Saturday 16 December 2017

حقیقت دو لوگوں میں گفتگو

◾حقیقت ◾

  یار مجھے تمہارے مذہب اور دھرم کے لڑکے اچھے لگتے ہیں, کیا ہیئر اسٹائل ھے,  ہینڈسم اسمارٹ لک, ایک الگ ہی بات ہوتی ھے, تیز طرار , بات کرنے کا اسٹائل بہی بہت عمدہ ہوتا ھے,
اگر میرا بس چلے گا تو میں تمہارے دھرم کے لڑکے سے شادی کرونگی,  بھوپال ڈیویژن کالج کی دو کلوز فرینڈ پوجا تیواری اپنی بیسٹ فرینڈ عالیہ خان کو اپنے دل کی بات بتارہی تہی تبہی درمیان میں عالیہ بول اٹھی : لیکن مجھے مسلم لڑکے بالکل پسند نھیں ھیں؛ شادی کے بعد بالکل بدل جاتے ہیں پردہ کرو نماز پڑھو صبح جلدی اٹھو , ساس سسر ہوں تو ان کی عزت کرو! مائی فٹ!!!
 پوجا: تو اس میں برائی کیا ھے؟ یہ تو سلیقہ اور ادبی بات ھے , 
عالیہ: مجھے آزادی پسند ھے , کسی طرح کا بندش نہ ہو ۔ نہ ساس سسر کی جھک جھک نہ اردہ نہ پردہ, شوہر ہو اسکے ساتھ تابع داری ہو , کسی سے ملنے جلنے پر روک ٹوک نہ ہو , ہر روز پارٹی ہو, شور شرابہ ہو صبح دیر تک سونا ملے,
   پوجا: چل بس کر! اب کلاس کا وقت ہوگیا ھء تو کرلینا میرے دھرم میں شادی لیکن ابہی مجھے معاف کر, ہر جگہ لیکچر شروع کردیتی ھے, ابہی کلاس میں جاکر بہی لیکچر سننا ھے۔

   عالیہ کا گھر ایک ویل ایجوکیٹیڈ فیملی سے تہا جہاں سبہی آزاد خیال لوگ تہے. عالیہ نے اپنی خواہش کئی بار گھر والوں کو بتائی ؛لیکن گھر والے ہمیشہ ہنسی مذاق میں لیتے تہے, اور خود بہی بولڈ نیس کو ترجیح دیتے تہے, پردے اور دین دھرم سے دوری بنائے رکھتے تھے, گھر میں دو بہائی تہے سیف اور کیف   جنکو اپنے دوستوں یاروں سے فرصت نہ تہی کہ بہن پر نظر رکہتے. ماں کو اپنی ایجوکیشن پر گھمنڈ تہا تو اسلام کو اپنے طور پر ڈفینس کرتی تہی کہ عالم کو بھی فتوے دیدے!
   اللہ نے یہ کب کہا ھے: کہ گھر میں قید ہوکر بیٹھے رہو! جس سے پردہ ہو کرلے اور جو نہ کرے اسکو سہولت دی ھے  یہ عالم لوگ بہی صرف ڈرانے کے لیے پیدا ہوئے ہیں, 

  وقت گزرتا رہا اور وہی ہوا جسکا ڈر تہا عالیہ نے ایک غیر مذہبی لڑکے سے شادی کرلی! 
  خاندان والوں نے طعنے کسے جنکو عالیہ کے والدین ڈفینس کرتے رہے؛ ان کی نظر میں یہ اتنا برا عمل نہ تہا اس زمانے میں اسی سوسائٹی کی ضرورت ھے کہ ہر دھرم کے لوگ اس راستے سے ایک دوسرے کے قریب آیئں!

   بہر حال  وقت گزرا آج عالیہ کی شادی کی پانچویں سال گرہ تہی , آج عالیہ دنیوی لحاظ سے بہت کامیاب ترین عورت تہی شوہر کا خود کا کامیاب بجنیس تہا, جس میں 300 ایمپلائز کام کرتے تہے,
 آج شہر کے بڑے نامور حضرات اس پارٹی میں شریک تہے,  مہمانوں کا جم غفیر تہا اور عالیہ تمام مہمانوں کا خاص خیال رکھ رہی تہی,  تبہی اسکو ایک کونے میں باپردہ برقع پوش خاتون نظر آئی جو ایک دیوار کی جانب منہ کئے بیٹھے تہی,عالیہ نے بڑے غور سے دیکھا  اور پاس جاکر معلوم کیا کہ آپ نے کہانا کہایا؟
   تو خاتون نے اثبات میں سر ہلایا ۔
  عالیہ: آپ برقعہ میں کیوں بیٹھی ہیں؟ اس دم گھٹنے والے لباس سے باہر آئے ۔دیکھئے ماحول کتنا حسین ھے, ہر طرف لوگ ہنسی خوشی ایک دوسرے سے مل رھے ہیں, گپ شپ میں مصروف ہیں, پارٹی سے فل انجوائے لے رہے ہیں, شراب و کباب ہاتھ میں ہیں,  اور ایک آپ ہیں جو دقیانوسی لباس میں ملبوس نمونہ بنی بیٹھی ہیں 
لوگ آپ کو مذاق والی نظروں اور توہین آمیز نگاہوں سے دیکھ رھے ہیں!

