگار ہوگا ۔شبہ یہ ہوسکتا ھے کہ جب ایک کام گناہ کا باعث ھے تو اسکا نفاذ کیونکر ہورہا ھے؟

  اسکی بابت اتنا عرض ھے کہ کار گناہ ہونا اسکے مؤثر ہونے یا نافذ ہونے کو مانع ہرگز نہیں ؛ اسکی متعدد نظیریں و مثالیں شریعت میں موجود ہیں کہ عمل فی نفسہ گناہ ھے لیکن اثر انداز ھے جیسے: تنہاء خواتین کی جماعت کہ امام و مقتدی سب کےسب عورتیں ہوں تو یہ عمل فی نفسہ مکروہ تحریمی کا ارتکاب ھے لیکن اگر کوئی ایسا کرتا ھے تو ان خواتین کی نماز ہوجایئگی۔


ویکرہ تحریمًا جماعۃ النساء ولو في التراویح الخ (در مختار، کتاب الصلاۃ، باب الإمامۃ، صفحہ: 305, جلد: 2, ط: دار عالم الکتب ریاض۔

🔰 اسی طرح اگر کوئی روزہ دار ہو اور وہ بوقت افطار اپنا روزہ کھجور , پانی یا کسی حلال شیئ سے نہ کھول کر شراب سے یا خنزیر کے گوشت سے کہولے تو گو کہ یہ عمل کار گناہ ھے حرام کا ارتکاب ھے ؛ لیکن باوجود اسکے یہ عمل مؤثر ھے وہ اس طرح کہ روزہ افطار کرنا نام ھے کہ وقت غروب روزہ دار کچھ کہا یا پی لے بس روزہ مکمل ہوجایئگا ۔تو جس نے شراب یا خنزیر سے روزہ افطار کیا ھے اس نے بہی یہی کیا ھے اسکا روزہ بہی کامل کہلایئگا ہاں حرام چیز سے روزہ کہولنے کا سخت گناہ اسکو ملیگا۔

بس اسی طرح سے شبہ بالا کا دفع ہوجایئگا۔کہ حنفی کتب میں جو عورت کے جج بننے کا تذکرہ ھے وہ ایک مسئلہ ھے لیکن اسکو عملی جامہ پہنانا گناہ شمار ھے۔
الغرض!! اسلام خشک اور جامد مذہب نہیں ھے نہ ہی اس میں خواتین کو پڑھنے لکھنے سے روکا گیا ھے بلکہ پڑھائی لکھائی پر خوب زور دیا گیا ھے : مثلا: لیڈی ڈاکٹرز , لیڈی معلمات وغیرہ کی اسلام کو بہی شدید ضرورت ھے لہذا اسلامی خواتین خوب خوب تعلیم حاصل کریں لیکن یہ ایک دائرے میں ہی رہ کر کیا جایئگا کہ مرد و زن کااختلاط نہ ہو ۔پردے کی مکمل رعایت ہو ۔سفر طویل ہو تو محرم ساتھ ہو, غیر محارم سے دوستییاں نہ ہوں ۔وغیرہ وغیرہ

