Wednesday 27 December 2017

بچوں کے کفن دفن کے احکام

🌷 *بچوں کے کفن دفن کے احکام*🌷

سوال: بعض بچے مُردہ پیدا ہوتے ہیں اور بعض تھوڑی دیر زندہ رہ کر مر جاتے ہیں اور بعض بلوغت کی عمر سے پہلے فوت ہو جاتے ہیں، ممکن ہو تو ان سب کے کفن دفن کے احکامات بھی واضح کر دیجیے۔

 *الجواب حامداً و مصلیاً* 

 *بچوں کے کفن دفن کے متعلق تفصیلی احکام لکھے جاتے ہیں، ملاحظہ کریں:* 

مسئلہ: اگر نابالغ لڑکا یا نابالغ لڑکی مر جائے، جو ابھی جوان نہیں ہوئے لیکن جوانی کے قریب پہنچ گئے تھے تو لڑکے کے کفن میں تین کپڑے دینا اور لڑکی کے کفن میں پانچ کپڑے دینا درست ہے۔ اگر لڑکی کو پانچ کے بجائے تین اور لڑکے کو تین کے بجائے دو ہی کپڑے دیے جائیں تب بھی کافی ہے۔ غرض یہ کہ جو حکم بالغ مرد و عورت کا ہے وہی حکم نابالغ لڑکے اور لڑکی کا ہے۔ بالغ مرد و عورت کے لیے وہ حکم تاکیدی ہے اور نابالغ کے لیے بہتر ہے۔     (بہشتی زیور و شامی) 

مسئلہ: جو لڑکا یا لڑکی بہت کم عمری میں فوت ہو جائیں کہ جوانی کے قریب بھی نہ ہوئے ہوں تو بہتر یہ ہے کہ لڑکے کو مَردوں کی طرح تین کپڑے اور لڑکی کو عورتوں کی طرح پانچ کپڑے کفن میں دیے جائیں۔ اور اگر لڑکے کو صرف ایک اور لڑکی کو صرف دو کپڑے کفن میں دیے جائیں تو بھی درست ہے اور نمازِجنازہ و تدفین حسبِ دستور کی جائے۔     (بہشتی زیور، عالمگیری)

مسئلہ: جو بچہ زندہ پیدا ہوا پھر تھوڑی دیر ہی میں مر گیا یا پیدا ہونے کے فوراً بعد ہی مرگیا تو اس کو بھی اسی قاعدہ سے نہلا دیا جائے اور کفنا کر نماز پڑھی جائے، پھر دفن کر دیا جائے اور اس کا کوئی نام بھی رکھا جائے۔     (بہشتی زیور) 

مسئلہ: جو بچہ ماں کے پیٹ سے مرا ہی پیدا ہو اور پیدا ہوتے وقت زندگی کی کوئی علامت نہیں پائی گئی، اس کو بھی اسی طرح نہلائیں لیکن قاعدہ کے موافق کفن نہ دیں، بلکہ کسی ایک کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردیں۔ اس پر نمازِجنازہ نہیں پڑھی جائے گی، البتہ نام اس کا بھی کچھ نہ کچھ رکھ دینا چاہیے۔    (بہشتی زیور)

مسئلہ: اگر حمل گرجائے تو اگر بچہ کے ہاتھ، پاؤں، منہ، ناک وغیرہ (میں سے کوئی ایک عضو) کچھ نہ بنے ہوں تو نہ نہلائیں اور نہ کفنائیں، کچھ بھی نہ کریں بلکہ کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڑھا کھود کر گاڑ (دفن کر) دیں۔  اور اگر اس بچے کے کچھ عضو بن گئے تو اس کا وہی حکم ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا حکم ہے، یعنی نام رکھا جائے اور نہلا دیا جائے، لیکن قاعدہ کے موافق کفن نہ دیا جائے، نہ نماز پڑھی جائے بلکہ کپڑے میں لپیٹ کر دفن کر دیا جائے۔   (بہشتی زیور) 

مسئلہ: ولادت کے وقت بچے کا فقط سر نکلا، اس وقت وہ زندہ تھا پھر مر گیا تو اس کا وہی حکم ہے جو مردہ بچہ پیدا ہونے کا حکم ہے، البتہ اگر زیادہ حصہ نکل آیا، اس کے بعد مرا تو ایسا سمجھیں گے کہ وہ زندہ پیدا ہوا اور اگر سر کی طرف سے پیدا ہوا تو سینے تک نکلنے سے سمجھیں گے کہ زیادہ حصہ نکل آیا اور اگر الٹا پیدا ہوا تو ناف تک نکلنا چاہیے۔   (بہشتی زیور)

(احکامِ میت: 48-49، مکتبۃ الحسن لاہور)

واللہ اعلم بالصواب! 

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

لیٹ کر نماز پڑھنے کا طریقہ*🌷

🌷 *لیٹ کر نماز پڑھنے کا طریقہ*🌷

السلام عليكم!
اگر ڈاکٹر کسی مریض کو لیٹ کر نماز پڑھنے کا کہے تو اس کا کیا طریقہ ہو گا؟ 


 *الجواب حامداً و مصلیاً* 

لیٹ کر نماز پڑھنے کی صورت یہ ہے کہ چِت یعنی کمر پر لیٹے اور اپنے دونوں پاؤں قبلہ کی طرف کو پھیلائے (ہمارے ملک میں چوں کہ قبلہ مغرب کی طرف ہے، اس لیے اس کا سر مشرق کی طرف اور پاؤں مغرب کی طرف ہوں گے) اور اشارہ سے رکوع وسجود کرے۔(سجدے کا اشارہ رکوع سے ذرا نیچے کرے) اگر کچھ طاقت ہے تو دونوں گھٹنوں کو کھڑا کرلے، پاؤں قبلہ کی طرف نہ پھیلائے، کیوں کہ بلاضرورت یہ فعل مکروہ ہے اور چاہیے کہ اس کے سرکے نیچے ایک تکیہ رکھ دیں تاکہ وہ بیٹھنے والے کے مشابہ ہوجائے اور منہ قبلہ کی طرف ہوجائے آسمان کی طرف نہ رہے اور رکوع وسجود کے لیے اشارہ بھی اچھی طرح کرسکے، کیوں کہ بالکل چِت لیٹنا تندرست کو بھی اشارہ سے روکتا ہے، تو پھر مریض کو تو اور بھی مشکل ہے، اگر چِت نہ لیٹے، بلکہ دائیں یا بائیں کروٹ پر لیٹے اور منہ قبلہ کی طرف کر کے اشارہ سے نماز پڑھے تو جائز ہے، لیکن چت لیٹنا اولیٰ وافضل ہے اور دائیں کروٹ لیٹنے کو بائیں کروٹ پر فضیلت ہے اور جائز دونوں طرح ہے۔ (عمدة الفقہ :2/405)


”وإن تعذر القعود․ ولو حکمًا أومأ مستلقیًا علی ظہرہ ورجلاہ نحو القبلة، غیر أنہ ینصب رکبتیہ، لکراہة مد الرجل إلی القبلة، ویرفع رأسہ یسیرًا لیصیر وجہہ إلیہا أو علی جنبہ الأیمن أو الأیسر ووجہہ إلیہا، والأول أفضل علی المعتمد“․ الدر المختار․ وفي الشامیة: قولہ: (ویرفع رأسہ یسیرًا) أي یجعل وسادة تحت رأسہ؛ لأن حقیقة الاستلقاء تمنع الأصحاء عن الإیماء، فکیف بالمرضی؟۔ بحر۔ قولہ: (والأول أفضل) لأن المستلقي یقع إیماہ إلی القبلة، والمضطجع یقع منحرفًا عنہا۔ بحر۔ قولہ: (علی المعتمد) مقابلہ ما في القنیة من أن الأظہر أنہ لا یجوز الاضطجاع علی الجنب للقادر علی الاستلقاء․ قال في النہر: وہو شاذ․ وقال في البحر: وہذا الأظہر خفی، والأظہر الجواز اہ․ وکذا ما روي عن الإمام من أن الأفضل أن یصلي علی شقہ الأیمن، وبہ قالت الأئمة الثلاثة، ورجحہ في الحلیة، لما ظہر لہ من قوة دلیلہ مع اعترافہ بأن الاستلقاء ہو ما في مشاہیر الکتب والمشہور من الروایات “․ (الدر المختار مع الشامیة:2/569)

(ماخوذ: دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)


واللہ اعلم بالصواب! 

