Wednesday 22 May 2019

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کے بچے

▪ *حضرت جابر کے بچے*▪

مشہور ھے کہ غزوہ خندق کے موقع پر حضرت جابر نے حضور کی دعوت کی اور حضور  صحابہ کرام کو لیکر حضرت جابر کے مکان پر پہونچے حالانکہ کہانا بہت کم تہا ؛کیونکہ دعوت فقط حضور کی تہی؛تب حضور کے معجزہ کی برکت سے وہ قلیل کہانا تمام صحابہ کو کافی ہوا اور پھر بہی جوں کا توں باقی رہا, لیکن اسی دوران یہ واقعہ پیش آیا کہ حضرت جابر کے دو لڑکے تھے اور ان میں سے بڑے نے چھوٹے کو کہا: کہ میں تجھے دکھاتا ہوں کہ بکری ذبح کیسے کیسے جاتی ھے اور اس نے چھوٹے کو ذبح کردیا یہ منظر دیکھ حضرت جابر کی اہلیہ اسکی طرف دوڑیں تو بڑا بیٹا گھبراہٹ کے مارے جیسے بھاگا تو چھت سے گر کر فوت ہوگیا۔ الغرض! حضرت جابر کی اہلیہ نے یہ بات کسی کو ظاہر نہ کی , اور دعوت وکہانے  کا انتظام کرتی رہیں اور دونوں مرحوم بچوں کو چادر اڑھا کر کمرہ میں چھپا رکھا۔  کہانا شروع ہونے سے پہلے حضرت جبریل نازل ہوئے  اور نبی کریم سے کہا: اللہ کہتا ھے کہ آپ حضرت جابر کے لڑکوں کو بہی کہانے کے لیے ساتھ بلایئں ؛ لیکن وہ تو فوت ہوچکے تھے تب حضور کو علم ہوا تو آپ نے انکو بحکم خداوندی زندہ کردیا۔

اس واقعہ کے دوسرے حصہ یعنی لڑکوں کو دوبارہ زندہ کرنے  میں کتنی صداقت ھے؟

<< *باسمہ تعالی*>>
*الجواب باسم ملھم الصواب*

 یہ واقعہ دو باتوں پر مشتمل ھے:
1) حضرت جابر کا معمولی اور قلیل کھانا صحابہ کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہوگیا

2) حضرت جابر کے دونوں لڑکوں کا دوبارہ زندہ کرنا۔

1⃣ پہلی بات یعنی حضرت جابر کے گھر بنا ہوا قلیل کہانا صحابہ کے لشکر کو کافی ہوگیا یہ واقعہ صحیح اور بالکل درست ھے یہ حضور اکرم کا معجزہ تہا جسکا ذکر بخاری سمیت دیگر کتب حدیث و تفسیر اور کتب سیرت میں موجود ھے۔