لیکن ایک عورت اگر جج یا وکیل بنتی ھے( تو قطع نظر اس سے کہ وہ کونسا نصاب تعلیم پڑھینگی) تو وہ اپنا حجاب و حیاء فی زماننا باقی نہ رکھ پایئگی ۔اخبارات و رسائل اور مشاہدہ اس بات پر گواہ ھے کہ وکلاء کے چیمبروں میں یا ان کی کسی کیس میں فتحیابی کے بعد جو جشن فتح کے نام پر دیر رات گئے تک پارٹیاں ہوتی ہیں جس میں(خاتون) اسسٹینٹ اپنے سینیروں کے لیے کیا کچھ نہیں کرجاتے , نیز غنڈوں و بدمعاشوں اور بد قماشوں کے مقدمات اگر خاتون لڑے گی تو کیا وہ رابعہ بصری یا سیدہ فاطمہ کی شبیہ رہ جایئگی۔
روشن خیالوں کو ذرا کبہی سوچنا چاھئے جہاں تک راقم السطور کی سوچ ھے تو ایسے روشن دماغ حضرات جن کے افکار ظلمات میں ڈوبے ہوئے ہیں اس طرح کی تحریروں سے فقط یہ چاہتے ہیں کہ ہماری خواتین جو کبہی زینت خانہ تہیں اور اب شمع محفل بن کر خوب واہ واہی لوٹ رہی ہیں اس کو شریعت مبغوض سمجہتی ھے بس کچھ نہ کچھ ایسا شوشہ چھوڑا اور چھیڑا جائے کہ مسند افتاء پر فروکش مفتیان و علماء اور فقہاء ان کی بین کے آگے ناچیں اور سر تسلیم خم کرتے ہوئے ان کے لائف اسٹائل اور طرز زندگی پر شرعی جواز کی مہر ثبت کردیں ! حالانکہ یہ نورانی شریعت ھے جسکی بقاء تاقیامت ھے ۔خواہ کیسے ہی نشیب و فراز ہوں یہ سنبہلی رہیگی۔اسکے صاف چشمے کو کوئی گندگی گدلا نہ کرسکے گی ۔

آخر میں ہم ایک فتوی بسلسلہ عورت کی ملازمت اس تحریر کے ہم رشتہ کرنا چاہینگے تاکہ خوب عیاں ہو کہ عورت گھر سے باہر ملازمت کن حالات میں کن شرائط کے ساتھ کرسکتی ھے۔

*خواتین کی ملازمت کا حکم*

محترم حضرات مفتیان کرام
 ․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ
سوال:﴿۷۴﴾

کیا فرماتے ہیں علماء کرام ومفتیان عظام مندرجہ ذیل مسئلہ کے بارے میں :
کیا مسلم خواتین سرکا ری وغیر سرکاری نوکریاں کرسکتی ہیں یا نہیں؟ کرنے اور نہ کرنے کی وجوہات کیا ہیں؟ اگر شوہر تنگدست ہو تو اس صورت میں بیوی کے لیے نوکری کے تعلق سے شریعت کا کیا حکم ہے؟
قرآن وحدیث کی روشنی میں مذکورہ جزئیات کے جوابات مدلل ومفصل تحریر فرمائیں عین کرم ہوگا۔

فقط والسلام محمد خورشید خادم جامعہ حضرت عثمان بن عفان  ، احمد پور، لاتور، مہاراشٹر (۱۱۸۰/د ۱۴۳۲ء)

