Wednesday 28 March 2018

اذان کی فضیلت

*اذان کے جواب کی فضیلت*

    کیا اذان کے جواب دینے کی يه فضیلت ثابت ھے جو درج ذیل ھے:
 اذان و اقامت کا جواب دینے والے مرد کے لیے ہر کلمہ پر دو لاکھ جبکہ عورت کے لیے ہر ایک کلمہ پر ایک لاکھ نیکیوں کا ثواب  ملتاہے، چنانچہ فرمانِ مُصطَفٰے صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے: اے عورَتوں!جب تم بِلال  کواذان واِقامت کہتے سنوتوجس طرح وہ کہتاہے تم بھی کہوکیونکہ اللہ عَزَّ  وَجَلَّ تمہارے لئے ہرکلمے کے بدلے ایک لاکھ(100000) نیکیاں لکھے گا اور ایک ہزار(1000)دَرَجات بُلند فرمائے گا اورایک ہزار(1000)گناہ مٹائے گا۔خواتین نے یہ سُن کر عرض کیا:یہ توعورتوں کیلئے ہے مردوں کیلئے کیاہے؟فرمایا:مردوں  کیلئے دُوگنا ۔

(تاریخ دِمشق لابنِ عَساکِر ج۵۵ص۷۵) 

➖➖➖➖➖➖➖

♧ *باسمه تعالى*
*ألجواب وبه التوفيق*

مذکورہ فضیلت ابن عساکر کے علاوہ دیگر محدثین نے بھی اپنی کتب میں ذکر کی ھے؛ لیکن وہ روایات سندی لحاظ سے بہت کمزور ہیں, ناقابل احتجاج ہیں؛کیونکہ ان کی سند میں ایک راوی __ *عباد بن کثیر* __ ہے, جن پر امام بخاری, یحیی ابن معین اور ابن ابی رزمہ نے سخت جرح فرمائی ھے,

♤  جن کتابوں میں یہ روایت مذکور ھے ان کی عربی عبارت:

1)  🌐  أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قامَ في صفِّ الرجالِ والنساءِ فقال يا معشرَ النساءِ إِذَا سَمِعْتُنَّ أذَانَ هَذَا الْحَبَشِيِّ وإقامَتَهُ فقلْنُ كمَا يقولُ فإِنَّ لكُنَّ بِكُلِّ حَرْفٍ ألفَ ألفِ درجةٍ فقال عمرُ فهذا للنساءِ فما للرجالِ فقال ضِعْفانِ يا عمرُ ثمَّ أقبلَ علَى النساءِ فقال إِنَّهُ لَيْسَ مِنِ امْرَأَةٍ أَطَاعَتْ وأدَّتْ حَقَّ زَوْجِها وتَذْكُرَ حُسْنَهُ ولا تخونُهُ في نفسِها ومالِهِ إلَّا كانَ بينَها وبينَ الشهداءِ درجةٌ واحدةٌ في الجنةِ فإنْ كان زَوْجُهَا مؤمِنٌ حسنُ الخُلُقِ فهِيَ زوجتُهُ في الجنةِ وإلَّا زَوَّجَها اللهُ مِنَ الشهداءِ.


    الراوي: ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم
    المحدث: الهيثمي
    المصدر:  مجمع الزوائد
    المجلد: 1
    الصفحة: 331
    الناشر: دار الكتاب العربي،بيروت، لبنان.
    خلاصة حكم المحدث:  [روي] بإسنادين في أحدهما منصور بن سعد ولم أعرفه وفيه عباد بن كثير وفيه ضعف كبير وقد ضعفه جماعة ، وبقية رجاله ثقات ، والإسناد الآخر فيه جماعة لم أعرفهم.

2) ♻ اِذا سمعتم أذَانَ هَذَا الْحَبَشِيُِّ فقلْنَ كمَا يقولُ فإِنَّ لكُنَّ بِكُلِّ حَرْفٍ ألفَ ألفِ حسنة،ويرفع لكن ألف ألف درجة، ويمحي عنكن ألف ألف سيئة  فقال عمرُ بن الخطاب: هذا للنساءِ فما للرجالِ قال ضِعْفانِ.


    الراوي: ميمونة بنت الحارث زوج النبي صلى الله عليه وسلم
    المحدث: أبو شجاع الديلمي،
    المصدر:  مسند الفردوس
    المجلد: 1
    الصفحة: 275 
    رقم الحديث: 1072
    الناشر: دار الكتب العربية، بيروت، لبنان.

 
3) 🛑   أنَّ رسولَ اللهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّم قامَ في صفِّ الرجالِ والنساءِ فقال يا معشرَ النساءِ إِذَا سَمِعْتُنَّ أذَانَ هَذَا الْحَبَشِيِّ وإقامَتَهُ فقلْنُ كمَا يقولُ فإِنَّ لكُنَّ بِكُلِّ حَرْفٍ ألفَ ألفِ درجةٍ فقال عمرُ فهذا للنساءِ فما للرجالِ فقال ضِعْفانِ يا عمرُ ثمَّ أقبلَ علَى النساءِ فقال إِنَّهُ لَيْسَ مِنِ امْرَأَةٍ أَطَاعَتْ وأدَّتْ حَقَّ زَوْجِها وتَذْكُرَ حُسْنَهُ ولا تخونُهُ في نفسِها ومالِهِ إلَّا كانَ بينَها وبينَ الشهداءِ درجةٌ واحدةٌ في الجنةِ فإنْ كان زَوْجُهَا مؤمِنٌ حسنُ الخُلُقِ فهِيَ زوجتُهُ في الجنةِ وإلَّا زَوَّجَها اللهُ مِنَ الشهداءِ.