🔘 *بخاری کی حدیث*

وعن جابر: قَالَ: إِنَّا كُنَّا يَوْم  الخَنْدَقِ نَحْفِرُ، فَعَرضَتْ كُدْيَةٌ شَديدَةٌ، فجاءُوا إِلى النبيِّ ﷺ فقالوا: هَذِهِ كُدْيَةٌ عَرَضتْ في الخَنْدَقِ، فَقَالَ: أَنَا نَازِلٌ، ثُمَّ قَامَ وبَطْنُهُ مَعْصوبٌ بِحَجَرٍ، وَلَبِثْنَا ثَلاثَةَ أَيَّامٍ لا نَذُوقُ ذَوَاقًا، فَأَخَذَ النَّبِيُّ ﷺ المِعْوَل، فَضرَب؛ فَعَادَ كَثيبًا أَهْيَلَ -أَوْ: أَهْيَمَ- فقلتُ: يَا رسولَ اللَّه، ائْذَن لي إِلى البيتِ، فقلتُ لامْرَأَتي: رَأَيْتُ بِالنَّبِيِّ ﷺ شَيْئًا ما في ذلكَ صَبْرٌ، فعِنْدَكِ شَيءٌ؟ فقالت: عِندِي شَعِيرٌ وَعَنَاقٌ، فَذَبَحْتُ العَنَاقَ، وطَحَنَتِ الشَّعِيرَ، حَتَّى جَعَلْنَا اللَّحْمَ في البُرْمَة، ثُمَّ جِئْتُ النبيَّ ﷺ وَالعَجِينُ قَدِ انْكَسَرَ، والبُرْمَةُ بيْنَ الأَثَافِي قَد كَادَت تَنْضَجُ، فقلتُ: طُعَيِّمٌ لي، فَقُمْ أَنْت يَا رسولَ اللَّه وَرَجُلٌ أَوْ رَجُلانِ، قَالَ: كَمْ هُوَ؟ فَذَكَرتُ لَهُ، فَقَالَ: كثِيرٌ طَيِّبٌ، قُل لَهَا: لا تَنْزِع البُرْمَةَ ولا الخُبْزَ مِنَ التَّنُّورِ حَتَّى آتِيَ، فَقَالَ: قُومُوا، فقام المُهَاجِرُون وَالأَنْصَارُ.
فَدَخَلْتُ عليها فقلتُ: وَيْحَكِ! جَاءَ النبيُّ ﷺ وَالمُهَاجِرُونَ وَالأَنْصارُ وَمن مَعَهم! قالت: هَلْ سأَلَكَ؟ قلتُ: نَعَمْ، قَالَ: ادْخُلوا وَلا تَضَاغَطُوا، فَجَعَلَ يَكْسِرُ الخُبْزَ، وَيَجْعَلُ عليهِ اللَّحْمَ، ويُخَمِّرُ البُرْمَةَ والتَّنُّورَ إِذا أَخَذَ مِنْهُ، وَيُقَرِّبُ إِلى أَصْحَابِهِ، ثُمَّ يَنْزِعُ، فَلَمْ يَزَلْ يَكْسِرُ وَيَغْرِفُ حَتَّى شَبِعُوا، وَبَقِيَ مِنه، فَقَالَ: كُلِي هذَا وَأَهْدِي، فَإِنَّ النَّاسَ أَصَابَتْهُمْ مَجَاعَةٌ.