*الجواب وباللہ التوفیق:*

شریعت نے اصالةً عورت پر کسب ِمعاش کی ذمہ داری نہیں ڈالی ہے؛ بلکہ مردوں کو کسب ِمعاش کا مکلف بنایا ہے؛ چنانچہ شادی تک لڑکیوں کا نان ونفقہ والد کے ذمے اور شادی کے بعد شوہر پر واجب قرار دیاہے، یہی لوگ اس کے نان ونفقہ کے ذمہ دار ہیں۔ الرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَہُمْ عَلٰی بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِہِمْ۔(سورہ نساء:۳۴)
ترجمہ: مرد حاکم ہیں عورتوں پر اس سبب سے کہ اللہ تعالی نے بعضوں کو بعضوں پر فضیلت دی ہے اور اس سبب سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں۔
اس لیے کسی عورت کو اگر نفقے کی تنگی یامخصوص حالات کے تحت معاشی بدحالی کا سامنا نہیں، تو محض معیارِ زندگی بلندکرنے اورزندگی میں ترفہ پیداکرنے کے لیے گھر سے باہر نکل کر ملازمت کے لیے پیش قدمی کرنا شریعت کی نظر میں پسندیدہ عمل نہیں؛ لیکن اگر عورت کو معاشی تنگی کا سامنا ہو اور شوہر اس کی ذمہ داری اٹھانے سے قاصر ہو ، یا تساہلی کرتا ہو، یا عورت بیوہ ہو اور گھرمیں رہ کر اس کے لیے کوئی ذریعہ معاش اختیار کرنا ممکن نہ ہو، تو ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت ملازمت کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی اجازت ہوگی؛ چناں چہ حضرات فقہائے کرام نے معتدة الوفات کو کسبِ معاش کے لیے دن دن میں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت دی ہے ؛ مگر ایسی مجبوری اور ضرورت کے وقت باہر نکل کر ملازمت کے جائز ہونے کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ ملازمت کا کام فی نفسہ جائز کام ہو ایسا کام نہ، جو شرعاً ناجائز یا گناہ ہو؛کیوں کہ ممنوع وناجائز کام کی ملازمت بہر صورت ناجائز ہے۔
عورت کے لیے ملازمت ناگزیر ہونے کی صورت میں اور اس شرط کے پائے جانے کے ساتھ کہ وہ ملازمت جائز کام کی ہے، دوسری ضروری شرط احکامِ ستر وحجاب کی پوری پابندی کرنا ہے، اس کی تفصیل شرعی تعلیمات کی روشنی میں درج ذیل ہے۔
(الف): شرعی پردہ کی مکمل رعایت ہو، باہر نکلنے کے وقت شدید ضرورت کی حالت میں اگرچہ چہرہ اور ہاتھ کھولنے کی اجازت ہے؛ مگر فتنے کا خوف ہو تو ان کے کھولنے سے بھی پرہیز کرنا ضروری ہے ،موجودہ دور جو فتنہ کا خوف ناک دور ہے، اس میں عام حالات میں حکم چہرہ چھپانے ہی کا ہے۔

(ب):لباس دبیز، سادہ اور جسم کے لیے ساتر ہو، بھڑک دار، جاذب، پر کشش اور نیم عریاں قسم کا نہ ہو، اور ایسا لباس بھی نہ ہو، جس سے جسم کا کوئی حصہ نمایاں ہوتا ہو ؛ کیوں کہ حدیث میں عورت کے لیے ایسا لباس پہننے کی ممانعت اور وعیدوارد ہوئی ہے :
رب نساء کاسیات عاریات ممیلات ومائلات، لا یدخلن الجنّة ولا یجدن ریحہا وإن ریحہا لیوجد من مسیرة کذا وکذا(مسلم شریف:۱/۳۹۷)۔
ترجمہ:کچھ عورتیں ہیں جو کپڑا پہننے والی ہیں(مگر) وہ برہنہ ہیں، دوسروں کو مائل کرنے والی ہیں اور خود بھی مائل ہونے والی ہیں (ایسی عورتیں) ہر گز جنت میں نہیں جائیں گی اور نہ اس کی خوشبو سونگھ پائیں گی حالانکہ اس کی بواتنی اتنی دور سے آئے گی ۔
(ج)بناوٴ سنگار اور زیب وزینت کے ساتھ نیز خوشبو لگاکرنہ نکلے، قرآن کریم میں اس سے ممانعت وارد ہوئی ہے ارشاد باری ہے: وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاہِلِیَّةِ الْأوْلَی (احزاب:۳۳)، احادیث میں بھی خوشبو لگا کرنکلنے و الی عورت کو زانیہ قرار دیا گیا ہے: کل عین زانیة والمرأة إذا استعطرت فمر ت بالمجلس فہي کذا وکذا یعني زانیة(ترمذی:رقم:۲۷۸۶)، ترجمہ:ہر آنکھ زنا کرنے والی ہے اور عورت جب خوشبو لگا کر مجلس کے پاس سے گذرتی ہے تو وہ زنا کرنے والی ہوتی ہے۔
(د)مردوں سے بالکل اختلاط نہ ہو، اگر کبھی کسی مرد سے اتفاقیہ گفتگو کی نوبت آئے تو عورت لوچ دار طرزِ گفتگو کے بجائے سخت لہجہ اختیار کرے تاکہ دل میں بے جا قسم کے وساوس وخیالات پیدا نہ ہوں ،اللہ تعالیٰ کا ارشادہے: فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہِ مَرَضٌ۔(الآیة احزاب : ۳۲)، ترجمہ:تم بولنے میں نزاکت مت کرو کہ ایسے شخص کو خیال ہونے لگتا ہے جس کے قلب میں خرابی ہے ۔
(ھ) ایسا زیور پہن کر نہ نکلے جس سے آواز آتی ہو ۔وَلَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِہِنَّ لِیُْعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِہِنَّ ۔(النور:۳۱)،ترجمہ:او ر اپنے پاؤں زور سے نہ رکھیں کہ ان کا مخفی زیور معلوم ہوجاوے۔
(و)ملازمت کرنے کی وجہ سے خانگی امور میں لاپروائی نہ ہو جس سے شوہر اور بچوں کے حقوق ضائع ہوں؛ کیوں کہ عورت کی اولین اور اہم ذمہ داری ،بچوں کی تعلیم و تربیت اور امور خانہ داری ہے، ملازمت ثانوی درجہ کی چیز ہے، شریعت نے عورت کو اس کا مکلف بھی نہیں بنایا۔
(ز)راستہ پر امن ہو؛ یعنی آمدورفت کے دوران کسی شر اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ۔