    الراوي: ميمونة بنت الحارث 
    المحدث: سليمان بن احمد الطبراني
    المصدر:  المعجم الكبير
    المجلد: 24
    الصفحة:16/11
    رقم الحديث: 28/15
    الناشر: مكتبه ابن تيمية القاهرة، مصر.
    خلاصة حكم المحدث:  [روي] بإسنادين في أحدهما منصور بن سعد ولم أعرفه وفيه عباد بن كثير وفيه ضعف كبير وقد ضعفه جماعة ، وبقية رجاله ثقات ، والإسناد الآخر فيه جماعة لم أعرفهم

4) ❇ قام النبي بين صف الرجال والنساء، فقال: { يا معشرَ النساءِ إِذَا سَمِعْتُنَّ هذا الْحَبَشِيِّ يؤذن ويقيم _ يعني بلالا _  فقلْنُ كمَا يقولُ فإِنَّ الله يكتب  لكُنَّ بكل كلمةٍ مأة ألفِ حسنة، ويرفع لكن ألف درجة، ويحط عنكن ألف سيئة، ٍقال: فقلن يا رسول الله!  هذا للنساءِ فما للرجالِ؟ قال للرجال ضِعْفينِ،


    المحدث: ابن عساكر
    المصدر:  تاريخ مدينة دمشق
    المجلد:  55
    الصفحة: 75
    رقم الحديث: 6892
    الناشر: دار الفكر للطباعة والنشر والتوزيع، بيروت، لبنان.
    خلاصة حكم المحدث:  [روي] بإسنادين في أحدهما منصور بن سعد ولم أعرفه وفيه عباد بن كثير وفيه ضعف كبير وقد ضعفه جماعة ، وبقية رجاله ثقات ، والإسناد الآخر فيه جماعة لم أعرفهم
_____________
   خلاصۂ کلام : یہ روایت فضائل میں بیان کرنے کے لائق نہیں ھے؛ لہذا اذان و اقامت کا جواب دینے میں اس فضیلت کا خیال نہ کیا جائے۔
   البتہ اذان کا جواب دینا باعث ثواب ھے اور اسکی جو صحیح فضیلت حدیث میں مذکور ہے ہم ان کو ذکر کرتے ہیں

صحیح مسلم میں روایت ہے: کہ نبی کریم کا ارشاد ھے جب تم اذان سنو تو مؤذن کی طرح ہی اسکا جواب دو, پھر مجھ پر درود پڑھو؛ کیونکہ جو مجھ پر ایک بار درود پڑھتا ھے ﷲ تعالی اس پر دس مرتبہ رحمت نازل فرماتا ھے, پھر جب اذان ہوچکے تو میرے لیے وسیلہ کی دعا کرو, کیونکہ وہ جنت میں ایک مقام و مرتبہ ہے جو اللہ کے کسی بہت خاص بندے کو مرحمت کیا جایئگا اور مجھے امید قوی ھے کہ وہ خاص بندہ میں ہی ہوں, چنانچہ جو میرے لیے وسیلہ کی دعا کرے گا اسکے لیے میری شفاعت ثابت ہوگی۔


🔆 عن عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما أنه سمع النبي صلى الله عليه وسلم يقول : ( إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ، ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلاةً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا ، ثُمَّ سَلُوا اللَّهَ لِي الْوَسِيلَةَ ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ لا تَنْبَغِي إِلا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللَّهِ ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ.
    الراوی: عبد ﷲ بن عمرو بن العاص
   المحدث: مسلم بن حجاج
   المصدر:  صحیح مسلم
   المجلد: 2
   الصفحة: 226
   رقم الحديث: 849
   الناشر:  مكتبه البشريٰ، كراچي، پاكستان.

 ✧ ایک اور روایت میں ھے: کہ جب تم مؤذن کی اذان سنو تو جواب میں وہی کلمات دہراؤ جو مؤذن کہہ رہا ھے.

🔘 اذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما یقول المؤذن.

   الراوی: ابو سعید الخدری
   المحدث: مسلم
   المصدر:  صحیح مسلم
   المجلد: 2
   الصفحة: 226
   رقم الحدیث: 848
   الناشر: مکتبہ البشریٰ, کراچی پاکستان.

  ♤ اور ایک روایت میں ھے: کہ جس نے اذان کے بعد یہ دعاء پڑھی تو اسکے لیے بروز حشر میری شفاعت ثابت ہوگی۔ وہ دعا یہ ھے:

☪وعن جابر بن عبد الله رضي الله عنهما أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال : ( مَنْ قَالَ حِينَ يَسْمَعُ النِّدَاءَ : *اللَّهُمَّ رَبَّ هَذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّدًا الْوَسِيلَةَ وَالْفَضِيلَةَ وَابْعَثْهُ مَقَامًا مَحْمُودًا الَّذِي وَعَدْتَه*ُ حَلَّتْ لَهُ شَفَاعَتِي يَوْمَ الْقِيَامَةِ )
 
الراوی: ابوالدرداء، وجابر
المحدث: الطبرانی،وابوداود
المصدر: المعجم الأوسط
المجلد: 4
الصفحة:78
رقم الحدیث: 3662
الناشر: دار الحرمین للطباعة والنشر، قاهره،


