Thursday 30 November 2017

آہ! اے عقبی کے راہی مولانا مفتی محمد عبدﷲ پھولپوری

••• *آہ! اے عقبی کے راہی*•••






   __________________

✍🏻...《محمد عدنان وقار صدیقی》

——————————

    آج ۱۰/۳/۱۴۳۹ھ مطابق  ۳۰/۱۱/۲۰۱۷ بروز پنجشنبہ  سپیدئ سحر کے نمودار ہونے سے ہی فضا اداس تھی, سردی اپنے معمول پر ہی تھی, آفتاب کی شعائیں نمودار ہوئیں لیکن منظر غروب کا دکھا رہی تہیں, طبیعتیں بوجھل تہیں, صبح کی خوشگواری مانو کسی نے سمیٹ اور لپیٹ کر کہیں رکھدی تہیں,
   باد نسیم کا سہانا احساس آج محسوس  ہی نہیں تہا, فلک کا منہ بھی اترا ہوا تہا, عجیب سراسیمی طاری تہی, اگر چہ آسمان باوجود موسم سرما کے بادلوں کی چادر اوڑھے ھوئے نہ تہا؛ لیکن اداسی کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ضرور تہا, دل و ذھن اس پر اسرار اور گھٹے گھٹے منظر کو دیکھ کر کچھ بے چینی محسوس کر رہے تہے کہ خدایا! یہ موسم کو کیا ھوا کہ ابہی تو نومبر کا آخری دن ھے لیکن ماہ دسمبر کے وسط کا نقشہ کیوں عیاں ھے؟
   پھولوں کی نوخیز کلیاں جو ابہی چٹخنے کو ہی تھیں نہ معلوم کیوں سبز پتوں کے لحاف میں چھپ رہی تہیں, جیسے کسی انجانے خوف کا خطرہ لاحق ہو, سبزہ زار پر بکھری شبنم اور اسکی بوندیں جو مانند در شہوار  صبح صادق کی روشنی میں جگمگاتی تہیں آج کسی آنسوں کا عکس بنی ہوئی تہیں, کہیتوں کی پگڈنڈیوں پر ٹہلنے کا مزہ بد مزہ لگ رہا تہا, نہروں و تالابوں میں روز مرہ کی طرح تیرتی بطخیں بد دلی سے پانی کی سطح پر نظر آرہی تہیں گویا کسی ملازم کو زبردستی کسی کام پر مامور کردیا ہو اور وہ اسکو حرز جاں سمجھ کر بے شوقی سے سر انجام دے رہا ہو,
      جام و سبو اور صراحی سبھی تو تہے لیکن مے میں  ذائقہ اور مستی نام كو بهي نه تهي.
    ان تمام تر تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان بے چینیوں کو دل میں دباتے ھوئے, کائنات کے ہر ذرے کی پژمردگئ کو نظر انداز کرتے ھوئے روز مرہ کے معمول نپٹانے کی خاطر  معمولات میں مشغول ہوا جانے لگا, لیکن چھٹی حس کہہ رہی تہی کہ کوئی انہونی ضرور ہونے کو ھے-

   ابھی چند ساعات ہی گزرے تہے کہ بیداری میں دیکھے گئے  اس خوفناک خواب کی تعبیر ایک دل دوز اور اندوہناک خبر کی شکل میں پردۂ سماعت سے ٹکرائی, کہ 【محی السنہ, نواسہ ٔ حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری جناب الحاج حضرت ★مولانا مفتی محمد عبدﷲ پھولپوری★ خلیفۂ اجل حضرت محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب رح】 اس دار فانی سے دار بقاء کی جانب منبع وحی, مولد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ, النور ہسپتال میں دوران علاج کوچ فرماگئے ہیں,  سنتے ہی لگاکہ کانوں میں سیسہ گھل گیا ہو, بدن میں سن سا پڑگیا, زبان گنگ ہوکر رہ گئی, نگاہ کے سامنے اندھیرا سا چاگیا, دل کی دھڑکن معمول سے ھٹ گئ, قدرے مدت اس کیفیت سے دوچاری رہی تب کچھ وادی ہوش کی جانب واپسی ہوئی, 
       
  حضرت مرحوم علم و عمل کے چراغ, تزکیہ نفوس کے ماہر طبیب, تصوف کے امام, ماہر شریعت, دلوں کو اپنی پر اثر مواعظ سے جلاء و تازگی بخشنے والے, بے راہ روں کو راہ راست پر لانے والے, قلوب کو انابت الی ﷲ کی روشنی دکھانیوالے, سنتوں کا احیاء اور دین کی تجدید کرنیوالے, بلا گفتار من موہنے والے, جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے ایسے ﷲ والے, صاحب نسبت اور اکابرین و اہل ﷲ کی صحبت اٹھانے والے, اور ان سے اکتساب فیض کرنیوالے, پھر ہم ایسے بھولے بسرے یاد خدا سے غافل لوگوں کو یاد حق کرانیوالے, گناہوں کی شناعت اور سنتوں کی محبت دلوں میں جاگزیں کرنے والے تہے, 
   حضرت روشن چہرہ, شگفتہ رو, متبسم ہونٹ والےتہے, فقراء ومساکین کے ساتھ حسن و سلوک برتتے تہے, علماء و طلبہ اور اہل تعلق حضرات کا بہت زیادہ پاس و لحاظ فرماتے, آپ پاک دامن, نظافت پسند تہے, شریفانہ عادت و اطوار, اور عمدہ اخلاق و کردار کے مالک تہے, انہیں فکر فقط یہ تہی کہ انکے ساتھ ساتھ دیگراں کا بھی رشتہ خدا سے مضبوط ہو, بندگان خدا کو اپنی تمام چیزوں: مال و زر, علم و فضل, صلاح و تقوی, مواعظ و نصائح اور تربیت و اصلاح سے نفع پہونچایا۔ آپ بلا استثنا سبھوں کے نزدیک محبوب تہے, آپ کی مجلس علم و ذکر کی مجلس ہوتی تھی۔

*میں نے پایا ھے اسے اشکِ سحر گاہی میں*
*جس درِ نایاب سے خالی ھے صدف کی آغوش*
  
   آج وہ بھی ہم سے رخصت ہوگئے اور جاوداں ہوگئے, کس کو پتہ تہا کہ اس رواں سال (عام الحزن) اعیانِ عالَم کے اسی قافلے کے شریک ہیں جو قافلہ اس دنیا کی عظیم علمی و عملی شخصیات و ہستیوں کو ایک ایک کرکے چن چن کر راہیٔ ملک بقاء ھے,

٭ رفتيد ولے نه از دل ما٭

میرا ایمان ھے کہ دل فگاری کی اس کیفیت سے عالم اسلام میں عموما اور بر صغیر میں خصوصا وہ ہزاروں علماء دوچار ہوئے ھونگے جنہیں ان سے للہیت اور ان کے غیر معمولی علم و فضل کی وجہ سے اسی طرح عقیدت تہی جیسی عہد قریب کے بر صغیر کے خدا رسیدہ و محبت چسیدہ علمائے عالی مقام و مشایخ ذی احترام سے۔

*عجب قیامت کا حادثہ ھے کہ اشک ہیں آستین نہیں*
*زمیں کی رونق اجڑ گئی افق پے مہر مبیں نہیں*

*تری جدائی پے مرنے والے وہ کون ہیں جو حزیں نہیں*
*مگر تری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابہی تک یقیں نہیں*

  ابھی ماضی قریب بلکہ ایام قریبہ میں لگے زخم مندمل نہ ہوسکے تہے, ابھی یاد اکابر و مرشدین تازی تہی, ابہی شاخ غم ہری ہی تہی, جگر کی آگ ابہی چنگاری ہی بنی تہی کہ ایک اور زخم تازہ قلب پر لگا, یاد مسلسل کا ایک تسلسل پھر شروع ہوگیا, آنکھیں اشکبار پھر ہوگئیں, جگر کی چنگاری پھر بھڑکتی آگ بن گئی, خوشیاں پھر چھنٹ گئیں, مسکراہٹیں پھر غائب ہوگئیں, لبوں پر پھر سکوت کا پہرہ لگ گیا, اذھان و افکار ایک بار پھر غم کی وادی میں چلے گئے, دنیا پھر یتیم سی ہوگئی, اور اس موت نے پھر گوہر نایاب چن لیا, جسم  فقط افسوس و حسرتوں کی آماجگاہ بن چکا, وہ تو دار السرور کو سدھارگئے لیکن دنیا کو دار الحزن بناگئے, 

*یہ پیر کلیسا کی کرامت ھے کہ اس نے*
*بجلی کے چراغوں سے منور کیے ہیں افکار*

       اسی غم و حزن کی ملی جلی کیفیت میں *جامعہ عربیہ دار العلوم رحیمیہ اکبراباد ضلع بجنور صوبہ یوپی* میں وفات کی خبر سن کر مجلس ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی مجلس کا انعقاد عمل میں آیا, جامعہ کے اساتذہ کرام و طلبۂ عظام نے قرآن خوانی کی, اور حضرت کی مقدس روح جو عند ﷲ راضیہ مرضیہ , اور عند الناس نفس مطمئنہ  تہی کو اسکا ثواب پہونچایا, 
    اللہ حضرت کی مغفرت فرماکر ان کی علمی و عملی ملی و قومی اصلاحی و ارشادی غرضیکہ تمام تر خدمات جلیلہ کاانکی شایان شان بدلہ و اجر عطا فرمائے, اور پسماندگان و متوسلین کو صبر جمیل سے نوازے, 

*فروغِ شمع جو اب ھے رہیگی رہتی دنیا تک*
*مگر محفل تو پروانوں سے خالی؛ہوتی جاتی ھے*
____________________

📝ناشر: جامعہ عربیہ دارالعلوم رحیمیہ،قصبہ: اکبرآباد، ضلع:بجنور، صوبہ: یوپی، الہند.

Wednesday 29 November 2017

کافر مرزا قادیانی لعنتی کے بکواس جھوٹ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے

*مرزا مسرور اور تمام قادیانیوں کے لیے*😎


ایک سادہ سا سوال: 

مرزا قادیانی .... حضرت عیسی' علیہ السلام کے حوالے سے کہتا ھے : 

*نقل کفر کفر ناشد* ناقل 


کہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی قبر یروشلم میں ھے 

(روحانی خزائن جلد 8 ص: 299)

پھر ایک جگہ مرزا قادیانی کہتا ھے کہ : 

حضرت عیسی' علیہ السلام کی قبر کشمیر سری نگر محلہ خان یار میں ھے . 

(روحانی خزائن جلد 14 ص: 172 )


پھر ایک اور جگہ مرزا قادیانی لکھتا ھے کہ : 

حضرت عیسی' علیہ السلام کی قبر بلاد شام میں ھے . 

(روحانی خزائن جلد 8 ص 296 )

مرزا قادیانی ایک جگہ پھر قلابازی لگاتے ھوۓ لکھتا ھے کہ: 
حضرت عیسی' علیہ السلام اپنے وطن گلیل میں جاکر فوت ھوگۓ 

(روحانی خزائن جلد 3 ص: 353)

*کیا کوئ قادیانی مرزائ یہ بتاۓ گا .کہ ایک نبی اللہ حضرت عیسی' علیہ السلام کی چار جگہ قبر کیسے ممکن ھے . ? یعنی اس میں مرزا قادیانی کی کونسی بات صحیح ھے . اگر اس میں سے مرزا قادیانی کی کسی ایک بات کو فرض کے درجے میں مان لیا جاۓ . تو اس کا مطلب ھےکہ . قبر کی  باقی جگہوں کے لیے مرزا قادیانی نے جھوٹ بولا ھے . تو کیا کوئ جھوٹا شخص نبی بننے یا مانے جانے کے لائق ھو سکتا ھے .?* 

کیا کوئ قادیانی مرزائ اس سوال کا جواب دینا چاہیے گا . 


خالد محمود ... کراچی

*معلومات ختم نبوت

*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
*معلومات ختم نبوت*

*سید نسیم اللہ شاہ *

*ختم نبوت* 
*سوال : ۱ :*
*ختم نبوت کا معنی اور مطلب اور اس کی اہمیت، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اطہر کے ساتھ اس منصب کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان کریں؟*

*جواب** : 
*ختم نبوت کا معنی اور مطلب:*

*اللہ رب العزت نے نبوت کی ابتدأ سیدنا آدم علیہ السلام سے فرمائی اور اس کی انتہا محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس پر فرمائی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نبوت ختم ہوگئی۔ آپؐ آخرالانبیأ ہیں، آپؐ کے بعد کسی کو نبی نہ بنایا جائے گا۔ اس عقیدہ کو شریعت کی اصطلاح میں عقیدئہ ختم نبوت کہا جاتا ہے*۔

*عقیدئہ ختم نبوت کی اہمیت:*

*ختم نبوت کا عقیدہ ان اجماعی عقائد میں سے ہے، جو اسلام کے اصول اور ضروریات دین میں شمار کئے گئے ہیں، اور عہد نبوت سے لے کر اس وقت تک ہر مسلمان کا اس پر ایمان رکھتا آیا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بلا کسی تاویل اور تخصیص کے خاتم النبیین ہیں*۔

*الف: … قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ*

*ب : … رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ (دو سو دس احادیث مبارکہ) سے یہ مسئلہ ثابت ہے*۔

*ج: … آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا سب سے پہلا اجماع اسی مسئلہ پر منعقد ہوا، چنانچہ امام العصر حضرت مولانا سید محمد انور شاہ کشمیری ؒ اپنی آخری کتاب ’’خاتم النبیین‘‘ میں تحریر فرماتے ہیں*:

*’’و اوّل اجماعے کہ دریں امت منعقد شدہ اجماع بر قتل مسیلمہ کذاب بودہ کہ بسبب دعوئ نبوت بود، شنائع دگروے صحابہؓ رابعد قتل وے معلوم شدہ، چنانکہ ابن خلدون آوردہ سپس اجماع بلا فصل قرناً بعد قرنٍ برکفر و ارتداد و قتل مدعی نبوت ماندہ و ہیچ تفصیلے از بحث نبوت تشریعیہ و غیر تشریعیہ نبودہ۔‘‘*

*ترجمہ:*

*’’اور سب سے پہلا اجماع جو اس امت میں منعقد ہوا وہ مسیلمہ کذاب کے قتل پر اجماع تھا، جس کا سبب صرف اس کا دعویٰ نبوت تھا، اس کی دیگر گھنائونی حرکات کا علم صحابہ کرامؓ کو اس کے قتل کے بعد ہوا تھا، جیسا کہ ابن خلدونؒ نے نقل کیا ہے، اس کے بعد قرناً بعد قرنٍ مدعی نبوت کے کفر و ارتداد پر ہمیشہ اجماع بلافصل رہا ہے، اور نبوت تشریعیہ یا غیر تشریعیہ کی کوئی تفصیل کبھی زیر بحث نہیں آئی۔‘‘ (خاتم النبیین ص :۶۷، ترجمہ ص :۱۹۷)*

*حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلویؒ نے اپنی تصنیف ’’مسک الختام فی ختم نبوت سیدالانامؐ‘‘ میں تحریر فرمایا ہے کہ:*

*’’امت محمدیہ ؐمیں سب سے پہلا اجماع جو ہوا، وہ اسی مسئلہ پر ہوا کہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے۔‘‘ (احتساب قادیانیت ج:۲، ص:۱۰)*

*آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ حیات میں اسلام کے تحفظ و دفاع کے لئے جتنی جنگیں لڑی گئیں، ان میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی کل تعداد ۲۵۹ ہے۔ (رحمۃ للعالمین ج :۲، ص:۲۱۳ قاضی سلمان منصور پوریؒ) اور عقیدئہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لئے اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہؓ اور تابعینؒ کی تعداد بارہ سو ہے*۔ 
(ختم نبوت کامل ص:۳۰۴ حصہ سوم از مفتی محمد شفیعؒ)

*رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ حضرات صحابہ کرامؓ ہیں، جن کی بڑی تعداد اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے جام شہادت نوش کرگئی۔ اس سے ختم نبوت کے عقیدہ کی عظمت کا اندازہ ہوسکتا ہے۔ انہی حضرات صحابہ کرامؓ میں سے ایک صحابی حضرت حبیب بن زید انصاری خزرجیؓ کی شہادت کا واقعہ ملاحظہ ہو*:

