Tuesday 19 December 2017

نبی سے مدد ، روایت کی تحقیق ازمفتی عدنان وقار صدیقی قاسمی




*باسمہ تعالی*
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   یہ روایت امام بخاری کی  " الادب المفرد" اور  ابن السنی کی " عمل الیوم واللیلہ" میں مذکور ھے, لیکن اس روایت سے رضاخانی جو ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ مدعا کسی بہی طور پے ثابت نہیں ہوتا ھے؛ کیونکہ اس روایت پر شدید جرح ائمہ جرح و تعدیل نے کی ھے ,  اس روایت کی سند میں " ایک راوی *غیاث بن ابراہیم* ھے جسکے متعلق تاج المحدثین امام وقت امام یحی بن معین رح فرماتے ہیں: کہ غیاث بن ابراہیم  کذاب اور خبیث ھے میں اسکی روایت کو پیش کرنا بہی قبیح سمجہتا ہوں ,  واضح رھے کہ امام یحی بن معین کی جرح کسی بہی روایت کے لیے ناقابل استدلال ہونے کے لیے کافی ھے.اور امام احمد بن حنبل و امام بخاری نے اس راوی کو کہا کہ اسکی روایت محدثین قبول نہیں کرتے ہیں۔
  
      نیز عمل الیوم واللیل میں یہی بات دوسری سند سے مذکور ھے؛ لیکن وہ بہی ضعیف ھے کیونکہ اس میں ایک راوی ھیثم بن۔حنش ہے جو کہ مبہم اور ضعیف ھے۔

 اور ایک راوی محمد بن مصعب ھے جسکو امام ابن معین و نسائی نے ضعیف قرارد یا ھے اور ابن حبان  نے فرمایا: کہ مذکورہ راوی روایت کے متن اور سند کو بدلنے میں متہم ھے لہذا اسکو بہی قابل اعتبار نہیں سمجہا جاسکتا ھے۔
  
   🔵 دوسری بات:  اس روایت کے الفاظ میں غور کیا جائے اس میں یہ لفظ ھے کہ تم اپنی سب سے پسندیدہ شخصیت کو یاد کرو!  یہ نہیں کہا کہ مدد چاہو یا دعا مانگو ۔ اور یاد کرنے اور مدد چاہنے و دعا کرنے میں زمین و آسمان کا فرق ھے ۔عربی کا ایک ادنی طالبعلم بہی اس فرق کو بلا بتائے سمجھ جاتا ھے ۔البتہ کسی کی عقل و آنکھ پے غفلت اور کم علم کی مہر لگی ہو تو ہم اس میں کیا کرسکتے ہیں!

    امام نووی نے صراحت فرمائی ھے کہ اس طرح کی بیماری میں عرب ایسا کیا کرتے تہے کہ جو سب سے۔زیادہ پسندیدہ شخصیت ہو اسکو یاد کرتے تہے اور ابن عمر کے لیے سب سے زیادہ محبوب رسول ﷲ تہے ۔ 
یہ بات آپ " علامہ آلوسی کی کتاب " بلوغ الارب فی معرفہ احوال العرب " میں دیکھ سکتے ہیں۔

    اور عقلا بہی یہ بات محال اور بعید از عقل ھے کہ ابن عمر جیسا صحابی اللہ کو چھوڑ کر غیر ﷲ سے مدد طلب کرے جبکہ خود نبی کو اللہ نے کہا ھے کہ ہر موقعہ پر اللہ کو پکارو! 
 ( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَدًا . وَأَنَّهُ لَمَّا قَامَ عَبْدُ اللَّهِ يَدْعُوهُ كَادُوا يَكُونُونَ عَلَيْهِ لِبَدًا . قُلْ إِنَّمَا أَدْعُو رَبِّي وَلَا أُشْرِكُ بِهِ أَحَدًا . قُلْ إِنِّي لَا أَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا رَشَدًا ) الجن/18-20.)

  نیز شیخ ابوبطین فرماتے ہیں: کہ ہو سکتا ھے کہ  اللہ نے حضور کریم کے اسم گرامی میں ایک تاثیر و خاصیت رکہی ہو۔

  قابل غور ھے کہ ابن عمر نے : یا محمد  أزل خدري ، أو أشكو إليك خدر رجلي نہیں کہا کہ جس سے ثابت ہو کہ انہوں نے حضور سے شفا یابی طلب کی ہو۔

🔘 تیسری بات:  امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں کہ حضور کو یا محمد کہنا فقط استحضار قلبی کے لیے ھے جیساکہ التحیات میں کہا جاتا ھے" السلام علیک ایہا النبی"  یہ فقط دلی استحضار کے لیے ھے کوئی اور جذبہ پیش نظر نہیں رہتا ھے۔

  ◾ چوتہی بات: 
  عربوں کے یہاں ان احوال میں اپنی پسندیدہ شخصیت کو یاد کیا جانا معروف ھے  جیساکہ ہم علامہ آلوسی کے حوالے سے ذکر کر چکے ہیں تو اگر کوئی اس حالت میں اپنی بیوی , باپ, والدہ, استاذ, کو یاد کرے تو کیا اس سے یہ لازم آئگا کہ وہ ان لوگوں سے مدد طلب کر رہا ھے حالانکہ وہ دنیا میں موجود نھیں ھیں یا دنیا میں ہیں تو اسکے پاس  فی الوقت موجود نہیں ہیں ,  اگر آپ یہ کہتے ہو یہ یاد کرنا مدد طلب کرنا ھے تو مدد طلب کرنیوالا بیوقوف شمار ہوگا اور پھر سارا عرب بیوقوف شمار کیا جایئگا ۔ اور مجھ کو لگتا ھے کہ سارے عرب کو پاگل کہنے والا خود اپنی عقل کا جائزہ لے تو بہتر ہوگا۔

  إسرائيلُ ، عن أبي إسحاق ، عن الهيثم بن حنش ، قال : ( كنا عند عبد الله بن عمر رضي الله عنهما ، فخَدِرَت رِجلُه ، فقال له رَجُل : اذكر أحبَّ الناس إليك : فقال : يا محمد ، قال : فقام ، فكأنما نَشِطَ من عِقال ) 
رواه ابنُ السني في " عمل اليوم والليلة " (رقم/169) ۔صفحہ: 88. ط:  مکتبہ دار البیان ۔الطائف)
⭕خلاصہ کلام:
  یہ روایت انتہائی ضعیف ھے ناقابل استدلال ھے۔ اور اگر اسکو صحیح مان لیا جائے تو اس سے رضاخانیوں کا مقصد کسی صورت ثابت نہیں ہوتا ۔ 

وﷲ تعالی اعلم 

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...