⏪  نیز ایک روایت میں ھے: کہ ایک صحابی نے حضور پاک سے عرض کیا کہ مؤذنین حضرات تو ہم سے ثواب و نیکیوں میں بڑھ گئے, تو حضور نے ارشاد فرمایا: کہ تم بہی اس کے کلمات کو دہرالیا کرو, اور جب کلمات پورے ہوجایئں تو دعا مانگ لیا کرو؛ جو مانگوگے قبول کرلیا جایئگا۔

💟 عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، أَنَّ رَجُلًا ، قَالَ : يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ الْمُؤَذِّنِينَ يَفْضُلُونَنَا ، فَقَالَ : رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( قُلْ كَمَا يَقُولُونَ فَإِذَا انْتَهَيْتَ فَسَلْ تُعْطَهْ )

  الراوی: عبد ﷲ بن عمرو
  المحدث: ابوداود
  المصدر: سنن ابی داود
  المجلد: 1
  الصفحة: 89
  رقم الحدیث: 524
  الناشر: مکتبة رحمانیة, لاھور, پاکستان۔


♡حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ ہم سرور کائنات ﷺ کے ہمراہ تھے کہ حضرت بلال کھڑے ہوئے اور اذان کہنے لگے۔ جب وہ (اذان دے کر) خاموش ہو گئے تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جس آدمی نے اسی طرح یقیناً (یعنی خلوص دل سے) کہا تو وہ جنت میں داخل ہو گا۔

🌟 كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَامَ بِلَالٌ يُنَادِي، فَلَمَّا سَكَتَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ قَالَ مِثْلَ هَذَا يَقِينًا دَخَلَ الْجَنَّةَ»

   الراوی: ابو ہریرہ
   المحدث: نسائی
   المصدر: سنن نسائی
   الصفحة: 87
   رقم الحدیث: 674
   الناشر: بیت الافکار الدولیة۔ ریاض، السعودية.
    خلاصة الرواية  : حسن

◆ *اذان واقامت کے جواب دینے کا طریقہ:*

 اذان کا جواب دینا مستحب ہے اور بعض نے واجب بھی کہا ہے یعنی جو لفظ مؤذن کی زبان سے سنے، وہی کہے مگر (( حَیَّ عَلیَ الصَّلٰوۃ )) اور (( حَیَّ عَلیَ الْفَلاَح )) کے جواب میں (( لاَ حَوْلَ وَلاَ قُوَّۃ اِلاَّ بِااللّٰہ )) بھی کہے۔

☀  عن عمر بن الخطاب رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : ( إِذَا قَالَ الْمُؤَذِّنُ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ فَقَالَ أَحَدُكُمْ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ . ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ قَالَ : أَشْهَدُ أَنْ لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ . ثُمَّ قَالَ : أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ قَالَ : أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ . ثُمَّ قَالَ : حَيَّ عَلَى الصَّلاةِ قَالَ : لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ . ثُمَّ قَالَ : حَيَّ عَلَى الْفَلاحِ قَالَ : لا حَوْلَ وَلا قُوَّةَ إِلا بِاللَّهِ . ثُمَّ قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ قَالَ : اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ثُمَّ قَالَ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ قَالَ : لا إِلَهَ إِلا اللَّهُ مِنْ قَلْبِهِ دَخَلَ الْجَنَّةَ )


الراوی: حفص بن عاصم بن عمر عن ابیه عن جدہ عمر بن الخطاب
المحدث: ابوداود
المصدر: سنن ابی داود
المجلد: 1
الصفحة: 89
رقم الحدیث: 527
الناشر: مکتبة رحمانیة۔لاھور پاکستان۔

◼ اور (( الصَّلٰوۃ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْم )) کے جواب میں (( صَدَقْتَ وَ بَررْتَ ))کہے؛ لیکن یہ جملہ ثابت بالحدیث نہیں ھے, اور جن روایات کی جانب فقہاء نے اشارہ کیا ھے وہ روایات محدثین کے نزدیک بے اصل ہیں؛ البتہ مالکیہ کے علاوہ احناف و شوافع اور حنابلہ کے یہاں اسکا کہنا مستحسن ھے۔

  [فتاوی دار العلوم  زکریا, جلد:2, صفحہ: 91, ناشر : زمزم پبلشرز اردو بازار کراچی پاکستان]

💎 اقامت کے وقت مقتدیوں کے لئے مستحب یہی ہے کہ مؤذن کے ساتھ ساتھ اسی طرح اقامت کا جواب دیں جس طرح اذان کا جواب دیا جاتا ہے اور حیعلتین پر ’’لاحول ولا قوۃ الا باﷲ‘‘ کہیں۔ اور جب اقامت کہنے والا ’’قد قامت الصلوۃ‘‘ پر پہنچے تو ’’أقامہا اللہ وأدامہا‘‘ کہے۔ اور صرف ’’صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ پڑھنا ثابت نہیں ہے، یہ عوام کا اپنا اجتہاد ہے۔


🔰 عن أبي أمامۃ، أو عن بعض أصحاب النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن بلالا أخذ في الإقامۃ، فلما أن قال: قد قامت الصلوۃ، قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أقامہا اللہ وأدامہا، وقال في سائر الإقامۃ، کنحو حدیث عمر في الأذان۔

  الراوی: ابو امامة
  المحدث: ابوداود
  المصدر:سنن ابی داود
  المجلد: 1
  الصفحة:89
  رقم الحدیث: 528
  الناشر: مکتبة رحمانیة لاھور, پاکستان۔

🔷 (فائدہ) اگر کوئی شخص اذان کا جواب دینا بھول جائے یا قصداً نہ دے اور اذان ختم ہونے کے بعد خیال آئے یا جواب دینے کا ارادہ کرے تو اگر زیادہ دیر نہ ہوئی ہو توجواب دے دے، ورنہ نہیں۔


