Sunday 12 May 2019

حضرت آدم علیہ السلام کے آنسوں

*حضرت آدم کے آنسوں*


جب حضرتِ آدم کو خطا کے بعد دنیا میں بھیجا گیا تو حضرت ندامت سے رونے لگے اور اللہ سے استغفار کرنے لگے روتے روتے زمین پر آنسو جمع ہو گئے کہتے ہے ایک پیاسی چیل آئی  اور وہ اُن آنسوؤں کو پینے لگی اور کہنے لگی یہ میٹھے پانی کا چشمہ کہاں سے نکلا حضرتِ آدم نے فرمایا یہ میری ندامت کے آنسوں ہیں,اُس چیل نے کہا مجھے زمین پر رہتے ہوئے 2ہزار  سال ہو گئے آج تک میں نے اتنا میٹھا پانی کبھی نہیں پیا پھر چیل نے کہا یاد رکھنا آدم ندامت سے نکلا ہوا آنسوں دنیا کے سارے چشموں کے پانی سے زیادہ میٹھا ہے ۔


 کیا یہ واقعہ دُرست ہے
رہنمائی فرمائیں!!!

<< *باسمہ تعالی*>>
*الجواب باسم ملھم الصواب*

 جی یہ واقعہ دو بڑے جلیل القدر بزرگ, اماموں نے اپنی کتاب میں ذکر فرمایا ھے؛ لیکن فقط از روئے نصیحت ذکر کیا ھے ؛ تاہم یہ واقعہ حدیث نبوی نہیں ھے کہ اسکی نسبت حضور کی جانب کی جاسکے ۔

♦ *واقعہ کی عبارت*

حَدَّثَنِي يَعْقُوبُ بْنُ إِسْحَاقَ بْنِ دِينَارٍ  ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُعَاذٌ الْعَنْبَرِيُّ ، عَنِ ابْنِ السَّمَّاكِ ، قَالَ : حَدَّثَنِي  عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ ، عَنْ مُجَاهِدٍ :  " أَنَّ آدَمَ لَمَّا أَكَلَ مِنَ الشَّجَرَةِ تَسَاقَطَ عَنْهُ  جَمِيعُ زِينَةِ الْجَنَّةِ ، فَلَمْ يَبْقَ عَلَيْهِ شَيْءٌ مِنْ زِينَتِهَا إِلا التَّاجُ وَالإِكْلِيلُ وَجَعَلَ لا يَسْتَتِرُ بِشَيْءٍ مِنْ وَرَقِ الْجَنَّةِ إِلا سَقَطَ عَنْهُ فَالْتَفَتَ إِلَى حَوَّاءَ بَاكِيًا وَقَالَ : اسْتَعِدِّي لِلْخُرُوجِ مِنْ جِوَارِ اللَّهِ , هَذَا أَوَّلُ شُؤْمِ الْمَعْصِيَةِ . قَالَتْ : يَا آدَمُ مَا ظَنَنْتُ أَحَدًا يَحْلِفُ بِاللَّهِ كَاذِبًا , وَذَلِكَ أَنَّ إِبْلِيسَ لَمَّا قَاسَمَهُمَا عَلَى الشَّجَرَةِ , وَانْطَلَقَ آدَمُ فِي الْجَنَّةِ هَارِبًا اسْتِحْيَاءً مِنْ رَبِّ الْعَالَمِينَ ، فَتَعَلَّقَتْ بِهِ شَجَرَةٌ بِبَعْضِ أَغْصَانِهَا ، ظَنَّ آدَمُ أَنَّهُ قَدْ عُوجِلَ بِالْعُقُوبَةِ , فَنَكَّسَ رَأْسَهُ يَقُولُ : الْعَفْوَ الْعَفْوَ . فَقَالَ اللَّهُ : يَا آدَمُ فِرَارًا مِنِّي ؟ قَالَ : بَلْ حَيَاءً مِنْكَ سَيِّدِي . فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَى الْمَلَكَيْنِ : أَخْرِجَا آدَمَ وَحَوَّاءَ مِنْ جِوَارِي ، فَإِنَّهُمَا قَدْ عَصَيَانِي . فَنَزَعَ جِبْرِيلُ التَّاجَ عَنْ رَأْسِهِ ، وَحَلَّ مِيكَائِيلُ الإِكْلِيلَ عَنْ جَبِينِهِ . قَالَ مُجَاهِدٌ فَلَمَّا أُهْبِطَ مِنْ مَلَكُوتِ الْقُدُسِ إِلَى دَارِ الْجُوعِ وَالْمَسْغَبَةِ ، بَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ مِائَةَ سَنَةٍ . قَدْ رَمَى بِرَأْسِهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ حَتَّى نَبَتَتِ الأَرْضُ عُشْبًا وْأَشْجَارًا مِنْ دُمُوعِهِ ، حَتَّى يَقَعَ الدَّمْعُ فِي نُقُرِ الْجَلاهَمِ وَأَقْعِيَتِهَا . فَمَرَّ بِهِ نَسْرٌ عَظِيمٌ قَدْ أَجْهَدَهُ الْعَطَشُ ، فَشَرِبَ مِنْ دُمُوعِ آدَمَ وَأَنْطَقَ اللَّهُ النَّسْرَ فَقَالَ : يَا آدَمُ إِنِّي فِي هَذِهِ الأَرْضِ قَبْلَكَ بِأَلْفَيْ عَامٍ , وَقَدْ بَلَغْتُ شَرْقَ هَذِهِ الأَرْضَ وَغَرْبَهَا ، وَشَرِبْتُ مِنْ بُطُونِ أَوْدِيَتِهَا ، وُغُدْرَانِ جِبَالِهَا ، وَسِيفِ بِحَارِهَا ، مَا شَرِبْتُ مَاءً أَعْذَبَ وَلا أَطْيَبَ رَائِحَةً مِنْ هَذَا الْمَاءِ . قَالَ آدَمُ وَيْحَكَ يَا نَسْرُ ! أَتَعْقِلُ مَا تَقُولُ ؟ مِنْ أَيْنَ تَجِدُ عُذُوبَةَ دَمْعِ مَنْ عَصَى رَبَّهُ ، وَجرَى عَلَى خَدَّيْنِ عَاصِيَيْنِ ؟ وَأَيُّ دَمْعٍ أَمَرُّ مِنْ دَمْعِ عَاصٍ ؟ وَلَكِنْ أَظُنُّ بِكَ أَيُّهَا النَّسْرُ أَنَّكَ تُعَيِّرُنِي لأَنِّي عَصَيْتُ رَبِّي ، فَأُزْعِجْتُ مِنْ دَارِ النِّعْمَةِ إِلَى دَارِ الْبُؤْسِ وَالْمَسْكَنَةِ . فَقَالَ النَّسْرُ : يَا آدَمُ أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ التَّعْيِيرِ ، فَمَا أُعَيِّرُكَ ، وَلَكِنْ هَكَذَا وَجَدْتُ طَعْمَ دُمُوعِكَ . وَأَيُّ دَمْعٍ أَعْذَبُ مِنْ دَمْعِ عَبْدٍ عَصَى رَبَّهُ ، وَذَكَرَ ذَنْبَهُ ، فَوَجِلَ قَلْبُهُ ، وَخَشَعَ جِسْمُهُ ، وَبَكَى عَلَى خَطِيئَتِهِ خَوْفًا مِنْ رَبِّهِ "  .
🔘 *ترجمہ مع خلاصہ*