مذکورہ شرطیں قرآن وحدیث سے ثابت ہیں، فقہائے کرام نے ان کی صراحت کی ہے، ان شرائط کا لحاظ رکھتے اور ان پر عمل کرتے ہوئے اگر جائز کام کی ملازمت عورت اختیار کرے تو اس کی گنجائش ہوسکتی ہے ؛ مگر غور کامقام ہے کہ اکثر جگہوں میں دورانِ ملازمت ان میں سے بیشتر شرائط مفقود ہوتی ہیں، اور یہ بھی غور کرنے کا مقام ہے کہ جہاں عورتوں کی ملازمت سے بظاہر کچھ فوائد محسوس کئے جاتے ہیں، وہیں معاشرے پر اس کے بہت زیادہ خراب اثرات بھی پڑرہے ہیں؛ مثلاً: خاندانی رکھ رکھاؤ ختم ہوجاتا ہے، زوجین کے مزاج وانداز میں ایک دوسرے سے دوری پیدا ہوجاتی ہے، بچوں کی تربیت نرسری کے حوالے ہوجاتی ہے ،عورت کی ملازمت ہی کے نتیجے میں طلاق وتفریق کے مسائل بھی بہ کثرت رونما ہورہے ہیں ۔
اگر کسی عورت کو واقعی معاشی تنگی کا سامنا ہونے کی بناپر ملازمت ناگزیر ہوجائے تو بہ وقت ضرورت ملازمت اختیار کرنے کی صورت میں اسے اللہ اور اس کے رسول پر کامل ایمان اور اسلام کے احکام پر پختہ یقین رکھنے والی مسلم خاتون کی طرح اسلام کے حکم حجاب کو بھی تسلیم کرتے ہوئے، حجاب کی شرعی ہدایات پر کاربند اور عمل پیراہونے میں فخر محسوس کرنا چاہیے ؛کیوں کہ یہ اسلام کا خصوصی حکم اور اس کا شعار ہے؛ لہٰذا عورت خود اپنے حالات میں غورکرلے کہ اس کو ملازمت کی ضرورت کس درجہ کی ہے اور ملازمت اختیار کرنے میں کیا کیا امور ناجائز وگناہ کے اسے اختیار کرنے پڑیں گے؛ جن سے ایک مسلم خاتون کی حیثیت سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرنا، اس کے ذمہ لازم وضروری ہے، حاصل یہ ہے کہ مجبور کن حالات میں بھی خلافِ شرع امور سے اجتناب کی راہ اختیار کرنا ، عورت کی خود اپنی ذمہ داری ہے۔