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

Monday 25 December 2017

عورت کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*

🌷 *عورت کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*🌷

سوال: عورت کا مسنون کفن بتا دیں، اور کفنانے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتا دیجیے۔


 *الجواب حامداً و مصلیاً* 


عورت کے کفن کے لیے مسنون کپڑے 5 ہیں: 

(1)....ازار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سے پاؤں تک 

(2)....لفافہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازار سے لمبائی میں 4گرہ زیادہ 

(3)....کرتہ، بغیر آستین اور بغیر کلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گردن سے پاؤں تک 

(4)....سینہ بند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بغل سے رانوں تک ہو تو زیادہ اچھا ہے، ورنہ ناف تک بھی درست ہے۔ اورچوڑائی میں اتنا ہو کہ باندھا جا سکے۔ 

(5)....سر بند، اسے اوڑھنی یا خمار بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تین ہاتھ لمبا

مسئلہ: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنانا مسنون ہے، اور اگر تین کپڑوں (ازار، لفافہ و سربند) میں کفنا دیا تو یہ بھی درست ہے اور اتنا کفن بھی کافی ہے، اس سے کم کفن دینا مکروہ اور برا ہے۔ ہاں! اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو کم بھی درست ہے۔ (بہشتی زیور)


 *کفنانے کا بیان* 

جب میّت کو غسل دے چکیں تو چارپائی بچھا کر کفن کو تین مرتبہ، پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دیں، پھر کفن کو چارپائی پر بچھا کر میّت کو اس چارپائی پر لٹا دیں اور ناک، کان اور منہ سے روئی جو غسل کے وقت رکھی گئی تھی اسے نکال دیں، لیکن کفن بچھانے اور میّت کو اس میں کفنانے کا طریقہ مرد و عورت کے لیے کچھ مختلف ہے، سوال کی مناسبت سے عورتوں کو کفنانے کی تفصیل لکھی جا رہی ہے۔


 *عورت کو کفنانے کا طریقہ* 

عورت کے لیے پہلے لفافہ بچھا کر اس پر سینہ بند اور اس پر ازار بچھائیں، پھر قمیص کا نچلا حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں۔ پھر میت کو غسل کے تختے سے آہستگی سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لِٹا دیں۔ اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آجائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص پہنا دیں تو جو تہبند غسل کے بعد عورت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں اور اس کے سر پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ عورت کو زعفران بھی لگا سکتے ہیں۔ پھر پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر کافور مَل دیں۔ پھر سر کے بالوں کے دوحصے کرکے قمیص کے اوپر سینے پر ڈال دیں، ایک حصہ داہنی طرف اور دوسرا بائیں طرف، پھر سربند یعنی اوڑھنی سر پر اور بالوں پر ڈال دیں، ان کو باندھنا یا لپیٹنا نہیں چاہیے۔ 

اس کے بعد میّت کے اوپر ازار س طرح لپیٹیں کہ بایاں پلّہ (کنارہ) نیچے اور دایاں اوپر رہے، سربند اس کے اندر آجائے گا، اس کے بعد سینہ بند اس کے اندر آجائے گا۔ اس کے بعد سینہ بند سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھیں، پھر لفافہ اس طرح لپیٹیں کہ بایاں کنارہ نیچے اور دایاں اوپر رہے۔ اس کے بعد کتر سے کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں اور بیچ میں کمر کے نیچے کو بھی ایک بڑی دھجی نکال کر باندھ دیں، تاکہ ہلنے جلنے سے کھل نہ جائے۔(بہشتی زیور، مسافر آخرت)


مسئلہ: بعض لوگ کفن پر بھی عطر لگاتے ہیں اور عطر کی پھریری میّت کے کان میں رکھ دیتے ہیں، یہ سب جہالت ہے، جتنا شریعت میں آیا ہے اس سے زیادہ مت کریں۔ 

(بحوالہ: احکامِ میت، 47-48، 54، مکتبۃ الحسن لاہور)


واللہ اعلم بالصواب! 

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

مرد کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*🌷

🌷 *مرد کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*🌷

سوال: آپ نے پہلے عورتوں کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ بتایا تھا۔ پلیز مردوں کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ بھی اسی طرح تفصیل سے بتا دیجیے۔


 *الجواب حامداً و مصلیاً* 


مرد کے کفن کے لیے مسنون کپڑے 3 ہیں: 

(1)....ازار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سے پاؤں تک 

(2)....لفافہ (اسے چادر بھی کہتے ہیں)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازار سے لمبائی میں 4گرہ زیادہ 

(3)....کرتہ، بغیر آستین اور بغیر کلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گردن سے پاؤں تک (اسے قمیص یا کفنی بھی کہتے ہیں)


 *کفنانے کا بیان* 

جب میّت کو غسل دے چکیں تو چارپائی بچھا کر کفن کو تین مرتبہ، پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دیں، پھر کفن کو چارپائی پر بچھا کر میّت کو اس پر لٹا دیں، اور ناک، کان، منہ سے روئی جو غسل کے وقت رکھی گئی تھی نکال دیں۔ کفن بچھانے اور میّت کو اس میں کفنانے کا طریقہ مرد و عورت کے لیے کچھ مختلف ہے، یہاں مرد کو کفنانے کی تفصیل لکھی جاتی ہے:


 *مرد کو کفنانے کا طریقہ* 

مرد کو کفنانے کا طریقہ یہ ہے کہ چارپائی پر پہلے لفافہ بچھا کر اس پر ازار بچھا دیں، پھر کرتہ (قمیص) کا نچلا نصف حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں، پھر میّت کو غسل کے تختے سے آہستگی سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لِٹا دیں اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا، اُس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آ جائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص پہنچا چکیں تو غسل کے بعد جو تہبند میّت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں، اور اس کے سَر اور داڑھی پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ 
یاد رہے کہ مرد کو زعفران نہیں لگانی چاہیے، پھر پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر (کہ جن اعضاء پر آدمی سجدہ کرتا ہے) کافور مَل دیں۔ 

اس کے بعد ازار کا بایاں پلّہ (کنارہ) میّت کے اوپر لپیٹ دیں، پھر دایاں لپیٹیں، یعنی بایاں پلّہ نیچے رہے اور دایاں اوپر، پھر لفافہ اسی طرح لپیٹیں کہ بایاں پلّہ نیچے اور دایاں اوپر رہے، پھر کپڑے کی دھجی (کتر) لے کر کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں، اور بیچ میں سے کمر کے نیچے کو بھی ایک دھجی (کتر) نکال کر باندھ دیں، تاکہ ہوا یا ہلنے جلنے سے کھل نہ جائے۔    (شامی، بہشتی زیور، مسافر آخرت)



(احکامِ میت، 47، 53، مکتبۃ الحسن لاہور)


واللہ اعلم بالصواب! 

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ و اہم مسائل

🌷 *میت کو غسل دینے کا مسنون طریقہ و اہم مسائل*🌷

سوال:
السلام علیکم ورحمة اللہ و برکاتہ! 

میت کو غسل دینے کا سنت طریقہ بتادیں.

*الجواب حامداً و مصلّیاً*

وعلیکم السلام ورحمة اللہ و برکاتہ!
میّت کو غسل دینے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ جس تختہ پر میّت کو غسل دیا جائے، اس تختہ کو تین، پانچ یا سات مرتبہ لوبان کی دھونی دے لیں اور میّت کو اس تختے پر اس طرح لٹائیں کہ قبلہ اس کے دائیں طرف ہو، اگر موقع نہ ہو یا کچھ مشکل ہو تو جس طرف چاہے لٹا دیں۔ 
(فتح القدیر، ج 1 ص: 449 و شامی ج 1 ص: 809، مسافرِ آخرت) 

پھر میت کے بدن کے کپڑے (کرتہ، شیروانی، بنیان وغیرہ) چاک کر لو اور ایک تہبند اس کے ستر پر ڈال کر اندر ہی اندر کپڑے اتار لیں۔ یہ تہبند موٹے کپڑے کا ناف سے پنڈلی تک ہونا چاہیے تاکہ بھیگنے کے بعد اندر کا بدن نظر نہ آئے۔ 

مسئلہ: ناف سے لے کر زانو تک دیکھنا جائز نہیں اور ایسی جگہ ہاتھ لگانا بھی ناجائز ہے۔ میت کو استنجاء کرانے اور غسل دینے میں اس جگہ کے لیے دستانہ پہننا چاہیے یا کپڑا ہاتھ پر لپیٹ لیں، کیونکہ جس جگہ زندگی میں ہاتھ لگانا جائز نہیں وہاں مرنے کے بعد بھی بلادستانوں کے ہاتھ لگانا جائز نہیں، اور اس پر نگاہ بھی نہ ڈالیں۔ (بہشتی زیور) 

مسئلہ: غسل شروع کرنے سے پہلے بائیں ہاتھ میں دستانہ پہن کر مٹی کے تین یا پانچ ڈھیلوں سے استنجاء کروائیں، پھر پانی سے پاک کریں، پھر وضو اس طرح کروائیں کہ نہ کلی کروائیں، نہ ناک میں پانی ڈالیں، نہ گٹے (پُہنچے) تک ہاتھ دھوئیں، بلکہ روئی کا پھایا تر کرکے ہونٹوں، دانتوں اور مسوڑھوں پر پھیر کر پھینک دیں، اس طرح تین دفعہ کریں۔ پھر اسی طرح ناک کے دونوں سوراخوں کو رُوئی کے پھائے سے صاف کریں، لیکن اگر غسل کی ضرورت (جنابت) کی حالت میں موت ہوئی ہو یا عورت کا انتقال حیض یا نفاس کی حالت میں ہوا ہو تو منہ اور ناک میں پانی ڈالنا ضروری ہے۔ پانی ڈال کر کپڑے سے نکال لیں۔ 
پھر ناک، منہ اور کانوں میں رُوئی رکھ دیں تاکہ وضو اور غسل کراتے وقت پانی اندر نہ جائے۔ پھر منہ دھلائیں، پھر ہاتھ کہنیوں سمیت دھلائیں، پھر سر کا مسح کرائیں، پھر تین مرتبہ دونوں پیر دھوئیں۔ 
جب وضو کراچکیں تو سر کو (اور اگر مرد ہے تو داڑھی کو بھی) گُلِ خیرو سے یا خطمی سے یا بیسن یا صابن وغیرہ سے کہ جس سے سر صاف ہو جائے مٙل کر دھوئیں۔ 
پھر اسے بائیں کروٹ پر لٹائیں اور بیری کے پتوں میں پکایا ہوا نیم گرم پانی دائیں کروٹ پر تین مرتبہ سر سے پیر تک اتنا ڈالیں کہ نیچے کی جانب بائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔  
پھر دائیں کروٹ پر لٹا کر اسی طرح سر سے پیر تک تین مرتبہ اتنا پانی ڈالیں کہ نیچے کی جانب دائیں کروٹ تک پہنچ جائے۔ 
اس کے بعد میت کو اپنے بدن کی ٹیک لگا کر ذرا بٹھلانے کے قریب کر دیں اور اس کے پیٹ کو اوپر سے نیچے کی طرف آہستہ آہستہ ملیں اور دبائیں۔ اگر کچھ فُضلہ (پیشاب یا پاخانہ وغیرہ) خارج ہو تو صرف اسی کو پونچھ کر دھو دیں، وضو اور غسل کو دہرانے کی ضرورت نہیں، کیونکہ اس ناپاکی کے نکلنے سے میت کے وضو اور غسل میں کوئی نقصان نہیں آتا۔ 
پھر اس کو بائیں کروٹ پر لٹا کر دائیں کروٹ پر کافور ملا ہوا پانی سر سے پیر تک تین مرتبہ خوب بہادیں کہ نیچے بائیں کروٹ بھی خوب تر ہو جائے، پھر دوسرا دستانہ پہن کر سارا بدن کسی کپڑے سے خشک کرکے تہبند دوسرا بدل دیں۔ 
پھر چارپائی پر کفن کے کپڑے اس طریقے سے اوپر نیچے بچھائیں جو آگے "کفن پہنانے کا مسنون طریقہ" میں لکھا ہے۔ پھر میّت کو آہستگی سے غسل کے تختے سے اٹھا کر کفن کے اوپر لٹا دیں۔ اور ناک، کان اور منہ سے رُوئی نکال ڈالیں۔ 
(فتاوی ہندیہ، درمختار، مسافرِ آخرت، بہشتی زیور) 