 جب آدم نے شجرہ ممنوعہ سے کچھ کھالیا تو بحکم خداوندی ان کے جنتی لباس وتاج وغیرہ سب اتارلیے گئے, آدم اللہ سے بہت شرمارھے تھے تو اللہ نے پھر دو فرشتوں کو حکم دیا : کہ آدم کو مع ان کی اہلیہ حواء کے ہمارے پڑوس سے اب دور لیجاؤ. غرضیکہ ان کے تاج و لباس واپس لے لیے گئے اور جب آدم ملاء اعلی سے اس بہوک و غربت کی دنیا میں آئے

تو 100 سال گھٹنوں پر سر رکھ کر روتے گئے اور اتنا روئے کہ ان کے آنسوؤں سے زمین میں کچھ گھاس بہی اگ آئی , اور کثرت آنسوں نے چھوٹی چٹان و پتہر میں سوراخ بہی کردیا .
 چنانچہ ایک مرتبہ وہاں سے ایک چیل (گدھ) کا گزر ہوا جسکو سخت پیاس لگی تہی تو اس نے آدم کے آنسوؤں سے بہنے والے چشمہ سے پی لیا , تبہی خداوند نے اس چیل (پرندہ) کو گویائی عطا کی ,اور وہ چیل کہنے لگی : کہ آدم! میں دو ہزار سال سے آپ سے بہی پہلے سے اس دنیا میں ہوں. اور میں نے مشرق و مغرب کو گھوما ھے, پہاڑوں کے جہرنوں , وادیوں اور سمندروں کے پانی سے پیا ھے؛ لیکن اس پانی سے زیادہ شیریں ذائقہ کبہی نہ پیا.
حضرت آدم بولے: اے چیل ! تو مجھے عار دلا رہی ھے بھلا گنہگار کے آنسوؤں میں کڑواہٹ کے سوا کیا ہوسکتا ھے

 تو چیل نے کہا: میں عار نہیں دلارہی ہوں ؛ بلکہ میں نے حقیقتا وہ ذائقہ محسوس کیا ھے اور گنہگار بندے کے آنسوں جو رب کے آگے گناہ کو یاد کرکے نکلتے ہیں اس سے زیادہ شیریں پانی ہوتا ہی نہیں ھے ۔

📓 *واقعہ کا مصدر*

 یہ واقعہ امام ابن ابی الدنیا رح نے اپنی کتاب" الرقة والبكاء " مىں ذكر كيا هے.

