Monday 27 November 2017

قادیانیت کا مکروہ چہرہ قسط نمبر 8

قادیانیت کا مکروہ چہرہ. نمبر 8

حمزہ اعوان کی تحریر سے اقتباس 

مرزائی امت کے ارباب اقتدار اور شہر کے عوام الناس نے اپنے ہر قول و عمل پر منافقت کا لبادہ چڑھا رکھا ہے۔ ربوہ(چناب نگر )ٰ کے معاشرے کو پاکیزہ اور مثالی ظاہر کرنے کے لیے مختلف ڈرامے بازیاں کی جاتیں جس میں شہر کے ایک کونے پر جامعہ نصرت گرلز کالج اور نصرت گرلز ہائی سکول اور دوسرے کونے پر لڑکوں کے تعلیم الاسلام ہائی سکول اور ٹی آئی کالج کی تعمیر قابل ذکر ہے۔ اس تعمیر کی غایت بظاہر یہ تھی کہ باہر کی دنیا پر یہ ثابت کیا جائے کہ صنف نازک اور صنف کرخت کے تعلیمی اداروں میں انتہائی فاصلے ایک مثالی معاشرے کی شاندار مثال ہیں۔ لیکن ان کی منافقت اور ڈرامے بازی اس وقت مضحکہ خیز ثابت ہوتی جب دریائے چناب، الف محلّہ دار الرحمت غربی، شرقی، وسطی ریلوے سٹیشن کے علاقے کے لڑکے دریا کی طرف اپنے سکول و کالج جا رہے ہوتے تھے تو دونوں اصناف کا آپس میں کراس ہوتا۔ اس دوران بے شمار لڑکے لڑکیوں کے آپس میں مسکراہٹوں اور رقعوں کے تبادلے ہو جاتے اور کسی کو کانون کان خبر بھی نہ ہوتی۔

ایک دفع میں میرا کزن محمد شفیع ریلوے لائن میں چلتے ہوئے سکول جا رہے تھے۔ راستے میں ایک شیریں کو اپنے فرہاد کی نگاہوں سے بلائیں لیتے دیکھا تو لا محالہ ہمارا دھیان ادھر چلا گیا۔ اس محویت میں پیچھے سے آتے ہوئے ریلوے انجن کی آواز بھی نہ سنائی دی۔ قدرت کو ہماری زندگی مقصود تھی کہ انجن ابھی چند گز کے فاصلے پر تھا کہ ہم نے دائیں بائیں جانب چھلانگیں لگا کر جان بچا لی ورنہ ایک حور کے کمالات کا نظارہ ہمیں دوسری دنیا پہنچا چکا ہوتا۔

ربوہٰ کی ایک لڑکی کا نام نجمہ تھا جسے سب لوگ نجمی کہتے تھے۔ اس کی چنیوٹ کے ایک مسلمان لڑکے ظہیر احمد سے نہ جانے کیسے ملاقات ہو گئی اور اسے اپنا دیوانہ بنا لیا۔ یہ لڑکا یتیم تھا اور تعلیم حاصل کرنے ملتان سے اپنی بہن کے پاس چنیوٹ آیا ہوا تھا۔ ظہیر کے گھر والوں نے سنا تھا کہ ربوہٰ میں تعلیم بہت اچھی ہے۔ لہٰذا اسے فرسٹ ائیر میں تعلیم الاسلام کالج میں داخل کرا دیا گیا۔ اس کی نجمی سے ملاقات ہوئی تو وہ ظہیر پر لٹو ہو گئی۔ دسمبر ٹیسٹ میں جب ظہیر میاں فیل ہو گئے تو ان کے گھر والوں کا ماتھا ٹھنکا۔ انہوں نے اپنے طور پر انکوائری کی تو معلوم ہوا کہ میاں صاحبزادے تو حور کی زلفوں کے اسیر ہو چکے ہیں بس پھر کیا تھا، پہلے تو ان کی خوب دُھنائی ہوئی ،گر جب عشق کا بھوت ان کے سر سے اتارے نہ اترا تو موصوف کے گھر والوں نے واپس ملتان بھیج دیا۔

ربوہ (چناب نگر )ٰ کے تمام مرد دو(2) مقامات پر سرو نگاہ جھکا لیتے اور ہاتھ باندھ لیا کرتے تھے۔ ایک جب وہ اپنے خلیفہ، اس کی اولاد یا جھوٹے خاندانِ نبوت کے کسی بھی فرد کے سامنے پیش ہوتے۔ دوسرے اس وقت جب حوریں ان کے سامنے آ تیں۔ ”ربوہٰ مرد“ کنکھیوں سے انہیں دیکھ تو لیتے مگر ان سے نظر ملانا نہ جانے کیوں ان کے بس میں نہیں ہوتا تھا۔ کئی ایک سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے اپنے ”نبی“ کی نام نہاد تعلیمات کو حوالہ دیتے ہوئے کہا ” ہم اپنی مذہبی تربیت کی بنا پر عورتوں کی طرف نگاہ اٹھا کر نہیں دیکھتے جبکہ عورتیں ہمیں سر سے پاؤں تک دیکھ لیتی ہیں۔“

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...