Monday 27 November 2017

قادیانیت کا مکروہ چہرہ قسط نمبر 9

قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 9

حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس. ..

.ہمارے چنیوٹ کے ایک دوست کی بہن جو نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ تھی اس کے گھر والوں نے چنیوٹ سے لاہور منتقل ہونا تھا چنانچہ اس نے آٹھویں جماعت پاس کرنے کے بعد نویں کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنا چاہا مگر سکول کی ہیڈ مسٹریس مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے سے انکار کر دیا اور کہا ”بچی لائق ہے، اسے میٹرک پاس کرنے تک سکول سے نہیں فارغ کریں گے۔“ سکول مینیجر چودھری علی اکبر ہمارے دوست مقصود الرٰحمن کے والد تھے، ان کی سفارش کرائی مگر بے سود۔ آخر ہمارے ایک اور کلاس فیلو دور کی کوڑی لائے۔ انہوں نے یونائیٹڈ بنک (United Bank) کے مینیجر لطیف اکمل سے بات کی جنہوں نے ایک فون کیا اور اگلے لمحے مسز بشیر نے سرٹیفیکیٹ دینے کی ہامی بھر لی۔ ہمارا کام تو ہو گیا مگر لطیف اکمل سے اس انہونی کے ہو جانے کے اسباب پوچھے تو انہوں نے آنکھ دبا کر کہا ” بھائی یاری کی کچھ تو پردہ داری ہونی چاہیے۔“

ایک مرتبہ ہمارے ایک جاننے والوں کی بیٹی اور نصرت گرلز ہائی سکول کی طالبہ نویں جماعت میں فیل ہو گئی۔ لڑکی کے والد نے سکول انتظامیہ سے ملنے کے بعد پرچے دوبارہ چیک کر کے اسے رعایتی نمبر دلوا کر پاس کرانے کی درخواست کی۔ اس سلسلے میں ان کی ملاقات لڑکی کی کلاس ٹیچر سے ہوئی جس نے لڑکی کے باپ کو بتایا کہ لڑکی کی نالائقی کی وجہ اس کا چال چلن ہے۔ وہ اور اس کی سہیلیوں کا گروپ کلاس سے اکثر غائب رہتا ہے اور یہ سب ایک دوسرے کے بوائے فرینڈز کو محبت نامے پہنچانے اور ملاقاتیں ارینج(arrange) کرانے میں مصروف رہتی ہیں جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ پڑھائی میں کمزور رہ گئی ہے۔ لڑکی کا والد جو پہلے ہی بیٹی کی ناکامی پر سر پیٹ رہا تھا، اب بچی کے مشکوک چال چلن کی خبر پر سخت پریشان ہو گیا۔ جب لڑکی اور اس کی سہیلیوں سے معلوم کیا گیا تو انہوں نے ایک اور ہی کہانی سنا ڈالی کے موصوف ٹیچر کے خود کچھ مشکوک لوگوں کے ساتھ تعلقات ہیں اور وہ اپنی ”خوب رو“ طالبات کو ان لوگوں سے ملاقات پر مجبور کرتے ہے اور جو لڑکیاں بات نہیں مانتیں، انہیں نہ صرف کلاس میں زچ کیا جاتا ہے بلکہ امتحان میں فیل کر دیا جاتا ہے۔ یہ معاملہ جب اعلیٰ سطح پر اٹھایا گیا تو سکول انتظامیہ نے یہ کہہ کر بات دبا دی کہ اس طرح اساتذہ اور طالبات کی بدنامی ہو گی۔ چنانچہ لڑکی کو پاس کر کے اگلی کلاس میں بھیج دیا گیا۔

ہمارے محلّہ میں ایک لڑکا رفیق رہتا تھا جس کے اپنی پڑوسن اور میٹرک کی طلبہ جمیلہ سے تعلقات تھے۔ دونوں کے والدین نے انہیں باز رکھنے کی بے حد کوشش کی مگر بے سود، دونوں نے اپنی ڈگر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ رفیق کا والد راج گیری کا کام کرتا تھا، وہ اسے اپنے ساتھ کوئٹہ لے گیا جبکہ جمیلہ کے گھر والوں نے اس کی شادی کر دی۔ فریقین کا خیال تھا کہ دوری دونوں کے سروں سے عشق کا بھوت اتار دے گی۔ مگر مرض دوا کرنے کے ساتھ بڑھتا گیا اور رفیق باپ کو جُل دے کر کوئٹہ سے چنیوٹ آ گیا اور ایک آٹو ورکشاپ میں کام سیکھنا شروع کر دیا۔ اس دوران رفیق اور جمیلہ کی ملاقاتیں پھر سے ہری ہو گئیں۔ چنانچہ جمیلہ نے طلاق اور رفیق نے اپنے استاد کی مدد سے نکاح کر ڈالا۔