*’’حبیب بن زید … الانصاری الخزرجی … ھوالذی ارسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الی مسیلمۃن الکذاب الحنفی صاحب الیمامہ فکان مسیلمۃ اذا قال لہ اتشھد ان محمد ا رسول اللہ قال نعم واذا قال اتشھد انی رسول اللہ قال انا اصم لا اسمع ففعل ذلک مرارا فقطعہ مسیلمۃ عضوا عضوا فمات شہیدا۔‘‘*
(اسدالغابہ فی معرفۃ الصحابہ ج:۱،ص:۴۲۱ طبع بیروت)

*ترجمہ:*

*’’حضرت حبیب بن زید انصاریؓ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یمامہ کے قبیلہ بنو حنیفہ کے مسیلمہ کذاب کی طرف بھیجا، مسیلمہ کذاب نے حضرت حبیبؓ کو کہا کہ کیا تم گواہی دیتے ہو کہ محمد اللہ کے رسول ہیں؟ حضرت حبیبؓ نے فرمایا ہاں، مسیلمہ نے کہا کہ کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ میں (مسیلمہ) بھی اللہ کا رسول ہوں؟ حضرت حبیبؓ نے جواب میں فرمایا کہ میں بہرا ہوں تیری یہ بات نہیں سن سکتا، مسیلمہ بار بار سوال کرتا رہا، وہ یہی جواب دیتے رہے اور مسیلمہ ان کا ایک ایک عضو کاٹتا رہا حتی کہ حبیبؓ بن زید کی جان کے ٹکڑے ٹکڑے کرکے ان کو شہید کردیا گیا۔‘‘*

*اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرات صحابہ کرامؓ مسئلہ ختم نبوت کی عظمت و اہمیت سے کس طرح والہانہ تعلق رکھتے تھے، اب حضرات تابعینؓ میں سے ایک تابعیؓ کا واقعہ بھی ملاحظہ ہو: ’’حضرت ابو مسلم خولانیؓ جن کا نام عبداللہ بن ثوبؓ ہے اور یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا السلام) کے وہ جلیل القدر بزرگ ہیں جن کے لئے اللہ تعالیٰ نے آگ کو اسی طرح بے اثر فرمادیا جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئے بے اثر فرمایا تھا* 

* *

1974 میں، قادیانی کے خلاف فیصلہ

1974 میں___

جب قومی اسمبلی میں فیصلہ ہوا کہ قادیانیت کو موقع دیا جائے کہ وہ اپنا موقف اور دلائل دینے قومی اسمبلی میں آئیں تو۔۔۔
مرزا ناصر قادیانی سفید شلوار کرتے میں ملبوس طرے دار پگڑی باندھ کر آیا۔متشرع سفید داڑهی۔قرآن کی آیتیں بهی پڑھ رہے تهے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا اسم مبارک زبان پر لاتے تو پورے ادب کے ساتھ درودشریف بهی پڑہتے۔ مفتی محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایسے میں ارکان اسمبلی کہ ذہنوں کو تبدیل کرنا کوئی آسان کام نہیں تها۔ماہ نامہ ”الحق اکوڑہ خٹک“ کے شمارہ جنوری 1975 کے صفحہ نمبر 41 پر بیان فرماتے ہیں۔۔۔ 
”یہ مسلہ بہت بڑا اور مشکل تها“ 
اللہ کی شان کہ پورے ایوان کی طرف سے مفتی محمود صاحب کو ایوان کی ترجمانی کا شرف ملا اور مفتی صاحب نے راتوں کو جاگ جاگ کر مرزا غلام قادیانی کی کتابوں کا مطالعہ کیا۔حوالے نوٹ کیئے۔سوالات ترتیب دیئے۔ اسی کا نتیجہ تها کہ مرزا طاہرقادیانی کے طویل بیان کے بعد جرح کا جب آغاز ہوا تو اسی ”الحق رسالے“ میں مفتی محمود صاحب فرماتے ہیں کہ 
”ہمارا کام پہلے ہی دن بن گیا“
اب سوالات مفتی صاحب کی طرف سے اور جوابات مرزا طاہر قادیانی کی طرف سے آپ کی خدمت میں۔۔۔۔
__________________________
سوال۔مرزا غلام احمد کے بارے میں آپ کا کیا عقیدہ ہے؟
جواب۔وہ امتی نبی تهے۔امتی نبی کا معنی یہ ہے کہ امت محمدیہ کا فرد جو آپ کے کامل اتباع کی وجہ سے نبوت کا مقام حاصل کر لے۔
سوال۔اس پر وحی آتی تهی؟
جواب۔آتی تهی۔
سوال۔ (اس میں) خطا کا کوئی احتمال؟
جواب۔بالکل نہیں۔
سوال۔مرزا قادیانی نے لکها ہے جو شخص مجھ پر ایمان نہیں لاتا“ خواہ اس کو میرا نام نہ پہنچا ہو (وہ) کافر ہے۔پکا کافر۔دائرہ اسلام سے خارج ہے۔اس عبارت سے تو ستر کروڑ مسلمان سب کافر ہیں؟
جواب ۔کافر تو ہیں۔لیکن چهوٹے کافر ہیں“جیسا کہ امام بخاری نے اپنے صحیح میں ”کفردون کفر“ کی روایت درج کی ہے۔
سوال۔آگے مرزا نے لکها ہے۔پکا کافر؟
جواب۔اس کا مطلب ہے اپنے کفر میں پکے ہیں۔
سوال۔آگے لکها ہے دائرہ اسلام سے خارج ہے۔حالانکہ چهوٹا کفر ملت سے خارج ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے؟
جواب۔دراصل دائرہ اسلام کے کئیں کٹیگیریاں ہیں۔اگر بعض سے نکلا ہے تو بعض سے نہیں نکلا ہے۔
سوال ایک جگہ اس نے لکها ہے کہ جہنمی بهی ہیں؟

(یہاں مفتی صاحب فرماتے ہیں جب قوی اسمبلی کے ممبران نے جب یہ سنا تو سب کے کان کهڑے ہوگئے کہ اچها ہم جہنمی ہیں اس سے ممبروں کو دهچکا لگا)

اسی موقع پر دوسرا سوال کیا کہ مرزا قادیانی سے پہلے کوئی نبی آیا ہے جو امتی نبی ہو؟ کیا صدیق اکبر ؓ یا حضرت عمر فاروق ؓ امتی نبی تهے؟
جواب۔ نہیں تھے۔
اس جواب پر  مفتی صاحب نے کہا پهرتو مرزا قادیانی کے مرنے کے بعد آپ کا ہمارا عقیدہ ایک ہوگیا۔بس فرق یہ ہے کہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہیں۔تم مرزا غلام قادیانی کے بعد نبوت ختم سمجهتے ہو۔تو گویا تمہارا خاتم النبیین مرزا غلام قادیانی ہے۔اور ہمارے خاتم النبیین نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
جواب۔وہ فنا فی الرسول تهے۔یہ ان کا اپنا کمال تها۔وہ عین محمد ہوگئے تهے (معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی اس سے زیادہ توہین کیا ہوسکتی تهی )
سوال۔مرزا غلام قادیانی نے اپنے کتابوں کے بارے میں لکها ہے۔اسے ہر مسلم محبت و مودت کی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے۔اور ان  کے معارف سے نفع اٹهاتا ہے۔ مجهے قبول کرتا ہے۔اور(میرے) دعوے کی تصدیق کرتا ہے۔مگر (ذزیتہ البغایا ) بدکار عورتوں کی اولاد وہ لوگ جن کے دلوں پر اللہ نے مہر لگا رکهی ہے۔وہ مجهے قبول نہیں کرتے۔؟
جواب۔بغایا کہ معنی سرکشوں کے ہیں۔
سوال۔بغایا کا لفظ قرآن پاک میں آیا ہے” و ما کانت امک بغیا“   سورہ مریم ) ترجمہ ہے تیری ماں بدکارہ نہ تهی“
جواب۔قرآن میں بغیا ہے۔بغایا نہیں۔
اس جواب پر مفتی صاحب نے فرمایا کہ صرف مفرد اور جمع کا فرق ہے۔نیز جامع ترمذی شریف میں اس مفہوم میں لفظ بغایا بهی مذکور ہے یعنی ”البغایا للاتی ینکحن انفسهن بغیر بینه“ )پھر جوش سےکہا) میں تمہیں چیلنج کرتا ہوں کہ تم اس لفظ بغیه کا استعمال اس معنی (بدکارہ) کے علاوہ کسی دوسرے معنی میں ہر گز نہیں کر کے دکها سکتے۔!!!
(اور مرزا طاہر لاجواب ہوا یہاں )
13 دن کے سوال جواب کے بعد جب فیصلہ کی گهڑی آئی تو 22 اگست1974 کو اپوزیشن کی طرف سے 6 افراد پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی۔جن میں مفتی محمود صاحب“ مولانا شاہ احمدنورانی صاحب“پروفیسر غفور احمد صاحب“چودہری ظہور الہی صاحب“مسٹر غلام فاروق صاحب“سردار مولا بخش سومرو صاحب اور حکومت کی طرف سے وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ صاحب تهے۔ان کے ذمہ یہ کام لگایا گیا کہ یہ آئینی و قانون طور پر اس کا حل نکالیں۔تاکہ آئین پاکستان میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ان کے کفر کو درج کردیا جائے۔لیکن اس موقع پر  ایک اور مناظرہ  منتظر تها۔۔۔۔۔

کفرِ قادیانیت و لاہوری گروپ پر قومی اسمبلی میں جرح تیرہ روز تک جاری رہی۔گیارہ دن ربوہ گروپ پر اور دو دن لاہوری گروپ پر۔ہرروز آٹھ گھنٹے جرح ہوئی۔اس طویل جرح و تنقید نے قادیانیت کے بھیانک چہرے کو بےنقاب کر کے رکھ دیا۔ اس کے بعد ایک اور مناظرہ ذولفقار علی بھٹو کی حکومت سے شروع ہوا کہ آئین پاکستان میں اس مقدمہ کا ”حاصل مغز “کیسے لکھا جائے۔؟
مسلسل بحث مباحثہ کے بعد۔۔۔۔۔۔
__________________________
22 اگست سے 5 ستمبر 1974 کی شام تک اس کمیٹی کے بہت سے اجلاس ہوئے۔مگر متفقہ حل کی صورت گری ممکن نہ ہوسکی۔سب سے زیادہ جهگڑا دفعہ 106 میں ترمیم کے مسلے پر ہوا۔حکومت چاہتی تھی اس میں ترمیم نہ ہو۔اس دفعہ 106 کے تحت صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم اقلیتوں کو نمائندگی دی گئی تهی۔ ایک بلوچستان میں۔ایک سرحد میں۔ایک دو سندھ میں اور پنجاب میں تین سیٹیں اور کچھ 6 اقلیتوں کے نام بهی لکهے ہیں۔عیسائی۔ہندو پارسی۔بدھ اور شیڈول کاسٹ یعنی اچهوت۔
مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان یہ چاہتے تهے کہ ان 6 کی قطار میں قادیانیوں کو بهی شامل کیا جائے۔تاکہ کوئی "شبہ" باقی نہ رہے۔
اس کے لیے بهٹو حکومت تیار نہ تهی۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے کہا اس بات کو رہنے دو۔
مفتی محمود صاحب نے کہا جب اور اقلیتوں اور فرقوں کے نام فہرست میں شامل ہیں تو ان کا نام بهی لکھ دیں۔
پیرزادہ نے جواب دیا کہ ان اقلیتوں کا خود کا مطالبہ تها کہ ہمارا نام لکھا جائے۔ جب کہ مرزائیوں کی یہ ڈیمانڈ نہیں ہے۔
مفتی صاحب نے کہا کہ یہ تو تمہاری تنگ نظری اور ہماری فراخ دلی کا ثبوت ہے کہ ہم ان مرزائیوں کو بغیر ان کی ڈیمانڈ کے انہیں دے رہے ہیں  (کمال کا جواب )
اس بحث مباحثہ کا 5 ستمبر کی شام تک کمیٹی کوئی  فیصلہ ہی نہ کرسکی۔چنانچہ 6 ستمبر کو وزیراعظم بهٹو نے مفتی محمود سمیت پوری کمیٹی کے ارکان کو پرائم منسٹر ہاوس بلایا۔لیکن یہاں بهی بحث و مباحثہ کا نتیجہ صفر نکلا۔حکومت کی کوشش تهی کہ دفعہ 106 میں ترمیم کا مسلہ رہنے دیا جائے۔
جب کہ مفتی محمود صاحب اور دیگر کمیٹی کے ارکان سمجهتے تهے کہ اس کے بغیر حل ادهورا رہے گا۔
بڑے بحث و مباحثہ کے بعد بهٹو صاحب نے کہا کہ میں سوچوں گا۔
عصر کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا۔وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ نے مفتی صاحب اور دیگر کمیٹی ارکان کو اسپیکر کے کمرے میں بلایا۔ مفتی محمود صاحب اور کمیٹی نے وہاں بهی اپنے اسی موقف کو دهرایا کہ دفعہ 106 میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ مرزائیوں کا نام لکها اور اس کی تصریح کی جائے۔
اور بریکٹ میں قادیانی اور لاہوری گروپ لکها جائے۔
پیرزادہ صاحب نے کہا کہ وہ اپنے آپ کو مرزائی نہیں کہتے، احمدی کہتے ہیں۔
مفتی محمود صاحب نے کہا کہ احمدی تو ہم ہیں۔ہم ان کو احمدی تسلیم نہیں کرتے۔پهر کہا کہ چلو مرزا غلام احمد کے پیرو کار لکھ دو۔
وزیرقانون نے نکتہ اٹهایا کہ آئین میں کسی شخص کا نام نہیں ہوتا  (حالانکہ محمد علی جناح کا نام آئین میں موجود ہے ) اور پهر سوچ کر بولے کہ مفتی صاحب مرزا  کا نام ڈال کر کیوں آئین کو پلید کرتے ہو؟۔وزیر قانون کا خیال تها شاید مفتی محمود صاحب اس حیلے سے ٹل جائیں گے۔ (لیکن مفتی تو پهر مفتی صاحب تهے )
مفتی صاحب نے جواب دیا کہ شیطان۔ابلیس۔خنزیر اور فرعون کے نام تو قرآن پاک میں موجود ہیں۔کیا ان ناموں سے نعوذ باللہ قرآن پاک کی صداقت و تقدس پر کوئی اثر پڑا ہے۔؟ 
اس موقع پر وزیر قانون پیرزادہ صاحب لاجواب ہو کر کہنے لگے۔
چلو ایسا لکھ دو جو اپنے آپ کو احمدی کہلاتے ہیں۔
مفتی صاحب نے کہا بریکٹ بند ثانوی درجہ کی حیثیت رکهتا ہے۔صرف وضاحت کے لیے ہوتا ہے۔لہذا یوں لکھ دو قادیانی گروپ۔لاہوری گروپ جو اپنے کو احمدی کہلاتے ہیں۔اور پهر الحمدللہ اس پر فیصلہ ہوگیا۔
تاریخی فیصلہ۔۔۔۔۔۔۔۔ 
7 ستمبر 1974 ہمارے ملک پاکستان کی پارلیمانی تاریخ کا وہ یادگار دن تها جب 1953 اور 74 کے شہیدانِ ختم نبوت کا خون رنگ لایا۔اور ہماری قومی اسمبلی نے ملی امنگوں کی ترجمانی کی اور عقیدہ ختم نبوت کو آئینی تحفظ دے کر قادیانیوں کو دائرہ اسلام سے خارج قرار دے دیا۔
دستور کی دفعہ 260 میں اس تاریخی شق کا اضافہ یوں ہوا ہے۔
”جو شخص خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی ختم نبوت پر مکمل اور غیرمشروط ایمان نہ رکهتا ہو۔اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کسی بهی معنی و مطلب یا کسی بهی تشریح کے لحاظ سے پیغمبر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کو پیغمبر یا مذہبی مصلح مانتا ہو۔وہ آئین یا قانون کے مقاصد کے ضمن میں مسلمان نہیں۔
اور دفعہ 106 کی نئی شکل کچھ یوں بنی۔۔۔۔۔
بلوچستان پنجاب سرحد اور سندھ کے صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں میں ایسے افراد کے لیے مخصوص نشستیں ہوں گی جو عیسائی۔ہندو سکھ۔بدھ اور پارسی فرقوں اور قادیانیوں گروہ یا لاہوری افراد( جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں ) یا شیڈول کاسٹس سے تعلق رکهتے ہیں۔ (ان کی) بلوچستان میں ایک۔سرحد میں ایک۔پنجاب میں تین۔اور سندھ میں دو سیٹیں ہوں گی، یہ بات اسمبلی کے ریکارڈ پر ہے۔کہ اس ترمیم کے حق میں 130 ووٹ آئے اور مخالفت میں ایک بهی ووٹ نہیں آیا ۔( آجاتا اگر غامدی صاحب اس وقت موجود ہوتے ) اس موقع پر اس مقدمہ کے قائد مفتی محمود رحمہ اللہ نے فرمایا۔۔۔۔۔۔۔
اس فیصلے پر پوری قوم مبارک باد کی مستحق ہے اس پر نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام میں اطمینان کا اظہار کیا جائے گا۔میرے خیال میں مرزائیوں کو بهی اس فیصلہ کو خوش دلی سے قبول کرنا چاہیئے۔کیونکہ اب انہیں غیر مسلم کے جائز حقوق ملیں گے۔اور پهر فرمایا کہ سیاسی طور پر تو میں یہی کہہ سکتا ہوں (ملک کے) الجھے ہوئے مسائل کا حل بندوق کی گولی میں نہیں۔بلکہ مذاکرات کی میز پر ملتے ہیں