--- *خلاصۂ ترجمہ* ---

حضرت جابر فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں عرض کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ مجھے گھر جانے کی اجازت دیدیجیۓ، چنانچہ گھر آکر میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ایسی حالت میں دیکھا ہے کہ صبر نہ ہو سکا، تمھارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ بیوی نے کہا میرے پاس کچھ جَو ہیں اور بکری کا ایک بچہ ہے، چنانچہ میں نے بکری کا وہ بچہ ذبح کیا اور بیوی نے جَو پیسے یہاں تک کہ گوشت کو ہم نے (پکنے کیلۓ) ہانڈی میں رکھ دیا۔
پھر میں حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آٹا ٹوٹ چکا تھا (خمیر اٹھنے لگا تھا) ہانڈی چولہے پر تھی اور پکنے کے قریب تھی۔
حضرت جابرٗ نے آپکی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا:"مختصر سا کھانا ہے، آپ تشریف لے چلیں یا ایک دو آدمی آُپکے ساتھ ہوں"
آپ ﷺ نے پوچھا کتنا کھانا ہے؟
میں نے بتا دیا (اتنا ہے)
 آپ ﷺ نے فرمایا: اچھا خاصا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ جب تک میں نہ آجاؤں، بیوی سے کہہ دو کہ نہ ھانڈی چولہے سے اتارے نہ روٹیاں تنور میں لگاۓ۔
 پھر آپ ﷺ نے صحابہ میں اعلان فرمایا کہ جابر کی دعوت ہے، سب چلو۔
 اُدھر حضرت جابرٗ گھر بیوی کے پاس پہنچے اور(کم کھانا اور زیادہ مہمان آنے کی وجہ سے شرم کے مارے) کہا کہ: تیرا بھلا ہو! حضور تو مہاجرین اور انصار سب کو ساتھ لا رہے ہیں۔
 بیوی نے حضرت جابر سے پوچھا: حضور ﷺ نے تم سے کھانے کے متعلق پوچھ لیا تھا؟
انہوں نے کہا کہ ہاں پوچھ تو لیا تھا۔
 اِس سے انکو اطمینان ہوگیا کہ پھر آپ اپنے اور اللہ کے اعتماد پر لے کر آرہے ہیں۔
آپ نے صحابہ سے فرمایا"اندر چلو اور رش نہ کرو"۔
 چنانچہ آپ ﷺ روٹیاں توڑنے لگے اور اُن پر بوٹیاں رکھنے لگے، اور ہانڈی سے گوشت اور تنور سے روٹی لے کر ان کو ڈھانک دیتے تھے، اِسی طرح برابر آپ ﷺ روٹی کے ٹکڑے کرکر کے دیتے رہے اور ہانڈی میں سے چمچ بھر بھر کر لیتے رہے یہاں تک کہ سب آسودہ (شکم سیر) ہوگئے اور کھانا کچھ بچ بھی گیا، پھر آپ ﷺ نے حضرت جابر کی بیوی سے فرمایا:
"یہ تم خود بھی کھاؤ اور محلے پڑوس میں بھی ہدیہ بھیجو! اسلئے کہ لوگوں کو بھوک لاحق ہے"

بخاری: 2
صفحہ:1114
حدیث نمبر:4101
طبع: الطاف اینڈ سنز کراچی۔

♦اس واقعہ کو عام سہل اردو زبان میں " معارف القرآن" میں بہی پڑھا جاسکتا ھے,

معارف القرآن :7
صفحہ:107
سورت: احزاب
طبع:مکتبہ معارف القرآن کراچی۔

2⃣ *واقعہ کا دوسراء جزء*

 دوسری بات کہ حضرت جابر کے مرحوم لڑکوں کو حضور نے زندہ کیا اس بات کا مستند کتب میں ذکر نہیں یعنی اس بات کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا ۔

⚠ *زندہ کرنے کا ذکر*
یہ زندہ کرنیوالی بات "شواہد النبوہ" میں ملا جامی رح نے ذکر کی ھے؛ لیکن سند یا حوالہ ذکر نہیں کیا ھے۔

📓 شواہد النبوہ
نام مؤلف: عبد الرحمن جامی
صفحہ: 104
طبع: مکتبہ حقیقیہ, استنبول, ترکی

🔰 *دوسری کتاب میں ذکر*

اس واقعہ کا ذکر شواہد النبوہ کے حوالہ سے ایک اور کتاب "احوال الخمیس" میں بہی شیخ حسین دیار بکری نے بہی کیا ھے؛ لیکن خود ہی لکھا ھے کہ یہ بات مشہور نہیں ھے یعنی پایۂ ثبوت کو نہیں پہونچتی ھے۔

*تاریخ الخمیس کی عبارت*

(قصة احياء أولاد جابر)