ربوہٰ کے ایک حکیم صاحب کے پڑوس میں ملتان کا ایک لڑکا شاکر اپنی ماں کے ہمراہ قیام پذیر ہوا۔ حکیم صاحب نے اپنی تربیت کے مطابق اس سے ملاقات کی اور پوچھا کہ ”بیٹے آپ احمدی ہیں؟“ جواب ملا ”نہیں“ حکیم صاحب نے فوراً اسے تبلیغ کرنے کا فیصلہ کیا اور ” مرزا غلام احمد“ کی نبوت اور ان کے خلفاء کے بارے میں جملہ کہانیاں سنا ڈالیں۔ شاکر اگرچہ مذہبی ذہنیت رکھنے والا مسلمان نہیں تھا، تاہم اسے مرزائیت سے بھی کوئی رغبت نہیں تھی۔ حکیم صاحب نے اسے ”مسجد“ اور دیگر اجلاسوں میں آنے کی بہت پیشکش کی مگر وہ ہر بار طرح دے جاتا۔ ایک دن حکیم صاحب نے اسے گھر بلایا اور ڈرائنگ روم میں بٹھایا۔ ابھی تبلیغ کا باب دوبارہ شروع ہوا ہی تھا کہ حکیم صاحب کی بیٹی چائے لے کر ڈرائنگ روم میں آئی۔ بس پھر کیا تھا شاکر لڑکی دیکھتے ہی دم بخود ہو گیا۔ ” اتنی حسین لڑکی شاید میں نے پہلے کبھی دیکھی ہی نہیں“ خود کلامی کے انداز میں وہ بڑبڑایا۔ حکیم صاحب نے جب یہ صورت حال دیکھی تو کہنے لگے ”بیٹے! یہ میری بیٹی طاہرہ ہے، اس سال فرسٹ ایئر میں داخل ہوئی ہے۔“ شاکر طاہرہ کے حسن قیامت خیز میں اس قدر کھویا کہ اس نے حکیم صاحب کی شبینہ روز تبلیغ کو گوارا کرنے کا فیصلہ کر لیا اور کہا ” حکیم صاحب! مجھے آپ کی باتیں بہت اچھی لگی ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ تمام باتیں مجھے رفتہ رفتہ بتائیں اور سمجھائیں۔“ حکیم صاحب تیار ہو گئے۔ یوں اس نے ایک مقررہ وقت پر ان کے گھر جانے کا معمول بنا لیا۔ حکیم صاحب ایک نیا احمدی جماعت میں لانے میں مگن تھے جبکہ شاکر ترچھی نگاہوں سے طاہرہ کو تسخیر کرنے میں مصروف تھا۔ حکیم صاحب کی مسلسل کوشش کے باوجود شاکر مرزائی تو نہ ہو سکا، مگر طاہرہ اس کے دام محبت آگئی۔ شاکر طاہرہ سے تعلق برقرار رکھنے اور حکیم صاحب کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ”نیم مرزائی“ ہو گیا۔ ان دونوں کی دوستی اور محبت کا حکیم صاحب کو علم تھا مگر وہ شاکر کو مکمل مرزائی ہونے تک سب کچھ گوارا کرنے پر تیار تھے جبکہ شاکر انہیں ٹالنے کے نت نئے بہانے بنا لیتا۔ کبھی کہتا تعلیم مکمل کر لو، پھر مرزا ناصر کی بیعت کر لوں گا۔ فوری طور پر بیعت کرنے پر مجھے گھر والے عاق کر دیں گے۔ حکیم صاحب ان دلیلوں کو مانتے رہے اور اپنے گھر آنے جانے سے نہ روکا۔ اس دوران وہ اپنا مقصود بھی حاصل کرتا رہا۔ یوں اس نے پہلے ایف ۔اے پھر بی۔ اے کر لیا اور مرزائیت پر لعنت بھیجتا ہوا واپس ملتان چلا گیا جبکہ حکیم صاحب اور طاہرہ ہاتھ ملتے رہ گئے

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...