نوٹ ) احباب سے لائیک کمنٹس کی حاجت نہیں۔بس مودبانہ درخواست ہے کہ ختم نبوت کی اس آگاہی مہم میں ساتھ دیں۔اور اسے زیادہ سے زیادہ شیئر کریں،
 یہ ہمارے بڑوں کی جہدوجہد ہے۔جسے ہم اپنی نئی نسل تک ٹکڑوں ٹکڑوں میں سہی لیکن یہ کاوشیں پہنچا پائیں۔
”شاید کہ تیرے دل میں۔
اتر جائے میری بات“

اوریا مقبول جان ، ایڈز اور قادیانیت ، قادیانی

ایڈز اور قادیانیت                  اوریا مقبول جان کی ایک چشم کشا تحریر
=====================
٭ ایک بگڑے ہوئے نوجوان کی آپ بیتی، سنسنی خیز، مسلمانوں کے ھوش اڑانے دینے والے انکشافات کے ساتھ ٭
یہ جولائی 2007ء کی بات ہے۔ لاہور کا ایک خوبرو نوجوان شہزاد ملک کے ایک مشہور و معروف قومی اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا۔ اخبار کے ورق الٹتے ہوئے اچانک اس کی نظر کلاسیفائیڈ اشتہارات پر پڑی۔ پھر ان میں سے ایک اشتہار پر اس کی نگاہیں گڑ کر رہ گئیں:"دوستیاں کیجیئے۔۔۔۔کامیاب بنیئے" اشتہار میں بتایا گیا تھا کہ ہر نوجوان دیئے گئے رابطہ نمبروں پر کال کر کے نئے دوست تلاش کر سکتا ہے۔ جو لڑکے بھی ہوسکتے ہیں اور لڑکیاں بھی۔۔۔۔۔ یہ نئے تعلقات اس کی زندگی میں نئی جان ڈال دیں گے۔
شہزاد ان دنوں ویسے بھی فارغ تھا۔ اس کی زندگی بے مزہ گزر رہی تھی۔ ایسے اشتہارات اس نے پہلے بھی دیکھے تھے مگر اب اس نے پہلی بار انہیں آزمانے کا ارادہ کیا۔اس نے اشتہار میں دیئے گئے نمبروں پر رابطہ کیا۔اس رابطے کے نتیجے میں اسے کئی لڑکوں اور لڑکیوں کا تعارف کرایا گیا۔ ان کے فون نمبرز دیے گئے۔ شہزاد نے ان میں سے ایک لڑکی "روحی" کو دوستی کے لیئے منتخب کیا اور اس کے نمبر پر کال کی۔ دونوں میں ہیلو ہائے ہوئی۔ پھر باقاعدہ ملاقات کے لیئے جگہ کا تعین ہوا۔ لڑکی نے خود بتایا کہ وہ لاہور کے فلاں جوس سینٹر میں مل سکتی ہے۔
شہزاد وہاں پہنچ گیا۔ اس طرح روحی سے اس کی پہلی ملاقات ہوئی۔ اس ملاقات نے اسے ایک نئی دنیا کی سیر کرائی۔ عیش و عیاشی کی دنیا، رنگ رلیوں کی دنیا، جہاں شرم و حیا نامی کوئی شے نہیں ہوتی۔ روحی اس دنیا میں داخلے کا دروازہ تھی۔ آگے لڑکیوں کی ایک لمبی قطار تھی۔ شہزاد کی دوستیاں بڑھتی چلی گئیں۔ اسے ہوش تب آیا جب اسے جسم میں شدید توڑ پھوڑ کا احساس ہوا۔ اس نے ڈاکٹروں سے معائنہ کروایا تو پتا چلا کہ وہ ایڈز کا مریض بن چکا ہے۔ شہزاد کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنا علاج کراتا۔ تب انہیں گروہ کے سرکردہ افراد نے علاج کی پیش کش کی مگر شرط یہ تھی کہ وہ ان کے گروہ کے لیئے کام کرے۔ شہزاد کو موت سامنے نظر آرہی تھی۔ وہ ہر خطرناک سے خطرناک اور ناجائز سے ناجائز کام کے لیئے تیار ہوگیا۔ ویسے بھی حلال و حرام کا فرق تو وہ کب کا بھول چکا تھا۔ گروہ کے منتظمین خود سات پردوں میں تھے۔ وہ شہزاد کو اپنی لڑکیوں کے ذریعے مختلف کام بتاتے تھے۔ یہ کام عجیب و غریب تھے۔ شہزاد ایک پڑھا لکھا اور ذہین نوجوان تھا۔ جلد ہی وہ گروہ کے کاموں کو خاصی حد تک سمجھ گیا۔ گروہ کے منصوبے آہستہ آہستہ اس پر عیاں ہونے لگے۔ یہ منصوبے بے حد خوفناک تھے۔ یہ گروہ ملک میں ایڈز کا وائرس پھیلا رہا تھا۔ ہیپاٹائٹس سی کی بیماری کو فروغ دے رہا تھا۔ ہزاروں افراد اس کا نشانہ بن چکے تھے۔ آزاد خیال نوجوان، ہسپتالوں کے مریض اور جیلوں کے قیدی اس کا خاص ہدف تھے۔ آزاد خیال نوجوانوں کو دوستی کے اشتہارات کے ذریعے پھنسایا جاتا تھا۔ یہ اشتہارات میڈیا میں مختلف عنوانات سے آرہے تھے۔ ان کے ذریعے نوجوانوں کا تعلق جن لڑکیوں سے ہوتا تھا وہ ایڈز اور دوسری مہلک بیماری میں مبتلا تھیں۔ ان سراپا بیمار عورتوں کو مختلف این جی اوز سے اکٹھا کیا گیا تھا۔ ان عورتوں کی بیماری اس درجے کی تھی کہ ان کے ساتھ اختلاط سے بھی انسان ایڈز میں مبتلا ہو سکتا تھا، مگر گروہ کے لوگ اس پر اکتفا نہیں کرتے تھے۔ ان کا انتظام اتنا پختہ تھا کہ لڑکی سے پہلی ملاقات کے وقت نوجوان جو مشروب (جوس، کولڈ ڈرنک یا شراب) پیتا تھا، اس میں پہلے سے خطرناک جراثیم ملا دیئے جاتے تھے۔ ایڈز کی کئی مریضائیں معقول علاج، بہتر معاوضے اور عیش و عشرت کی چند گھڑیوں کے عوض اس گروہ کے لیئے یہ کام کرتی تھیں، جبکہ بہت سی عورتیں مجبور ہو کر یہ کام کر رہی تھیں کیونکہ ان کے بچے اس گروہ کے قبضے میں تھے۔ ان سے وعدہ کیا گیا تھا کہ اگر وہ احکام کی تعمیل کرتی رہیں، ایڈز پھیلاتی رہیں تو ان کے بچوں کو اعلیٰ تعلیم دلوا کر ان کا مستقبل شاندار بنا دیا جائے گا۔
ان بے فکرے نوجوانوں کے علاوہ ہسپتالوں، پاگل خانوں اور جیل خانوں کے مریض ان کا دوسرا ہدف تھے۔ یہ گروہ پاکستان کے طول و عرض میں ایسی لاکھوں سرنجیں پھیلا رہا تھا جو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی کے مریضوں کے خون سے آلودہ ہوتی تھیں۔ کئی بڑے ہسپتالوں میں اس گروہ کے ایجنٹ موجود تھے۔ وہاں آنے والی سرنجوں میں یہ ایڈز اور ہیپا ٹائٹس زدہ سرنجیں ایک مخصوص تناسب سے ملی ہوتی تھیں۔ اتنی سرنجوں کو آلودہ کرنے کے لیئے گروہ نے پاگل خانوں میں سرگرم اپنے ایجنٹوں کے ذریعے پاگل افراد کو اپنا نشانہ بنایا ہوا تھا۔ ان کو ایڈز یا ہیپاٹائٹس سی میں مبتلا کرنے کے بعد ان کا خون بڑی مقدار میں نکالتے رہنے کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔
گروہ کا تیسرا ہدف جیل کے قیدی تھے۔ ان میں سے کم مدت کی سزا پانے والے حد درجے منفی اور لادینی ذہنیت رکھنے والے قیدیوں کو خاص تجزیئے کے بعد منتخب کرکے علاج کے بہانے ایڈز زدہ کر دیا جاتا تھا۔ جب یہ قیدی رہا ہوئے تو بیماری کے باعث ان کا کوئی مستقبل نہ ہوتا تھا۔ یہ گروہ ان سے رابطہ کر کے انہیں اپنا رضاکار بنا لیتا تھا۔ یہ قیدی ویسے ہی تخریبی ذہن کے ہوتے تھے۔ اپنی محرومیوں کا دنیا سے بدلہ لینے کےلیئے وہ ایڈز پھیلانے پر آمادہ ہو جاتے تھے۔ انہیں کانوں کان یہ معلوم نہ ہوتا تھا کہ انہیں ایڈز میں مبتلا کرنے والے "مہربان" یہی ہیں۔
گروہ کا ایک خاص کام دوسرے لوگوں کی اسناد کو اپنے کارکنوں کے لیئے استعمال کرنا تھا۔ اس مقصد کے لیئے اخبارات میں تبدیلی نام اور ولدیت کے اشتہارات شائع کردیئے جاتے۔ گروہ کے کسی کارکن کو کسی ملازمت کے لیئے جو مطلوبہ سند درکار ہوتی، اس کا انتظام اس طرح ہوتا تھا کہ پہلے کمپیوٹر پر اپنے کارکن کی ولدیت سے ملتے جلتے نام والی ولدیت سرچ کی جاتی۔مثلاً: ظفر ولد جمیل کو کہیں بھرتی کرانا ہوتا تو نیٹ سے جمیل نام کی ولدیت رکھنے والے افراد کی فہرست حاصل کر لی جاتی۔ پھر ظفر کا تبدیلئ نام کا اشتہار شائع کرا کے تبدیل کردیا جاتا۔ اس طریقے سے گروہ کے ان گنت افراد کو ڈپلی کیٹ اسناد دلوا کر پولیس، خفیہ ایجنسیوں اور فوج میں بھرتی کیا جا رہا تھا۔جیل خانوں، ہسپتالوں اور پاگل خانوں میں بھی ان کی خاصی تعداد پہنچا دی گئی تھی۔
گروہ کی آمدن کے کئی ذرائع تھے۔ شہزاد کو اتنا معلوم ہوسکا کہ بڑی گرانٹ اسے باہر سے ملتی ہے۔ دیگر ذرائع خفیہ تھے۔ البتہ ایک ذریعہ آمدن بہت واضع تھا۔ وہ ایڈز اور دوسرے مہلک امراض کی ادویہ کی تجارت کا۔ ایک طرف تو خود یہ گروہ ان امراض کو پھیلا رہا تھا اور دوسری طرف ان کی ادویات منہ مانگے داموں فروخت کر کے بے تحاشہ دولت کما رہا تھا۔
ایک مدت تک شہزاد بھی اپنا دین و ایمان بھول کر اس گروہ کے لیئے کام کرتا رہا۔ یہاں تک کہ وہ ان کے قابل اعتماد کارکنوں میں شامل ہو گیا۔ تب ایک دن گروہ کے سرکردہ افراد نے اسے طلب کیا اور حیرت انگیز حد تک پرکشش مراعات کی پیش کش کی مگر ساتھ ہی ایک غیر متوقع مطالبہ بھی کیا۔
" تم قادیانی بن جاؤ۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو آخری نبی مان لو " شہزاد ہکا بکا رہ گیا۔ آج اسے معلوم ہوا کہ یہ گروہ قادیانی ہے۔ اس نے سوچنے کی مہلت طلب کی اور اس کے بعد مزید کھوج میں لگ گیا۔ اس جستجو میں گروہ کی ایک پرانی کارکن "روبینہ" نے اس کی مدد کی۔ روبینہ نے جو انکشافات کیئے وہ شہزاد کےلیئے کسی ایٹمی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ اس نے بتایا: "بلاشبہ یہ قادیانی گروہ ہے مگر اکیلا نہیں۔ یہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے۔ یہ کام ایک وسیع جنگ کے تناظر میں ہو رہا ہے۔ اسے ہم حیاتیاتی جنگ کہہ سکتے ہیں"
قارئین ! شہزاد کی یہ سچی کہانی پڑھ کر میں لرز گیا ہوں۔ میں اس پر یقین نہ کرتا شاید آپ بھی اسے سچ ماننے میں متذبذب ہوں۔ کیونکہ یہ بات حلق سے اُترنا واقعی مشکل ہے کہ آیا کوئی گروہ بلا تفریق لاکھوں کروڑوں پاکستانیوں کو اس طرح خفیہ انداز میں قتل کرنا کیوں چاہے گا؟امریکا کی جنگ تو مجاہدین سے ہے۔ قادیانیوں کی لڑائی تو علماء اور ختمِ نبوت والوں سے ہے۔ انہیں عوام کے اس قتلِ عام سے کیا حاصل ہوگا؟ شہزاد کی کہانی میں اس کا جواب نہیں ملتا، مگر اس کا جواب خود یورپی میڈیا پر آنے والی رپورٹوں سے مل سکتا ہے۔ ان رپورٹوں کے مطابق اس وقت یورپ اور امریکا میں انسانی آبادی تیزی سے نمٹنے کا خطرہ واضح طور پر محسوس ہو رہا ہے۔ وہاں کے " فری سیکس" معاشرے میں اب کوئی عورت ماں بننا چاہتی ہے نہ کوئی مرد باپ۔ تقریباً ہر فرد کا یہ ذہن بن چکا ہے جب جنسی تسکین کے لیئے آزاد راستے موجود ہیں تو شادی کا بندھن اور بچوں کا جھنجھٹ سر کیوں لیا جائے؟ اس بظاہر پُر فریب خیال کے پیچھے اجتماعی خود کشی کا طوفان چلا آرہا ہے۔ جس قوم کے اکثر لوگ بچے پیدا نہ کرنا چاہتے ہوں۔ وہاں شرح پیدائش کیوں کم نہ ہوگی؟ چنانچہ وہاں اب آبادی تیزی سے نمٹنے لگی ہے۔ سابق امریکی صدارتی اُمیدوار پیٹرک جے بچا چن نے واضح طور پر لکھا ہے: " 2050ء تک یورپ سے دس کروڑ افراد صرف اس لیئے کم ہوجائیں گے کہ متبادل نئی نسل پیدا نہیں ہوگی۔ " اس نے لکھا ہے: " 2050ء تک جرمنی کی آبادی 8 کروڑ سے گھٹ کر 5 کروڑ 90 لاکھ رہ جائے گی۔ اٹلی کی آبادی 5 کروڑ سے کم ہو کر صرف 4 کروڑ رہ جائے گی۔ اسپین کی آبادی میں 25 فیصد کمی ہو جائے گی۔"
یہ وہ صورتِ حال ہے جس سے گھبرا کر مغربی دنیا کی حکومتیں عوام کی افزائش نسل کی ترغیبات دینے پر مجبور ہو گئی ہیں مگر کتے بلیوں کی طرح آزادانہ جنسی ملاپ کے عادی گورے اب کسی بھی قیمت پر یہ آزادی کھونا نہیں چاہتے۔ کوئی بڑے سے بڑا انعام انہیں بچے پالنے کی ذمہ داری قبول کرنے کے لیئے سنجیدہ نہیں بنا سکتا۔ یہ بات درجہ یقین کو پہنچ گئی ہے کہ اس صورتِ حال کا تدارک نہ ہونے کے باعث 50، 60 سال بعد دنیا میں عیسائی اقلیت میں رہ جائیں گے اور کرۂ ارض پر 60 سے 65 فیصد آبادی مسلمانوں کی ہوگی جو اپنی نسل مسلسل بڑھا رہے ہیں۔ خود یورپی ممالک میں کئی بڑے بڑے شہروں میں مسلم آبادی 50 فیصد کے لگ بھگ آجائے گی۔ اس صورتِ حال میں مغربی طاقتوں نے اپنے ہاں افزائش نسل سے زیادہ توجہ مسلم دنیا کی نسل کشی پر دینا شروع کر دی ہے۔ پاکستان کو اس مقصد کے لیئے پہلا ہدف اس لیئے بنایا گیا ہے کہ یہ مسلم دنیا میں آبادی کے لحاظ سے تین بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ پھر یہاں کی آبادی اپنی اسلام پسندی، علماء و مدارس کی کثرت اور جہادی پس منظر کی وجہ سے پہلے ہی مغرب کا خاص ہدف ہے۔ اس کے علاوہ یہاں مغرب کے مددگار قادیانیوں کا مضبوط نیٹ ورک ہے۔ چنانچہ یہودی لابی اس مقصد کے لیئے متحرک ہوگئی ہے۔ اس کے لیئے پاکستان کے قادیانی اس کے شریک کاربن گئے ہیں۔ شہزاد جیسے ہزاروں لڑکے اور روحی جیسی ہزاروں لڑکیاں ان کے چنگل میں ہیں۔ اپنے ایڈز زدہ جسموں کےساتھ وہ طوعاً و کرہاً ان کے لیئےکام کر رہے ہیں۔
شہزاد کے بیان کے مطابق قادیانی گروہ ایک بیرونی خفیہ ایجنسی کے اس تعاون کو پاکستان کے سیکیورٹی اہداف کے خلاف بھی استعمال کر رہا ہے۔ جراثیم زدہ لڑکیوں کا نیٹ ورک ملٹری فورسز اور دوسرے خفیہ اداروں کے محب وطن افراد تک پھیلانے کی کوششیں پوری سرگرمی سے جاری ہیں۔جن کا نوٹس لینا ضروری ہے۔
مجھے یہ حساس ترین معلومات دیتے ہوئے شہزاد نے واضح طور پر آگاہ کیا کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے۔ قادیانیوں نے اسے مرزا پر ایمان لانے کی پیشکش کر کے اس کی سوئی ہوئی ایمانی غیرت کو جھنجھوڑ دیا تھا۔ شہزاد نے ان کی پیش کش ان کے منہ پردے ماری اور اس گروہ کی جڑوں کو کھود کر ان کا کچا چٹھا صحافی برادری تک پہنچا دیا۔ شہزاد اپنا کام کرچکا، اب اس کاجو بھی انجام ہو وہ بھگتنے کے لیئے تیار ہے۔ میں اپنا فرض سمجھتے ہوئے یہ حقائق آپ تک پہنچا رہا ہوں۔
ہم چیف جسٹس، چیف آف آرمی اسٹاف اور آئی ایس آئی کے سربراہ سے بطور خاص گزارش کرتے ہیں کہ اس بارے میں تحقیقات کرکے پاکستانیوں کی نسل کشی کے اس خوفناک منصوبے کو ناکام بنائیں۔ ورنہ مستقبل میں جہاں آبادی سے محروم یورپ و امریکا خودکشی کریں گے وہاں پاکستان بھی لق و دق صحرا بن کر اپنی پہچان سے محروم ہو جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس برے وقت سے پہلے ہمیں سنبھلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آپ دوستو سے گزارش ہے کہ اخبارات اور چینلوں پر آنے والے دوستی کے اشتہارات پر نظر رکھیں اور ان کے خطرات سے اپنے متعلقہ احباب کو خبردار کریں۔"
(بحوالہ: دجال، عالمی دجالی ریاست، ابتدا سے انتہا تک)