مسئلہ: نہلانے کا جو طریقہ اوپر بیان ہوا سنت ہے، لیکن اگر کوئی اس طرح تین مرتبہ نہ نہلائے بلکہ صرف ایک مرتبہ سارے بدن کو دھو ڈالے تب بھی فرض ادا ہوگیا۔ (بہشتی زیور)


✨ *میّت کو نہلانے کے بعد خود غسل کرنا*✨

مسئلہ: میّت کو غسل دینے والے کے لیے بعد میں خود بھی غسل کرلینا مستحب ہے۔ (شامی)


(احکام میت، ص: 41-44، ط: مکتبة الحسن لاہور)

واللہ اعلم بالصّواب!

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ  عٙنْہ

Friday 22 December 2017

قبر میں نیک عمل کا آنا

◾قبر میں نیک عمل کا آنا◾

   کیا یہ بات درست ھے :کہ جب ہم دفن کردئے جاتے ہیں اور سوال و جواب کے لیے نکیرین آتے ہیں تو ایک شخص قبر میں آکر کہتا ھے : کہ اے صاحب قبر! تم آرام کرو؛ تمہارے سوالوں کا جواب میں دونگا! پھر جب فرشتے چلے جاتے ہیں تو یہ شخص بہی جانے لگتا ھے تو صاحب قبر اس سے معلوم کرتا ھے کہ آپ کون ہیں؟
  تو وہ شخص کہتا ھے کہ میں قرآن مجید ہوں!

   حضور نے فرمایا: کہ بے نور ہوجائے اسکا چہرہ جو حدیث سن۔کر آگے نہ پہونچائے۔
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   اس سلسلے میں ہمکو دو روایت ملتی ہیں:
1)  ایک طویل حدیث ھے: جس میں مذکور ھے کہ قبر میں ایک وجیہ , عمدہ لباس والا, بہترین خوشبو والا, شخص وارد ہوتا ھے اور کہتا ھے اے صاحب قبر ! خوش ہوجاؤ؛ یہ وہ دن ھے جسکا تم سے وعدہ کیا جاتا تہا, تو وہ شخص معلوم کرتا ھے تم کون ہو؟  تو وہ خوبصورت شخص جواب میں کہتا ھے : کہ میں تمہارا نیک عمل ہوں۔

🔵عَنِ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ رضي الله عنه أن النبي صلى الله عليه وسلم قَالَ :

( إِنَّ الْعَبْدَ الْمُؤْمِنَ إِذَا كَانَ فِي انْقِطَاعٍ مِنْ الدُّنْيَا وَإِقْبَالٍ مِنْ الْآخِرَةِ نَزَلَ إِلَيْهِ مَلَائِكَةٌ مِنْ السَّمَاءِ بِيضُ الْوُجُوهِ كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الشَّمْسُ ، مَعَهُمْ كَفَنٌ مِنْ أَكْفَانِ الْجَنَّةِ ، وَحَنُوطٌ مِنْ حَنُوطِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَجْلِسُوا مِنْهُ مَدَّ الْبَصَرِ ...إلى أن قال – في وصف حال المؤمن في القبر - :

فَيُنَادِي مُنَادٍ فِي السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنْ الْجَنَّةِ ، وَأَلْبِسُوهُ مِنْ الْجَنَّةِ ، وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ ، قَالَ : فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا وَيُفْسَحُ لَهُ فِي قَبْرِهِ مَدَّ بَصَرِهِ .

قَالَ : *وَيَأْتِيهِ رَجُلٌ حَسَنُ الْوَجْهِ ، حَسَنُ الثِّيَابِ ، طَيِّبُ الرِّيحِ ، فَيَقُولُ : أَبْشِرْ بِالَّذِي يَسُرُّكَ ، هَذَا يَوْمُكَ الَّذِي كُنْتَ تُوعَدُ . فَيَقُولُ لَهُ : مَنْ أَنْتَ ؟ فَوَجْهُكَ الْوَجْهُ يَجِيءُ بِالْخَيْرِ . فَيَقُولُ : أَنَا عَمَلُكَ الصَّالِحُ . فَيَقُولُ : رَبِّ أَقِمْ السَّاعَةَ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَى أَهْلِي وَمَالِي* )

رواه أحمد (4/362)  صحیح.

2)  بروز حشر جب قبریں پھٹے گیں, تو قرآن صاحب قرآن سے ملیگا اس حال میں کہ وہ پراگندہ بال ہوگا, اور کہےگا: مجھے پہچانا؟ 
 تو انسان کہےگا :نہیں!
  تو قرآن کہے گا :میں  تیرا رفیق قرآن ہوں جس نے تجہے دنیا میں سخت گرمی میں پیاسا رکہا تہا, جس نے تجھے دنیا میں راتوں کو جگایا تہا....

🔘  عن بريدة رضي الله عنه قال : سمعت النبي- صلى الله عليه وسلم - يقول :

( َإِنَّ الْقُرْآنَ يَلْقَى صَاحِبَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَنْشَقُّ عَنْهُ قَبْرُهُ كَالرَّجُلِ الشَّاحِبِ . فَيَقُولُ لَهُ : هَلْ تَعْرِفُنِي ؟ فَيَقُولُ : مَا أَعْرِفُكَ . فَيَقُولُ لَهُ : أَنَا صَاحِبُكَ الْقُرْآنُ الَّذِي أَظْمَأْتُكَ فِي الْهَوَاجِرِ وَأَسْهَرْتُ لَيْلَكَ ، وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ ، وَإِنَّكَ الْيَوْمَ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تِجَارَةٍ ، فَيُعْطَى الْمُلْكَ بِيَمِينِهِ وَالْخُلْدَ بِشِمَالِهِ وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ وَيُكْسَى وَالِدَاهُ حُلَّتَيْنِ لَا يُقَوَّمُ لَهُمَا أَهْلُ الدُّنْيَا . فَيَقُولَانِ : بِمَ كُسِينَا هَذِهِ ؟ فَيُقَالُ : بِأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ ثُمَّ يُقَالُ لَهُ اقْرَأْ وَاصْعَدْ فِي دَرَجَةِ الْجَنَّةِ وَغُرَفِهَا فَهُوَ فِي صُعُودٍ مَا دَامَ يَقْرَأُ هَذًّا كَانَ أَوْ تَرْتِيلًا )

  رواہ ابن ماجہ/  حدیث: 3781. صفحہ: 852,ط: دار الفکر, بیروت, لبنان۔

  (ورواہ احمد فی مسندہ:  رقم : 394 )





💠  سوال کا دوسرا جزء:

 بے نور ہوجائے اسکا چہرہ جو حدیث سن کر دوسروں کو نہ بتائے,  یہ بات من گھڑت ھے, کسی روایت میں یہ بد دعا مذکورنہیں ھے۔  البتہ حدیث سن کر اسکو یاد و محفوظ کرکے صحیح صحیح دوسروں کو بتانے پر حدیث میں خوشخبری اور بشارت ضرور مذکور ھے: 
   اللہ اس شخص کو آباد رکہے جو میری بات کو سنکر محفوظ کرے, اور اسکو یاد کرے پھر دوسروں تک پہونچائے۔ 

🔲 عن عبد الله بن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: ( *نضر الله امرأ سمع مقالتي فوعاها وحفظها وبلغها*، فرب حامل فقه إلى من هو أفقه منه )

المصدر: الترمذي
المجلد: 5
الراوي: ابن مسعود
المحدث: ابوعىسي
 الطبع: شركة، ومطبع موسي البابي الحلبي، مصر.
حكم الرواية:  صحيح. 