[مسائل بہشتی زیور جلد 1
مؤلف : حضرت مولانا مفتی عبد الواحد صاحب
 ناشر : مجلس نشریات اسلام کراچی پاکستان]


والله تعالىٰ أعلم،
كتبه: محمد عدنان وقار صديقي،
27 مارچ 2018
00.+91-8273222278

Tuesday 20 March 2018

کپڑوں کی تہہ تحقیق

••• *کپڑوں کی تہہ* •••

  ایک پوسٹ کثرت سے گردش کر رہی ھے جسکا مضمون یہ ھے: 
   کہ حضرت جابر بن عبد ﷲ رضی ﷲ عنہ حضور پاک سے روایت کرتے ہیں کہ رات کو جب کپڑے اتارو تو ان کو تہہ کرکے رکھو!  کیونکہ شیطان تمہارے کپڑوں کو استعمال کرتا ھے۔ اگر تہہ شدہ ہوں تو استعمال نہیں کرتا۔ بطور حوالہ کنز العمال جلد 18 درج ھے.

اس حدیث کی تحقیق کیا ھے؟
➖➖➖➖➖➖ 

*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:*

   یہ روایت "مجمع الزوائد" اور "المجمع الاوسط"  میں مذکور ھے؛ لیکن اسکی سندی حیثیت اس قابل نہیں کہ اسکو آگے نشر کیا جائے  یا اسکی نسبت نبی کریم کی طرف کی جائے۔ 

🌐     اُطووا ثيابَكم ترجعْ إليها أرواحُها فإن الشيطانَ إذا وجد ثوبًا مطويًّا لم يلبسْه وإذا وجد منشورًا لبسه.


    الراوي: جابر بن عبدالله 
    المحدث: الهيثمي
    المصدر:  مجمع الزوائد
    الصفحة:   135
    المجلد : 5
    الناشر: دار الکتب العربی, بیروت لبنان.
    خلاصة حكم المحدث:  فيه عمرو بن موسى بن وجيه وهو وضاع 

♻ اطُووا ثيابَكم ترجِعْ إليها أرواحُها فإنَّ الشَّيطانَ إذا وجَد الثَّوبَ مَطويًّا لَمْ يلبَسْه وإذا وجَده منشورًا لبِسه.


    الراوي: جابر بن عبدالله 
    المحدث: الطبراني
    المصدر:  المعجم الأوسط
    المجلد: 6
    الصفحة : 31
    رقم الحدیث: 5702
    الناشر:  دار الحرمین للطباعة والنشر. قاھرة, مصر.
    خلاصة حكم المحدث:  لم يرو هذا الحديث عن أبي الزبير إلا عمر بن موسى بن وجيه لا يروى عن النبي صلى الله عليه وسلم إلا بهذا الإسناد 


🛑 خلاصۂ کلام: اس روایت کی نسبت حضور پاک صلی ﷲ علیہ وسلم کی جانب نہ کی جائے۔ نیز کپڑوں کو تہہ کرنا ضروری نہیں؛ بلکہ سلیقہ مندی سے رکھے یا ٹانگے بہی جاسکتے ہیں.

📚  کتاب ”کنزل العُمّال“ نام  ایک مشہور کتاب ہے، جس میں ”صحیح“، ”ضعیف“ انتہائی ضعیف بلکہ ”موضوع“ روایتیں بھی ہیں، اس لیے اس کتاب کی حدیث پر اعتماد اس وقت کرنا چاہیے جب اسکی روایت کی سندی حیثیت کی تحقیق کرلی جائے۔

وﷲ تعالی اعلم 
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Wednesday 14 March 2018

ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے عقائد

ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے نظریات کا جائزہ..مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلھم کا فتویٰ.
﴿فتویٰ نمبر: 486؍1﴾
سوال:
سائلہ نے اسلام آباد کے ایک ادارے ‘‘الہدیٰ انٹرنیشنل ’’سے ایک سالہ ڈپلومہ کورس ان اسلامک اسٹڈیز (one year diploma course in I.S) کیا ہے سائلہ اس ادارے میں طلب علم کی جستجو میں گئی تھی اور ان کے خفیہ عقائد سے ناواقف تھی ،ایک سالہ کورس کے بعد ان کے عقائد کچھ صحیح معلوم نہ ہوئے تو سوچا کہ علماء کرام سے فتویٰ طلب کیا جائے تاکہ امت مسلمہ کی بیٹیوں تک عقائد صحیحہ کو پہنچا کر ان کو گمراہی سے بچایا جاسکے ،ہماری استاد اور الہدیٰ انٹر نیشنل کی نگران محترمہ فرحت ہاشمی صاحبہ کے نظریات کا نچوڑ پیش خدمت ہے ۔
۱۔اجماع امت سےہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کرنا
۲۔غیر مسلم اور اسلام بیزار طاقتوں کے نظریات کی ہمنوائی
۳۔تلبیس حق و باطل
۴۔فقہی اختلافات کے ذریعے دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا
۵۔آسان دین
۶۔ آداب و مستحبات کو نظر انداز کرنا
اب ان بنیادی نقاط کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے:
۱۔اجماع امت سے ہٹ کر نئی راہ اختیار کرنا
۱۔قضائے عمری سنت سے ثابت نہیں صرف توبہ کرلی جائے قضا ء ادا کرنیکی ضرورت نہیں ہے
۲۔۳ طلاقوں کو ایک شمار کرنا
۳۔نفل نمازیں صلوٰۃ التسبیح ، رمضان میں طاق راتوں خصوصاً ۲۷ ویں شب میں اجتماعی عبادت کا اہتمام اور خوتین کے جمع ہونے پر زور دینا
۲۔غیر مسلم ،اسلام بیزار طاقتوں کے خیالات کی ہمنوائی:
۱۔مولوی(عالم)،مدارس اور عربی زبان سے دور رہیں،
۲۔علماء دین کو مشکل بناتے ہیں آپس میں لڑتے ہیں ،عوام کو فقہی بحثوں میں الجھاتےہیں ، بلکہ ایک موقع پر تو فرمایا کہ اگر آپ کو کسی مسئلے میں صحیح حدیث نہ ملے تو ضعیف لے لیں لیکن علماء کی بات نہ لیں ،
۳۔مدارس میں گرائمر ،زبان سکھانے،فقہی نظریات پڑھانے میں بہت وقت ضائع کیا جاتا ہے، قوم کو عربی زبان سیکھنے کی ضرورت نہیں بلکہ لوگوں کو قرآن صرف ترجمہ سے پڑھادیا جائے،
ایک موقع پر کہا (ان مدارس می جو ۷،۷،۸،۸ سال کے کورس کرائے جاتے ہیں یہ دین کی روح کو پیدا نہیں کرتے ہیں) اشارہ درس نظامی کی طرف ہے ،
۴۔وحید الدین خان کی کتابیں طالب علموں کی تربیت کیلئے بہترین ہیں نصاب میں بھی شامل ہیں اور اسٹالز پر بھی رکھی جاتی ہیں ،کسی نے احساس دلایا کہ ان کے بارے میں علماء کرام کی رائے کیا ہے تو کہا کہ ‘‘حکمت مومن کی گمشدہ میراث ہے’’
۳۔تلبیس حق و باطل :
۱۔تقلید شرک ہے (لیکن کونسی بر حق ہے اور کس وقت غلط ہے یہ کبھی نہیں بتایا )
۲۔ضعیف حدیث پر عمل کرنا تقریباً ایک جرم بناکر پیش کیا جاتا ہے (کہ جب بخاری صحیح ترین احادیث کا مجموعہ ہے تو ضعیف کیوں قبول کی جائے )
۴۔ فقہی اختلافات کے ذریعہ دین میں شکوک و شبہات پیدا کرنا:
۱۔اپنا پیغام ،مقصد اور متفق علیہ باتوں سے زیادہ زور دوسرے مدارس اور علماء پر طعن و تشنیع ،
۲۔ ایمان، نماز،روزہ ،زکوٰۃ ،حج ،کے بنیادی فرائض ،سنتیں ،مستحبات ،مکروہات سکھانے سے زیادہ اختلافی مسائل میں الجھایا گیا (پروپیگنڈا ہے کہ کسی تعصب کا شکار نہیں اور صحیح حدیث کو پھیلا رہے ہیں ،
۳۔نماز کے اختلافی مسائل رفع یدین فاتحہ خلف الامام ،ایک وتر ،عورتوں،کو مسجد جانے کی ترغیب، عورتوں کی جماعت ان سب پر صحیح حدیث کے حوالہ سے زور دیا جاتا ہے،
۴۔زکوٰۃ میں غلط مسائل بتائے جارہے ہیں ،خواتین کو تملیک کا کچھ علم نہیں ،
۵۔آسان دین:
۱۔دین مشکل نہیں ،مولویوں نے مشکل بنادیا ہے ،دین کا کوئی مسئلہ کسی بھی امام سے لے لیں اس بھی ہم دین کے دائرے میں ہی رہتے ہیں ،
۲۔حدیث میں آتا ہے کہ آسانی پیدا کرو تنگی نہ کرو ،لہذا جس امام کی رائے آسان معلوم ہو وہ لے لیں ،
۳۔روزانہ یٰس پڑھنا صحیح حدیث سے ثابت نہیں ،نوافل میں اصل صرف چاشت اور تہجد ہے، اشراق اور اوابین کی کوئی حیثیت نہیں ،
۴۔دین آسان ہے ،بال کٹوانے کی کوئی ممانعت نہیں ،امہات المؤمنین میں سے ایک کے بال کٹے ہوئے تھے،
۵۔دین کی تعلیم کے ساتھ ساتھ پکنک ،پارٹیاں ،اچھا لباس ،زیورات کا شوق ،محبت ۔من حرم زینۃ اللہ ۔۔۔۔
۶۔ خواتین دین کو پھیلانے کیلئے گھر سے ضرور نکلیں ،
۷۔محترمہ کا اپنا عمل طالبعلموں کیلئے حجت ہے ،محرم کے بغیر تبلیغی دوروں پرجانا،قیام اللیل کیلئے راتوں کو نکلنا ،میڈیا کے ذریعہ تبلیغ (ریڈیو ،ٹی وی ، آڈیو)،
۶۔آداب و مستحبات کی رعایت نہیں :
۱۔خواتین ناپاکی کی حالت میں بھی قرآن پاک چھوتی ہیں ،اٰیات پڑھتی ہیں
۷۔متفرقات:
۱۔قرآن کا ترجمہ پڑھاکر ہر معاملہ میں خعد اجتہاد کی ترغیب دینا
۲ ۔قرآن و حدیث کی فہم کیلئے جو اکابر علماء کرام نے علوم سیکھنے کی شرائط رکھی ہیں ان کو بیکار ،جاہلانہ باتیں اور سازش قرار دینا ،
