Thursday 30 November 2017

آہ! اے عقبی کے راہی مولانا مفتی محمد عبدﷲ پھولپوری

••• *آہ! اے عقبی کے راہی*•••






   __________________

✍🏻...《محمد عدنان وقار صدیقی》

——————————

    آج ۱۰/۳/۱۴۳۹ھ مطابق  ۳۰/۱۱/۲۰۱۷ بروز پنجشنبہ  سپیدئ سحر کے نمودار ہونے سے ہی فضا اداس تھی, سردی اپنے معمول پر ہی تھی, آفتاب کی شعائیں نمودار ہوئیں لیکن منظر غروب کا دکھا رہی تہیں, طبیعتیں بوجھل تہیں, صبح کی خوشگواری مانو کسی نے سمیٹ اور لپیٹ کر کہیں رکھدی تہیں,
   باد نسیم کا سہانا احساس آج محسوس  ہی نہیں تہا, فلک کا منہ بھی اترا ہوا تہا, عجیب سراسیمی طاری تہی, اگر چہ آسمان باوجود موسم سرما کے بادلوں کی چادر اوڑھے ھوئے نہ تہا؛ لیکن اداسی کی اوڑھنی اوڑھے ہوئے ضرور تہا, دل و ذھن اس پر اسرار اور گھٹے گھٹے منظر کو دیکھ کر کچھ بے چینی محسوس کر رہے تہے کہ خدایا! یہ موسم کو کیا ھوا کہ ابہی تو نومبر کا آخری دن ھے لیکن ماہ دسمبر کے وسط کا نقشہ کیوں عیاں ھے؟
   پھولوں کی نوخیز کلیاں جو ابہی چٹخنے کو ہی تھیں نہ معلوم کیوں سبز پتوں کے لحاف میں چھپ رہی تہیں, جیسے کسی انجانے خوف کا خطرہ لاحق ہو, سبزہ زار پر بکھری شبنم اور اسکی بوندیں جو مانند در شہوار  صبح صادق کی روشنی میں جگمگاتی تہیں آج کسی آنسوں کا عکس بنی ہوئی تہیں, کہیتوں کی پگڈنڈیوں پر ٹہلنے کا مزہ بد مزہ لگ رہا تہا, نہروں و تالابوں میں روز مرہ کی طرح تیرتی بطخیں بد دلی سے پانی کی سطح پر نظر آرہی تہیں گویا کسی ملازم کو زبردستی کسی کام پر مامور کردیا ہو اور وہ اسکو حرز جاں سمجھ کر بے شوقی سے سر انجام دے رہا ہو,
      جام و سبو اور صراحی سبھی تو تہے لیکن مے میں  ذائقہ اور مستی نام كو بهي نه تهي.
    ان تمام تر تبدیلیوں کو محسوس کرتے ہوئے ان بے چینیوں کو دل میں دباتے ھوئے, کائنات کے ہر ذرے کی پژمردگئ کو نظر انداز کرتے ھوئے روز مرہ کے معمول نپٹانے کی خاطر  معمولات میں مشغول ہوا جانے لگا, لیکن چھٹی حس کہہ رہی تہی کہ کوئی انہونی ضرور ہونے کو ھے-

   ابھی چند ساعات ہی گزرے تہے کہ بیداری میں دیکھے گئے  اس خوفناک خواب کی تعبیر ایک دل دوز اور اندوہناک خبر کی شکل میں پردۂ سماعت سے ٹکرائی, کہ 【محی السنہ, نواسہ ٔ حضرت شاہ عبد الغنی پھولپوری جناب الحاج حضرت ★مولانا مفتی محمد عبدﷲ پھولپوری★ خلیفۂ اجل حضرت محی السنہ شاہ ابرار الحق صاحب رح】 اس دار فانی سے دار بقاء کی جانب منبع وحی, مولد رسول صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ, النور ہسپتال میں دوران علاج کوچ فرماگئے ہیں,  سنتے ہی لگاکہ کانوں میں سیسہ گھل گیا ہو, بدن میں سن سا پڑگیا, زبان گنگ ہوکر رہ گئی, نگاہ کے سامنے اندھیرا سا چاگیا, دل کی دھڑکن معمول سے ھٹ گئ, قدرے مدت اس کیفیت سے دوچاری رہی تب کچھ وادی ہوش کی جانب واپسی ہوئی, 
       