Tuesday 28 November 2017

مرزا غلام احمد قادیانی کی اصلیت اصل چہرہ Reality of mirza ghulam Qadyani

’برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکنہ تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ایک دن آپ لیٹے ہوئے تھے اور میں پیر دبا رہی تھی۔ کئی طرح کے پھل لیچیاں، کیلے، انجیر اور خربوزوں میں سے آپ نے مجھے بہت سے دیے۔ میں نے ان کو بہت سنبھال کر رکھا کہ یہ بابرکت پھل ہیں ، ان کو میں گھر لے جاؤں گی تاکہ سب کو تھوڑا تھوڑا بطور تبرک کے دوں۔ جب میں جانے لگی تو حضور نے امان جان کر فرمایا کہ برکت کی دوائی برنم دے دو۔ اس کے رحم میں درد ہے۔ (ایکس ٹریکٹ وائی برنم لیکوئڈ ایک دوا رحم کی اصلاح کے واسطے ہوتی ہے) یہ مجھے یاد نہیں کہ کس نے دوا لا کر دی۔ حضور نے دس قطرے ڈال کر بتایا کہ دس قطرے روز صبح پیا کرو۔ میں گھر جا کر پیتی رہی۔ ‘‘(سیرۃ المہدی جلد اول ص 214 روایت نمبر1350طبع چہارم )



’ برکت بی بی صاحب اہلیہ حکیم مولوی رحیم بخش صاحب مرحوم ساکن تلونڈی نے بواسطہ لجنۃ اماء اﷲ قادیان بذریعہ تحریر بیان کیا ہے کہ ’’میں تیسری بار قادیان میں آئی تو میرے پاس ایک کتاب رابعہ بی بی کے قصے کی تھی جسے میں شوق سے پڑھا کرتی تھی ۔ آپ نے فرمایا کہ برکت بی بی ! لو یہ در ثمین پڑھا کرو۔‘‘

دوا پینے کے بعد مجھے حمل ہو گیا تھا جس کا مجھے علم نہ تھا۔ میں نے خواب میں دیکھا کہ میں اور دو عورتیں بیٹھی ہیں کہ مجھے حیض آ گیا ہے ۔ میں گھبرائی اور تعبیر نامہ دیکھا۔ اس میں یہ تعبیر لکھی تھی کہ جو عورت اپنے آپ کو حائضہ دیکھے وہ کوئی گناہ کرتی ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر سخت رنج ہوا ، میں نفل پڑھتی اور توبہ استغفار کرتی اور خدا سے عرض کرتی : یا اﷲ! مجھ سے کون سا گناہ ہوا ہے یا ہونے والا ہے؟ تو مجھے اپنے فضل سے بچا اور قادیان آئی۔ حضور کے پاؤں دبا رہی تھی کہ میں نے عرض کی: حضور مجھے ایک ایسی خواب آئی ہے جس کو میں حضور کی خدمت میں پیش کرنے سے شرم محسوس کرتی ہوں حالانکہ نہیں آنی چاہیے، کیونکہ حضور تو خدا کے بھیجے ہوئے ہیں۔ آپ سے عرض نہ کروں گی تو کس کے آگے بیان کروں گی۔‘‘ پھر میں نے حضور کی خدمت میں وہ خواب بیان کی ۔ حضور نے فرمایا: ’’کتاب جو سامنے رکھی ہے وہ اٹھا لاؤ۔‘‘ میں لے آئی ،آپ نے کتاب کھول کر دیکھا اور بتایا کہ ’’وہ جو عورت ایسا خواب دیکھے تو اگر حاملہ ہے تو لڑکا پیدا ہو گا اور اگر حاملہ نہیں تو حمل ہو جائے گا۔‘‘ میں نے عرض کی کہ مجھے حضور علیہ السلام کی دو اور دعا سے حمل ہے۔ آپ نے فرمایا: ان شاء اﷲ لڑکا پیدا ہو گا۔ ‘‘ (سیرۃ المہدی جلد دوم ، صفحہ 214 روایت نمبر51طبع چہارم)



’’ بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحب نے کہ ایک دفعہ جوانی کے زمانہ میں حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) تمھارے دادا کی پنشن وصول کرنے گئے تو پیچھے پیچھے مرزا امام الدین بھی چلا گیا۔ جب آپ نے پنشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسلا کر اور دھوکا دے کر بجائے قادیان لانے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا۔ پھر جب اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو آپ کو چھوڑ کر کہیں اور چلا گیا۔ حضرت مسیح موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمھارے دادا کا منشا رہتا تھا کہ آپ کہیں ملازم ہو جائیں ۔ اس لیے آپ سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنری کچہری میں قلیل تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔والدہ صاحبہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت صاحب فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں چھوڑ کر پھر مرزا امام الدین ادھر ادھر پھراتا رہا۔ آخر اس نے چائے کے ایک قافلے پر ڈاکہ مارا اور پکڑا گیا مگر مقدمہ میں رہا ہو گیا۔ حضرت صاحب فرماتے تھے کہ معلوم ہوتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہماری وجہ سے ہی اسے قید سے بچا لیا ورنہ خواہ وہ خود کیسا ہی آدمی تھا ہمارے مخالف یہی کہتے رہے کہ ان کا ایک چچا زاد بھائی جیل خانہ میں رہ چکا ہے۔ خاکسار عرض کرتا ہے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کی سیالکوٹ کی ملازمت 1864ء 1868 کا واقعہ ہے۔ (سیرۃ المہدی روایت نمبر49جلد اول صفحہ 38طبع چہارم)

’’ بیان کیا حضرت مولوی نور الدین صاحب خلیفہ اول نے کہ ایک دفعہ حضرت مسیح موعود کسی سفر میں تھے ، سٹیشن پر پہنچے تو ابھی گاڑی آنے میں دیر تھی۔ آپ بیوی کے ساتھ ٹہلنے لگے۔ یہ دیکھ کر مولوی عبدالکریم صاحب جن کی طبیعت غیور اور جوشیلی تھی میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ بہت لوگ اور پھر غیر، ادھر ادھر پھرتے ہیں آپ حضرت صاحب سے عرض کریں کہ بیوی صاحبہ کو کہیں الگ بٹھا دیا جاوے ۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ میں نے کہا میں تو نہیں کہتا، آپ کہہ کر دیکھ لیں۔ ناچار مولوی عبدالکریم صاحب خود حضرت صاحب کے پاس گئے اور کہا کہ حضور لوگ بہت ہیں، بیوی صاحبہ کو الگ ایک جگہ بٹھا دیں۔ حضرت صاحب نے فرمایا: جاؤ جی، میں ایسے پردے کا قائل نہیں ہوں۔ مولوی صاحب فرماتے تھے کہ اس کے بعد مولوی عبدالکریم سر نیچے ڈالے میری طرف آئے، میں نے کہا: مولوی صاحب ! جواب لے آئے۔‘‘ (سیرۃ المہدی جلد اول صفحہ 56 روایت نمبر77طبع چہارم)




محترم قارئین ! آپ نے کذاب داعی نبوت مرزا قادیانی کے کردار کی جھلکیاں قادیانیوں کی اصل کتب کے حوالے سے ملاحظہ کر لیں کہ کس طرح ساری ساری رات غیر محرم عورتوں سے ٹانگیں دبوانا اور تبر ک دینا، لوگوں کو بلیک میل کر کے ان کی بچیوں سے نکاح کی ناکام کوشش کرنا اور کمرے میں غیر محرم عورت کے برہنہ ہو کر غسل کرتے وقت اسے اس بے غیرتی سے منع کرنے کی بجائے خود وہیں بیٹھے رہنا، کس چیز کی عکاسی کرتا ہے اور سب سے بڑھ کر اپنی بیوی کو ریلوے اسٹیشن پر لے کر بے پردہ ٹہلتے رہنا اور بیوی بھی وہ جسے قادیانی ذریت ام المومنین کہتی ہے، کے ساتھ دیوثیت کا بھر پور مظاہرہ کرنے والا بے غیرت شخص بنی یا ولی تو دور کی بات ہے شریف انسان کہلانے کا بھی حق دار ہو سکتا ہے؟ محترم قارئین ! قادیانی کذاب پرلے درجے کا بے غیرت ہی نہیں بلکہ شرابی بھی تھا اور شراب بھی اعلیٰ درجے کی ولایتی پیا کرتا تھا، جسے ٹانک وائن کہتے ہیں۔ لہٰذا مرزا قادیانی کا مرید خاص حکیم محمد حسین قریشی اپنی کتاب ’’خطوط بنام غلام‘‘ میں مرزا قادیانی کا ایک خط تحریر کرتا ہے جو درج ذیل ہے:

’’محبی اخویم حکیم محمد حسین صاحب سلمہ اﷲ تعالیٰ السلام علیکم ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔ میں اس وقت میاں یار محمد بھیجا جاتا ہے۔ آپ اشیاء خریدنی خود خرید دیں اور ایک بوتل ٹانک وائن کی پلوجہ کی دکان سے خرید دیں۔ گھر ٹانک وائن چاہیے۔ اس کا لحاظ رہے۔ باقی خیریت ہے۔

والسلام
مرزا غلام احمد​

(خطوط امام بنام غلام ص 5مجموعہ مکتوبات مرزا غلام احمد قادیانی صاحب )

کسی مریض کو مصنوعی طریقہ سے سانس دینے کی مختلف صورتیں

*کسی مریض کو مصنوعی طریقہ سے سانس دینے کی مختلف صورتیں*

سوال

ایک مریض ہے، اس کی Brain Death (دماغ ماؤف) ہوچکی ہے۔ اس کوسانس مصنوعی طریقے (Ventilatro) کے ذریعے دیاجارہاہے۔ اس کادِل حرکت کررہاہے۔ اگراس کاVentilator ہٹادیاجائے تواس کی دِل کی حرکت بھی بندہوجائے گی، اس کی موت واقع ہوجائیگی۔ سانس ایسامریض خودنہیں لے سکتا، کیونکہ اس کی Brain Death ہوچکی ہے توکیا(۱) ایسے مریض کاVentilator لگارہے یاایسے مریض کاVentilatro اُتاردیاجائے؟ کیونکہ Ventilator پررکھنے کاکوئی فائدہ نہیں۔ اس لئے کہ Brain Death ہوچکی ہے اورBrain Death ہوجائے توپھردماغ دوبارہ کام شروع نہیں کرتا۔

جواب:

بعض انتہائی سنگین بیماری میں مبتلاء افرادکے دِل کی حرکت برقراررکھنے کیلئے آج کل ایسے آلات استعمال کئے جاتے ہیں جودِل کومصنوعی طورپرحرکت دیتے رہتے ہیں۔ اس حالت میں بعض اوقات اطباء اس نتیجے پرپہنچتے ہیں کہ مریض کے دماغ کی موت واقع ہوگئی ہے، لیکن قلب کی حرکت اورسانس مصنوعی آلات کی مددسے اس طرح جاری رہتاہے کہ اگروہ آلات ہٹادئیے جائیں توحرکتِ قلب بندہوجائے۔ تواگرایسے شخص میں مندرجہ ذیل علامتوں میں سے کوئی ایک علامت ظاہرہوجائے توشرعاً اُسے مُردہ تصورکیاجائیگااوراس پرموت کے تمام احکام جاری ہونگے۔ 

(۱) اب جب اس شخص کاقلب اورتنفّس مکمل طورپراس طرح رک جائے کہ ماہراطباء یہ کہیں کہ اب اس کی واپسی ممکن نہیں۔ 

(۲) جب اس کے دماغ کے تمام وظائف بالکل معطل ہوجائیں اوراطباء وماہرین اس بات پرمتفق ہوں کہ دماغ کے اس تعطّل کی واپسی ممکن نہیں اوراس کے دماغ کی تحلیل شروع ہوچکی ہے، ایسی حالت میں محرک آلات کواس شخص سے ہٹالیناجائزہے۔ خواہ اس کے بعض اعضاء مثلاً قلب محض آلے کی وجہ سے مصنوعی حرکت کررہاہو۔ (مأخذقراردادِ اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ ۱۹۸۴؁ھ ص ۴۷

Monday 27 November 2017

Aurat k face chehray ka parda چہرے کا پردہ عورت کے چہرہ کا پردہ

*چہرہ کا پردہ ہے یا نہیں اسکو مدلل ثابت کریں اور نص قطعی سے ثابت ہے یا نہیں* 

*ﺑِﺴْــــــــــــــــﻢِﷲِﺍﻟﺮَّﺣْﻤٰﻦِﺍلرَّﺣِﻴﻢ*

✍ *_الْجَواب حامِداوّمُصلّیاً_*

شرعی پردہ جس کا قرآن میں حکم دیا گیا ہے اس کے تین درجے ہیں، اعلیٰ متوسط اور ادنیٰ، اعلیٰ درجہ یہ ہے کہ خواتین اپنے آپ کو گھر میں اس طرح چھپائیں کہ ان کے جسم کا ظاہری باطنی حصہ کسی اجنبی کو نظر نہ آئے: ?وَقَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ? (احزاب: ۳۳) 
یہ حکم ازواجِ مطہرات کے ساتھ خاص نہیں بلکہ جمیع موٴمنات ومسلمات کے لیے ہے۔ ?وَاِذَا سَاَلْتُمُوْہُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْہُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ? (احزاب: ۵۳) ?