وفى هذه السنة أو فى غيرها وقعت قصة أولاد جابر بن عبد الله الانصارى* فى شواهد النبوّة عن جابر بن عبد الله انه دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم الى القرى فأجابه النبىّ صلّى الله عليه وسلم ففرح جابر فدخل رسول الله صلّى الله عليه وسلم فجلس وكان لجابر داجن فذبحه ليشويه وكان له ابنان فقال كبيرهما للصغير هلم أورك كيف ذبح أبى الحمل فأضجع الصغير وربط يديه ورجليه فذبحه وحز رأسه وجاء به الى أمه فلما رأته أمه دهشت وبكت فخاف الصبى وهرب على السطح فتبعته أمه فزاد خوفه فرمى نفسه من السطح فهلك فسكتت المرأة وأدخلت ابنيها البيت وغطتهما بمسح فى ناحية من البيت واشتغلت بطبخ الحمل وكانت تخفى الحزن وتظهر السرور ولم يعلم جابر ما وقع فلما تمّ الطبخ وقرب الى رسول الله صلّى الله عليه وسلم أتى جبريل وقال يا محمد ان الله يأمرك أن تأكل مع أولاد جابر فقال رسول الله صلّى الله عليه وسلم ذلك لجابر فطلب جابر ابنيه فقالت امرأته انهما ليسا بحاضرين فأخبر جابر بذلك رسول الله صلّى الله عليه وسلم فقال ان الله يأمرك باحضارهما فرجع جابر الى امرأته وأخبرها بذلك فعند ذلك بكت المرأة وكشفت الغطاء عنهما فلما رآهما جابر تحير وبكى وأخبر بذلك رسول الله صلّى الله عليه وسلم فنزل جبريل وقال يا محمد ان الله يأمرك أن تدعو لهما ويقول منك الدعاء ومنا الاجابة والاحياء فدعا رسول الله صلّى الله عليه وسلم فحييا باذن الله تعالى كذا فى شواهد النبوّة *لكنها لم تشتهر اشتهارا*...

المصدر: تاریخ الخمیس فی احوال انفس نفیس
المؤلف: حسین بن محمد دیار بکری
الصفحہ:500
الطبع: مؤسسہ شعبان, بیروت,لبنان۔
🛑 *بکری کو زندہ کرنا*

اسی واقعہ کے تتمہ میں بعض کتب میں یہ واقعہ بہی بیان کیا جاتا ھے کہ حضرت جابر نے حو بکری کا بچہ دعوت کے کھانے کے لیے ذبح کیا تہا اور صحابہ کرام اسکو تناول فرمارھے تھے حضور کا حکم تہا کہ اس بکرے کی ہڈی نہ توڑی جایئں,  پھر ساری ہڈیوں کو جمع کرکے آپ نے ان پر کچھ پڑھا تو وہ بکری زندہ ہوکر اٹھ کھڑی ہوئی,  نبی پاک علیہ السلام نے اسکو معجزاتی طور پر بحکم رب دوبارہ زندہ کردیا تہا اور وہ بکری حضرت جابر کو عطا کرتے ہوئے حضور اقدس نے دعاء فرمائی : کہ اللہ اس میں برکت دے۔