  حضرت مرحوم علم و عمل کے چراغ, تزکیہ نفوس کے ماہر طبیب, تصوف کے امام, ماہر شریعت, دلوں کو اپنی پر اثر مواعظ سے جلاء و تازگی بخشنے والے, بے راہ روں کو راہ راست پر لانے والے, قلوب کو انابت الی ﷲ کی روشنی دکھانیوالے, سنتوں کا احیاء اور دین کی تجدید کرنیوالے, بلا گفتار من موہنے والے, جن کو دیکھ کر خدا یاد آجائے ایسے ﷲ والے, صاحب نسبت اور اکابرین و اہل ﷲ کی صحبت اٹھانے والے, اور ان سے اکتساب فیض کرنیوالے, پھر ہم ایسے بھولے بسرے یاد خدا سے غافل لوگوں کو یاد حق کرانیوالے, گناہوں کی شناعت اور سنتوں کی محبت دلوں میں جاگزیں کرنے والے تہے, 
   حضرت روشن چہرہ, شگفتہ رو, متبسم ہونٹ والےتہے, فقراء ومساکین کے ساتھ حسن و سلوک برتتے تہے, علماء و طلبہ اور اہل تعلق حضرات کا بہت زیادہ پاس و لحاظ فرماتے, آپ پاک دامن, نظافت پسند تہے, شریفانہ عادت و اطوار, اور عمدہ اخلاق و کردار کے مالک تہے, انہیں فکر فقط یہ تہی کہ انکے ساتھ ساتھ دیگراں کا بھی رشتہ خدا سے مضبوط ہو, بندگان خدا کو اپنی تمام چیزوں: مال و زر, علم و فضل, صلاح و تقوی, مواعظ و نصائح اور تربیت و اصلاح سے نفع پہونچایا۔ آپ بلا استثنا سبھوں کے نزدیک محبوب تہے, آپ کی مجلس علم و ذکر کی مجلس ہوتی تھی۔

*میں نے پایا ھے اسے اشکِ سحر گاہی میں*
*جس درِ نایاب سے خالی ھے صدف کی آغوش*
  
   آج وہ بھی ہم سے رخصت ہوگئے اور جاوداں ہوگئے, کس کو پتہ تہا کہ اس رواں سال (عام الحزن) اعیانِ عالَم کے اسی قافلے کے شریک ہیں جو قافلہ اس دنیا کی عظیم علمی و عملی شخصیات و ہستیوں کو ایک ایک کرکے چن چن کر راہیٔ ملک بقاء ھے,

٭ رفتيد ولے نه از دل ما٭

میرا ایمان ھے کہ دل فگاری کی اس کیفیت سے عالم اسلام میں عموما اور بر صغیر میں خصوصا وہ ہزاروں علماء دوچار ہوئے ھونگے جنہیں ان سے للہیت اور ان کے غیر معمولی علم و فضل کی وجہ سے اسی طرح عقیدت تہی جیسی عہد قریب کے بر صغیر کے خدا رسیدہ و محبت چسیدہ علمائے عالی مقام و مشایخ ذی احترام سے۔

*عجب قیامت کا حادثہ ھے کہ اشک ہیں آستین نہیں*
*زمیں کی رونق اجڑ گئی افق پے مہر مبیں نہیں*

*تری جدائی پے مرنے والے وہ کون ہیں جو حزیں نہیں*
*مگر تری مرگِ ناگہاں کا مجھے ابہی تک یقیں نہیں*

  ابھی ماضی قریب بلکہ ایام قریبہ میں لگے زخم مندمل نہ ہوسکے تہے, ابھی یاد اکابر و مرشدین تازی تہی, ابہی شاخ غم ہری ہی تہی, جگر کی آگ ابہی چنگاری ہی بنی تہی کہ ایک اور زخم تازہ قلب پر لگا, یاد مسلسل کا ایک تسلسل پھر شروع ہوگیا, آنکھیں اشکبار پھر ہوگئیں, جگر کی چنگاری پھر بھڑکتی آگ بن گئی, خوشیاں پھر چھنٹ گئیں, مسکراہٹیں پھر غائب ہوگئیں, لبوں پر پھر سکوت کا پہرہ لگ گیا, اذھان و افکار ایک بار پھر غم کی وادی میں چلے گئے, دنیا پھر یتیم سی ہوگئی, اور اس موت نے پھر گوہر نایاب چن لیا, جسم  فقط افسوس و حسرتوں کی آماجگاہ بن چکا, وہ تو دار السرور کو سدھارگئے لیکن دنیا کو دار الحزن بناگئے, 

*یہ پیر کلیسا کی کرامت ھے کہ اس نے*
*بجلی کے چراغوں سے منور کیے ہیں افکار*

       اسی غم و حزن کی ملی جلی کیفیت میں *جامعہ عربیہ دار العلوم رحیمیہ اکبراباد ضلع بجنور صوبہ یوپی* میں وفات کی خبر سن کر مجلس ایصال ثواب اور دعائے مغفرت کی مجلس کا انعقاد عمل میں آیا, جامعہ کے اساتذہ کرام و طلبۂ عظام نے قرآن خوانی کی, اور حضرت کی مقدس روح جو عند ﷲ راضیہ مرضیہ , اور عند الناس نفس مطمئنہ  تہی کو اسکا ثواب پہونچایا, 
    اللہ حضرت کی مغفرت فرماکر ان کی علمی و عملی ملی و قومی اصلاحی و ارشادی غرضیکہ تمام تر خدمات جلیلہ کاانکی شایان شان بدلہ و اجر عطا فرمائے, اور پسماندگان و متوسلین کو صبر جمیل سے نوازے, 

*فروغِ شمع جو اب ھے رہیگی رہتی دنیا تک*
*مگر محفل تو پروانوں سے خالی؛ہوتی جاتی ھے*
____________________

📝ناشر: جامعہ عربیہ دارالعلوم رحیمیہ،قصبہ: اکبرآباد، ضلع:بجنور، صوبہ: یوپی، الہند.

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...