وعن ابن مسعود أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: المرأة عورة فإذا خرجت استشرفہا الشیطان أخرجہ الترمذي?

 لیکن عورت کو کبھی طبعی حوائج یا دیگر شرعی ضروریات کے لیے باہر نکلنا ناگزیر ہوجاتا ہے، اس وقت اس کو حکم دیا گیا کہ باہر نکلتے وقت اپنے اوپر ایسی چادر ڈالیں جس سے ان کے بدن کا کوئی حصہ ظاہر نہ ہو یہ دوسرا درجہ ہے اور اس پر قرآن کی آیت: ?یَآ اَیُّہَا النَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَبَنَاتِکَ وَنِسَآءِ الْمُوٴْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْہِنَّ مِنْ جَلاَبِیْبِہِنَّ? 
(احزاب: ۵۹) دال ہے۔ 
اس آیت کا مقتضی یہ ہے کہ عورت اپنا سارا بدن حتی کہ چہرہ بھی چھپائے اس آیت سے معلوم ہوا کہ چہرہ کا پردہ کرنا نص قطعی سے ثابت ہے۔ عربی میں جلباب اس چاردر کو کہا جاتا ہے جو پورے جسم کو چھپالے، چناں چہ ابن سیرین نے عبیدہ سلمانی سے اس آیت کے متعلق استفسار کیا تو انھوں نے اپنی چادر اٹھاکر اپنے کو اس میں لپیٹ لیا اور پورا سر پلکوں تک چھپالیا اور اپنا چہرہ بھی ڈھانپ لیا البتہ صرف اپنی بائیں آنکھ بائیں کنارے سے نکال لی۔ (روح المعانی) بہ ہرحال یہ آیت اس امر پر دلالت کررہی ہے کہ عورت جب باہر نکلے تو ایک چادر اپنے اوپر ڈال کر اپنے سارے جسم کا پردہ کرے حتی کہ اپنے چہرہ کا بھی۔

تیسرا درجہ یہ ہے کہ: عورت گھر سے نکلے تو بوقت ضرورت اپنے ہتھیلیوں اور چہرہ کو کھول دے بہ شرطیکہ فتنہ سے مامون ہو: ?
وَقُلْ لِلْمُؤْمِنَاتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِہِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَہُنَّ وَلَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَہُنَّ اِلَّا مَا ظَہَرَ مِنْہَا? (نور: ۳۱) 
ماظہر کی تفسیر میں مفسرین کا اختلاف ہے، صحابہٴ کرام میں سے حضرت ابن عباس، ابن عمر، عائشہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نزدیک اس سے مراد ?وجہ اور کفین? ہے۔ حضرت عطاء، عکرمہ، ابراہین نحخعی اور ضحاک رحمہم اللہ بھی اسی کے قائل ہیں۔ البتہ ابن مسعود رضی اللہ اس آیت سے جلباب اور رِدا مراد لیتے ہیں، مگر قول اول پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں۔ ابوداوٴد اور ترمذی میں اس قسم کی احادیث موجود ہیں، اب بہ وقت ضرورت اس کو کھولنے کی اجازت ہے، مگر اس کو دیکھنے کے سلسلے میں مذاہب اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ لذت حاصل کرنے کی نیت سے یا بہ وقتِ اندیشہٴ فتنہ چہرہ کی طرف دیکھنا حرام ہے۔ حنابلہ شافعیہ کے مذاہب میں راجح بات یہ ہے کہ امن کے وقت بھی چہرہ کا دیکھنا حرام ہے۔ البتہ فتنہ سے امن اور لذت کا قصد نہ ہونے کی صورت میں مالکیہ اور حنفیہ نے دیکھنے کی اجازت دی ہے، مگر اس زمانہ میں اس کا پایا جانا بہت مشکل ہے اور اکثر احوال میں یہ شرط پائی نہیں جاتی اس لیے متأثرین حنفیہ نے مطلقاً عورت کے چہرہ کی طرف دیکھنے سے منع فرمایا:
 ?فإن خاف الشہوة أو شک امتنع نظرہ إلی وجہہا فحِل النظر مقید بعد الشہوة وإلا فحرام، وھذا في زمانہم أما في زماننا فمَنَع من الشابة ․ 
(در مختار مع الشامي:۹/۵۳۲، کتاب الحظر والإباحة، باب النظر والمس، ط: زکریا دیوبند) 

اس سے یہ واضح ہوگیا کہ: فی زماننا جو عورت بلاضرورت اپنا چہرہ کھولے گی اس پر بے پردہ عورت کے سلسلے میں جو وعیدیں آئی ہیں، اس پر صادق ہوں گی، چہرہ کا پردہ بھی نص قطعی سے ثابت ہے، مگر بہ وقت ضرورت اس کو کھولنے کی اجازت ہوگی، جیسا کہ آیت قرآنیہ میں موجود ہے۔
*_فقط وَاللہ اَعْلَمُ_*
 *_مُحمَّدشُعَیْب عُثْمانِی عفی اللہ عنہ_*‌
 *_دارُالافتاء عشرہ مُبشّرہ چمن 🇵🇰_*

نفاس والی کو کھجور

◾نفاس والی کو کھجور ◾

  کیا یہ بات درست ھے کہ حاملہ کو کھجور کھلایئں اس سے بردبار اور نیک اولاد پیدا ہوتی ھے؟
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:*

   یہ بات درست نہیں ھے؛ عبد الرحمن ابن الجوزی رح نے اپنی کتاب " الموضوعات " میں اسکو غیر صحیح بتایا ھے۔
➗➗➗➗➗➗
حديث سلمة بن قيس مرفوعا: أطعموا نساءكم في نفاسهن التمر فإنه من كان طعامها في نفاسها التمر خرج ولدها ذلك حليما، فإنه كان طعام مريم حين ولدت عيسى، ولو علم الله طعاما هو خير لها من التمر أطعمها إياه.

📝المصدر: الموضوعات
الراوی: سلمہ بن قیس
المحدث: ابن الجوزی
المجلد: 3
الصفحہ: 26
الباب: اطعام النفساء التمر
الناشر: المکتبہ السلفیہ, بالمدینہ المنورہ.
حکم الروایہ:  قال ابن الجوزي في الموضوعات: لا يصح عن رسول الله صلى الله عليه وسلم. اهـ( موضوع)

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

اسلام میں عمر کے مدارج

اسلام میں عمر کے مدارج

   مجھے ایک روایت کی تحقیق درکار ھے جسکے الفاظ یہ ہیں: 

⬅  جب انسان حالت اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں سے) محفوظ کردیتے ہیں یعنی جنون اور جذام اور برص سے۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں۔ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں پھر جب نوے سال کی عمر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہوجاتا ہے (کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہوجاتی ہے کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جائے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   جی یہ بات درست ھے؛ یہ عبارت "معارف القرآن شفیعی" سے ماخوذ ھے.
  
⚫معارف القرآن, جلد:6, صفحہ:242, سورہ: حج, آیت:5, پارہ:17, ط: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند.
➗➗➗➗➗➗

🔵 اس روایت کا ماخذ: 

یہ روایت " مسند ابو یعلی" میں حضرت انس بن مالک رض سے مروی ھے, جسکے الفاظ یہ ہیں:

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇

      عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ما مِن مُعمَّر يُعمَّر في الإسلام أربعين سنة إلا دفع الله عنه أنواع البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ الخمسين هوَّن الله عليه الحساب، فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إلى الله بما يحب الله، فإذا بلغ السبعين أحبه الله وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين كُتبت حسناتُه ومُحيت سيئاته، فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وكان أسيرَ الله في أرضه، وشفع في أهل بيته)).

المصدر: مسند أبي يعلي، 
الراوی: أنس بن مالک 
المحدث: احمد بن علی 
المجلد:7
رقم الحديث: 4249,
رقم الصفحہ: 243
الناشر: دار المامون للتراث, دمشق.
حکم الروایہ: قال حسين سليم أسد: إسناده ضعيف.

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

🔘 خلاصۂ کلام: 

👈🏻 یہ روایت حافظ ابن کثیر نے مسند ابو یعلی سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے ھذا حدیث غریب جدا وفیہ نکارة شدیدة (یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے) پھر فرمایا و مع ھذا قد رواہ الامام احمد بن حنبل فی مسندہ موقوفاً و مرفوعاً (یعنی اس غرابت و نکارت کے باوجود امام احمد نے اپنی مسند میں اس کو موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح روایت کیا ہے؛ لہذا اس روایت کو فضائل میں بیان کرنا درست اور جائز ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

قادیانیت کا مکروہ چہرہ قسط نمبر 7

قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 7

حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس. . .

حوریں 
 ہم نے سن رکھا تھا کے ربوہ (چناب نگر )ٰ میں جنت اور حوریں بھی ہوتی ہیں۔ سب سے بڑی مشکل تھی کہ کیسے جانا جائے کہ جنت دوزخ کہاں ہیں اور حوریں کدھر اور کیسی ہوتی ہیں۔ اباجی سے جو معلومات ملیں، ان سے جنت دوزخ کے بارے میں تو کچھ پتا چل گیا مگر حوروں والا قصہ ابھی تک تشنہ بلکہ نامکمل تھا۔ کسی مرزائی لڑکے سے اس بارے میں دریافت کرنا بھی مشکل تھا۔ ہماری کلاس میں ایک لڑکا عبدالمالک پڑھتا تھا۔ دیہاتی لب و لہجے کا یہ لڑکا مرزائیوں کے سخت مخالف تھا، مگر اپنے باپ کی جائیداد سے محرومی کے خوف سے مرزائیت کے ساتھ چپکا ہوا تھا۔ ایک دن وہ مرزائیت اور اس کے ماننے والوں کے شجرہ نسب پر طبع آزمائی کر رہا تھا۔ میں نے موقع غنیمت جانا اور اس سے حوروں کے متعلق پوچھ ڈالا۔ غصے میں وہ پہلے ہی تھا۔ میرے استفسار پر اس نے حور و قصور کی پوری تفسیر بیان کر ڈالی۔ کہنے لگا:

”سوہنیا! کاوھیاں نیں، ربوہٰ دیاں ساریاں کڑیاں نوں ای حوراں کہندے نیں، تاہم کچھ حوریں اصلی ہوتی ہیں بعض نقلی۔“

پوچھا ” نقلی اور اصلی حوروں سے مراد“ جواب ملا ” یار! اصلی حوراں مرجوانیاں دیاں زنانیاں نیں تے نقلی حوراں حماتڑاں دیاں رناں نیں۔“ (اصلی حوریں مرزائیوں کی عورتیں ہیں اور ”حماتڑوں“ کی عورتیں ہیں۔)

مالک سے میں نے سوال کیا، ان لوگوں کی خواتین اصلی اور تم والی نقلی حوریں کیوں؟ اس پر وہ مسکرایا اور کہنا لگا ” بھائی اوہ اصلی دیسی گھی دیاں نیں نا“ وہ اس طرح کہ ہمارا نبی خواہ سچا ہے یا جھوٹا، اس سے قطع نظر نبی تو ہے نا۔ اب اس کی ال اولاد میں جتنی لڑکیاں ہیں وہ خوبصورت بھی ہیں، امیر بھی۔ ان کے لباس، شکل و صورت اور نشست و برخاست ہماری عورتوں سے مختلف اور پُرکشش ہے۔ چنانچہ انہیں اصلی حوریں ہی کہا جائے گا جبکہ ہماری عورتیں مرتبے، مقام اور جیب کے اعتبار سے ان جیسی تو نہیں ہیں لیکن اس نبی کی امت تو ہیں، جسے ہم نے مان لیا ہے۔ چنانچہ اس حوالے سے حوروں والی صِفات ہماری خواتین کے حصے میں بھی آتی ہیں۔“

اتنی معلومات ملنے کے بعد میں نے حوروں کے بارے میں خود بھی مشاہدہ کیا تو مجھے ربوہ(چناب نگر )ٰ کی ہر عورت حور ہی لگنے لگی۔ کیونکہ مرزائی عورتوں کا اپنی طرف متوجہ کرنے کا جو انداز ہے، اس سے وہ خواہ مخواہ ہی حوریں لگتی ہیں۔ سیاہ رنگ کے ان کے برقع کی وضع قطع کچھ اس طرح کی ہوتی تھی کہ ہر خاتون ”سیکس اپیلڈ“ نظر آتی تھے۔ سر پر تکُونی سکارف اور اس کے ساتھ دو نقاب اپنے اندر طوفان چھپائے ہوئے ہوتے ہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر عورت ایک نقاب سے چہرے کا نچلا حصہ ناک تک چھپا لیتی ہے جبکہ دوسرا نقاب سر پر لپیٹ لیا جاتا ہے۔ صرف آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں جو آنکھوں آنکھوں میں باتیں کر جاتی ہیں۔ بعض مہ جبیں آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگا کر اچھی بھلی دشمن عقل و ایمان بن جاتی ہیں۔ اس گٹ اپ میں معمولی سی شکل و صورت والی عورتیں بھی ماہ لقا اور حور شمائل نظر آنے لگتی ہے۔

مرزائی خاندان نبوت کی خواتین واقعی حسن و جمال کا پرتو ہیں ” عزازیلی “ حسن کی بنا پر ہی یہ جھوٹا مذہب چل رہا ہے۔ حسینانِ ربوہٰ کو حوریں کہنا اگرچہ شاعری کے زمرے میں آتا ہے لیکن جس کسی شاعرانہ ترنگ میں مرزائی خواتین کو حوریں کہا ہے، اس میں اس کی خرد قصور وار نہیں۔ یہ دست قدرت کا کمال ہے یا کالے برقع کی فسوں سازی جس نے وہاں کی ہر عورت کو حور بنا کر رکھ دیا ہے۔

قادیانیت کا مکروہ چہرہ قسط نمبر 8

قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 8

حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس 

مرزائی امت کے ارباب اقتدار اور شہر کے عوام الناس نے اپنے ہر قول و عمل پر منافقت کا لبادہ چڑھا رکھا ہے۔ ربوہ(چناب نگر )ٰ کے معاشرے کو پاکیزہ اور مثالی ظاہر کرنے کے لیے مختلف ڈرامے بازیاں کی جاتیں جس میں شہر کے ایک کونے پر جامعہ نصرت گرلز کالج اور نصرت گرلز ہائی سکول اور دوسرے کونے پر لڑکوں کے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ٹی آئی کالج کی تعمیر قابل ذکر ہے۔ اس تعمیر کی غایت بظاہر یہ تھی کہ باہر کی دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ صنف نازک اور صنف کرخت کے تعلیمی اداروں میں انتہائی فاصلے ایک مثالی معاشرے کی شاندار مثال ہیں۔ لیکن ان کی منافقت اور ڈرامے بازی اس وقت مضحکہ خیز ثابت ہوتی جب دریائے چناب، الف محلّہ دار الرحمت غربی، شرقی، وسطی ریلوے سٹیشن کے علاقے کے لڑکے دریا کی طرف اپنے سکول و کالج جا رہے ہوتے تھے تو دونوں اصناف کا آپس میں کراس ہوتا۔ اس دوران بے شمار لڑکے لڑکیوں کے آپس میں مسکراہٹوں اور رقعوں کے تبادلے ہو جاتے اور کسی کو کانون کان خبر بھی نہ ہوتی۔