فقط واللہ تعالی اعلم۔

( *چند اہم عصری مسائل. صفحہ:313.,طبع: مکتبہ دار العلوم دیوبند*)

✍🏻...کتبہ : *محمد عدنان وقار صدیقی*

📲00-91 8273222278

Sunday 7 April 2019

Zakat zevar pet

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
ایک خاتون کو زیور کافی ملا ہے ماں باپ سے،اور سسرال سے بھی۔ لیکن انہیں وہ زیور ساس کی طرف سے استعمال کرنے کی یا ہاتھ لگانے کی بھی اجازت نہیں۔ اور رکھا بھی ساس کے پاس ہی ہے۔ تو اس کی زکوٰۃ وہ خاتون نکالیں گی یا کون نکالے گا؟



وَعَلَيْكُم السَّلَام وَرَحْمَةُ ﷲِ وَبَرَكاتُهُ‎

يہ زيور سب اس خاتون کا ھے اور زکوۃ بھی اسی کے ذمہ ھوگی

Prize Bond

پرائز بانڈ کے جواز کے دلائل اور ان کا تجزیہ

(✍ : مفتی ارشاد احمد اعجاز)

(یہ ایک اہم تحریر ہے، پرائز بانڈز کے حوالے سے بہت اچھی فقہی بحث ہے)

پرائز بانڈ کے بارے میں بریلوی مکتبہ فکر کے علماء کا فتوی *جواز* کا ہے وہ اس پر ملنے والی اضافی رقم کو *انعام* کہتے ہیں اس کو وہ *سود* نہیں مانتے ہیں.

پرائز بانڈ کے جواز کے بارے میں ان علماء کرام کی طرف سے مختلف دلائل پیش کیے جاتے ہیں.
ان علماء کرام میں سے بعض حضرات اس کو بیع و شراء (دستاویزات کی بیع و شراء) کے تحت داخل کرتے ہیں اور بعض حضرات ان بانڈز کے مقاصد (جیسا کہ حضرت مفتی عبد القیوم ہزاروی صاحب زید مجدھم سے منسوب اس تحریر میں ہے) کو اساس بناتے ہیں. اور بعض حضرات اس پر ملنے والی اضافی رقم کے *دائر بین الوجود و العدم* (یعنی بانڈ خریدنے والے کو اضافی رقم ملنے اور نہ ملنے دونوں کے امکان) ہونے کو دلیل بناتے ہیں کہ یہ انعام ہے سود نہیں ہے کیونکہ یہ مشروط نہیں ہے.

لیکن یہ سارے دلائل جو ان علماء کرام کی طرف سے پیش کئے گئے ہیں ان پر مختلف اشکالات وارد ہوتے ہیں اور اس معاملے کو محض انعام کا معاملہ (جعالہ) مان لینا یا اس کو بیع و شراء قرار دے دینا یا مقاصد کے پیش نظر اس کو درست سمجھ لینا یہ سارے دلائل ہمارے علماء کی رائے میں فقہی بنیادوں پر مضبوط دلائل نہیں ہیں.

اس معاملے کو بیع و شراء ماننے پر اشکال یہ کہ یہ حقیقتا بیع نہیں ہے اور اس کیلئے بیع و شراء کی اصطلاح محض مجازا استعمال کی جاتی ہے اصل اصطلاح *سبسکرپشن* کی ہے. وجہ اس کو بیع و شراء نہ ماننے کی یہ ہے کہ اس دستاویز کو حاصل کرنے والا دراصل قرض دے کر ایک رسید حاصل کرتا ہے اور قرضے کے لین دین کا یہ عمل  ایک طریقے اور قانون کے تحت انجام پاتا ہے لہذا اس رسید کو *بانڈ* (اردو میں تمسکات یا دستاویزات) کہتے ہیں. اس بانڈ کو *خریدنا* درحقیقت قرض دے کر بانڈ کو حاصل کرنا ہے. حقیقتا بانڈ تو ایسا مبیع ہے ہی نہیں جس پر مال کا اطلاق درست ہو یہ تو ایک *رسید* ہے جو خود تو مقصود ہوتی بھی نہیں ہے اور یہ قانونا *زر* بھی نہیں ہے جس کو باقاعدہ لیگل ٹینڈر قرار دے دیا گیا ہو. لوگ اس کو بعض دفعہ ثمن کے طور پر جو قبول کرلیتے ہیں وہ اس کے با آسانی کیش ہوجانے کی وجہ سے کرتے ہیں.