⭕ خلاصۂ کلام:
   مذکورہ سوال میں جو بات مذکور ھے وہ روایات میں موجود نہیں ھے, اور جو روایات میں ھے اسکا خلاصہ ذکر کردیا گیا ھے۔ البتہ قبر میں نیک عمل کا خوبصورت انسان کی شکل میں متشکل ہوکر آنا ثابت ھے؛ تو بعید نہیں کہ قرآن بہی آجائے ؛ کیونکہ قرآن کی تلاوت بھی نیک عمل ہی ھے۔ البتہ قرآن کا قبر میں آکر جواب دینا یہ روایت میں نہیں ھے۔

ہذا ماتیسر لی, والعلم عندﷲ 

  وﷲ تعالی اعلم بالصواب

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Tuesday 19 December 2017

نبی سے مدد ، روایت کی تحقیق ازمفتی عدنان وقار صدیقی قاسمی




*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   یہ روایت امام بخاری کی  " الادب المفرد" اور  ابن السنی کی " عمل الیوم واللیلہ" میں مذکور ھے, لیکن اس روایت سے رضاخانی جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ مدعا کسی بہی طور پے ثابت نہیں ہوتا ھے؛ کیونکہ اس روایت پر شدید جرح ائمہ جرح و تعدیل نے کی ھے ,  اس روایت کی سند میں " ایک راوی *غیاث بن ابراہیم* ھے جسکے متعلق تاج المحدثین امام وقت امام یحی بن معین رح فرماتے ہیں: کہ غیاث بن ابراہیم  کذاب اور خبیث ھے میں اسکی روایت کو پیش کرنا بہی قبیح سمجہتا ہوں ,  واضح رھے کہ امام یحی بن معین کی جرح کسی بہی روایت کے لیے ناقابل استدلال ہونے کے لیے کافی ھے.اور امام احمد بن حنبل و امام بخاری نے اس راوی کو کہا کہ اسکی روایت محدثین قبول نہیں کرتے ہیں۔
  
      نیز عمل الیوم واللیل میں یہی بات دوسری سند سے مذکور ھے؛ لیکن وہ بہی ضعیف ھے کیونکہ اس میں ایک راوی ھیثم بن۔حنش ہے جو کہ مبہم اور ضعیف ھے۔

 اور ایک راوی محمد بن مصعب ھے جسکو امام ابن معین و نسائی نے ضعیف قرارد یا ھے اور ابن حبان  نے فرمایا: کہ مذکورہ راوی روایت کے متن اور سند کو بدلنے میں متہم ھے لہذا اسکو بہی قابل اعتبار نہیں سمجہا جاسکتا ھے۔
  
   🔵 دوسری بات:  اس روایت کے الفاظ میں غور کیا جائے اس میں یہ لفظ ھے کہ تم اپنی سب سے پسندیدہ شخصیت کو یاد کرو!  یہ نہیں کہا کہ مدد چاہو یا دعا مانگو ۔ اور یاد کرنے اور مدد چاہنے و دعا کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ھے ۔عربی کا ایک ادنی طالبعلم بہی اس فرق کو بلا بتائے سمجھ جاتا ھے ۔البتہ کسی کی عقل و آنکھ پے غفلت اور کم علم کی مہر لگی ہو تو ہم اس میں کیا کرسکتے ہیں!

    امام نووی نے صراحت فرمائی ھے کہ اس طرح کی بیماری میں عرب ایسا کیا کرتے تہے کہ جو سب سے۔زیادہ پسندیدہ شخصیت ہو اسکو یاد کرتے تہے اور ابن عمر کے لیے سب سے زیادہ محبوب رسول ﷲ تہے ۔ 
یہ بات آپ " علامہ آلوسی کی کتاب " بلوغ الارب فی معرفہ احوال العرب " میں دیکھ سکتے ہیں۔

    اور عقلا بہی یہ بات محال اور بعید از عقل ھے کہ ابن عمر جیسا صحابی اللہ کو چھوڑ کر غیر ﷲ سے مدد طلب کرے جبکہ خود نبی کو اللہ نے کہا ھے کہ ہر موقعہ پر اللہ کو پکارو! 
 ( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا . وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا . قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا . قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ) الجن/18-20.)

  نیز شیخ ابوبطین فرماتے ہیں: کہ ہو سکتا ھے کہ  اللہ نے حضور کریم کے اسم گرامی میں ایک تاثیر و خاصیت رکہی ہو۔

  قابل غور ھے کہ ابن عمر نے : یا محمد  أزل خدري ، أو أشكو إليك خدر رجلي نہیں کہا کہ جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے حضور سے شفا یابی طلب کی ہو۔

🔘 تیسری بات:  امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ حضور کو یا محمد کہنا فقط استحضار قلبی کے لیے ھے جیساکہ التحیات میں کہا جاتا ھے" السلام علیک ایہا النبی"  یہ فقط دلی استحضار کے لیے ھے کوئی اور جذبہ پیش نظر نہیں رہتا ھے۔

  ◾ چوتہی بات: 
  عربوں کے یہاں ان احوال میں اپنی پسندیدہ شخصیت کو یاد کیا جانا معروف ھے  جیساکہ ہم علامہ آلوسی کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں تو اگر کوئی اس حالت میں اپنی بیوی , باپ, والدہ, استاذ, کو یاد کرے تو کیا اس سے یہ لازم آئگا کہ وہ ان لوگوں سے مدد طلب کر رہا ھے حالانکہ وہ دنیا میں موجود نھیں ھیں یا دنیا میں ہیں تو اسکے پاس  فی الوقت موجود نہیں ہیں ,  اگر آپ یہ کہتے ہو یہ یاد کرنا مدد طلب کرنا ھے تو مدد طلب کرنیوالا بیوقوف شمار ہوگا اور پھر سارا عرب بیوقوف شمار کیا جایئگا ۔ اور مجھ کو لگتا ھے کہ سارے عرب کو پاگل کہنے والا خود اپنی عقل کا جائزہ لے تو بہتر ہوگا۔

  إسرائيلُ ، عن أبي إسحاق ، عن الهيثم بن حنش ، قال : ( كنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، فخَدِرَت رِجلُه ، فقال له رَجُل : اذكر أحبَّ الناس إليك : فقال : يا محمد ، قال : فقام ، فكأنما نَشِطَ من عِقال ) 
رواه ابنُ السني في " عمل اليوم والليلة " (رقم/169) ۔صفحہ: 88. ط:  مکتبہ دار البیان ۔الطائف)
⭕خلاصہ کلام:
  یہ روایت انتہائی ضعیف ھے ناقابل استدلال ھے۔ اور اگر اسکو صحیح مان لیا جائے تو اس سے رضاخانیوں کا مقصد کسی صورت ثابت نہیں ہوتا ۔ 

وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

Javed ahmad ghamdi جاوید احمد غامدی کے گمراہ عقائد حوالہ کے ساتھ

*گمراہ لوگوں سے اپنے ایمان کو بچائیں یہ لوگ میٹھی باتیں کر کے ایمان لوٹتے ہیں۔ اور نہ ہی گناہ پہ Notification آتا ہے کہ آپ نے گناہ والی بات کی اور نہ ہی کفریہ الفاظ کہنے پہ ۔ اس دنیا میں سب کی رسی کو کھینچا جائے لازمی نہیں۔ لیکن ایک دن آئے گا جب داڑھی والے اور داڑھی کا مذاق بنانے والے برابر نہیں ہوں گے۔ پردہ کرنے والیاں اور جسم کی نمائش کرنے والیاں برابر نہیں ہوں گی۔*

