Monday 27 November 2017

اسلام میں عمر کے مدارج

اسلام میں عمر کے مدارج

   مجھے ایک روایت کی تحقیق درکار ھے جسکے الفاظ یہ ہیں: 

⬅  جب انسان حالت اسلام میں چالیس سال کی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو (تین قسم کی بیماریوں سے) محفوظ کردیتے ہیں یعنی جنون اور جذام اور برص سے۔ جب پچاس سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا حساب ہلکا کردیتے ہیں۔ جب ساٹھ سال کو پہنچتا ہے تو اللہ اس کو اپنی طرف رجوع کی توفیق دے دیتے ہیں۔ جب ستر سال کو پہنچتا ہے تو سب آسمان والے اس سے محبت کرنے لگتے ہیں اور جب اسی سال کو پہنچتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے حسنات کو لکھتے ہیں اور سیئات کو معاف فرما دیتے ہیں پھر جب نوے سال کی عمر ہوجائے تو اللہ تعالیٰ اس کے سب اگلے پچھلے گناہ معاف فرما دیتے ہیں اور اس کو اپنے اہل بیت کے معاملے میں شفاعت کرنے کا حق دیتے ہیں اور اس کی شفاعت قبول فرماتے ہیں اور اس کا لقب امین اللہ اور اسیر اللہ فی الارض (یعنی زمین میں اللہ کا قیدی) ہوجاتا ہے (کیونکہ اس عمر میں پہنچ کر عموماً انسان کی قوت ختم ہوجاتی ہے کسی چیز میں لذت نہیں رہتی، قیدی کی طرح عمر گزارتا ہے اور جب ارذل عمر کو پہنچ جائے تو اس کے تمام وہ نیک عمل نامہ اعمال میں برابر لکھے جاتے ہیں جو اپنی صحت و قوت کے زمانے میں کیا کرتا تھا اور اگر اس سے کوئی گناہ ہوجاتا ہے تو وہ لکھا نہیں جاتا۔
➖➖➖➖➖➖

••• *باسمہ تعالی*•••
*الجواب وبہ التوفیق:* 

   جی یہ بات درست ھے؛ یہ عبارت "معارف القرآن شفیعی" سے ماخوذ ھے.
  
⚫معارف القرآن, جلد:6, صفحہ:242, سورہ: حج, آیت:5, پارہ:17, ط: کتب خانہ نعیمیہ, دیوبند.
➗➗➗➗➗➗

🔵 اس روایت کا ماخذ: 

یہ روایت " مسند ابو یعلی" میں حضرت انس بن مالک رض سے مروی ھے, جسکے الفاظ یہ ہیں:

⬇⬇⬇⬇⬇⬇⬇

      عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ((ما مِن مُعمَّر يُعمَّر في الإسلام أربعين سنة إلا دفع الله عنه أنواع البلاء: الجنون، والجذام، والبرص، فإذا بلغ الخمسين هوَّن الله عليه الحساب، فإذا بلغ الستين رزقه الله الإنابة إلى الله بما يحب الله، فإذا بلغ السبعين أحبه الله وأحبه أهل السماء، فإذا بلغ الثمانين كُتبت حسناتُه ومُحيت سيئاته، فإذا بلغ التسعين غفر الله له ما تقدم من ذنبه وما تأخر، وكان أسيرَ الله في أرضه، وشفع في أهل بيته)).

المصدر: مسند أبي يعلي، 
الراوی: أنس بن مالک 
المحدث: احمد بن علی 
المجلد:7
رقم الحديث: 4249,
رقم الصفحہ: 243
الناشر: دار المامون للتراث, دمشق.
حکم الروایہ: قال حسين سليم أسد: إسناده ضعيف.

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

🔘 خلاصۂ کلام: 

👈🏻 یہ روایت حافظ ابن کثیر نے مسند ابو یعلی سے نقل کرنے کے بعد فرمایا ہے ھذا حدیث غریب جدا وفیہ نکارة شدیدة (یعنی یہ حدیث غریب ہے اور اس میں سخت نکارت ہے) پھر فرمایا و مع ھذا قد رواہ الامام احمد بن حنبل فی مسندہ موقوفاً و مرفوعاً (یعنی اس غرابت و نکارت کے باوجود امام احمد نے اپنی مسند میں اس کو موقوفاً اور مرفوعاً دونوں طرح روایت کیا ہے؛ لہذا اس روایت کو فضائل میں بیان کرنا درست اور جائز ھے۔

وﷲ تعالی اعلم
✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...