۳۔کسی فارغ التحصیل طالبہ کے سامنے دین کا کوئی حکم یا مسئلہ رکھا جائے تو اس کا سوال یہ ہوتا ہے کہ یہ صحیح حدیث سے ثابت ہے یا نہیں ،
ان تمام باتوں کا نتیجہ یہ ہے کہ گلی گلی ،محلے محلے الہدیٰ کی برانچز کھلی ہوئی ہیں اور ہر قسم کی طالبہ ،خواہ اس کی تجوید بھی درست نہ ہوئی ہو آگے پڑھا رہی ہے ،اور لوگوں کو مسائل میں الجھایا جارہا ہے ۔
گھر کے مردوں کا تعلق مسجد سے ہے (جہاں نماز کا طریقہ فقہ حنفی کے مطابق ہے)گھر کی عورتیں مردوں سے الجھتی ہیں ہمیں مساجد کے مولویوں پر اعتماد نہیں ۔
مطلوبہ سوالات:
۱۔مذکورہ بالا تمام مسائل کی شرعی نقطہ نظر سے وضاحت فرماکر مشکور فرمائیں۔
۲۔محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی کے اس طریقہ کار کی شرعی حیثیت ،نیز محترمہ کی گلاسگو یونیورسٹی سے پی ۔ایچ ۔ڈی کی شرعی حیثیت کیا ہے ۔
۳۔ان کے اس کورس میں شرکت کرنا ،لوگوں کو اس کی دعوت دینا اور ان سے تعاون کرنے کی شرعی نقطہ نظر سے وضاحت فرمادیجئے ۔ جزاکم اللہ خیرا احسن الجزاء
مستفتیہ مسز سیما افتخار
(one year diploma holder from Al Huda International Islamabad)
ج:
الجواب حامدًا ومصلیاً
سوال میں جن نظریات کا ذکر کیا گیا ہے خواہ وہ کسی کے بھی نظریات ہوں ان میں سے اکثر غلط ہیں ،بعض واضح طور پر گمراہانہ ہیں ،مثلاً اجماع امت کو اہمیت نہ دینا،تقلید کو علی الاطلاق شرک قرار دینا ،جس کا مطلب یہ ہے کہ چودہ سو سال کی تاریخ میں امت مسلمہ کی اکثریت جو ائمہ مجتہدین میں سے کسی کی تقلید کرتی رہی ہے وہ مشرک تھی ،یا یہ کہنا کہ قضاء عمری فوت شدہ نمازوں کو قضاء کرنے کی ضرورت نہیں ،صرف توبہ کافی ہے ۔(۲،۱)
بعض نظریات جمہور امت کے خلاف ہیں مثلاً تین طلاقوں کو ایک قرار دینا،بعض بدعات ہیں مثلاً صلاۃ التسبیح کی جماعت (۳)،یا قیام اللیل کیلئے راتوں اہتمام کے ساتھ لوگوں کو نکالنا ،یا خواتین کو جماعت سے نماز پڑھنے کی ترغیب ، بعض انتہائی گمراہ کن ہیں مثلاً قرآن کریم کو صرف ترجمہ سے پڑھ کر پڑھنے والے کو اجتہاد کی دعوت ،یا اس بات پر لوگوں کو آمادہ کرنا کہ وہ جس مذہب میں آسانی پائیں اپنی خواہشات کے مطابق اسے اختیار کرلیں یا کسی کا اپنے عمل کو حجت قرار دینا (۴)۔اور ان میں سے بعض نظریات فتنہ انگیز ہیں مثلاًعلماء و فقہاء سے بد ظن کرنا ،دینی تعلیم کے جو ادارے اسلامی علوم کی وسیع و عمیق تعلیم کافریضہ انجام دے رہے ہیں ،ان کی اہمیت ذہنوں سے کم کر کے مختصر کورس کو علم دین کیلئے کافی سمجھنا ،نیز جو مسائل کسی امام مجتہد نے قرآن و حدیث سے اپنے گہرے علم کی بنیاد پر مستنبط کئے ہیں ان کو باطل قرار دیکر اسے قرآن و حدیث کے خلاف قرار دینا اور اس پر اصرار کرنا ۔
جو شخصیت یا ادارہ مذکورہ بالا نظریات رکھتا ہو اور اس کی تعلیم و تبلیغ کرتا ہو وہ نہ صرف گمراہانہ ،گمراہ کن یا فتنہ انگیز نظریات کا حامل ہے بلکہ اس سے مسلمانوں کے درمیان افتراق و انتشار پیدا ہونے کا قوی اندیشہ ہے ، اور اگر کوئی شخص سہولتوں کی لالچ میں اس قسم کی کوششوں سے دین کے قریب آئیگا بھی تو مذکورہ بالا فاسد نظریات کے نتیجے میں وہ گمراہی کا شکار ہوگا۔لہٰذا جو ادارہ یا شخصیت ان نظریات کی حامل اور مبلغ ہو ،اور اپنے دروس میں اس قسم کی ذہن سازی کرتی ہو اس کے درس میں شرکت کرنا ،اور اس کی دعوت دینا ان نظریات کی تائید ہے جو کسی طرح جائز نہیں (5)،خواہ اس پاس کسی قسم کی ڈگری ہو ،اور گلاسگو یونیورسٹی کی ڈگری بذات خود اسلامی علوم کے لحاظ سے کوئی قیمت نہیں رکھتی ،بلکہ غیر مسلم ممالک کی یونیورسٹیوں میں مستشرقین نے اسلامی تحقیق کے نام پر اسلامی احکام میں شکوک و شبہات پیدا کرنے اور دین کی تحریف کا ایک سلسلہ عرصہ دراز سے شروع کیا ہوا ہے ۔ان غیر مسلم مستشرقین نے (جنہیں ایمان تک کی توفیق نہیں ہوئی)اس قسم کے اکثر ادارے در حقیقت اسلام میں تحریف کرنے والے افراد تیار کرنے کیلئے قائم کئے ہیں ، اور ان کے نصاب و نظام کو اس انداز سے مرتب کیا ہے کہ اس کے تحت تعلیم حاصل کرنے والے (الا ماشاءاللہ )اکثر دجل و فریب کا شکار ہو کر عالم اسلام میں فتنے برپا کرتے ہیں ۔لہٰذا گلاسگو یونیورسٹی سے اسلامی علوم کی کوئی ڈگری نہ صرف یہ کہ کسی شخص کے مستند عالم ہونے کی کوئی دلیل نہیں بلکہ اس سے اس کی دین فہمی کے بارے میں شکوک پیدا ہونا بھی بیجا نہیں ۔دوسری طرف بعض اللہ کے بندے ایسے بھی ہیں جنہوں نے ان یونیورسٹیوں سےڈگریاں حاصل کیں ۔اور عقائد فاسدہ سے محفوظ رہے ،اگرچہ ان کی تعداد کم ہو ۔لہٰذا یہ ڈگری نہ کسی کے مستند عالم ہونے کی علامت ہے اور نہ محض اس ڈگری کی وجہ سے کسی کو مطعون کیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے عقائد و اعمال درست ہوں ۔
مذکورہ بالا جواب ان نظریات پر مبنی ہے جو سائلہ نے اپنے استفتاء میں ذکر کئے ہیں اب کون شخص ان نظریات کا کس حد تک قائل ہے ؟اس کی ذمہ داری جواب دہندہ پر نہیں ہے۔۔
واللہ سبحانہ اعلم
احقر محمد تقی عثمانی عفی عنہ
دار الافتاء دار العلوم کراچی۱۴
۲۱۔۴۔۱۴۲۲ھ