ایک دفع میں میرا کزن محمد شفیع ریلوے لائن میں چلتے ہوئے سکول جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شیریں کو اپنے فرہاد کی نگاہوں سے بلائیں لیتے دیکھا تو لا محالہ ہمارا دھیان ادھر چلا گیا۔ اس محویت میں پیچھے سے آتے ہوئے ریلوے انجن کی آواز بھی نہ سنائی دی۔ قدرت کو ہماری زندگی مقصود تھی کہ انجن ابھی چند گز کے فاصلے پر تھا کہ ہم نے دائیں بائیں جانب چھلانگیں لگا کر جان بچا لی ورنہ ایک حور کے کمالات کا نظارہ ہمیں دوسری دنیا پہنچا چکا ہوتا۔

ربوہٰ کی ایک لڑکی کا نام نجمہ تھا جسے سب لوگ نجمی کہتے تھے۔ اس کی چنیوٹ کے ایک مسلمان لڑکے ظہیر احمد سے نہ جانے کیسے ملاقات ہو گئی اور اسے اپنا دیوانہ بنا لیا۔ یہ لڑکا یتیم تھا اور تعلیم حاصل کرنے ملتان سے اپنی بہن کے پاس چنیوٹ آیا ہوا تھا۔ ظہیر کے گھر والوں نے سنا تھا کہ ربوہٰ میں تعلیم بہت اچھی ہے۔ لہٰذا اسے فرسٹ ائیر میں تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرا دیا گیا۔ اس کی نجمی سے ملاقات ہوئی تو وہ ظہیر پر لٹو ہو گئی۔ دسمبر ٹیسٹ میں جب ظہیر میاں فیل ہو گئے تو ان کے گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے اپنے طور پر انکوائری کی تو معلوم ہوا کہ میاں صاحبزادے تو حور کی زلفوں کے اسیر ہو چکے ہیں بس پھر کیا تھا، پہلے تو ان کی خوب دُھنائی ہوئی ،گر جب عشق کا بھوت ان کے سر سے اتارے نہ اترا تو موصوف کے گھر والوں نے واپس ملتان بھیج دیا۔

ربوہ (چناب نگر )ٰ کے تمام مرد دو(2) مقامات پر سرو نگاہ جھکا لیتے اور ہاتھ باندھ لیا کرتے تھے۔ ایک جب وہ اپنے خلیفہ، اس کی اولاد یا جھوٹے خاندانِ نبوت کے کسی بھی فرد کے سامنے پیش ہوتے۔ دوسرے اس وقت جب حوریں ان کے سامنے آ تیں۔ ”ربوہٰ مرد“ کنکھیوں سے انہیں دیکھ تو لیتے مگر ان سے نظر ملانا نہ جانے کیوں ان کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ کئی ایک سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے ”نبی“ کی نام نہاد تعلیمات کو حوالہ دیتے ہوئے کہا ” ہم اپنی مذہبی تربیت کی بنا پر عورتوں کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے جبکہ عورتیں ہمیں سر سے پاؤں تک دیکھ لیتی ہیں۔“

قادیانیت کا مکروہ چہرہ قسط نمبر 9

قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 9

حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس. ..

.ہمارے چنیوٹ کے ایک دوست کی بہن جو نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ تھی اس کے گھر والوں نے چنیوٹ سے لاہور منتقل ہونا تھا چنانچہ اس نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد نویں کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہا مگر سکول کی ہیڈ مسٹریس مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا اور کہا ”بچی لائق ہے، اسے میٹرک پاس کرنے تک سکول سے نہیں فارغ کریں گے۔“ سکول مینیجر چودھری علی اکبر ہمارے دوست مقصود الرٰحمن کے والد تھے، ان کی سفارش کرائی مگر بے سود۔ آخر ہمارے ایک اور کلاس فیلو دور کی کوڑی لائے۔ انہوں نے یونائیٹڈ بنک (United Bank) کے مینیجر لطیف اکمل سے بات کی جنہوں نے ایک فون کیا اور اگلے لمحے مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے کی ہامی بھر لی۔ ہمارا کام تو ہو گیا مگر لطیف اکمل سے اس انہونی کے ہو جانے کے اسباب پوچھے تو انہوں نے آنکھ دبا کر کہا ” بھائی یاری کی کچھ تو پردہ داری ہونی چاہیے۔“

ایک مرتبہ ہمارے ایک جاننے والوں کی بیٹی اور نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ نویں جماعت میں فیل ہو گئی۔ لڑکی کے والد نے سکول انتظامیہ سے ملنے کے بعد پرچے دوبارہ چیک کر کے اسے رعایتی نمبر دلوا کر پاس کرانے کی درخواست کی۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات لڑکی کی کلاس ٹیچر سے ہوئی جس نے لڑکی کے باپ کو بتایا کہ لڑکی کی نالائقی کی وجہ اس کا چال چلن ہے۔ وہ اور اس کی سہیلیوں کا گروپ کلاس سے اکثر غائب رہتا ہے اور یہ سب ایک دوسرے کے بوائے فرینڈز کو محبت نامے پہنچانے اور ملاقاتیں ارینج(arrange) کرانے میں مصروف رہتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پڑھائی میں کمزور رہ گئی ہے۔ لڑکی کا والد جو پہلے ہی بیٹی کی ناکامی پر سر پیٹ رہا تھا، اب بچی کے مشکوک چال چلن کی خبر پر سخت پریشان ہو گیا۔ جب لڑکی اور اس کی سہیلیوں سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے ایک اور ہی کہانی سنا ڈالی کے موصوف ٹیچر کے خود کچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ اپنی ”خوب رو“ طالبات کو ان لوگوں سے ملاقات پر مجبور کرتے ہے اور جو لڑکیاں بات نہیں مانتیں، انہیں نہ صرف کلاس میں زچ کیا جاتا ہے بلکہ امتحان میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ جب اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا تو سکول انتظامیہ نے یہ کہہ کر بات دبا دی کہ اس طرح اساتذہ اور طالبات کی بدنامی ہو گی۔ چنانچہ لڑکی کو پاس کر کے اگلی کلاس میں بھیج دیا گیا۔

ہمارے محلّہ میں ایک لڑکا رفیق رہتا تھا جس کے اپنی پڑوسن اور میٹرک کی طلبہ جمیلہ سے تعلقات تھے۔ دونوں کے والدین نے انہیں باز رکھنے کی بے حد کوشش کی مگر بے سود، دونوں نے اپنی ڈگر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ رفیق کا والد راج گیری کا کام کرتا تھا، وہ اسے اپنے ساتھ کوئٹہ لے گیا جبکہ جمیلہ کے گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ فریقین کا خیال تھا کہ دوری دونوں کے سروں سے عشق کا بھوت اتار دے گی۔ مگر مرض دوا کرنے کے ساتھ بڑھتا گیا اور رفیق باپ کو جُل دے کر کوئٹہ سے چنیوٹ آ گیا اور ایک آٹو ورکشاپ میں کام سیکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران رفیق اور جمیلہ کی ملاقاتیں پھر سے ہری ہو گئیں۔ چنانچہ جمیلہ نے طلاق اور رفیق نے اپنے استاد کی مدد سے نکاح کر ڈالا۔

ربوہٰ کے ایک حکیم صاحب کے پڑوس میں ملتان کا ایک لڑکا شاکر اپنی ماں کے ہمراہ قیام پذیر ہوا۔ حکیم صاحب نے اپنی تربیت کے مطابق اس سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ”بیٹے آپ احمدی ہیں؟“ جواب ملا ”نہیں“ حکیم صاحب نے فوراً اسے تبلیغ کرنے کا فیصلہ کیا اور ” مرزا غلام احمد“ کی نبوت اور ان کے خلفاء کے بارے میں جملہ کہانیاں سنا ڈالیں۔ شاکر اگرچہ مذہبی ذہنیت رکھنے والا مسلمان نہیں تھا، تاہم اسے مرزائیت سے بھی کوئی رغبت نہیں تھی۔ حکیم صاحب نے اسے ”مسجد“ اور دیگر اجلاسوں میں آنے کی بہت پیشکش کی مگر وہ ہر بار طرح دے جاتا۔ ایک دن حکیم صاحب نے اسے گھر بلایا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ابھی تبلیغ کا باب دوبارہ شروع ہوا ہی تھا کہ حکیم صاحب کی بیٹی چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آئی۔ بس پھر کیا تھا شاکر لڑکی دیکھتے ہی دم بخود ہو گیا۔ ” اتنی حسین لڑکی شاید میں نے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں“ خود کلامی کے انداز میں وہ بڑبڑایا۔ حکیم صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے ”بیٹے! یہ میری بیٹی طاہرہ ہے، اس سال فرسٹ ایئر میں داخل ہوئی ہے۔“ شاکر طاہرہ کے حسن قیامت خیز میں اس قدر کھویا کہ اس نے حکیم صاحب کی شبینہ روز تبلیغ کو گوارا کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کہا ” حکیم صاحب! مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تمام باتیں مجھے رفتہ رفتہ بتائیں اور سمجھائیں۔“ حکیم صاحب تیار ہو گئے۔ یوں اس نے ایک مقررہ وقت پر ان کے گھر جانے کا معمول بنا لیا۔ حکیم صاحب ایک نیا احمدی جماعت میں لانے میں مگن تھے جبکہ شاکر ترچھی نگاہوں سے طاہرہ کو تسخیر کرنے میں مصروف تھا۔ حکیم صاحب کی مسلسل کوشش کے باوجود شاکر مرزائی تو نہ ہو سکا، مگر طاہرہ اس کے دام محبت آگئی۔ شاکر طاہرہ سے تعلق برقرار رکھنے اور حکیم صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ”نیم مرزائی“ ہو گیا۔ ان دونوں کی دوستی اور محبت کا حکیم صاحب کو علم تھا مگر وہ شاکر کو مکمل مرزائی ہونے تک سب کچھ گوارا کرنے پر تیار تھے جبکہ شاکر انہیں ٹالنے کے نت نئے بہانے بنا لیتا۔ کبھی کہتا تعلیم مکمل کر لو، پھر مرزا ناصر کی بیعت کر لوں گا۔ فوری طور پر بیعت کرنے پر مجھے گھر والے عاق کر دیں گے۔ حکیم صاحب ان دلیلوں کو مانتے رہے اور اپنے گھر آنے جانے سے نہ روکا۔ اس دوران وہ اپنا مقصود بھی حاصل کرتا رہا۔ یوں اس نے پہلے ایف ۔اے پھر بی۔ اے کر لیا اور مرزائیت پر لعنت بھیجتا ہوا واپس ملتان چلا گیا جبکہ حکیم صاحب اور طاہرہ ہاتھ ملتے رہ گئے

میلاد کی تحقیق حقیقت میلاد ، میلاد منانا چاہیے

👈سوال2: رحمت کائنات ﷺ کی ظاہری حیات میں ربیع الاول کا مہینہ کم و بیش 63 مرتبہ آیا۔ کس حدیث سے یہ ثابت ہے کہ آپﷺ نے اپنی ولادت کا دن منایا؟

جواب: سب سے پہلے میلاد کا لغوی معنی اور اصطلاحی معنی ملاحظہ فرمائیں:

لفظ میلاد کی لغوی تحقیق

میلاد عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا مادہ ’’ولد (و۔ل۔د)‘‘ ہے۔ میلاد عام طور پر اس وقت ولادت کے معنوں میں مستعمل ہے۔ میلاد اسم ظرف زمان ہے۔ قرآن مجید میں مادہ ولد کل 93 مرتبہ آیا ہے اور کلمہ مولود 3 مرتبہ آیا ہے۔

(المعجم المفہرس لالفاظ القرآن الکریم ص 764-763)

احادیث نبویﷺ میں لفظ میلاد و مولد کا استعمال

احادیث نبویﷺ میں مادہ ولد (و۔ل۔د) بے شمار مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ اس کی وضاحت المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی میں موجود ہے

(المعجم المفہرس لالفاظ الحدیث النبوی الجز السابع ص 320-308)

اردو میں لفظ میلاد

نور اللغات میں لفظ میلاد مولود۔ مولد کہ یہ معنی درج کئے گئے ہیں

1: میلاد ۔۔۔ پیدا ہونے کا زمانہ، پیدائش کا وقت

2: وہ مجلس جس میں پیغمبر حضرت محمدﷺ کی ولادت باسعادت کا بیان کیا جائے۔ وہ کتاب جس میں پیغمبر کی ولادت کا حال بیان کیا جاتا ہے۔

اصطلاحی مفہوم

میلاد کے لغوی مفہوم میں اس بات کی وضاحت ہوچکی ہے کہ اردو زبان میں اب یہ لفظ ایک خاص مفہوم کی وضاحت و صراحت اور ایک مخصوص اصطلاح کے طورپر نظر آتا ہے۔ حسن مثنی ندوی لکھتے ہیں ’’حضور اکرم نور مجسم محمدﷺ کی ولادت باسعادت کے تذکرے اور تذکیر کا نام محفل میلاد ہے۔ اس تذکرے اور تذکیر کے ساتھ ہی اگر دلوں میں مسرت و خوشی کے جذبات کروٹ لیں۔ یہ شعور بیدار ہوکہ کتنی بڑی نعمت سے اﷲ تعالیٰ نے ہمیں سرفراز کیا اور اس کا اظہار بھی ختم الرسلﷺ کی محبت و اطاعت اور خداوند بزرگ و برتر کی حمدوشکر کی صورت میں ہو اور اجتماعی طور پر ہو تو یہ عید میلاد النبیﷺ ہے۔

(سیارہ ڈائجسٹ لاہور رسول نمبر 1973ء (جلد دوم) ص 445)

قرآن مجید سے جشن ولادت منانے کے دلائل

* ﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اپنے رب کی نعمت کے خوب چرچے کرو‘‘ (سورۂ وَٱلضُّحَىٰ :11)
معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ حکم دے رہا ہے کہ جو تمہیں میں نے نعمتیں دی ہیں، ان کا خوب چرچا کرو، ان پر خوشیاں مناؤ۔ ہمارے پاس اﷲ تعالیٰ کی دی ہوئی بے شمار نعمتیں ہیں۔ کان، ہاتھ، پاؤں، جسم، پانی، ہوا، مٹی وغیرہ اور اتنی زیادہ نعمتیں ہیں کہ ہم ساری زندگی ان کو گن نہیں سکتے۔ خود اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے ترجمہ ’’اور اگر اﷲ کی نعمتیں گنو تو شمار نہ کرسکو گے‘‘ (النحل:18)

 معلوم ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کی گنتی ہم سے نہیں ہوسکتی۔ تو پھر ہم کن کن نعمتوں کا پرچار کریں۔ عقل کہتی ہے کہ جب گنتی معلوم نہ ہوسکے تو سب سے بڑی چیز کو ہی سامنے رکھا جاتا ہے۔ کیونکہ وہی نمایاں ہوتی ہے۔ اسی طرح ہم سے بھی اﷲ پاک کی نعمتوں کی گنتی نہ ہوسکی تو یہ فیصلہ کیا کہ جو نعمت سب سے بڑی ہے اس کا پرچار کریں۔ اسی پر خوشاں منائیں تاکہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل ہوسکے۔ سب سے بڑی نعمت کون سی ہے؟ آیئے قرآن مجید سے پوچھتے ہیں ترجمہ ’’اﷲ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔ جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے‘‘ (سورۂ آل عمران آیت 164)

 ﷲ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتیں عطا فرمائیں مگر کسی نعمت پر بھی احسان نہ جتلایا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے کسی اور نعمت پر احسان کیوں نہیں جتلایا۔ صرف ایک نعمت پر ہی احسان کیوں جتلایا؟ ثابت ہوا کہ اﷲ تعالیٰ کی عطا کردہ ان گنت نعمتوں میں سب سے بڑی نعمت آخری نبیﷺ ہیں اور قرآن کے مطابق ہر مسلمان کو اپنے نبیﷺ کی آمد پر خوشیاں منانی چاہئیں۔

 قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے۔ ترجمہ ’’تم فرماؤ اﷲ عزوجل ہی کے فضل اور اسی کی رحمت، اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں۔ وہ ان کے سب دھن و دولت سے بہتر ہے‘‘ (سورۃ یونس آیت 58)
لیجئے! اس آیت میں تو اﷲ تعالیٰ صاف الفاظ میں جشن منانے کا حکم فرما رہا ہے۔ کہ اس کے فضل اور رحمت کے حصول پر خوشی منائیں۔ قرآن نے فیصلہ کردیا کہ نبی کی آمد کا جشن مناؤ کیونکہ اﷲ کے نبیﷺ سے بڑھ کر کائنات میں کوئی رحمت نہیں۔ خود اﷲ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ترجمہ ’’اور ہم نے تم کو نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہاں کے لئے‘‘ (الانبیاء :107)
مسلمان اگر رحمتہ للعالمین کی آمد کی خوشی نہیں منائیں گے تو اور کون سی رحمت پر منائیں گے۔ لازم ہے کہ مسلمان رحمت دوعالمﷺ کی آمد کا جشن منائیں۔

احادیث مبارکہ سے جشن منانے کے دلائل

* اپنی آمد کا جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ تو ان کے غلام کیوں نہ منائیں؟ چنانچہ حضرت سیدنا ابو قتادہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ بارگاہ رسالت میں عرض کی گئی کہ ’’یارسول اﷲﷺ آپ پیر کا روزہ کیوں رکھتے ہیں؟‘‘ آپﷺ نے جواب دیا ’’اسی دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی‘‘ (صحیح مسلم شریف جلد 1ص 7، مشکوٰۃ شریف ص 179)

نبی کے غلامو! خوش ہوجاؤ اور خوشی سے اپنے نبی کی آمد کا جشن منایا کرو کیونکہ یہ جشن تو خود آقاﷺ نے منایا ہے۔ اس کرہ ارض پر بسنے والے کسی بھی عالم دین (اگرچہ وہ صحیح عالم ہو) سے نبیﷺ کے پیر کے روزے کے متعلق دریافت کیجئے، اس کا جواب یہی ہوگا کہ نبیﷺ نے اپنی ولادت کی خوشی میں روزہ رکھا۔ نبی علیہ السلام اپنی آمد کی خوشی منائے اور نبی علیہ السلام کے غلام اپنے آقا کا جشن نہ منائیں۔ یہ کیسی محبت ہے؟ اسی لئے تو مسلمان ہر سال زمانے کی روایات کے مطابق جشن ولادت مناتے ہیں۔ کوئی روزہ رکھ کر مناتا ہے تو کوئی قرآن کی تلاوت کرکے، کوئی نعت پڑھ کر، کوئی درود شریف پڑھ کر، کوئی نیک اعمال کا ثواب اپنے آقاﷺ کی بارگاہ میں پہنچا کر تو کوئی شیرینی بانٹ کر، دیگیں پکوا کر غریبوں اور تمام مسلمانوں کوکھلا کر اپنے آقا کی ولادت کا جشن مناتاہے۔ یعنی زمانے کی روایات کے مطابق اچھے سے اچھا عمل کرکے اپنے آقاﷺ کی ولادت کا جشن منایا جاتا ہے۔ پس جو شخص نبیﷺ کو مانتا ہے تو وہ سنت نبویﷺ سمجھ کر اپنے آقا کی ولادت کاجشن منائے گا اور جو شخص نبی کو نہیں مانتا، وہ اس عمل سے دور بھاگے گا۔

* نبی اکرمﷺ کا چچا ابولہب جوکہ پکا کافر تھا۔ جب اسے اس کے بھائی حضرت عبداﷲ رضی اﷲ عنہ کے یہاں بیٹے کی ولادت کی خوشخبری ملی تو بھتیجے کی آمد کی خوشخبری لانے والی کنیز ’’ثویبہ‘‘ کو اس نے انگلی کا اشارہ کرکے آزاد کردیا۔ ابولہب کے مرنے کے بعد حضرت عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے اسے خواب میں دیکھا کہ وہ بڑے برے حال میں ہے تو اس سے پوچھا کیا گزری؟ ابولہب نے جواب دیا ’’مرنے کے بعد کوئی بہتری نہ مل سکی ہاں مجھے اس انگلی سے پانی ملتا ہے کیونکہ میں نے ثویبہ لونڈی کو آزاد کیا تھا‘‘ (بخاری شریف جلد 2ص 764)

اسی روایت کے مطابق ہمارے اسلاف جوکہ اپنے دور کے مستند مفسر، محدث اور محقق رہے ہیں ان کے خیالات پڑھئے اور سوچئے کہ اس سے بڑھ کر جشن ولادت منانے کے اور کیا دلائل ہوں گے؟

(1) ابولہب وہ بدبخت انسان ہے جس کی مذمت میں قرآن کی ایک پوری سورۃ نازل ہوئی ہے لیکن محض اس وجہ سے کہ اس کی آزاد کردہ باندی نے نبی اکرمﷺ کو دودھ پلایا تو اس کا فائدہ اس کے مرنے کے بعد بھی اس کو کچھ نہ کچھ ملتا رہا۔ سہیلی وغیرہ نے اس خواب کا اتنا حصہ اور بیان کیاہے۔ ابولہب نے حضرت عباس سے یہ بھی کہا کہ دوشنبہ پیر) کو میرے عذاب میں کچھ کمی کردی جاتی ہے۔ علماء کرام نے فرمایا اس کی وجہ یہ ہے کہ حضورﷺ کی تشریف آوری کی بشارت سنانے پر ثویبہ کو جس وقت ابولہب نے آزاد کیا تھا اسی وقت اس کے عذاب میں کمی کی جاتی ہے‘‘ (تذکرہ میلاد رسول ص 18)

(2) شیخ محقق حضرت علامہ مولانا شاہ عبدالحق محدث دہلوی رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:

’’میلاد شریف کرنے والوں کے لئے اس میں سند ہے جوشب میلاد خوشیاں مناتے ہیں اور مال خرچ کرتے ہیں۔ یعنی ابولہب کافر تھا اور قرآن پاک اس کی مذمت میں نازل ہوا۔ جب اسے میلاد کی خوشی منانے اور اپنی لونڈی کے دودھ کو آنحضرتﷺ کے لئے خرچ کرنے کی وجہ سے جزا دی گئی تو اس مسلمان کا کیا حال ہوگا جو محبت اور خوشی سے بھرپور ہے اور میلاد پاک میں مال خرچ کرتا ہے‘‘ (مدارج النبوۃ دوم ص 26)

(3) حضرت علامہ مولانا حافظ الحدیث ابن الجزری رحمتہ اﷲ علیہ کا فرمان مبارک:

’’جب ابولہب کافر جس کی مذمت میں قرآن پاک نازل ہوا کہ حضور اقدسﷺ کی ولادت کی خوشی میں جزا نیک مل گئی (عذاب میں تخفیف) تو حضور نبی کریمﷺ کی امت کے مسلمان موحد کا کیا حال ہوگا۔ جو حضورﷺ کی ولادت کی خوشی مناتا ہو اور حضور کی محبت میں حسب طاقت خرچ کرتا ہو۔ مجھے اپنی جان کی قسم اﷲ کریم سے اس کی جزا یہ ہے کہ اس کو اپنے فضل عمیم سے جنت نعیم میں داخل فرمائے گا‘‘ (مواہب لدنیہ جلد 1ص 27)

(4) جلیل القدر محدث حضرت علامہ ابن جوزی رحمتہ اﷲعلیہ کا فرمان مبارک:

’’جب ابولہب کافر (جس کی قرآن میں مذمت بیان کی ہے) آپﷺ کی ولادت پر خوش ہونے کی وجہ سے یہ حال ہے تو آپﷺ کی امت کے اس موحد مسلمان کا کیا کہنا جو آپﷺ کی ولادت پر مسرور اور خوش ہے‘‘ (بیان المولد النبوی ص 70 بحوالہ مختصر سیرۃ الرسول ص 23)

ان محدثین کرام اور اسلاف کے خیالات سے ثابت ہے کہ جشن ولادت منانا اسلاف کا بھی محبوب فعل رہا ہے اور یہ بات واضح ہے کہ جب کافر محمد بن عبداﷲﷺ کی آمد کی خوشی مناکر فائدہ حاصل کرسکتا ہے تو مسلمان محمد رسول اﷲﷺ کی آمد کا جشن مناکر کیوں فائدہ حاصل نہیں کرسکتا؟ بلکہ ابن الجزری نے تو قسم اٹھا کر فرمایا ہے کہ میلاد منانے والوں کی جزا یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ اپنے فضل سے انہیں جنت میں داخل فرمادے گا۔ سبحان اﷲ

بدھ کے دن کام شروع کرنے کی حدیث کی تحقیق work Wednesday start

بدھ کے دن کام شروع کرنے کی حدیث کی تحقیق

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

مفتیاں حضراتایک سوال ہے ہمارے اساتذہ بدھ کو کتابیں شروع کر دیتے ہیں اس کے بارے میں کوئی حوالہ چاہئے.

جواب :ما من امر يبدأ في الْيَوْمَ الأربعاء الا تم

اس حدیث سے استدلال کر کے بدھ کو پڑھائی شروع کرتے ہیں جو کہ جائز ہے بس سنت تو نہیں ہے اور نہ مستحب بزرگوں کا عمل ہے بس.

بدھ کے دن کام شروع کرنے کی حدیث کی تحقیق:

سوال:بدھ کے دن کسی کام شروع کرنے کی حدیث کی فنی حیثیت کیا ہے؟

جواب:المقاصد الحسنۃ میں ہے:

ما بدء بشیء یوم اربعاء الّا تم ،لم أقف لہ علی اصل و لکن ذکر برھان الاسلام فی کتابہ تعلیم المتعلم من شیخہ المرغینانی صاحب الھدایۃ فی فقہ الحنفیۃ انہ کان یوقف بدایۃ السبق علی یوم الاربعاء و کان یروی بذلک بحفظہ و یقول قال رسول اﷲا ما من شیء بدء یوم الاربعاء الا و قد تم،قال و ھکذایفعل ابی فیروی ھذا الحدیث باسنادہ عن القوام احمد بن عبد الرشید انتھی،و یعارضہ حدیث جابرؓ مرفوعاً!یوم الاربعاء یوم نحس مستمر اخرجہ الطبرانی فی الاوسط،و نحوہ ما یروی عن ابن عباس ؓ انہ لا اخذ فیہ و لا عطاء و کلھا ضعیفۃ و بلغنی عن بعض الصالحین ممن لقیناہ انہ

قال شکت الاربعاء الی اﷲ سبحانہ تشاؤم الناس بھا فمنحھا انہ ما ابتدیٔ بشیء فیھا الا تمّ۔(المقاصد الحسنۃ ۳۶۴ /۹۴۳،وکذا فی الاسرار المرفوعۃ ص۲۹۴/۴۰۱،وھکذا فی کشف الخفاء ۲/۱۸۱/۲۱۹۱ و فی الموضوعات الکبیر ص۱۰۳،حرف المیم) 

نیز الاسرار المرفوعۃ میں ہے:

لکن یروی عن عائشۃ ؓقالت:ان احب الایام الیّ یخرج فیہ مسافری و انکح فیہ و اختن فیہ صبییّ یوم الاربعاء۔(الاسرار المرفوعۃ ص۳۷۹)

الفوائد البھیۃ میں صاحبِ ہدایہ سے نقل کردہ روایت کے بارے میں مذکور ہے:

قال الجامع:الحدیث الذی رواہ صاحب الھدایۃ قد تکلم فیہ المحدثون حتی قال بعضھم انہ موضوع۔(الفوائد البھیۃ۲۴)

ظفر المحصلین میں ہے:

مولاناعبد الحی ؒفرماتے ہیں کہ میں نے اس حدیث کے لئے ایک اصل تلاش کی ہے وہ یہ کہ امام بخاری ؒ نے ’’ الادب المفرد ‘‘ میں ،امام احمد ؒو بزار ؒ نے حضرت جابرؓسے روایت کی ہے کہ آنحضرت انے مسجد ِ فتح میں پیر،منگل اور بدھ تین دن دعا کی اور بدھ کے روز ظہر او ر عصر کے درمیان دعاء مقبول ہوئی ۔حضرت جابر رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں کہ مجھے جب بھی کوئی امرِمہم در پیش ہوا تو میں نے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے ما بین دعاء کی اور وہ مقبول ہوئی۔

‏قال ابن القيم رحمه الله :

‏الرِّضا بالقضاء من أسباب السّعادة والتّسخُّط ُعلى القضاءِ من أسباب الشّقاوة .

‏[مدارج السالكين (2/201)

قضا و قدر پر راضی ہونا سعادت (خوشی ) کے اسباب میں سے ہے جبکہ اس سے ناراض ہونا  پریشانیوں کے اسباب میں سے ہے

ملاحظہ ہومجمع الزوائد میں ہے:

عن جابرصیعنی ابن عبد اﷲ أن النبیادعا فی مسجد الفتح ثلاثا یوم الاثنین و یوم الثلثاء و یوم الأربعاء فاستجیب لہ یوم الأربعاء بین الصلاتین فعرف البشر فی وجھہ قال جابرص فلم ینزل بی أمر مھم غلیظ الا توخیت تلک الساعۃ فأدعو فیھا فأعرف الاجابۃ۔رواہ أحمد و البزار و رجال أحمد ثقات۔ (مجمع الزوائد۴/۱۲باب فی مسجد الفتح)

ظفر المحصلین میں استحباب ِ دعا کے لئے بدھ کے دن ظہر اور عصر کے درمیان کا وقت لکھا ہے ۔

اور تفسیر منیر لوھب زحیلی میں ہے:و مواقیت الدعاء وقت الاسحار و الفطر و ما بین الأذان والاقامۃ وما بین الظھر والعصرفی یوم الأربعاء۔ (تفسیر منیر۱/۱۵۵) 

علامہ سیوطی نے’’ سھام الاصابۃ فی الدعوات المستجابۃ ‘‘ میں تحریرکیا ہے کہ اس کی اسناد جید ہیں ۔نور الدین علی بن احمد سمہودی نے’’ وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ‘‘ میں اس حدیث کو مسند احمد کی طرف منسوب کر کے لکھا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں پس اس حدیث سے یہ نکلا کہ بدھ کے روز میں ایک مستجاب ساعت ہے اسی لئے علماء نے بدھ کے روز اسباق کی ابتداء کو بہتر خیال کیا ہے۔علاوہ ازیں صحیح روایت سے ثابت ہے کہ حق تعالیٰ نے بدھ کے روز نور کی تخلیق کی ہے اور ظاہر ہے کہ علم سراسر نور ہے۔فیقاس لتمامہ ببدایتہ اذ یأبی اﷲ الا ان یتم نورہ۔(ظفر المحصلین ۱۹۳)واللہ اعلم

فتاوی دارالعلوم زکریا

Saturday 25 November 2017

مقدار درہم سے زیادہ نجاست کپڑے پر لگ گئ

*مقدار درہم سے زیادہ نجاست کپڑے پر لگ گئی*

*سوال(۶):-*
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ ایک شخص موٹر سائیکل سے ایک جگہ جارہا ہے، گاڑی کے نجاست کے اوپر سے گذرتے وقت چھینٹیں اڑیں اور روپئے سے زیادہ مقدار میں نجاست لگ گئی لیکن چلتے چلتے نجاست خشک ہوکر مقدار میں روپئے سے کم ہوگئی تو کیا اس کپڑے میں بغیر دھوئے نماز پڑھی جاسکتی ہے؟

*باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللہ التوفیق:*مسئولہ صورت میں چونکہ ابتداء میں مقدار درہم سے زیادہ نجاست لگی ہے اس لئے اسے پاک کئے بغیر اس میں نماز درست نہیں ہے، اگرچہ خشک ہونے کے بعد اس کی مقدار کم رہ گئی ہو۔
       *📚  والدلیل علی ما کتبت  📚*
عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ عن  النبي صلی علیہ وسلم قال: تعاد الصلاۃ من قدر الدرہم من الدم۔ (سنن الدار قطني ۱؍۳۸۵ رقم: ۱۴۷۹)
وإن کانت أکثر من قدر الدرہم منعت جواز الصلاۃ۔ (الفتاوی التاتارخانیۃ ۱؍۴۴۰ زکریا، درمحتار مع الشامي ۱؍۵۲۰ زکریا)
لو کانت أزید من الدرہم وقت الإصابۃ ثم جفت فخفت فصارت أقل منعت۔ (شامي ۱؍۵۲۱ زکریا) 

*فقط وﷲ تعالیٰ اعلم*
*کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۲۲؍۶؍۱۴۲۵ھ*
*الجواب صحیح: شبیر احمد عفا ﷲ عنہ*