✳ حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرٍ  ، إِمْلاءً وَقِرَاءَةً ، قَالَ : ثنا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ حَمَّادٍ ، قَالَ : ثنا  أَبُو بَرَّةَ مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي هَاشِمٍ مَوْلَى بَنِي هَاشِمٍ بِمَكَّةَ ، قَالَ : ثنا  أَبُو كَعْبٍ الْبَدَّاحُ بْنُ سَهْلٍ الأَنْصَارِيُّ ، عَنْ أَبِيهِ  سَهْلِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِيهِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ :  " أَتَى جَابِرُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ  رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ،  فَسَلَّمَ عَلَيْهِ ، فَرَدَّ عَلَيْهِ السَّلامَ ، قَالَ : فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُتَغَيِّرًا ، وَمَا أَحْسِبُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغَيَّرَ إِلا مِنْ جُوعٍ , فَأَتَيْتُ مَنْزِلِي ، فَقُلْتُ لِلْمَرْأَةِ : وَيْحَكِ ، لَقَدْ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ ، فَرَدَّ عَلِيَّ السَّلامَ وَوَجْهُهُ مُتَغَيِّرٌ ، وَمَا أَحْسِبُ وَجْهَهُ تَغَيَّرَ إِلا مِنَ الْجُوعِ ، فَهَلْ عِنْدَكِ مِنْ شَيْءٍ ؟ قَالَتْ : وَاللَّهِ مَا لَنَا إِلا هَذَا الدَّاجِنُ وَفَضْلَةٌ مِنْ زَادٍ نُعَلِّلُ بِهَا الصِّبْيَانَ ، فَقُلْتُ لَهَا : هَلْ لَكِ أَنْ نَذْبَحَ الدَّاجِنَ وَتَصْنَعِينَ مَا كَانَ عِنْدَكِ ، ثُمَّ نَحْمِلُهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ؟ قَالَتْ : أَفْعَلُ مِنْ ذَلِكَ مَا أَحْبَبْتَ ، قَالَ : فَذَبَحَتِ الدَّاجِنَ ، وَصَنَعَتْ مَا كَانَ عِنْدَهَا , وَطَحَنَتْ وَخَبَزَتْ , وَطَبَخَتْ ، ثُمَّ ثَرَدْنَا فِي جَفْنَةٍ لَنَا ، فَوَضَعَتِ الدَّاجِنَ ، ثُمَّ حَمَلْتُهَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَوَضَعْتُهَا بَيْنَ يَدَيْهِ ، فَقَالَ :  مَا  هَذَا يَا جَابِرُ ؟ قُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، أَتَيْتُكَ فَسَلَّمْتُ عَلَيْكَ ، فَرَأَيْتُ وَجْهَكَ مُتَغَيِّرًا ، فَظَنَنْتُ أَنَّ وَجْهَكَ لَمْ يَتَغَيَّرْ إِلا مِنَ الْجُوعِ ، فَذَبَحْتُ دَاجِنًا كَانَتْ لَنَا ثُمَّ حَمَلْتُهَا إِلَيْكَ ، قَالَ : يَا جَابِرُ ، اذْهَبْ فَاجْمَعْ لِي قَوْمَكَ ، قَالَ : فَأَتَيْتُ أَحْيَاءَ الْعَرَبِ ، فَلَمْ أَزَلْ أَجْمَعُهُمْ فَأَتَيْتُهُ بِهِمْ ، ثُمَّ دَخَلْتُ ، فَقُلْتُ : يَا رَسُولَ اللَّهِ ، هَذِهِ الأَنْصَارُ قَدْ أُجْمِعَتْ ، فَقَالَ : أَدْخِلْهُمْ عَلَيَّ أَرْسَالا ، فَأَدْخَلْتُهُمْ عَلَيْهِ أَرْسَالا ، فَكَانُوا يَأْكُلُونَ مِنْهَا ، فَإِذَا شَبِعَ قَوْمٌ خَرَجُوا وَدَخَلَ آخَرُونَ ، حَتَّى أَكَلُوا جَمِيعًا ، وَفَضَلَ فِي الْجَفْنَةِ شَبِيهُ مَا كَانَ فِيهَا ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ : كُلُوا وَلا تَكْسِرُوا عَظْمًا ، ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمَعَ الْعِظَامَ فِي وَسَطِ الْجَفْنَةِ ، فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهَا ثُمَّ تَكَلَّمَ بِكَلامٍ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلا أَنِّي أَرَى شَفَتَيْهِ تَتَحَرَّكَانِ ، فَإِذَا الشَّاةُ قَدْ قَامَتْ تَنْفُضُ أُذُنَيْهَا ، فَقَالَ لِي : خُذْ شَاتَكَ يَا جَابِرُ ، بَارَكَ اللَّهُ فِيهَا ، فَأَخَذْتُهَا وَمَضَيْتُ , وَإِنَّهَا لَتُنَازِعُنِي أُذُنَهَا ، حَتَّى أَتَيْتُ بِهَا الْبَيْتَ ، فَقَالَتْ لِيَ الْمَرْأَةُ : مَا هَذِهِ يَا جَابِرُ ؟ قُلْتُ : وَاللَّهِ شَاتُنَا الَّتِي ذَبَحْنَاهَا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، دَعَا اللَّهَ فَأَحْيَاهَا ، قَالَتْ : أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ، أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ ، أَنَا أَشْهَدُ أَنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ "  .