درعد شریف کی فضیلت

صرف 20 منٹ میں 1000 مرتبہ درج ذیل درود شریف اپنے پیارے نبی علیہ السلام پر پڑھیئے اور40 ھزار مقبول نیکیاں اپنے نامہ اعمال جمع کروائیں.

کیونکہ ازروئے احادیث مبارکہ

صلی اللہ علی محمد پڑھنے پر

10 نیکیوں کا ملنا

10گناہوں کا معاف ھونا

10 رحمتوں کانازل ھونا

10 درجات کا بلند ھونا

تو پھر دیر نہ کیجئے ابھی شروع ھو جائیں جنت کے شاندار محلات آپکے منتظر ھیں ایک روایت کا مفہوم ھے

روزانہ 1000 مرتبہ درود شریف پڑھنے والا مرنے سے پہلے اپنا جنت کا محل دیکھ لے گا.

(آسان درود شریف)

1.وصلی اللہ علی النبی الامی

2.بسم اللہ والسلام علی رسول اللہ

3.صلی اللہ علی محمد ایک دانے پر

4.صلی اللہ علیہ وسلم
دوسرے دانے پر

درود شریف کا ذکر

ایک آسان اور انمول درود شریف 
صل اللہ علی سیدنا محمد 
اس درودِ پاک کی کثرت کرنے والے کو اللہ تبارک و تعالیٰ حضور پاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وامہاتہ واصحابہ وبارک وسلم کی فکر نصیب فرماتے ہیں۔

فضائل آیة الکرسی*

*فضائل آیة الکرسی*

١.. قرآن مجید کی تمام آیات میں سب سے اعظم ( بڑی ) آیت آية الكرسی ہے

امام احمد رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ ہمیں محمد بن جعفر نے عثمان بن عتب سے حدیث بیان کی کہ عتاب کہتے ہیں کہ میں نے ابوالسلیل کویہ کہتے ہوئے سنا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی لوگوں کوحدیث بیان کیا کرتے تھے ، حتی کہ لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی تووہ گھر کی چھت پر چڑھ جاتے اوریہ حدیث بیان کیا کرتے تھے کہ : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : قرآن مجید میں کونسی آیت سب سے زيادہ عظمت کی حامل ہے ؟ تو ایک شخص کہنے لگا ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” وہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینہ پر رکھا توچھاتی پرمیں نےاس کی ٹھنڈک محسوس کی اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمانے لگے اے ابوالمنذر تجهے علم کی مبارک ہو

حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہيں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا توآپ مسجد میں تشریف فرما تھے تومیں بھی بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر کیا تو نے نماز پڑھی ہے ؟ میں نے نہیں میں جواب دیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے اٹھ کر نماز پڑھو . میں نے اٹھ کرنماز ادا کی اور پھر بیٹھ گيا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے : اے ابوذر انسانوں اورجنوں کے شر سے پناہ طلب کرو وہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ کیا انسانوں میں بھی شیاطین ہوتے ہیں ؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے جی ہاں
میں نے نماز کا کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے یہ اچھا موضوع ہے جوچاہے زیادہ کرلے اورجو چاہے کم کرلے ، وہ کہتے ہیں میں نے کہا روزے کے بارہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمانے لگے فرض ہے اس کا اجر دیا جاۓ گا اور اللہ تعالی کے ہاں اور زیادہ اجرملے گا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ ؟ تو وہ کہنے لگے اس کا اجر دوگنے سے بھی زیادہ ہوتا ہے میں نے کہا کونسا صدقہ بہتر ہے ؟
تو فرمایا قلیل اشیاء کے مالک کا صدقہ کرنا اوریا پھر فقیرکو چھپا کر دینا ، میں نے کہا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلا نبی کون تھا ؟ فرمانے لگے آدم علیہ السلام ، میں نے کہا کہ اے اللہ کے رسول کیا وہ نبی تھے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ نبی مکلم تھے اللہ تعالی کے ساتھ بات چيت کی تھی ، میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم رسولوں کی تعداد کیا ہے ؟ فرمانے لگے تین سو دس سے کچھ زیادہ ایک جم غفیر تھا اور ایک مرتبہ یہ فرمایا کہ تین سوپندرہ ، میں نے کہا اے اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ جو نازل کیا گيا ہے اس میں سب سے عظیم کیا ہے ؟ فرمایا آیۃ الکرسی ” اللہ لآلہ الا ھو الحی القیوم
(ورواه النسائي)
آیت الکرسی کی تلاوت شیطان اورجنات کے شرور سے حفاظت کرتی ہے
آیت الكرسی کا پڑهنا جان ، مال ، گهر وغیره کی حفاظت کا ضامن ہے

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے مجھے صدقہ فطر کی حفاظت پر مقررفرمایا . پھر ایک شخص آیا اور دونوں ہاتھوں سے ( کھجوریں ) سمیٹنے لگا . میں نے اسے پکڑ لیا اور کہا کہ میں تجھے رسول الله صلى الله عليه وسلم کی خدمت میں پیش کروں گا ۔ پھر انہوں نے یہ پورا قصہ بیان کیا ( مفصل حدیث اس سے پہلے کتاب الوكالة میں گزر چکی ہے ) ( جو صدقہ فطر چرانے آیا تھا ) اس نے کہا کہ جب تم رات کو اپنے بستر پر سونے کے لئے جاؤ تو آیت الکرسی پڑھ لیا کرو ، پھر صبح تک اللہ تعالی کی طرف سے تمہاری حفاظت کرنے والا ایک فرشتہ مقرر ہوجائے گا اور شیطان تمہارے قریب بھی نہ آسکے گا . ( حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے یہ بات آپ سے بیان کی تو ) رسول الله صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اس نے تمہیں یہ سچ بات بتائی ہے اگر چہ وہ بڑا جھوٹا ہے ، وہ شیطان تھا
(صحيح البخاري ، كتاب فضائل القرآن
٣.. آیت الکرسی میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ : اسماء بنت یزید بن السکن رضی الله عنها کہتی ہیں کہ میں نے رسول الله صلى الله عليه وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ان دوآیتوں ” اللہ لا الہ الا ھو الحی القیوم ” اور” الم اللہ لا الہ الا ھوالحی القیوم ” میں اللہ تعالی کا اسم اعظم ہے .
اور اسی طرح ابوداود رحمہ اللہ نے مسد د اور ترمذی رحمہ اللہ نے علی بن خشرم اور ابن ماجہ رحمہ اللہ نے ابوبکر بن ابی شیبہ اوران تینوں نے عیسی بن یونس عن عبیداللہ بن ابی زياد سے بھی اسی طرح روایت کی ہے ، امام ترمذی رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ یہ حديث حسن صحیح ہے ۔

اور حضرت ابوامامہ رضی الله عنہ مرفوعا بیان کرتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : اللہ تعالی کا اسم اعظم جس کے ساتھ دعا کی جائے توقبول ہوتی ہے وہ تین سورتوں میں ہے : سورۃ البقرۃ اور آل عمران اور طہ ۔
اور ھشام ابن عمار خطیب دمشق کا کہنا ہے کہ سورۃ البقرۃ میں ” الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم ” اورآل عمران میں ” الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم ” اور طہ میں ” وعنت الوجوہ للحی القیوم ” ہے ۔

حضرت علی المرتضی رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ غزوہ بدر میں میں نے ایک وقت یہ چاہا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو دکھوں آپ کیا کر رہے ہیں ، پہنچا تو دیکھا کہ آپ سجدہ میں پڑے ہو ئے بار بار یاحی یاقیوم یاحی یاقیوم کہ رہے ہیں۔ 
(معارف القرآن جلد اول ، فضائل آیت الکرسی)

٤ .. جوشخص ہر فرض نماز کے بعد آية الكرسي پڑهے گا وه جنت میں داخل هوگا
حضرت ابوامامۃ رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : جو ہرفرض نمازکے بعد آیۃ الکرسی پڑھے گا اسے جنت میں داخل ہونے سے صرف موت ہی روک سکتی ہے ۔ 
(یعنی موت کے بعد فورا وہ جنت کے آثار اور راحت و آرام کا مشاہدہ کرنے لگے گا)

٥.. سوتے وقت آیت الكرسِي پڑهنے والا صبح تک شیطان سے محفوظ رهے گا (بخاری)

٦.. آیت الکرسی کی ایک زبان ہے اور دو ہونٹ ہیں یہ عرش کے پاس الله تعالی کی پاکی بیان کرتی هے (رواه أحمد )
٧.. صبح سے شام اور شام سے صبح تک حفاظت …
حضرت ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : فرمایا رسول الله صلى الله عليه وسلم نے : جو شخص صبح کو آية الكرسي اور سورت غافر(حم ، المؤمن) شروع سے (إليه المصير) تک پڑهے گا تو شام تک محفوظ رهے گا ، اورجو شام کو پڑهے گا تو صبح تک محفوظ رهے گا
( أخرجه الدرامي والترمذي

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...