   پھر کچھ سوچ کر عالیہ بولی: سمجھ گئیں تمہارے شوہر نے تمکو اس قید میں مقید کیا ہوا ھے, چلو میں آپ کو آزاد کئے دیتی ہوں. یہ کہتے ھوئے عالیہ نے اس خاتون کے چہرے سے نقاب اٹھایا تو اس کی حیرت سے چیخ نکل گئی !
   پوجا تم!? 
 پوجا : نہیں میرا نام عائشہ اسلم ھے ۔
عالیہ حیرانی سے کہنے لگی کہ تم نے مسلمان سے شادی کرلی؟
 میں تو اس مصیبت سے بہاگ آئی تہی لیکن تو کیسے پھنس گئی؟
  عائشہ: پھنسی نہیں ھوں میں بلکہ بچ گئی ہوں؛ لیکن عالیہ تم ضرور خسارے میں دکھ رہی ہو! 
   عالیہ نے کھل کھلا کر کہا : دیکھو! میرے پاس آج کیا کچھ نہیں ھے؟  یہ سوسائٹی  یہ نام و شہرت  یہ عزت یہ پیسہ 
 سارا شہر سر جہکاکر مجھے  مسیز ترپھاٹی کہہ کر بلاتا ھے۔

 عائشہ: ٹھیک ھے آج تم اس زندگی کو کامیاب کہہ رہی ہو ؛ لیکن اس کے بعد کی زندگی کا کیا ہوگا؟ جہاں سب کو اپنے رب کے سامنے کھڑا ہونا ھے, تم نے دنیوی کامیابی کے لیے اخروی کامیابی کو ٹھکرادیا ھے.
   عالیہ: ارے کون سی کامیابی؟ دیکھو میرا شوہر آج مجھ پر نہ سختی کرتا ھے تہ پردہ وغیرہ کی پابندی ھے جو کہانا پہننا یا ملنا جلنا ھے سب میں ہی طے کرتی ہوں ۔ تمہارے شوہر نے تو تمکو برقعہ کی زنجیروں میں مقید کیا ہوا ھے آخر کون ہیں تمہارے شوہر نامدار!
     عائشہ: میرے شوار تمہاری کمپنی کے سپر وائزر ہیں اور میں ان کی نظر میں ایک بیش قیمت جوہر ہوں جسے وہ چھپا کر رکھتے ہیں۔
    اور رہ مجھے پردے کے لیے مجبور نہیں کرتے یہ تو مجھے اسلام اپنانے کے بعد معلوم ہوا کہ اسلام ایک کوہینور کا ہیرا ھے   تم نے اس کی کوئی قدر نہ کی ۔یہ دولت مجھ فقیر کو مل گئی اور اس نے میری قدر بڑھادی۔
    اور حس حجاب کو تم قید کہہ رہی ہو تو سنو! یہ عورت کی زینت ھے, اسلام کی شہزادیوں کے لیے اللہ کا ایک عظیم انعام ھے!
    میرے رب کریم نے مجہکو باپردہ رہنے کا حکم فرمایا, میرے جسم و آواز لباس غرضیکہ ہر چیز  کا پردہ بتایا۔
  تاآنکہ میرے نام کا بھی پردہ ھے  اللہ تعالی نے قرآن کریم میں فقط حضرت مریم کے کسی خاتون کا نام نہ لیا؛ بلکہ اشارہ و کنایہ میں خواتین کا ذکر فرمایا۔ مریم کا ذکر صراحتا ایک مصلحت کی بنا پر کیا ھے۔
   تم کیا سمجہتی ہو کہ حجاب میرے لیے قید اور رکاوٹ ھے؟  
   اسی حجاب میں رہ کر ام المؤمنین حضرت عائشہ رض نے ٢٢ ہزار احادیث کا ذخیرہ امت مسلمہ کو عطا فرمایا,  رسول خدا کی دختر حضرت فاطمہ رض نے تو بعد وفات بہی حجاب ترک نہ کیا کہ جنازہ بہی باپردہ نکلا,  اور سب سے قیمتی بات دنیا کی ہر قیمتی چیز کو چھپا کر رکہا جاتا ھے ۔شمع محفل نہیں بنایا جاتا!
  جبکہ کوڑے و کباڑ کو باہر سر عام ڈال دیا جاتا ھے جسکو ہر کسی کے پاؤں روندتے جاتے ہیں,
      چلتی ہوں میرے شوہر کا فون آرہا ھے 
   عالیہ کے پاس عائشہ کی کسی بات کا جواب نہ تہا, کیونکہ جس اسلام کو وہ اپنے باپ کی جاگیر سمجھ رہی تہی اسے کوئی اور لوٹ لے گیا تہا۔

   یہ تحریر پڑھنے والے عالیہ کو غلط سمجھ رہے ہونگے جبکہ اس سے بڑے گنہگار اسکے والدین ہیں ۔

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...