مہندی پاکی نا پاکی Mehendi نا پاک مہندی لگالی تو پاکی کیسے ہو

*نا پاک مہندی لگالی تو پاکی کیسے ہو؟*

*سوال(۷):-*
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ مٹی کے تیل میں چھپکلی گرگئی تھی تو ہم نے وہ تیل مہندی میں ملالیا اور پھر وہ مہندی ہاتھوں میں رچالی، تو کیا اب مہندی کے رنگ کو ہاتھوں سے ختم کئے بغیر نماز پڑھی جائے تو کیا نماز ہوجائے گی؟

*باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللہ التوفیق:*مسئولہ صورت میں جب اصل مہندی ہاتھ سے چھٹالی جائے اور ہاتھ کو اچھی طرح پاک کرلیا جائے تو نماز پڑھنا درست ہوجائے گا، مہندی کا رنگ مٹانا ضروری نہیں ہے۔
       *📚  والدلیل علی ما کتبت  📚*
والمعنی في ذٰلک الحرج، بیانہ: أن المرأۃ إذا اختضبت یدہا أو رأسہا بحناء نجسۃ لو شرطنا زوال الأثر لثبوت الطہارۃ لتقاعدت عن الصلاۃ زماناً کثیراً وفیہ من الحرج ما لا یخفی۔ (الفتاویٰ التاتارخانیۃ ۱؍۴۴۹ رقم: ۱۱۷۱ زکریا)
ویطہر متنجس بنجاسۃ مرئیۃ بزوال عینہا ولو بمرۃ علی الصحیح ولا یضر بقاء أثر کلون أوریح۔ (طحطاوي علی المراقي ۱۶۰، نور الإیضاح ۵۴) 

*فقط وﷲ تعالیٰ اعلم*
*کتبہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ*
*۲۲؍۶؍۱۴۲۵ھ*

ایس ایم ایس سے اللہ و رسول کا نام ڈلیٹ کرنا delete Allah wa Rasool name from sms

*موبائل کے SMS سے اللہ و ر سول کا نام ڈیلیٹ کرنا؟*

*سوال(۱۱۱۸):-*
کیا فرماتے ہیں علماء دین ومفتیانِ شرع متین مسئلہ ذیل کے بارے میں کہ موبائل میں میسیج وغیرہ کے ذریعہ قرآن کی آیات کا ترجمہ  اَحادیث، اللہ اور اُس کے رسول کا نام آتا ہے، اُن چیزوں کو محو (ڈلیٹ) کرنے کا کیا حکم ہے؟

*باسمہٖ سبحانہ تعالیٰ*
*الجواب وباللّٰہ التوفیق:*موبائل کی حیثیت ایک آئینہ کے مانند ہے جس میں عکس ظاہر ہوتا ہے، اور کسی چیز کے عکس کو مٹانے سے یا آئینہ کو سامنے ہٹانے سے اصل چیز کا مٹانا نہیں پایا جاتا ہے؛ لہٰذا قرآنی آیات، اَحادیثِ شریفہ اور اللہ ورسول کے اَسماء پر مشتمل میسیج کو ڈیلیٹ کرنا منع نہیں ہے۔
       *📚  والدلیل علی ما کتبت  📚*
ولو محا لوحًا کتب فیہ القرآن واستعملہ في أمر الدنیا یجوز۔ (الفتاویٰ الہندیۃ ۴؍۳۳۲ دار إحیاء التراث العربي بیروت)
إن المرئي في المرأۃ مثالہ لا ہو۔ (شامي ۴؍۱۱۰ زکریا) 

*فقط واللہ تعالیٰ اعلم*
*املاہ: احقر محمد سلمان منصورپوری غفرلہ ۱۱؍۱۱؍۱۴۳۱ھ*
*الجواب صحیح: شبیر احمد عفا اللہ عنہ*

Qaza umeri nemaz masail قضائے عمری نماز کا مسلہ قسط نمبر 1

🛑 *part 1*
🔵 * قضائے عمری*

🌼 قرآن کریم کےپانچویں پارے میں سورۃنساء کی آیت نمبر 103میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
*إنَّ الصَّلـوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُوْمِنِیْنَ کِتَابًا مَّوْقُوْتًا*

🔻اللہ تعالی نے اہل ایمان پر نماز کو مقررہ اوقات میں فرض کیا ہے۔ اس لیے اپنے وقت پر نماز کو ادا کرنا ضروری ہے ، ہاں اگر کبھی کبھار کسی عذر ،بیماری یا کسی مجبوری کی وجہ سے نماز وقت میں ادا نہ کر سکیں تو شریعت نے اس عبادت کی اہمیت کے پیش نظر اسے بعد میں ادا کرنے کا سختی سے حکم دیا ہے۔

🌻 آج کل تساہل پسندی کا زمانہ ہے ، اول تو بہت سے مسلمان نماز ادا ہی نہیں کرتے ، اگر کبھی پڑھ بھی لیں تو شرائط و آداب کا بالکل خیال نہیں کرتے اور خشوع خضوع سے خالی نماز محض اٹھک بیٹھک کا نمونہ پیش کرتی ہے اور بس۔

🌹 چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان اہم العبادات (نماز)کے چھوٹ جانے پر نادم ہوتے ، توبہ تائب ہوتے ، اور شریعت کے حکم کے مطابق اپنی قضاء شدہ نمازوں کو جلد ادا کرتے۔ افسوس صد افسوس کہ بعض دین کے ٹھیکے داروں نےاپنی کم علمی اور کوتاہ فہمی سے اس معاملے کو بھی اپنی اوٹ پٹانگ خواہشات کے حوالے کردیا۔ چنانچہ افراط تفریط کا شکار ہو کر رہ گئے۔

🌷ایک گروہ نے یہ نظریہ بنالیا کہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت نہیں محض توبہ ہی سے کام چلا لیا جائے۔ جبکہ دوسری طرف بعض اہل بدعت نے اس عبادت کا حلیہ بگاڑتے ہوئے یہ حل نکالا کہ ساری زندگی کی نمازیں ادا کرنا بہت دشوار ہے اس لیے رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو قضائے عمری کے نام سے ایک نئی نماز ایجاد کی اور یہ کہا کہ صرف چار رکعتوں کو مخصوص طریقے سے ادا کر لینے سے ساری عمر کی نمازیں ادا ہو جائیں گی۔

🌺 اس طبقہ فکر کے افراد رمضان المبارک میں اس مخصوص نماز کے جھوٹے میسجز پھیلاتے ہیں ، جس کی وجہ سے امت کا ایک بہت بڑا طبقہ ان کے فریب کا شکار ہو جاتا ہے ، عام سادہ لوح مسلمان بھی اسے صحیح سمجھ کر اپنی زندگی بھر کی نمازیں ادا نہیں کرتے اور اس نماز کو پڑھ لینے کے بعد یہ سمجھتے ہیں کہ اب ہمیں قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنے کی ضرورت بھی نہیں رہی۔

🌸 جبکہ اہل السنت والجماعت کا نظریہ بالکل الگ ہے وہ یہ ہے کہ قضاء شدہ نمازیں نہ تو محض توبہ سے ذمہ سے ساقط ہوتی ہیں اور نہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو چار رکعات کی مخصوص نماز کو ادا کرلینے سے ساری نمازیں ادا ہوتی ہیں۔ بلکہ قضاء شدہ نمازوں کو ادا کرنا ضروری ہے۔ چند دلائل پیش خدمت ہیں۔

⚡ *احادیث مبارکہ :*

1⃣: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مروی ہے کہ
🔹 *من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکرھا لا کفارۃ لھا الا ذالک .*
(صحیح بخاری ج 1 ص 84 باب من نسی صلاۃ)

🎯 *ترجمہ :* جو شخص نماز کو( اپنے وقت پر پڑھنا ) بھول جائے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ جب بھی اس کو یاد آئے (کہ اس نے فلاں نماز نہیں پڑھی )تو اسے چاہیے کہ وہ نماز پڑھے اس کے علاوہ اس کا کوئی کفارہ نہیں۔

2⃣: جبکہ صحیح مسلم میں کچھ الفاظ کے اختلاف کے ساتھ یہ حدیث موجود ہے :

🔸 *عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ قَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً أَوْ نَامَ عَنْهَا فَكَفَّارَتُهَا أَنْ يُصَلِّيَهَا إِذَا ذَكَرَهَا۔*
(صحیح مسلم:ج 1ص 27 )

💥 *ترجمہ:* حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے یا سوتا رہ جائے تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب یاد آجائے تو نماز پڑھ لے۔

3⃣: امام نسائی رحمہ اللہ  اپنی سنن میں ایک روایت لائے ہیں :
🔻 *سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن الرجل یرقد عن الصلوٰۃ او یغفل عنہا قال : کفارتھا ان یصلیھا اذا ذکرھا۔*
(سنن نسائی ج1 ص 100باب فی من نام عن صلوٰۃ)

💎 *ترجمہ :* رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو نماز کے وقت میں سو جائے یا غفلت کی وجہ سے چھوڑ دے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے اپنی قضاء شدہ نماز یاد آئے تو وہ اسے پڑھ لے۔

قضائے عمری نماز کا مسلہ قسط نمبر 2 Qaza e umeri nemaz

🛑 *part 2*

🔵 *قضائے عمری کا مسئلہ*

🌟 متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گهمن حفظه الله 


💠 *اقوالِ صحابہ :*

1⃣: امام مالک رحمہ اللہ  اپنی کتاب موطا امام مالک میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان نقل فرماتے ہیں :

🔹 *عَنْ نَافِعٍ أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ كَانَ يَقُولُ مَنْ نَسِيَ صَلَاةً فَلَمْ يَذْكُرْهَا إِلَّا وَهُوَ مَعَ الْإِمَامِ فَإِذَا سَلَّمَ الْإِمَامُ فَلْيُصَلِّ الصَّلَاةَ الَّتِي نَسِيَ ثُمَّ لِيُصَلِّ بَعْدَهَا الْأُخْرَى۔*

(موطا امام مالک:۱۵۵)

📌 *ترجمہ:* حضرت نافعؒ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص نماز پڑھنا بھول جائے، پھر امام کے ساتھ نماز پڑھتے وقت اس کو اپنی چھوڑی ہوئی قضاء نماز یاد آجائے تو جب امام سلام پھیرے تو اس کو چاہئے کہ پہلے وہ بھولی ہوئی قضاء نماز پڑھے پھر اس کے بعد دوسری نماز پڑھے۔

2⃣: امام ترمذی رحمہ اللہ نے اپنی جامع میں حضرت ابو عبیدہ بن عبداللہ بن مسعود کی ایک روایت نقل کی ہے ، چنانچہ فرماتے ہیں:

🔻 *عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ إِنَّ الْمُشْرِكِينَ شَغَلُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَرْبَعِ صَلَوَاتٍ يَوْمَ الْخَنْدَقِ حَتَّى ذَهَبَ مِنْ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللَّهُ فَأَمَرَ بِلَالًا فَأَذَّنَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الظُّهْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعَصْرَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْمَغْرِبَ ثُمَّ أَقَامَ فَصَلَّى الْعِشَاءَ۔*
(جامع ترمذی ص43)

🌼 حضرت ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ سے روایت ہے کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ غزوۂ خندق والے دن مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چار نمازیں پڑھنے سے رو ک دیا تھا یہاں تک رات کا کچھ حصہ گذر گیا، جتنا اللہ تعالیٰ نے چاہا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا تو انہوں نے اذان دی اور پھر اقامت کہی، پس ظہر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو عصر کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی تو مغرب کی نماز پڑھی، پھر اقامت کہی اور عشاء کی نماز پڑھی۔

⚡ *اقوال فقہاء:*

1⃣: امام بخاری حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا قول نقل کرتے ہیں :

🔸 *وقال ابراہیم من ترک صلاۃ واحدۃ عشرین سنۃ لم یعد الا تلک الصلوٰۃ الواحدۃ۔*

(صحیح بخاری ج 1 ص 84)

🌻 جس شخص نے ایک نماز چھوڑ دی تو (اگرچہ)بیس سال بھی گزر جائیں تو وہ شخص اسی اپنی قضاء شدہ نماز کو ادا کرے۔

2⃣: امام ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

🔹 *فالاصل فیہ ان کل صلوٰۃفاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبہا فیہ فانہ یلزم قضاؤھا۔ سواء ترکھا عمدا او سھوا او بسبب نوم وسواء کانت الفوائت قلیلۃ او کثیرۃ۔*

(بحر الرائق ج 2 ص 141)

🎯 *ترجمہ :* اصول یہ ہے کہ ہر وہ نماز جو کسی وقت میں واجب ہونے کے بعد رہ گئی ہو ، اس کی قضاء لازم ہے خواہ انسان نے وہ نماز جان بوجھ کر چھوڑی ہو یا بھول کر ، یا نیند کی وجہ سے نماز رہ گئی ہو۔ چھوٹ جانے والی نمازیں زیادہ ہوں یا کم ہوں۔ (بہر حال قضا لازم ہے۔)

3⃣: مشہور شارحِ مسلم علامہ نووی شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

🔻 *فِيهِ وُجُوب قَضَاء الْفَرِيضَة الْفَائِتَة سَوَاء تَرَكَهَا بِعُذْرٍ كَنَوْمٍ وَنِسْيَان أَوْ بِغَيْرِ عُذْر۔*

(شرح مسلم للنووی:ج1ص231 )

💥 *ترجمہ:* جس شخص کی نماز فوت ہوجائے اس کی قضاء اس پر ضروری ہے خواہ وہ نماز کسی عذر کی وجہ سے رہ گئی ہو جیسے نیند، اور بھول یا بغیر عذر کے چھوٹ گئی ہو۔

4⃣: امام جصاص رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

🔻 *وهذا الذي ورد به الأثر من إيجاب قضاء الصلاة المنسية عند الذكر لا خلاف بين الفقهاء فيه، وقد روي عن بعض السلف فيه قول شاذ ليس العمل عليه۔*

(احکام القرآن ج 3ص288)

⚡ *ترجمہ:* یہ جو اثر بھولے سے نماز قضاء کے ادا کرنے پر ہے یاد آنے پر اس کی قضاء میں فقہاء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے اور جو بعض سلف سے قول مروی ہے وہ شاذ ہے اس پر عمل نہیں۔

5⃣: صاحبِ رحمۃ الامۃ فرماتے ہیں:

🔹 *و اتفقوا علی وجوب قضاء الفوائت۔*

(رحمۃ الامامۃ:146 )

🌷 *ترجمہ:* علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ فوت شدہ نمازوں کی قضاء کرنا ضروری ہے۔

🚫 *نوٹ :* احناف کی طرح دیگر ائمہ کرام کے مقلدین کا بھی قرآن و سنت کی روشنی میں یہی موقف ہے۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :

6⃣: امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین کا مذہب ………المدونۃ الکبریٰ ج 1 ص 215

7⃣: امام شافعی رحمہ اللہ کے مقلدین کا مذہب……………فتح الجواد ج 1 ص 223

8⃣: امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلدین کا مذہب …الانصاف ج 1 ص 442

💠 *جلیل القدر محدث کا دو ٹوک فیصلہ:*

🌷علامہ ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حدیث *" من قضی صلاۃ من الفرائض فی آخر جمعۃ من شہر رمضان کان ذالک جابرا لکل صلاۃ فائتۃ فی عمرہ الی سبعین سنۃ باطل قطعا لانہ مناقض للاجماع علی ان شیئا من العبادات لا یقوم مقام فائتۃ سنوات۔*

(الموضوعات الکبریٰ ص 356)

💎 *ترجمہ :* یہ روایت کہ جو شخص رمضان کے آخری جمعہ میں ایک فرض نماز قضاء پڑھ لے تو ستر سال تک اس کی عمر میں جتنی نمازیں چھوٹی ہوں گی ان سب کی ادائیگی ہو جائے گی یہ روایت قطعی طور پر باطل ہے اس لیے کہ یہ حدیث اجماع کے خلاف ہے۔ جبکہ اجماع اس پر ہے کہ کوئی بھی عبادت سالہا سال کی چھوٹی ہوئی نمازوں کے قائم مقام نہیں ہو سکتی۔

🚫 *نوٹ :*
فقہاء نے اس بات کی تصریح کی ہے کہ قضاء شدہ نمازوں میں سے صرف فرض نمازوں اور وتروں کو ادا کیا جائے سنتوں اور نوافل کی قضاء نہیں کی جائے گی۔

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...