 ▫المصدر: دلائل النبوة
      المؤلف:ابونعیم
      الصفحہ:615
      الرقم: 560
      الفصل: 30
      الطبع:دار النفائس, بیروت لبنان


🔅  *اس بات کی تحقیق*

 یہ بکری کو زندہ کرنیوالی بات بھی غیر مستند ھے؛ کیونکہ علامہ قسطلانی نے " مواہب" میں اسکی صحت سے لاعلمی کا اظہار کیا ھے:

✴ وأخرج أبو نعيم: أن جابرًا ذبح شاة وطبخها، وثرد في جفنة، وأتى به رسول الله صلى الله عليه وسلم فأكل القوم، وكان صلى الله عليه وسلم يقول لهم: "كلوا ولا تكسروا عظمًا"، ثم إنه عليه الصلاة والسلام جمع العظام ووضع يده عليها ثم تكلم بكلام فإذا بالشاة قد قامت تنفض أذنيها، كذا رواه *والله أعلم*؟!

المصدر: المواھب اللدنیہ
المؤلف: احمد القسطلانی
المجلد:2
الصفحہ:578
الطبع: المکتب الاسلامی بیروت۔

🔴 *زرقانی کے حوالے سے*

 اسی طرح زرقانی نے  شرح مواہب میں اسی بات کی صراحت کی ھے کہ مذکورہ بالا واقعہ کی سچائی و صداقت بس اللہ کو معلوم ھے یعنی ہمکو اسکی صحت کا علم نہیں؛ کیونکہ مستند مراجع و مصادر اس واقعہ کے بیان سے ساکت ہیں۔   بس معلوم ہوا کہ یہ واقعہ قابل بیان نہیں ھے۔

💡"وأخرج أبو نعيم: أن جابرًا" هو ابن عبد الله، "ذبح شاة وطبخها، وثرد" فت الخبز "في جفنة" ووضع عليه الشاة، "وأتى به رسول الله صلى الله عليه وسلم، فأكل القوم" الذين عنده معه، وكان صلى الله عليه وسلم يقول لهم: "كلوا ولا تكسروا عظمًا"، ثم إنه عليه الصلاة والسلام جمع العظام في وسط الجفنة، "ووضع يده عليها، ثم تكلم بكلام" قال جابر: لم أسمعه، "فإذا الشاة قد قامت تنفض أذنيها" فقال: "خذ شاتك يا جابر، بارك الله لك فيها"، فأخذتها ومضيت، وإنها لتنازعني أذنها حتى أتيت بها المنزل، فقالت المرأة: ما هذا يا جابر؟ قلت: والله هذه شاتنا التي ذبحناها لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فأحياها، فقالت: أشهد أنه رسول الله، "كذا رواه" أبو نعيم، "فالله أعلم" بصحته، وكذا رواه الحافظ محمد بن المنذر، والمعروف بشكر في كتاب العجائب والغرائب.

المصدر: شرح زرقانی علی المواھب
المؤلف: الزرقانی
المجلد:7
الصفحہ: 66
الطبع: دار الکتب العلمیہ, بیروت لبنان۔



__ *حاصلِ کلام* __
معتبر واقعہ فقط دعوت کا ھے جس میں مختصر سا کہانا بطور معجزے کے تمام صحابہ کو کفایت کرگیا؛ لیکن بقیہ دو باتیں یعنی حضرت جابر کے بیٹوں کو زندہ کرنا اور بکری کو زندہ کرنا ثابت نہیں ؛ لہذا ایسی بات کو بیان و نشر نہ کیا جائے۔ جتنا مستند و ثابت ھے اسی کو بیان کیا جائے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*
21/05/2019

3 comments:

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...