جاوید احمد غامدی 👇👇👇👇

غامدی صاحب کی کچھ کتابوں کے حوالہ جات ہیں جو مکمل طور پر تصدیق شدہ ہیں اور آپ چاہیں تو خود بھی تصدیق کرسکتے ہیں .
1.... عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں۔ [میزان، علامات قیامت، ص:178،طبع 2014]
2.... قیامت کے قریب کوئی مہدی نہیں آئے گا۔ [میزان، علامات قیامت، ص:177،طبع مئی2014]
33....(مرزا غلام احمد قادیانی) غلام احمد پرویز سمیت کوئی بھی کافر نہیں، کسی بھی امتی کو کسی کی تکفیر کا حق نہیں ہے۔ 
[اشراق،اکتوبر2008،ص:67]
4.... حدیث سے دین میں کسی عمل یا عقیدے کا اضافہ بالکل نہیں ہوسکتا۔[میزان، ص:15]
5....سنتوں کی کل تعداد صرف 27 ہے۔ [میزان،ص:14]
6....ڈاڑھی سنت اور دین کا حصہ نہیں ۔ [مقامات، ص:138،طبع نومبر2008]
7....اجماع دین میں بدعت کا اضافہ ہے۔ [اشراق، اکتوبر2011،ص:2]
8....مرتد کی شرعی سزا نبی کریم ﷺ کے زمانے کے ساتھ خاص تھی۔ [اشراق، اگست2008،ص:95]
9.... رجم اور شراب نوشی کی شرعی سزا حد نہیں۔[برہان،ص:35 تا 146،طبع فروری 2009]
10.... اسلام میں ”فساد فی الارض“ اور ”قتل نفس“کے علاوہ کسی بھی جرم کی سزا قتل نہیں ہوسکتی۔
[برہان، ص:146،طبع فروری 2009]
11....قرآن پاک کی صرف ایک قرآت ہے، باقی قراءتیں عجم کا فتنہ ہیں۔
[میزان،ص:32،طبع اپریل2002....بحوالہ تحفہ غامدی از مفتی عبدالواحد مدظلہم]
12.... فقہاءکی آراءکو اپنے علم وعقل کی روشنی میں پرکھاجائےگا۔ [سوال وجواب، ہٹس 7277، 19جون 2009]
133....ہرآدمی کو اجتہادکاحق ہے۔ اجتہاد کی اہلیت کی کوئی شرائط متعین نہیں، جو سمجھے کہ اسے تفقہ فی الدین حاصل ہے وہ اجتہاد کرسکتا ہے۔ [سوال وجواب،ہٹس 612،تاریخ اشاعت:10 مارچ 2009]
144....نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کے بعد غلبہ دین کی خاطر (اقدامی)جہاد ہمیشہ کے لیے ختم ہے۔ 
[اشراق، اپریل2011، ص:2]
15....تصوف عالم گیر ضلالت اور اسلام سے متوازن ایک الگ دین ہے۔ [برہان، ص:1811، طبع 2009]
166.... حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ باغی اور یزید بہت متحمل مزاج اور عادل بادشاہ تھا۔ واقعہ ¿ کربلا سوفیصد افسانہ ہے۔ [بحوالہ غامدیت کیا ہے؟ از مولاناعبدالرحیم چاریاری]
17....مسلم وغیر مسلم اور مردوعورت کی گواہی میں فرق نہیں ہے۔ [برہان، ص:25 تا 344،طبع فروی 2009]
18.... زکوٰة کے نصاب میں ریاست کو تبدیلی کا حق حاصل ہے۔ [اشراق، جون 2008، ص:70]
199.... یہود ونصاریٰ کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا ضروری نہیں، اِس کے بغیربھی اُن کی بخشش ہوجائے گی۔[ایضًا]
20....موسیقی فی نفسہ جائزہے۔ [اشراق، فروری2008،ص:69]
21....بت پرستی کے لیے بنائی جانے والی تصویر کے علاوہ ہر قسم کی تصویریں جائز ہیں۔ 
[اشراق،مارچ، 2009، ص:69]
22.... بیمہ جائز ہے۔ [اشراق، جون 2010، ص:2]
233....یتیم پوتا دادے کی وراثت کا حقدار ہے۔ مرنے والی کی وصیت ایک ثلث تک محدودنہیں۔ وارثوں کے حق میں بھی وصیت درست ہے۔ [اشراق،مارچ2008، ص:63....مقامات:140،طبع نومبر2008]
244.... سور کی نجاست صرف گوشت تک محدود ہے۔ اس کے بال، ہڈیوں، کھال وغیرہ سے دیگر فوائد اٹھانا جائز ہے۔ [اشراق،اکتوبر1998،ص:89....بحوالہ : غامدیت کیا ہے؟]
255....سنت صرف دین ابراہیمی کی وہ روایت ہے جس کو نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دین کی حیثیت سے جاری فرمایا۔ اور یہ قرآن سے مقدم ہے۔ اگر کہیں قرآن کا ٹکراو ¿ یہود ونصاریٰ کے فکر وعمل سے ہوگا تو قرآن کے بجائے یہودونصاریٰ کے متواتر عمل کو ترجیح ہوگی ۔ [میزان،ص:14،طبع2014]
26....عورت مردوں کی امامت کر اسکتی ہے۔[ماہنامہ اشراق، ص 35 تا 46،مئی2005]
277....دوپٹہ ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے اس کے بارہ میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے ا س کا کوئی جواز نہیں۔[ماہنامہ اشراق، ص 47،شمارہ مئی2002]
28....مسجد اقصی پر مسلمانوں کا نہیں اس پر صرف یہودیوں کا حق ہے۔ [ اشراق جولائی، 20033اور مئی، جون2004]
29....بغیر نیت، الفاظِ طلاق کہنے سے طلاق واقع نہیں ہوتی۔ [اشراق،جون2008،ص:65]
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کوئی مجھے یہ بتادے کہ منکر حدیث اور کس طرح کے ہوتے ہیں؟

Monday 18 December 2017

حدیث نمبر

نوٹ: اس مضمون میں صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں اور احادیث کے نمبرز اس کے مطابق ہیں۔
--------------
اللہ تعالیٰ جل مجدہ نے انسانیت کی راہنمائی کے لئے انبیاء ورسل کو مبعوث فرمایا اور اُن پر وحی نازل فرمائی تاکہ وہ الوہی پیغام پر عمل پیرا ہوکر اپنے امتیوں کے سامنے لائق تقلید نمونہ پیش کرسکیں۔ نبوت و رسالت کا یہ سلسلہ حضرت آدم علیہ السلام سے شروع ہوا اور حضرت محمد مصطفی، احمد مجتبیٰ علیہ التحیة والثناء پر اختیام پذیر ہوا۔ خلاّقِ عالمین نے اپنے محبوبِ مکرم صلى الله عليه وسلم کو رحمة للعالمین کے لقب سے سرفراز فرمایا، جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہر عالم کے لیے رحمت کبریا ہیں۔ اس کے علاوہ رب کریم نے حضور سید انام صلى الله عليه وسلم پر دین مبین کی تکمیل فرمادی اور وحی جیسی نعمت کو تمام کردیا اور اسلام جیسے عالمگیر (Universal)، ابدی (Eternal) اور متحرک (Dynamic)دین کو رہتی دُنیا تک کے لئے اپنا پسندیدہ دین قرار دے دیا۔ قرآن مجید میں حضور اکرم، نبی معظم، رسول مکرم صلى الله عليه وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان اس آیت مبارکہ میں کیاگیا:
مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ، وَکَانَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا. (سورة الاحزاب:۳۳-۴۰)
محمد صلى الله عليه وسلم تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے،اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (بریلوی، احمد رضاخان، کنزالایمان فی ترجمة القرآن، لاہور: ضیاء القرآن پبلی کیشنز، ص:۵۰۹)
یہ نص قطعی ہے ختم نبوت کے اس اعلان خداوندی کے بعد کسی شخص کو قصرِ نبوت میں نقب زنی کی سعی لاحاصل نہیں کرنی چاہئے۔ اس آیت مبارکہ کی تفسیر میں مہبطِ وحی صلى الله عليه وسلم کے بہت سے ارشادات کتب احادیث میں ملاحظہ کئے جاسکتے ہیں۔ یہاں ایسی احادیث پر مبنی اربعین پیش کی جارہی ہے تاکہ منکرین ختم نبوت پر حق واضح ہوسکے اور یہ عمل اس حقیر پرتقصیر کے لئے نجاتِ اُخروی کا باعث ہو، کیونکہ محدثین کرام نے اربعین کی فضیلت میں روایات نقل فرمائی ہیں۔ حافظ ابی نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی المتوفی ۴۳۰ھ نے حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضى الله تعالى عنه سے مروی یہ روایت درج کی ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:
من حفظ علی اُمتی أربعین حدیثا ینفعہم اللّٰہ عز وجل بہا، قیل لہ: أدخل من أی أبواب الجنة شئت.
جس شخص نے میری اُمت کو ایسی چالیس احادیث پہنچائیں جس سے اللہ تعالیٰ عز وجل نے ان کو نفع دیا تو اُس سے کہا جائے گا جس دروازے سے چاہو جنت میں داخل ہوجاؤ۔ (الاصفہانی، ابی نعیم احمد بن عبداللہ، حلیة الاولیاء وطبقات الاصفیاء، مصر: مکتبہ الخانجی بشارع عبدالعزیز ومطبعة السعادہ بجوار محافظہ، ۱۳۵۱ھ/۱۹۳۲/)۔ ۴:۱۸۹

حدیث نمبر 1

۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

مَثَلِیْ وَمَثَلُ الْاَنْبِیَآءِ مِنْ قَبْلِیْ کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنٰی بَیْتًا فَاَحْسَنَہ وَاَجْمَلَہ اِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ فَجَعَلَ النَّاسَ یَطُوْفُوْنَ وَیَعْجَبُوْنَ لَہ وَیَقُوْلُوْنَ، ہَلَّا وُضِعَتْ ہٰذِہِ اللَّبِنَةُ؟ قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَةُ، وَاَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّیْنَ.

میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسے کسی شخص نے ایک گھر بنایا،اس کو بہت عمدہ اور آراستہ پیراستہ بنایا مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑدی، پس لوگ جوق درجوق آتے ہیں اور تعجب کرتے ہیں اور یہ کہتے ہیں یہ اینٹ کیوں نہیں لگادی گئی۔ آپ نے فرمایا: وہ اینٹ میں ہوں اور میں انبیاء کرام کا خاتم ہوں۔ اسی مفہوم کی ایک اور حدیث مبارکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضى الله تعالى عنه نے بھی روایت کی ہے۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۵۳۴، ۳۵۳۵)

حدیث نمبر 2

۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

نَحْنُ الْاٰخِرُوْنَ وَنَحْنُ الْأَوَّلُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، وَنَحْنُ اَوَّلُ مَنْ یَدْخُلُ الْجَنَّةَ، یبدأ أَنَّہُمْ أُوْتُوْا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِنَا وَاُوْتِیْنَاہُ مِنْ بَعْدِہِمْ.

ہم سب آخر والے روزِ قیامت سب سے مقدم ہوں گے اور ہم سب سے پہلے جنت میں داخل ہوں گے۔ حالانکہ (پہلے والوں) کو کتاب ہم سے پہلے دی گئی اور ہمیں ان سب کے بعد۔ (صحیح مسلم، کتاب الجمعہ، باب ہدایة ہذہ الامة لیوم الجمعة، حدیث: ۱۹۷۸، ۱۹۷۹، ۱۹۸۰، ۱۹۸۱، ۱۹۸۲)

حدیث نمبر 3

۳- حضرت ابوحازم فرماتے ہیں کہ میں پانچ سال تک حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه کے ساتھ رہا۔ میں نے خود سنا کہ وہ یہ حدیث بیان فرماتے تھے کہ نبی مکرم رسول معظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔

کَانَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ تَسُوْسُہُمْ الأَنْبِیَاءُ، کُلَّمَا ہَلَکَ نَبِیٌّ خَلَفَہ نَبِیٌّ وَاِنَّہ لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ، وَسَیَکُوْنُ خُلَفَاءُ فَیَکْثُرُوْنَ، قَالُوْا: فَمَا تَأْمُرُنَا؟ قَالَ: فُوْا بِبَیْعَةِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ، أَعْطُوْہُمْ حَقَّہُمْ، فَاِنَّ اللّٰہَ سَائِلُہُمْ عَمَّا اسْتَرْعَاہُمْ.