لہذا یہ تو طے ہے کہ یہ *سند القرض* ہے. اب جب یہ طے ہے تو اس کے جواز کیلئے مقاصد کو بنیاد بنانا تو بالکل درست نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ مقاصد کی بنیاد پر ذرائع کو کسی قانون میں درست قرار نہیں دیا جاتا ہے. اگر ایسا ہوتا تو تاج کمپنی کیلئے ایسا بانڈ جاری کرنا بطریق اولی جائز ہوتا ہے.

لہذا پرائز بانڈ کے جواز کیلئے اس کو بیع و شراء قرار دینے یا اس رقم کے استعمال کو پیش نظر رکھنے کے دلائل تو بالکل کمزور اور قابل غور نہیں ہیں.

 تیسری دلیل جو نسبتا مؤثر معلوم ہوتی ہے وہ یہ بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم کے *ملنے یا نہ ملنے* کی خصوصیت (Probabilistic return/Actuarial pay off) ہے. یعنی چونکہ ہر پرائز بانڈ والے کو انعام ملنا ضروری نہیں ہے بلکہ کچھ کو ملے گا اور زیادہ تر کو نہیں ملے گا لہذا بانڈ پر ملنے والی اس اضافی رقم کو مشروط نہیں کہا جاسکتا ہے یہ مستقرض کی طرف سے ایک تبرع ہے یعنی تحفہ اور انعام ہے.

یہ دلیل بھی اگر غور کیا جائے تو اتنی مضبوط نہیں ہے. کیونکہ پرائز بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم من حیث المجموع مشروط ہوتی ہے یعنی جتنے انعامات دینے کا اعلان کیا جاتا ہے اتنی رقم دینا مستقرض پر لازم ہوتا ہے چنانچہ یہ رقم لا علی التعیین کچھ کو دینا لازم ہوتا ہے. 

اور ہوتا دراصل یہ ہے کہ مستقرض پر مجموعی طور پر جتنی اضافی رقم دینا لازم ہوتی ہے وہ یہ رقم *تمام* قرض دینے والوں پر تقسیم کرنے کے بجائے کچھ کو دیتا ہے اور باقی کو نہیں دیتا ان کو ان کی اصل رقم لوٹا دیتا ہے.

لہذا بانڈ کو ناجائز کہنے والے حضرات کی رائے میں یہ کہنا درست نہیں ہے کہ پرائز بانڈ جاری کرکے حاصل کی جانے والی رقم پر دیا جانے والا اضافہ *مشروط* نہیں ہوتا ہے. یہ بالکل مشروط ہوتا ہے اور قانونا واجب الاداء بھی ہوتا ہے یعنی قابل دعوی بھی ہوتا ہے.

لہذا ان نکات کی روشنی میں پرائز بانڈ پر ملنے والی اضافی رقم *سود* ہی قرار پاتا ہے اور اس کا لینا درست نہیں ہے.

ہاں یہ بات درست ہے کہ یہ جوا نہیں ہے کیونکہ اصل راس المال واپس ملتا ہے لہذا اس میں راس المال متردد بین الوجود و العدم نہیں ہوتا اس پر ملنے والا سود متردد بین الوجود و العدم ہوتا ہے. اس وجہ سے اس میں جوے کا عنصر نہیں ہے.

واللہ اعلم بالصواب

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...