المصدر: الرقة والبكاء
المؤلف: ابن ابي الدنيا
الصفحة: 225
رقم القصة: 328
الطبع: دار ابن حزم، بيروت، لبنان

♻ *دوسرا مصدر*

 اسی طرح یہ واقعہ قدامة مقدسي نے بہی ذکر کیا ھے :

المصدر: الرِّقة والبكاء
المؤلف: موفق الدين قدامة المقدسي
الراوي: مجاهد
الصفحة: 60
الطبع: دار القلم، دمشق، الشام

🛑 *واقعہ کی حیثیت*
 یہ واقعہ جیسا کہ محققین نے کہا ھے از قبیل اسرائیلیات ھے ۔

(حوالہ بالا)

 ◀   اسرائیلیات وہ باتیں جو بنی اسرائیل یعنی یہودیوں سے بکثرت منقول ہیں یا نصاریٰ سے۔

شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ نے رقم فرمایا کہ:

"اسرائیلیات یا اسرائیلی روایات ان روایات کو کہتے ہیں جو یہودیوں یا عیسائیوں سے ہم تک پہنچی ہیں ان میں سے بعض براہِ راست بائبل یا تالمود سے لی گئی ہیں بعض منشاءاوران کی شروح سے اوربعض وہ زبانی روایات ہیں جو اہل کتاب میں سینہ بسینہ نقل ہوتی چلی آئی ہیں اور عرب کے یہود ونصاری میں معروف ومشہور تھیں"۔

 (علوم القرآن, صفحہ: 345, طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی)

⚫  *اسرائیلیات کا حکم*⚫

   اس سلسلہ میں تقریباًً علمائے امت نے ایک ہی جواب دیا ،الفاظ وتعبیرات اگر چہ مختلف ہیں؛ لیکن حکم ایک ہی ہے، آگے ہم مختلف علماء کرام کی تحریریں پیش کریں گے،
سب سے پہلے شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کے دلنشین اورصاف وشفاف تحریر کو نقل کرتے ہیں جو انہوں نے علامہ ابن کثیرؒ کے حوالہ سے پیش کی ہے؛ چنانچہ رقمطراز ہیں کہ:
(۱)پہلی قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کی تصدیق دوسرے خارجی دلائل سے ہوچکی ہے مثلا: فرعون کا غرق ہونا وغیرہ، ایسی روایات اسی لیے قابلِ اعتبار ہیں کہ قرآن کریم یا صحیح احادیث نے ان کی تصدیق کردی ہے۔

 (۲)دوسری قسم وہ اسرائیلیات ہیں جن کا جھوٹ ہونا خارجی دلائل سے ثابت ہوچکا ہے،مثلا: یہ کہانی کہ حضرت سلیمان علیہ السلام آخر عمر میں (معاذ اللہ) بت پرستی میں مبتلا ہوگئے تھے یہ روایت اس لیے قطعا باطل ہے کہ قرآن کریم نے صراحۃ ًاس کی تردید فرمائی ہے۔

 (۳) تیسری قسم ان اسرائیلیات کی ہے جن کے بارے میں خارجی دلائل ہے نہ یہ ثابت ہو تا ہے کہ وہ سچی ہیں اورنہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ جھوٹ ہیں، مثلا تورات کے احکام وغیرہ ایسی اسرائیلیات کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: "لا تصدقوھا ولاتکذبوھا"۔ اس قسم کی روایات کو بیان کرنا تو جائز ہے؛ لیکن ان پرنہ کسی دینی مسئلہ کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے نہ ان کی تصدیق یا تکذیب کی جاسکتی ہے *اوراس قسم کی روایات کو بیان کرنے کا کوئی خاص فائدہ بھی نہیں*۔

(علوم القرآن:صفحہ: 346, طبع: مکتبہ دار العلوم کراچی).

••• *خلاصہ کلام* •••

مذکورہ واقعہ توبہ و استغفار اور خدا کے آگے گریہ و زاری کی ترغیب کے سلسلے میں حدیث کا عنوان دیئے بغیر  بیان کیا جاسکتا ھے ۔

✍🏻...کتبہ: *محمد عدنان وقار صدیقی*

No comments:

Post a Comment

قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا

• *قبر پر ہاتھ رکھ کر دعا* • ایک پوسٹ گردش میں ھے: کہ حضرت عبدﷲ ابن مسعودؓ سے مروی ھے کہ جو بندہ قبرستان جائے اور قبر پر ہاتھ رکھ کر یہ دع...