بنی اسرائیل کی سیاست خود ان کے انبیاء کرام کیا کرتے تھے۔ جب کسی نبی کی وفات ہوجاتی تھی تو اللہ تعالیٰ کسی دوسرے نبی کو ان کا خلیفہ بنادیتا تھا لیکن میرے بعد کوئی نبی نہیں، البتہ خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔ صحابہ کرام نے عرض کیا، اُن کے متعلق آپ کیا حکم دیتے ہیں۔ آپ نے فرمایا ہر ایک کے بعد دوسرے کی بیعت پوری کرو اور ان کے حق اطاعت کو پورا کرو، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ اُن کی رعیت کے متعلق اُن سے سوال کرے گا۔ (صحیح البخاری، کتاب احادیث الانبیاء، باب ذکر عن بنی اسرائیل، حدیث: ۳۴۵۵)

حدیث نمبر 4

۴- حضرت انس رضى الله تعالى عنه روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے انگشت شہادت اور بیچ کی انگلی کو ملاکر اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

بُعِثْتُ أَنَا وَالسَّاعَةُ کَہَاتَیْنِ.

میں اور قیامت اس طرح ملے ہوئے بھیجے گئے ہیں جس طرح یہ دونوں انگلیاں ملی ہوئی ہیں۔(صحیح البخاری، کتاب التفسیر، سورة والنازعات، حدیث: ۴۹۳۶، کتاب الطلاق، باب اللعان، حدیث: ۵۳۰۱، کتاب الرقاق، باب قول النبی صلى الله عليه وسلم، بعثت انا والساعة کہاتین، حدیث: ۶۵۰۳، ۶۵۰۴، ۶۵۰۵)

حدیث نمبر 5

۵- امام مسلم نے تین اسناد سے یہ حدیث بیان کی ہے:

سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلّی اللّٰہ علیہ وسلم، وَفِیْ حَدِیْثِ عُقَیْلٍ: قَالَ: قُلْتُ لِلزُّہْرِیْ: وَمَا الْعَاقِبُ؟ قَالَ: الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں نے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم سے سنا، عقیل کی روایت میں ہے زہری نے بیان کیا عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔(صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۷)

حدیث نمبر 6

۶- حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ رسولِ معظم، نبی مکرم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

اِنَّ لِیْ أَسْمَاءً، اَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَاَنَا الْمَاحِی یَمْعُو اللّٰہُ بِیَ الْکُفْرَ، وَاَنَا الْعَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمَیَّ، وَأَنَا الْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ اَحَدٌ.

بے شک میرے کئی اسماء ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں لوگوں کا حشر میرے قدموں میں ہوگا، اور میں عاقب ہوں اور عاقب وہ شخص ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل،باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث: ۶۱۰۶)

حدیث نمبر 7

۷- حضرت محمد بن جبیر اپنے والد گرامی حضرت جبیر بن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لِیْ خَمْسَةُ أَسْمَآء اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یَمْحُوا اللّٰہ بِیَ الْکُفْرَ، وَأنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی قَدَمِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ.

میرے پانچ نام ہیں۔ میں محمد ہوں، اور میں احمد ہوں اور ماحی ہوں یعنی اللہ تعالیٰ میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا۔ میں حاشر ہوں یعنی لوگ میرے بعد حشر کئے جائیں گے اور میں عاقب ہوں۔ یعنی میرے بعد دُنیا میں کوئی نیا پیغمبر نہیں آئے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المناقب، باب ما جاء فی اسماء رسول اللہ صلى الله عليه وسلم حدیث: ۳۵۳۲، صحیح البخاری، کتاب التفسیر، باب من بعد اسمہ احمد، حدیث: ۴۸۹۶)

Saturday 16 December 2017

حقیقت دو لوگوں میں گفتگو

◾حقیقت ◾

  یار مجھے تمہارے مذہب اور دھرم کے لڑکے اچھے لگتے ہیں, کیا ہیئر اسٹائل ھے,  ہینڈسم اسمارٹ لک, ایک الگ ہی بات ہوتی ھے, تیز طرار , بات کرنے کا اسٹائل بہی بہت عمدہ ہوتا ھے,
اگر میرا بس چلے گا تو میں تمہارے دھرم کے لڑکے سے شادی کرونگی,  بھوپال ڈیویژن کالج کی دو کلوز فرینڈ پوجا تیواری اپنی بیسٹ فرینڈ عالیہ خان کو اپنے دل کی بات بتارہی تہی تبہی درمیان میں عالیہ بول اٹھی : لیکن مجھے مسلم لڑکے بالکل پسند نھیں ھیں؛ شادی کے بعد بالکل بدل جاتے ہیں پردہ کرو نماز پڑھو صبح جلدی اٹھو , ساس سسر ہوں تو ان کی عزت کرو! مائی فٹ!!!
 پوجا: تو اس میں برائی کیا ھے؟ یہ تو سلیقہ اور ادبی بات ھے , 
عالیہ: مجھے آزادی پسند ھے , کسی طرح کا بندش نہ ہو ۔ نہ ساس سسر کی جھک جھک نہ اردہ نہ پردہ, شوہر ہو اسکے ساتھ تابع داری ہو , کسی سے ملنے جلنے پر روک ٹوک نہ ہو , ہر روز پارٹی ہو, شور شرابہ ہو صبح دیر تک سونا ملے,
   پوجا: چل بس کر! اب کلاس کا وقت ہوگیا ھء تو کرلینا میرے دھرم میں شادی لیکن ابہی مجھے معاف کر, ہر جگہ لیکچر شروع کردیتی ھے, ابہی کلاس میں جاکر بہی لیکچر سننا ھے۔

   عالیہ کا گھر ایک ویل ایجوکیٹیڈ فیملی سے تہا جہاں سبہی آزاد خیال لوگ تہے. عالیہ نے اپنی خواہش کئی بار گھر والوں کو بتائی ؛لیکن گھر والے ہمیشہ ہنسی مذاق میں لیتے تہے, اور خود بہی بولڈ نیس کو ترجیح دیتے تہے, پردے اور دین دھرم سے دوری بنائے رکھتے تھے, گھر میں دو بہائی تہے سیف اور کیف   جنکو اپنے دوستوں یاروں سے فرصت نہ تہی کہ بہن پر نظر رکہتے. ماں کو اپنی ایجوکیشن پر گھمنڈ تہا تو اسلام کو اپنے طور پر ڈفینس کرتی تہی کہ عالم کو بھی فتوے دیدے!
   اللہ نے یہ کب کہا ھے: کہ گھر میں قید ہوکر بیٹھے رہو! جس سے پردہ ہو کرلے اور جو نہ کرے اسکو سہولت دی ھے  یہ عالم لوگ بہی صرف ڈرانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں, 

  وقت گزرتا رہا اور وہی ہوا جسکا ڈر تہا عالیہ نے ایک غیر مذہبی لڑکے سے شادی کرلی! 
  خاندان والوں نے طعنے کسے جنکو عالیہ کے والدین ڈفینس کرتے رہے؛ ان کی نظر میں یہ اتنا برا عمل نہ تہا اس زمانے میں اسی سوسائٹی کی ضرورت ھے کہ ہر دھرم کے لوگ اس راستے سے ایک دوسرے کے قریب آیئں!

   بہر حال  وقت گزرا آج عالیہ کی شادی کی پانچویں سال گرہ تہی , آج عالیہ دنیوی لحاظ سے بہت کامیاب ترین عورت تہی شوہر کا خود کا کامیاب بجنیس تہا, جس میں 300 ایمپلائز کام کرتے تہے,
 آج شہر کے بڑے نامور حضرات اس پارٹی میں شریک تہے,  مہمانوں کا جم غفیر تہا اور عالیہ تمام مہمانوں کا خاص خیال رکھ رہی تہی,  تبہی اسکو ایک کونے میں باپردہ برقع پوش خاتون نظر آئی جو ایک دیوار کی جانب منہ کئے بیٹھے تہی,عالیہ نے بڑے غور سے دیکھا  اور پاس جاکر معلوم کیا کہ آپ نے کہانا کہایا؟
   تو خاتون نے اثبات میں سر ہلایا ۔
  عالیہ: آپ برقعہ میں کیوں بیٹھی ہیں؟ اس دم گھٹنے والے لباس سے باہر آئے ۔دیکھئے ماحول کتنا حسین ھے, ہر طرف لوگ ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل رھے ہیں, گپ شپ میں مصروف ہیں, پارٹی سے فل انجوائے لے رہے ہیں, شراب و کباب ہاتھ میں ہیں,  اور ایک آپ ہیں جو دقیانوسی لباس میں ملبوس نمونہ بنی بیٹھی ہیں 
لوگ آپ کو مذاق والی نظروں اور توہین آمیز نگاہوں سے دیکھ رھے ہیں!

   پھر کچھ سوچ کر عالیہ بولی: سمجھ گئیں تمہارے شوہر نے تمکو اس قید میں مقید کیا ہوا ھے, چلو میں آپ کو آزاد کئے دیتی ہوں. یہ کہتے ھوئے عالیہ نے اس خاتون کے چہرے سے نقاب اٹھایا تو اس کی حیرت سے چیخ نکل گئی !
   پوجا تم!? 
 پوجا : نہیں میرا نام عائشہ اسلم ھے ۔
عالیہ حیرانی سے کہنے لگی کہ تم نے مسلمان سے شادی کرلی؟
 میں تو اس مصیبت سے بہاگ آئی تہی لیکن تو کیسے پھنس گئی؟
  عائشہ: پھنسی نہیں ھوں میں بلکہ بچ گئی ہوں؛ لیکن عالیہ تم ضرور خسارے میں دکھ رہی ہو! 
   عالیہ نے کھل کھلا کر کہا : دیکھو! میرے پاس آج کیا کچھ نہیں ھے؟  یہ سوسائٹی  یہ نام و شہرت  یہ عزت یہ پیسہ 
 سارا شہر سر جہکاکر مجھے  مسیز ترپھاٹی کہہ کر بلاتا ھے۔

 عائشہ: ٹھیک ھے آج تم اس زندگی کو کامیاب کہہ رہی ہو ؛ لیکن اس کے بعد کی زندگی کا کیا ہوگا؟ جہاں سب کو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ھے, تم نے دنیوی کامیابی کے لیے اخروی کامیابی کو ٹھکرادیا ھے.
   عالیہ: ارے کون سی کامیابی؟ دیکھو میرا شوہر آج مجھ پر نہ سختی کرتا ھے تہ پردہ وغیرہ کی پابندی ھے جو کہانا پہننا یا ملنا جلنا ھے سب میں ہی طے کرتی ہوں ۔ تمہارے شوہر نے تو تمکو برقعہ کی زنجیروں میں مقید کیا ہوا ھے آخر کون ہیں تمہارے شوہر نامدار!
     عائشہ: میرے شوار تمہاری کمپنی کے سپر وائزر ہیں اور میں ان کی نظر میں ایک بیش قیمت جوہر ہوں جسے وہ چھپا کر رکھتے ہیں۔
    اور رہ مجھے پردے کے لیے مجبور نہیں کرتے یہ تو مجھے اسلام اپنانے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام ایک کوہینور کا ہیرا ھے   تم نے اس کی کوئی قدر نہ کی ۔یہ دولت مجھ فقیر کو مل گئی اور اس نے میری قدر بڑھادی۔
    اور حس حجاب کو تم قید کہہ رہی ہو تو سنو! یہ عورت کی زینت ھے, اسلام کی شہزادیوں کے لیے اللہ کا ایک عظیم انعام ھے!
    میرے رب کریم نے مجہکو باپردہ رہنے کا حکم فرمایا, میرے جسم و آواز لباس غرضیکہ ہر چیز  کا پردہ بتایا۔
  تاآنکہ میرے نام کا بھی پردہ ھے  اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فقط حضرت مریم کے کسی خاتون کا نام نہ لیا؛ بلکہ اشارہ و کنایہ میں خواتین کا ذکر فرمایا۔ مریم کا ذکر صراحتا ایک مصلحت کی بنا پر کیا ھے۔
   تم کیا سمجہتی ہو کہ حجاب میرے لیے قید اور رکاوٹ ھے؟  
   اسی حجاب میں رہ کر ام المؤمنین حضرت عائشہ رض نے ٢٢ ہزار احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کو عطا فرمایا,  رسول خدا کی دختر حضرت فاطمہ رض نے تو بعد وفات بہی حجاب ترک نہ کیا کہ جنازہ بہی باپردہ نکلا,  اور سب سے قیمتی بات دنیا کی ہر قیمتی چیز کو چھپا کر رکہا جاتا ھے ۔شمع محفل نہیں بنایا جاتا!
  جبکہ کوڑے و کباڑ کو باہر سر عام ڈال دیا جاتا ھے جسکو ہر کسی کے پاؤں روندتے جاتے ہیں,
      چلتی ہوں میرے شوہر کا فون آرہا ھے 
   عالیہ کے پاس عائشہ کی کسی بات کا جواب نہ تہا, کیونکہ جس اسلام کو وہ اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رہی تہی اسے کوئی اور لوٹ لے گیا تہا۔

   یہ تحریر پڑھنے والے عالیہ کو غلط سمجھ رہے ہونگے جبکہ اس سے بڑے گنہگار اسکے والدین ہیں ۔

Friday 15 December 2017

وضو کے بعد سورہ قدر پڑھنا مفتی عدنان قاسمی

◼وضو کے بعد سورہ قدر پڑھنا

    مجھے ایک میسیج موصول ھوا کہ فرمان مصطفی ھے: کہ جو ایک مرتبہ وضو کے بعد سورہ قدر پڑھےگا تو وہ صدیقین میں سے ھے, اور جو دو مرتبہ پڑھے گا تو شہداء میں شمار کیا جایئگا, اور جو تین مرتبہ پڑھے گا تو اللہ تعالی اسکو میدان حشر میں انبیاء کے ساتھ اٹھایئگا.

   اسکی کیا حقیقت ھے؟
➖➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   وضو کے بعد " سورہ قدر"  پڑھنے کے جو فضائل وارد ہوئے ہیں ان کی قرآن و سنت میں کوئی اصل نہیں؛ لہذا ان فضائل کو بالکل نہ مانا جائے؛ بلکہ یہ خود ساختہ اور من گھڑت ہیں, اور نہ ہی وضو کے بعد سورہ قدر پڑھی جائے۔ بلکہ جو اذکار و ادعیہ وضو کے بعد احادیث میں منقول ہیں انکو پڑھنا چاھئے.


🔵  ((من قرأ في أثر وضوئه: ﴿ إنا أنزلناه في ليلة القدر ﴾ مرة واحدة، كان من الصديقين، ومن قرأها مرتين كتب في ديوان الشهداء، ومن قرأها ثلاثًا حشره الله محشر الأنبياء)).

⭕ قال السخاوي رحمه الله : " قراءة سورة ( إنا أنزلناه ) عقيب الوضوء : لا أصل له ، وهو مفوت سنته " .

🔘 المصدر: المقاصد الحسنه
      المؤلف: السخاوي
      الصفحه: 664
      الطبع:  دار الكتاب العربي، بيروت، لبنان.

والله تعالى أعلم،
✍🏻...كتبه: *محمدعدنان وقار الصديقي*

عورت کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*🌷

🌷 *عورت کا مسنون کفن اور کفنانے کا طریقہ*🌷

سوال: عورت کا مسنون کفن بتا دیں، اور کفنانے کا طریقہ بھی تفصیل سے بتا دیجیے۔

 *الجواب حامداً و مصلیاً* 

عورت کے کفن کے لیے مسنون کپڑے 5 ہیں: 

(1)....ازار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سر سے پاؤں تک 

(2)....لفافہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ازار سے لمبائی میں 4گرہ زیادہ 

(3)....کرتہ، بغیر آستین اور بغیر کلی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گردن سے پاؤں تک 

(4)....سینہ بند۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بغل سے رانوں تک ہو تو زیادہ اچھا ہے، ورنہ ناف تک بھی درست ہے۔ اورچوڑائی میں اتنا ہو کہ باندھا جا سکے۔ 

(5)....سر بند، اسے اوڑھنی یا خمار بھی کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تین ہاتھ لمبا

مسئلہ: عورت کو پانچ کپڑوں میں کفنانا مسنون ہے، اور اگر تین کپڑوں (ازار، لفافہ و سربند) میں کفنا دیا تو یہ بھی درست ہے اور اتنا کفن بھی کافی ہے، اس سے کم کفن دینا مکروہ اور برا ہے۔ ہاں! اگر کوئی مجبوری اور لاچاری ہو تو کم بھی درست ہے۔ (بہشتی زیور)

 *کفنانے کا بیان* 

جب میّت کو غسل دے چکیں تو چارپائی بچھا کر کفن کو تین مرتبہ، پانچ مرتبہ یا سات مرتبہ لوبان وغیرہ کی دھونی دیں، پھر کفن کو چارپائی پر بچھا کر میّت کو اس چارپائی پر لٹا دیں اور ناک، کان اور منہ سے روئی جو غسل کے وقت رکھی گئی تھی اسے نکال دیں، لیکن کفن بچھانے اور میّت کو اس میں کفنانے کا طریقہ مرد و عورت کے لیے کچھ مختلف ہے، سوال کی مناسبت سے عورتوں کو کفنانے کی تفصیل لکھی جا رہی ہے۔

 *عورت کو کفنانے کا طریقہ* 

عورت کے لیے پہلے لفافہ بچھا کر اس پر سینہ بند اور اس پر ازار بچھائیں، پھر قمیص کا نچلا حصہ بچھائیں اور اوپر کا باقی حصہ سمیٹ کر سرہانے کی طرف رکھ دیں۔ پھر میت کو غسل کے تختے سے آہستگی سے اٹھا کر اس بچھے ہوئے کفن پر لِٹا دیں۔ اور قمیص کا جو نصف حصہ سرہانے کی طرف رکھا تھا اس کو سر کی طرف الٹ دیں کہ قمیص کا سوراخ (گریبان) گلے میں آجائے اور پیروں کی طرف بڑھا دیں۔ جب اس طرح قمیص پہنا دیں تو جو تہبند غسل کے بعد عورت کے بدن پر ڈالا گیا تھا وہ نکال دیں اور اس کے سر پر عطر وغیرہ کوئی خوشبو لگا دیں۔ عورت کو زعفران بھی لگا سکتے ہیں۔ پھر پیشانی، ناک، دونوں ہتھیلیوں، دونوں گھٹنوں اور دونوں پاؤں پر کافور مَل دیں۔ پھر سر کے بالوں کے دوحصے کرکے قمیص کے اوپر سینے پر ڈال دیں، ایک حصہ داہنی طرف اور دوسرا بائیں طرف، پھر سربند یعنی اوڑھنی سر پر اور بالوں پر ڈال دیں، ان کو باندھنا یا لپیٹنا نہیں چاہیے۔ 

اس کے بعد میّت کے اوپر ازار س طرح لپیٹیں کہ بایاں پلّہ (کنارہ) نیچے اور دایاں اوپر رہے، سربند اس کے اندر آجائے گا، اس کے بعد سینہ بند اس کے اندر آجائے گا۔ اس کے بعد سینہ بند سینہ کے اوپر بغلوں سے نکال کر گھٹنوں تک دائیں بائیں سے باندھیں، پھر لفافہ اس طرح لپیٹیں کہ بایاں کنارہ نیچے اور دایاں اوپر رہے۔ اس کے بعد کتر سے کفن کو سر اور پاؤں کی طرف سے باندھ دیں اور بیچ میں کمر کے نیچے کو بھی ایک بڑی دھجی نکال کر باندھ دیں، تاکہ ہلنے جلنے سے کھل نہ جائے۔(بہشتی زیور، مسافر آخرت)

مسئلہ: بعض لوگ کفن پر بھی عطر لگاتے ہیں اور عطر کی پھریری میّت کے کان میں رکھ دیتے ہیں، یہ سب جہالت ہے، جتنا شریعت میں آیا ہے اس سے زیادہ مت کریں۔ 

(احکامِ میت، 47-48، 54، مکتبۃ الحسن لاہور)

واللہ اعلم بالصواب! 

کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

(سکونِ  دل)


نماز میں رکعات کی تعداد بھول جانا

🌹نماز میں رکعات کی تعداد بھول جانا🌹


سوال: اگر کسی کوئی نماز میں رکعت بھول جاتا ھو کے دو پڑھی ہیں یا چار یہ مسئلہ اک دفعہ نہیں ھر نماز کے ساتھ ہوتا ھو۔۔ عمر بھی کافی گذر گئی ہے بوڑھا ھوگیا ہے بندہ۔۔ 
اس کے لئے کیا حکم ہے وہ کیا کرے۔ 
وہ کس طرح نماز پڑھے۔۔



الجواب حامداً و مصلیاً

اگر نماز میں شک ہو گیا کہ تین رکعتیں پڑھی ہیں یا چار، تو اگر یہ شک اتفاقا ہو گیا ہے ایسا شبہ پڑنے کی عادت نہیں ہے تو نماز دوبارہ پڑھے۔ اور اگر شک کی عادت ہے اور اکثر ایسا شبہ پڑ جاتا ہے تو دل میں سوچ کر دیکھے کہ غالب گمان کس طرف ہے؟ اگر زیادہ گمان تین رکعت پڑھنے کا ہو تو ایک رکعت اور پڑھ لے اور سجدہ سہو نہ کرے۔ اور اگر زیادہ گمان یہی ہے کہ چار رکعتیں پڑھ لی ہیں تو مزید کوئی رکعت نہ پڑھے اور سجدہ سہو بھی نہ کرے۔

اور اگر سوچنے کے بعد بھی دونوں طرف برابر خیال رہے، نہ تین رکعت کی طرف زیادہ گمان جاتا ہے اور نہ چار رکعتوں کی طرف تو تین ہی رکعتیں سمجھے اور ایک اور رکعت پڑھ لے، لیکن اس صورت میں تیسری رکعت پر بھی بیٹھ کر التحیات پڑھے، تب کھڑا ہو کر چوتھی رکعت پڑھے  اور سجدہ سہو بھی کرے۔

اگر یہ شک ہوا کہ یہ پہلی رکعت ہے یا دوسری رکعت تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر اتفاق سے یہ شک پڑا ہو تو دوبارہ پڑھے اور اگر اکثر شک پڑتا رہتا ہو تو جس طرف گمان زیادہ ہو جائے اس کو اختیار کرے۔ اور اگر دونوں طرف برابر گمان رہے، کسی طرف زیادہ نہ ہو تو ایک ہی سمجھے لیکن اس پہلی رکعت پر بیٹھ کر التحیات پڑھے۔ ممکن ہے کہ یہ دوسری رکعت ہو اور دوسری رکعت پڑھ کر پھر بیٹھے اور اس میں الحمد للہ کے ساتھ سورت بھی ملائے، پھر تیسری رکعت پڑھ کر بھی بیٹھے کیونکہ ممکن ہے کہ یہی چوتھی ہو، پھر چوتھی رکعت پڑھے اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیرے۔ 

اگر یہ شک ہوا کہ دوسری ہے یا تیسری تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ اگر دونوں گمان برابر کے ہوں تو دوسری رکعت پر بیٹھ کر تیسری رکعت پڑھے اور پھر بیٹھ کر التحیات پڑھے کہ شاید یہی چوتھی ہو، پھر چوتھی پڑھے اور سجدہ سہو کرکے سلام پھیرے۔

اگر نماز پڑھ لینے کے بعد شک ہوا کہ تین رکعتیں پڑھیں یا چار، تو اس شک کا کوئی اعتبار نہیں، نماز ہوگئی۔ البتہ اگر یقینی طور پر یاد آجائے کہ تین ہی ہوئیں تو پھر کھڑا ہو کر ایک رکعت اور پڑھ لے اور سجدہ سہو کرلے۔ 
اور اگر نماز ختم کرکے بول پڑا یا اور کوئی ایسی بات کی جس سے نماز ٹوٹ جاتی ہے تو دوبارہ نماز پڑھے۔

اسی طرح اگر التحیات پڑھ لینے کے بعد شک ہوا تو اس کا بھی یہی حکم ہے کہ جب تک ٹھیک یاد نہ آئے اس کا کوئی اعتبار نہ کرے۔ لیکن اگر کوئی احتیاطا پھر سے نماز پڑھ لے تو اچھا ہے کہ دل کی کھٹک نکل جائے اور شبہ باقی نہ رہے۔

(تسہیل بہشتی زیور:1 /331-332)


کتبہ ✍🏻راشد محمود عُفِیٙ عٙنْہ

Thursday 14 December 2017

حدیث نمبر 8

۸- امام مسلم نے ثقہ راویوں کے توسط سے حضرت ابوموسیٰ الاشعری رضى الله تعالى عنه سے یہ روایت نقل کی ہے:

کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم یُسَمِّی لَنَا نَفْسَہ أَسْمَاءَ، فَقَالَ أَنَا مُحَمَّدٌ، وأَحْمَدُ، وَالْمُقَفِّی، وَالْحَاشِرُ، وَنَبِیُّ التَّوْبَةِ، وَنَبِیُّ الرَّحْمَةِ.

رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ہمارے لئے اپنے کئی نام بیان کئے، آپ نے فرمایا: میں محمد ہوں اور احمد ہوں اور مقفی اور حاشر ہوں اور نبی التوبة اور نبی الرحمة ہوں۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۸)

حدیث نمبر 9

۹- حضرت جبیربن مطعم رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ نبی کریم علیہ الصلوٰة والتسلیم نے فرمایا:

اَنَا مُحَمَّدٌ، وَاَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِی الَّذِیْ یُمْحٰی بِیَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِیْ یُحْشَرُ النَّاسُ عَلٰی عَقِبِیْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِیْ لَیْسَ بَعْدَہ نَبِیٌّ.

میں محمد ہوں اور میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں میری وجہ سے اللہ تعالیٰ کفر کو مٹادے گا، میں حاشر ہوں لوگوں کا میرے قدموں میں حشر کیا جائے گا، اور میں عاقب ہوں، اور عاقب وہ ہوتا ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو۔ (صحیح مسلم، کتاب الفضائل، باب فی اسمائہ صلى الله عليه وسلم، حدیث:۶۱۰۵)

حدیث نمبر 10

۱۰- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا:

کَیْفَ أَنْتُمْ اِذَا نَزَلَ ابْنُ مَرْیَمَ فِیْکُمْ وَاِمَامَکُمْ مِنْکُمْ.

اس وقت تمہاری کیا شان ہوگی جب حضرت عیسیٰ عليه السلام کا نزول ہوگا اور امام تم میں سے کوئی شخص ہوگا۔ (صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان نزول عیسیٰ بن مریم حاکما بشریعة نبینا محمد صلى الله عليه وسلم، حدیث:۳۹۲)

حدیث نمبر 11

۱۱- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:

لاَتَقُوْمَ السَّاعَةُ حَتّٰی یَقْتَتِلَ فِئَتَانِ فَیَکُوْنَ بَیْنَہُمَا مَقْتَلَةٌ عَظِیْمَةٌ، دَعْوَاہُمَا وَاحِدَةٌ، وَلاَ تَقُوْمُ السَّاعَةُ حَتّٰی یُبْعَثَ دَجَّالُوْنَ کَذَّابُوْنَ قَرِیْبًا مِنْ ثَلاَثِیْنَ، کُلُّہُمْ یَزعُمُ أَنَّہ رَسُوْلُ اللّٰہ.

قیامت اُس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک دو گروہ آپس میں نہ لڑیں، دونوں میں بڑی جنگ ہوگی اور دونوں کا دعویٰ ایک ہوگا اور قیامت اس وقت تک قائم نہ ہوگی جب تک تیس کے قریب جھوٹے دجال ظاہر نہ ہولیں۔ ہر ایک یہ کہے گا میں اللہ کا رسول ہوں۔ (صحیح بخاری، کتاب المناقب، باب علامات النبوة فی الاسلام، حدیث: ۳۵۷۱)

حدیث نمبر 12

۱۲- حضرت ابوہریرہ رضى الله تعالى عنه سے روایت ہے کہ حضور خیرالانام صلى الله عليه وسلم کا ارشادِ گرامی ہے:

لَمْ یَبْقَ مِنَ النَّبُوَّةَ اِلاَّ الْمُبَشِّرَاتُ قَالُوْا، وَمَا الْمُبَشِّرَاتُ قَالَ: الرُّوٴْیَا الصَّالِحَةُ.

نبوت میں سے (میری وفات کے بعد) کچھ باقی نہ رہے گا مگر خوش خبریاں رہ جائیں گی۔ لوگوں نے عرض کیا خوشخبریاں کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا اچھے خواب۔ (صحیح بخاری، کتاب التعبیر، باب المبشرات، حدیث:۶۹۹۰)

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...